صحيح البخاري
كِتَاب فَرْضِ الْخُمُسِ
کتاب: خمس کے فرض ہونے کا بیان
7. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ} :
باب: اللہ تعالیٰ کا ارشاد (سورۃ الانفال میں) کہ جو کچھ تم غنیمت میں حاصل کرو، بیشک اس کا پانچواں حصہ اللہ کے لیے ہے یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تقسیم کریں گے۔
حدیث نمبر: 3114
حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سُلَيْمَانَ وَمَنْصُورٍ وَقَتَادَةَ، سمعوا سالم بن أبي الجعد، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: وُلِدَ لِرَجُلٍ مِنَّا مِنْ الْأَنْصَارِ غُلَامٌ فَأَرَادَ أَنْ يُسَمِّيَهُ مُحَمَّدًا، قَالَ شُعْبَةُ: فِي حَدِيثِ مَنْصُورٍ إِنَّ الْأَنْصَارِيَّ، قَالَ: حَمَلْتُهُ عَلَى عُنُقِي فَأَتَيْتُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَفِي حَدِيثِ سُلَيْمَانَ وُلِدَ لَهُ غُلَامٌ فَأَرَادَ أَنْ يُسَمِّيَهُ مُحَمَّدًا، قَالَ: سَمُّوا بِاسْمِي وَلَا تَكَنَّوْا بِكُنْيَتِي، فَإِنِّي إِنَّمَا جُعِلْتُ قَاسِمًا أَقْسِمُ بَيْنَكُمْ، وَقَالَ حُصَيْنٌ: بُعِثْتُ قَاسِمًا أَقْسِمُ بَيْنَكُمْ، قَالَ: عَمْرٌو، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ سَالِمًا، عَنْ جَابِرٍ أَرَادَ أَنْ يُسَمِّيَهُ الْقَاسِمَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" سَمُّوا بِاسْمِي وَلَا تَكْتَنُوا بِكُنْيَتِي".
ہم سے ابوولید نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ‘ ان سے سلیمان ‘ منصور اور قتادہ نے ‘ انہوں نے سالم بن ابی الجعد سے سنا اور ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ہم انصاریوں کے قبیلہ میں ایک انصاری کے گھر بچہ پیدا ہو تو انہوں نے بچے کا نام محمد رکھنے کا ارادہ کیا اور شعبہ نے منصور سے روایت کر کے بیان کیا ہے کہ ان انصاری نے بیان کیا (جن کے یہاں بچہ پیدا ہوا تھا) کہ میں بچے کو اپنی گردن پر اٹھا کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اور سلیمان کی روایت میں ہے کہ ان کے یہاں بچہ پیدا ہوا ‘ تو انہوں نے اس کا نام محمد رکھنا چاہا ‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ میرے نام پر نام رکھو ‘ لیکن میری کنیت (ابوالقاسم) پر کنیت نہ رکھنا ‘ کیونکہ مجھے تقسیم کرنے والا (قاسم) بنایا گیا ہے۔ میں تم میں تقسیم کرتا ہوں ‘ اور حصین نے (اپنی روایت میں) یوں بیان کیا ‘ کہ مجھے تقسیم کرنے والا (قاسم) بنا کر بھیجا گیا ہے ‘ میں تم میں تقسیم کرتا ہوں۔ عمرو بن مرزوق نے کہا کہ ہمیں شعبہ نے خبر دی ‘ ان سے قتادہ نے بیان کیا ‘ انہوں نے سالم سے سنا انہوں نے جابر رضی اللہ عنہ سے کہ ان انصاری صحابی نے اپنے بچے کا نام قاسم رکھنا چاہا تھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے نام پر نام رکھو لیکن کنیت نہ رکھو۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3114 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3114
حدیث حاشیہ:
ابو القاسم کنیت رکھنے کے بارے میں امام ماک ؒ کہتے ہیں کہ آپ کی حیات میں یہ فعل ناجائز تھا۔
بعضوں نے اسے ممانعت تنزیہی قرار دیا ہے۔
بعضوں نے کہا محمد یا احمد ناموں کے ساتھ ابوالقاسم کنیت رکھنی منع ہے۔
امام مالک ؒ کے قول کو ترجیح هے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3114
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3114
حدیث حاشیہ:
1۔
حدیث کے سیاق سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺابوالقاسم اس لیے تھے کہ آپ لوگوں میں مال ومتاع تقسیم کرنے والے تھے اگرچہ آپ کے صاحبزادے کا نام بھی قاسم تھا لیکن آپ نے اس وجہ سے کنیت ذکر نہیں فرمائی۔
2۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ انصاری کو بچے کا نام قاسم رکھنے سے منع کیا گیا،حالانکہ رسول اللہ ﷺ کا نام قاسم نہیں بلکہ آپ کی کنیت ابوالقاسم تھی، اس ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ اگر کسی بچے کا نام قاسم رکھاجائے گا تو اس کا والد ابو القاسم ہوگا۔
اس بنا پر باپ کی کنیت رسول اللہ ﷺ کی کنیت جیسی ہوگی، ایسا التباس اور اشتباہ سے بچنے کے لیے تھا۔
3۔
یاد رہے کہ نام یا کنیت رکھنے کی ممانعت رسول اللہ ﷺ کی زندگی تک محدود تھی۔
اب کسی قسم کے اشتباہ یا التباس کا اندیشہ نہیں ہے، لہذا دونوں جائز ہیں۔
4۔
امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی طرف خمس کی نسبت اس اعتبار سے ہے کہ آپ اسے تقسیم کرنے والے ہیں، مالک نہیں ہیں۔
امام بخاری ؒنے اپنے مدعا پر اس طرح دلیل قائم کی ہے کہ آپ نے اپنانام قاسم رکھا ہے۔
دینے والا تو اللہ تعالیٰ ہے اس سے معلوم ہواکہ رسول اللہ ﷺ کسی چیز کے مالک نہیں ہیں۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3114
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5588
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ ہمارے پاس ایک شخص کے ہاں بچہ پیدا ہوا تو اس نے اس کا نام محمد رکھا تو اس کی قوم نے کہا، ہم تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر نام رکھنے کی اجازت نہیں دیں گے تو وہ اپنے بیٹے کو اپنی پشت پر اٹھا کر چل پڑا اور اسے لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ گیا اور کہا، اے اللہ کے رسول! میرا ایک بچہ پیدا ہوا ہے، سو میں نے اس کا نام محمد رکھا ہے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:5588]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ابو القاسم اس بنا پر تھے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو جو کچھ ملتا تھا،
وہ علم و فضل ہو یا مال و دولت،
آپ اس کو لوگوں میں بانٹ دیتے تھے اور دوسرے کسی میں یہ خوبی کمال درجہ میں موجود نہیں تھا،
اس لیے اس کا نام قاسم رکھنا درست نہیں ہے،
تاکہ اس کا باپ ابو القاسم نہ کہلا سکے تو اس سے اس کنیت کے رکھنے کی ایک دوسری وجہ نکلی،
اس وجہ کی رو سے اب بھی یہ کنیت رکھنا درست معلوم نہیں ہوتا،
لیکن آپ کے دور میں تو قاسم نام رکھنے کی صورت میں،
ذہن آپ کی طرف منتقل ہو سکتا تھا اور اب اس کا احتمال باقی نہیں ہے،
اس لیے یہ کنیت رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5588
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3115
3115. حضرت جابر بن عبداللہ انصاری ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ہم انصار میں سے ایک شخص کے ہاں لڑکا پیدا ہوا تو اس نے اس کا نام قاسم رکھا۔ اس پر انصار نے کہا: ہم تجھے ابو القاسم ہر گز نہیں کہیں گے اور نہ اس کنیت سے تمہاری آنکھ ہی ٹھنڈی کریں گے۔ یہ سن کر وہ شخص نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول ﷺ! میرے ہاں لڑکا پیدا ہوا ہے اور میں نے اس کا نام قاسم رکھا ہے، اب انصار کہتے ہیں کہ ہم تجھے نہ تو ابو القاسم کہیں گے اور نہ ہی تیری آنکھ ٹھنڈی کریں گے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”انصار نے اچھا کردار ادا کیا ہے۔ میرے نام پر نام تو رکھ لو مگر میری کنیت مت اختیار کرو کیونکہ قاسم تو میں ہی ہوں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3115]
حدیث حاشیہ:
امام بخاری ؒ نے امام سفیان ثوری ؒ کی روایت لاکراس امر کو قوت دی کہ انصاری نے اپنے لڑکے کا نام قاسم رکھنا چاہا تھا۔
تاکہ لوگ اسے ابوالقاسم کہیں مگر انصار نے اس کی مخالفت کی جس کی آنحضرت ﷺ نے تحسین فرمائی۔
اس میں راویوں نے شعبہ سے اختلاف کیا ہے۔
جیسے ابوالولید کی روایت اوپر گزری۔
انہوں نے یہ کہا ہے کہ انصاری نے محمد نام رکھنا چاہا تھا۔
قال الشیخ ابن الحجر بین البخارأ الاختلاف علی شعبة ھل أراد الأنصاري أن ابنه محمداً أو القاسم وأشار إلیٰ ترجیح أنه أراد أن یسمه القاسم بروایة سفیان وھو الثوري له عن الأعمش فسماہ القاسم ویترجح أیضاً من حیث المعنی لأنه لم یقع الإنکار من الأنصار علیه إلاحیث لزم من تسمیة ولدہ القاسم أن یصیر بکنی أباالقاسم انتھی (حاشیہ بخاری)
یعنی حضرت امام بخاری نے شعبہ پر اختلاف کو بیان کیا ہے جو اس بارے میں واقع ہو ا کہ انصاری قاسم رکھنا چاہتا تھا یا محمد اور اس ترجیح پر آپ نے اشارہ فرمایا ہے کہ وہ قاسم نام رکھنا چاہتا تھا معنی کے لحاظ سے بھی اسی کو ترجیح حاصل ہے‘ انصار کا انکار اسی وجہ سے تھا۔
کہ وہ بچے کا نام قاسم رکھ کر خواابوالقاسم کہلانا چاہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3115
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3115
3115. حضرت جابر بن عبداللہ انصاری ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ہم انصار میں سے ایک شخص کے ہاں لڑکا پیدا ہوا تو اس نے اس کا نام قاسم رکھا۔ اس پر انصار نے کہا: ہم تجھے ابو القاسم ہر گز نہیں کہیں گے اور نہ اس کنیت سے تمہاری آنکھ ہی ٹھنڈی کریں گے۔ یہ سن کر وہ شخص نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول ﷺ! میرے ہاں لڑکا پیدا ہوا ہے اور میں نے اس کا نام قاسم رکھا ہے، اب انصار کہتے ہیں کہ ہم تجھے نہ تو ابو القاسم کہیں گے اور نہ ہی تیری آنکھ ٹھنڈی کریں گے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”انصار نے اچھا کردار ادا کیا ہے۔ میرے نام پر نام تو رکھ لو مگر میری کنیت مت اختیار کرو کیونکہ قاسم تو میں ہی ہوں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3115]
حدیث حاشیہ:
1۔
امام بخاری ؒنے مذکورہ روایت لا کر اس امر کو تقویت دی ہے کہ انصاری نے اپنے لڑکے کا نام قاسم رکھنا چاہا تھا تاکہ لوگ اسے ابو القاسم کی کنیت سے یاد کریں مگر انصارنے اس کی مخالفت کی تو رسول اللھ ﷺ نے اس کردار کی تحسین فرمائی۔
بعض روایات میں ہے کہ انصاری نے اپنے بچے کا نام محمد رکھنا چاہا تھا، لیکن یہ روایت مرجوح ہے۔
بہرحال یہ ممانعت صرف رسول اللہ ﷺ کی زندگی تک محدود تھی۔
2۔
اس امر میں اختلاف ہے کہ خمس میں رسول اللہ ﷺ اپنے حصے کے مالک تھے یا آپ صرف تقسیم کرنے والے تھے؟ امام بخاری ؒ کا موقف ہے کہ رسول اللہ ﷺ اس کے مالک نہیں بلکہ اس کی تقسیم آپ کے ذمے ہوتی تھی۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3115