صحيح البخاري
كِتَاب فَرْضِ الْخُمُسِ
کتاب: خمس کے فرض ہونے کا بیان
8. بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أُحِلَّتْ لَكُمُ الْغَنَائِمُ»:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ تمہارے لیے غنیمت کے مال حلال کئے گئے۔
حدیث نمبر: 3122
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِنَانٍ حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ أَخْبَرَنَا سَيَّارٌ حَدَّثَنَا يَزِيدُ الْفَقِيرُ حَدَّثَنَا جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" أُحِلَّتْ لِي الْغَنَائِمُ".
ہم سے محمد بن سنان نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ہشیم نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو سیار بن ابی سیار نے خبر دی ‘ کہا ہم سے یزید فقیر نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا ”میرے لیے (مراد امت ہے) غنیمت کے مال حلال کئے گئے ہیں۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3122 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3122
حدیث حاشیہ:
1۔
رسول اللہ ﷺکے لیے مال غنیمت کے حلال ہونے سے مراد ” آپ کی اُمت کے لیے حلال ہونا“ ہے جبکہ پہلی امتوں کے لیے مال غنیمت حلال نہیں تھا۔
مال غنیمت کا حلال ہونا رسول اللہ ﷺکی خصوصیت ہے۔
اس سے پہلے آسمان سے آگ آتی اور مال غنیمت کو جلا کر راکھ کردیتی جیسا کہ آئندہ حدیث میں اس کی وضاحت ہوگی۔
2۔
مال غنیمت کا حلال ہونا عام لوگوں کےلیے نہیں بلکہ ان مجاہدین کے لیے ہے جو میدان جنگ میں کفار و مشرکین سے لڑرہے ہوتے ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3122
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 109
´غنائم کا حلال کیا جانا`
«. . . عن جابربن عبد الله رضي الله عنهما: ان النبى صلى الله عليه وآله وسلم قال:اعطيت خمسا لم يعطهن احد قبلي: نصرت بالرعب مسيرة شهر وجعلت لي الارض مسجدا وطهورا فايما رجل ادركته الصلاة فليصل . . .»
”. . . سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”مجھے پانچ ایسی چیزیں عطا فرمائی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی (نبی و رسول) کو بھی نہیں دی گئیں۔ میری ایک مہینہ کی مسافت سے (دشمن پر) رعب و دبدبے سے مدد دی گئی ہے۔ ساری زمین میرے لئے سجدہ گاہ اور طہارت و پاکیزگی کا ذریعہ بنائی گئی ہے، اب جس آدمی کو (جہاں بھی) نماز کا وقت آ جائے اسے نماز پڑھ لینی چاہیئے . . .“ [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 109]
لغوی تشریح:
«بَابُ التَّيَمُّمِ» تیمّم کے لغوی معنی ہیں: قصد و ارادہ کرنا۔ شرعی اصطلاح میں نماز وغیرہ کو مباح کرنے کی غرض سے چہرے اور ہاتھوں پر ملنے کے لیے پاک مٹی کے قصد و ارادہ کو تیمّم کہتے ہیں۔
«أُعْطِيتُ» مجھے دی گئی ہیں، یعنی اللہ تعالیٰ نے مجھے عطا فرمائی ہیں۔
«خَمْسًا» پانچ ممیّزات و خصائص۔
«نُصِرْتُ» میں مدد دیا گیا ہوں۔ صیغہ مجہول ہے۔
«بِالرُّعْبِ» ”را“ پر ضمہ اور ”عین“ ساکن ہے۔ خوف۔
«مَسِيرَةَ شَهْرٍ» مہینے بھر کی مسافت اور دوری سے میرے دشمن پر میرا رعب و دبدبہ پڑ جاتا ہے۔ ممیّزات خمسہ میں سے یہ پہلا امتیاز ہے اور دوسرا «جُعِلَتْ لِيَ الْأَرْضُ مَسْجِدًا» کا امتیاز ہے۔ یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی کو بھی نہیں دیا گیا، کیونکہ اس سے پہلے یہود و نصاریٰ صرف اپنے گرجوں اور عبادت گاہوں ہی میں نماز ادا کر سکتے تھے۔
«وَطَهُورًا» ”طا“ پر فتحہ ہے، یعنی پاکیزگی و طہارت حاصل کرنے اور جنابت و ناپاکی کو دور کرنے کا ذریعہ۔ اس طرح سے ادائیگی نماز کا موقع پیدا کیا گیا ہے۔
«أَدْرَكَتْهُ» اس کا وقت آ پہنچے، یعنی نماز کا وقت ہو جائے۔
«فَلْيُصَلِّ» تو اسے نماز پڑھ لینی چاہیے، خواہ مسجد نہ ملے اور پانی مہیا نہ ہو سکے۔
«وَذَكَرَ» یعنی سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے یا راوی نے باقی حدیث بیان کی۔
فوائد و مسائل:
➊ اس حدیث میں سے مصنف نے بالخصوص آپ کو عطا کیے جانے والے دو امتیازات و خصائص کا ذکر کیا ہے اور باقی تین یہ ہیں: غنائم کا حلال کیا جانا، یعنی دوران جنگ میں دشمن سے جو اموال افواج اسلام کے قبضے میں آئیں وہ آپ کے لیے اور امت مسلمہ کے لیے حلال کیے گئے ہیں۔ نیز شفاعت کبریٰ بھی آپ ہی فرمائیں گے، یہ امتیاز بھی صرف آپ ہی کا ہے، تاکہ روز محشر کی تکلیف سے لوگوں کو آرام و سکون اور راحت نصیب ہو۔ اور روئے ارض کے تمام انسانوں اور جنوں کے لیے آپ کو نبی بناکر مبعوث کیا گیا ہے۔
➋ مصنف رحمہ اللہ نے یہاں آخری تین امتیازات کو حذف کر دیا ہے اور انہی کے ذکر پر اکتفا کیا ہے جن کا تعلق طہارت اور نماز سے ہے۔
➌ پانی کے دستیاب نہ ہونے کی صورت میں شریعت اسلامیہ نے تیمّم کی سہولت بہم پہنچا کر امت مسلمہ کے لیے بہت بڑی آسانی پیدا کر دی ہے۔ مٹی سے تیمّم جائز ہے، البتہ زمین سے نکلنے والی دوسری اشیاء سے تیمّم جائز ہے یا نہیں، اس کے متعلق فقہاء میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ احتیاط اسی میں ہے کہ زمین سے نکلنے والی اشیاء پر مٹی، غبار ہو تو تیمّم جائز ہے ورنہ نہیں۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 109
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 432
´مٹی سے تیمم کرنے کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے پانچ چیزیں ایسی دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی گئیں ۱؎: ایک مہینہ کی مسافت پر رعب کے ذریعہ میری مدد کی گئی ہے ۲؎، میرے لیے پوری روئے زمین مسجد اور پاکی کا ذریعہ بنا دی گئی ہے، تو میری امت کا کوئی فرد جہاں بھی نماز کا وقت پا لے، نماز پڑھ لے، اور مجھے شفاعت (عظمیٰ) عطا کی گئی ہے، یہ چیز مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئی، اور میں سارے انسانوں کی طرف (رسول بنا کر) بھیجا گیا ہوں، اور (مجھ سے پہلے) نبی خاص اپنی قوم کے لیے بھیجے جاتے تھے۔“ [سنن نسائي/كتاب الغسل والتيمم/حدیث: 432]
432۔ اردو حاشیہ:
➊ مٹی سے تیمم کی پوری بحث کے لیے کتاب الغسل والتیمم کا ابتدائیہ ملاحظہ فرمائیں۔
➋ ”ایک ماہ کی مسافت تک رعب“ سے مراد آپ کے تمام دشمنوں پر رعب ہے کہ وہ آپ سے ایک مہینے کی مسافت پر رہتے ہوئے مرعوب ہو جائیں گے، یہی خصوصیت آپ کی امت کو دی گئی ہے بشرطیکہ وہ شریعت کے پابند ہوں۔
➌تمام زمین نمازگاہ بنا دی گئی ہے سوائے ان مقامات کے جن کو نجاست یا بعض دیگر وجوہ کی بنا پر مستثنیٰ کر دیا گیا ہے۔ بعض احادیث میں صراحتاً ان کا ذکر آیا ہے۔
➍ شفاعت سے مراد شفاعت کبریٰ ہے جو تمام امتوں کے لیے آپ فرمائیں گے جسے ”مقام محمود“ سے بیان کیا گیا ہے ورنہ شفاعت تو دوسرے بھی کریں گے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 432
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 737
´اونٹوں کے باڑے میں نماز پڑھنے کی رخصت کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پوری روئے زمین ۱؎ میرے لیے سجدہ گاہ اور پاکی کا ذریعہ بنا دی گئی ہے، میری امت کا کوئی بھی آدمی جہاں نماز کا وقت پائے نماز پڑھ لے۔“ [سنن نسائي/كتاب المساجد/حدیث: 737]
737 ۔ اردو حاشیہ: یہ روایت عام ہے۔ سابقہ روایت خاص ہے، لہٰذا اس عام کو اس سے خاص کیا جائے گا جس طرح پلید زمین پر، قبرستان اور مذبح میں نماز منع ہے، اسی طرح اونٹوں کے باڑے میں بھی منع ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 737
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:335
335. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، نبی ﷺ نے فرمایا:”مجھے پانچ چیزیں ایسی عطا کی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں: ایک یہ کہ مجھے ایک مہینے کی مسافت پر بذریعہ رعب مدد دی گئی ہے۔ دوسری یہ کہ تمام روئے زمین کو میرے لیے مسجد اور پاک کرنے والی بنا دیا گیا ہے۔ اب میری امت میں جس شخص کو نماز کا وقت آ جائے اسے چاہئے کہ وہیں نماز پڑھ لے۔ تیسری یہ کہ میرے لیے مالِ غنیمت کو حلال کر دیا گیا ہے جبکہ اس سے پہلے کسی کے لیے حلال نہ تھا۔ چوتھی یہ کہ مجھے شفاعت (کبریٰ) عطا کی گئی ہے۔ پانچویں یہ کہ پہلے نبی خاص اپنی قوم کے لیے مبعوث ہوا کرتا تھا، مگر میں تمام لوگوں کی طرف (رسول بنا کر) بھیجا گیا ہوں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:335]
حدیث حاشیہ: 1۔
اس حدیث میں مفہوم عدد کو تمام محدثین نے غیر معتبر قراردیا ہے، کیونکہ دیگر احادیث کے پیش نظر خصائص نبویہ اس عدد میں منحصر نہیں۔
چنانچہ علامہ سیوطی ؒ نے اپنی تالیف الخصائص الکبری میں بے شمار خصائص ذکر کیے ہیں جو سیکڑوں سے متجاوز ہیں۔
حافظ ابن حجر ؒ نے اس حدیث کے دیگر طرق کو مد نظر رکھتے ہوئے متعدد وخصائص کا ذکر کیا ہے۔
ان میں سے کچھ حسب ذیل ہیں:
رسول اللہ ﷺ کو جو امع الکلم عطا کیے گئے۔
(صحیح مسلم، المساجد، حدیث: 1167 (523)
آپ کی آمد کے ساتھ منصب نبوت کو سر بمہر کر دیا گیا۔
(صحیح البخاري، المناقب حدیث: 3535)
آپ کی امت کی صف بندی کو فرشتوں کی صفوں جیسا قراردیا گیا۔
(صحیح مسلم، الصلاۃ، حدیث: 968 (430)
آپ کو سورہ بقرہ کی آخری آیات دی گئیں جو عرش کے خزانوں میں سے ہیں۔
(مسند احمد: 5/15)
آپ کو روئے زمین کے خزانوں کی چابیاں عنایت کی گئیں۔
(صحیح البخاری، الجنائز، حدیث: 1344)
آپ کی امت کو بہترین امت قراردیا گیا۔
(جامع الترمذی، تفسیر القرآن، حدیث: 3001)
قیامت کے دن آپ کو حوض کوثر اور حمد کا جھنڈا دیا جائے گا۔
(صحیح البخاری، التفسیر، حدیث: 4964۔
وجامع الترمذي، تفسیر القرآن، حدیث: 3148)
آپ کا قرین (شیطان)
آپ کے تابع کردیا گیا۔
(صحیح مسلم، صفات المنافقین، حدیث: 108 (2814)
امام ابو سعید نیشاپوری ؒ نے اپنی تالیف "شرف المصطفیٰ" میں ایسی ساٹھ خصلتوں کا ذکر کیا ہے جو آپ کے ساتھ مخصوص ہیں۔
(فتح الباري: 1/589)
2۔
اسم سابقہ میں یہ پابندی تھی کہ وہ نماز کی ادائیگی اپنے کنیسوں اور عبادت گاہوں میں کریں۔
جیسا کہ حدیث میں ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”مجھ سے پہلے لوگوں کو نمازیں اپنے کنائس میں پڑھنے کا پابند کیا گیا تھا۔
“ (فتح الباري: 587/1)
لیکن امت کے لیے نماز کے لیے مقامات کی تعیین کو اٹھا دیا گیا۔
اس کی وضاحت حدیث میں بایں طور پر ہے کہ میری امت میں جس شخص کو جس جگہ بھی نماز کا وقت آجائے۔
اگر پانی نہ ملے تیمم کر کے نماز پڑھ لے۔
نوافل کے لیے مسجد کی پابندی ضروری نہیں۔
البتہ فرض نماز حتی المقدور مسجد ہی میں ادا کرنی چاہیے۔
جیسا کہ حدیث میں ہے جو شخص اذان سنتا ہے، پھر نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد میں نہیں آتا تو اس کی نماز نہیں ہے، ہاں اگر کوئی مجبوری ہوتو الگ بات ہے۔
(سنن ابن ماجة، المساجد و الجماعات، حدیث: 793)
علامہ خطابی ؒ اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے کہتے ہیں:
یقیناً رسول اللہ ﷺ نے تمام روئے زمین کو مسجد قراردیا ہے، تاہم ایک دوسری حدیث کے پیش نظر اس سے دو مقامات کو مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔
چنانچہ رسول ﷺ نے فرمایا کہ قبرستان اور حمام کے علاوہ تمام روئے زمین مسجد میں ہے۔
(سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 492 و إعلام الحدیث، شرح البخاري: 133/1)
نیز اجماع امت کو مدنظر رکھتے ہوئے نجس مقامات بھی اس سے مستثنیٰ ہیں۔
کیونکہ نماز کی ادائیگی کے لیے جگہ کا پاک ہونا بھی ضروری ہے۔
(صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: 165 (522)
علامہ خطابی ؒ اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے مزید فرماتے ہیں کہ اس میں الفاظ ارض مجمل ہے جس کی وضاحت ایک دوسری حدیث میں کی گئی ہے کہ اس سے مراد زمین کی مٹی ہے۔
چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”ہمارے لیے تمام روئے زمین کو مسجد قراردیا گیا ہے اور اگر ہم پانی حاصل نہ کر سکیں تو اس کی مٹی کو ہمارے لیے طہارت حاصل کرنے کا ذریعہ بنایا گیا ہے۔
“ (إعلام الحدیث، شرح البخاري: 334/1)
اس سے معلوم ہوا کہ تیمم صرف زمین کی مٹی سے ہو سکتا ہے، اس کے علاوہ زمین کے دیگر اجزاء سے تیمم کرنا جائز نہیں ہے۔
(صحیح ابن خزیمة: 132/1)
حافظ ابن حجر ؒ کہتے ہیں کہ بعض حضرات نے حدیث مسلم میں آنے والے لفظ تربة کے پیش نظر تیمم کے لیے صرف مٹی کے کار آمد ہونے والے موقف پر اعتراض کیا ہے کہ تربة سے صرف مٹی مراد لینا درست نہیں، لیکن یہ صحیح نہیں، کیونکہ ایک روایت میں واضح طور پر لفظ تراب آیا ہے جس کے معنی مٹی ہیں۔
”چنانچہ ارشاد نبوی ہے کہ میرے لیے مٹی کو طہارت حاصل کرنے کا ذریعہ بنایا گیا ہے۔
“ (فتح الباري: 568/1)
اس کے علاوہ حضرت علی ؓ سے مروی ایک حدیث میں بھی لفظ تراب ہے جسے امام احمد ؒ اور امام بیہقی ؒ نے بیان کیا ہے۔
نوٹ:
حدیث میں وارد دیگر خصائص نبویہ کی تشریح کتاب الجہاد حدیث 3122 میں کی جائے گی۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 335
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:438
438. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”مجھے پانچ ایسی چیزیں عطا کی گئی ہیں جو مجھ سے قبل کسی پیغمبر کو نہیں دی گئیں: مجھے ایک مہینے کی مسافت سے رعب عطا کر کے میری مدد فرمائی گئی۔ پوری روئے زمین کو میرے لیے سجدہ گاہ اور طہارت کا ذریعہ بنا دیا گیا، چنانچہ میری امت کے کسی فرد کو جہاں بھی نماز کا وقت آ جائے، اسی جگہ نماز پڑھ لینی چاہئے۔ مال غنیمت کو میرے لیے حلال کر دیا گیا۔ اور ہر نبی کو قبل ازیں مخصوص قوم کی طرف مبعوث کیا جاتا تھا اور مجھے تمام انسانوں کے لیے مبعوث کیا گیا اور مجھے شفاعت (کبریٰ) کا حق دیا گیا ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:438]
حدیث حاشیہ:
1۔
یہ حدیث پہلے (حدیث: 335کے تحت)
گزر چک ہے۔
حافظ ابن حجر ؒ نے یہاں بیان کرنے کا مقصد بایں الفاظ متعین کیا ہے قبل ازیں متعدد ابواب میں مختلف مقامات پر نمازپڑھنے کی جو کراہت بیان ہوئی ہے، وہ تحریم کے لیےنہیں، کیونکہ ”میرے لیے تمام روئے زمین کو سجدہ گاہ بنا دیا گیا ہے“ کے عموم کا تقاضا ہے کہ اس زمین کا ہر جز جائے سجدہ بننے کی صلاحیت رکھتا ہے یا وہاں مسجد بنائی جا سکتی ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ قبل ازیں بیان شدہ کراہت تحریم کے لیے ہو اور حدیث جابر کے اس ٹکڑے کو اس سے خاص کردیا جائے، یعنی مقابر کے علاوہ روئے زمین سجدہ گا ہ بننے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
دوسرا احتمال زیادہ قرین قیاس ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے مقابر میں نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے اور آپ کا حکم امتناعی تحریم کے لیے ہوتا ہے، الایہ کہ وہاں کسی قرینے کی موجودگی میں مکروہ تنزیہی پر محمول کیا جائے۔
یہاں کوئی قرینہ موجود نہیں، اس لیے ہمارے نزدیک مقابر اور درباروں پر نماز ادا کرنا حدیث جابر کے عموم سے مخصوص ہو گا یعنی مزارات ومقابر کے علاوہ دیگر روئے زمین سجدہ گاہ بننے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
واللہ أعلم۔
2۔
اس حدیث کی تشریح حدیث 335 کے تحت ہو چکی ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ مذکورہ بالا آپ کی وہ خصوصیات ہیں جن کی وجہ سے آپ تمام انبیاء علیہم السلام سے ممتاز ہیں نیز آپ کا رعب اور دبدبہ اس قدر تھا کہ بڑے بڑے بادشاہ اور ان کی مضبوط ترین حکومتیں آپ کا نام سن کر لرزہ براندام ہو جاتی تھیں۔
اب بھی دشمنان رسول اور مخالفان حدیث رسول کا یہی حشر ہوتا ہے کہ وہ کسی میدان میں اہل حق کے سامنے نہیں ٹھہرسکتے، بلکہ ذلت کی موت مرتے ہیں۔
جیسا کہ غلام احمد قادیانی اور غلام احمد پرویز وغیرہ ذلیل و خوار ہو کر مرے ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 438