صحيفه همام بن منبه
متفرق
متفرق
جس برتن میں کتا منہ ڈال دے اس جھوٹے برتن کی پاکی
حدیث نمبر: 36
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " طَهُورُ إِنَاءِ أَحَدِكُمْ إِذَا وَلَغَ الْكَلْبُ فِيهِ: فَلْيَغْسِلْهُ سَبْعَ مَرَّاتٍ"
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کسی کے برتن میں کتا منہ ڈال لے تو اس برتن کو (پاکی کے لیے) سات مرتبہ دھونا چاہیے۔“
تخریج الحدیث: «صحيح مسلم، كتاب الطهارة، باب حكم ولوغ الكلب، رقم: 652، حدثنا محمد بن رافع: حدثنا عبدالرزاق: حدثنا معمر عن همام بن منبه، قال: هذا ما حدثنا أبو هريرة عن محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فذكر أحاديث منها: وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم.... - مسند أحمد: 49/16 - مصنف عبدالرزاق، باب الكلب يلغ فى الإناء، ولفظه ”طهور إناء أحدكم إذا وَلغَ فيه الكلب أن يغسله سبع مرات“: 96/1، رقم: 329 - السنن الكبرىٰ للبيهقي، كتاب الطهارة، باب غسل الإناء من ولوغ الكلب سبع مرات: 340/1.»
صحیفہ ہمام بن منبہ کی حدیث نمبر 36 کے فوائد و مسائل
حافظ عبدالله شميم حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيفه همام بن منبه 36
شرح الحديث:
مذکورہ بالا حدیث میں یہ مسئلہ واضح طور پر بتا دیا گیا کہ جس برتن میں کتا منہ ڈال دے، تو اسے پاک کرنے کے لیے سات دفعہ دھونا پڑے گا۔
امام شافعی رحمه الله فرماتے ہیں کہ کتا پلید ہے اور جس حدیث میں کتے کی نجاست کو سات دفعہ دھونے کا حکم ہے، وہ حکم تعبدی ہے۔ شوافع اپنے مؤقف کی تائید میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا فرمان مبارک پیش کرتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
«إِذَا وَلَغَ الْكَلْبُ فِي إِنَاءِ أَحَدِكُمْ، فَلْيُرِقْهُ، ثُمَّ لِيَغْسِلْهُ سَبْعَ مِرَارٍ .»
[صحيح مسلم، كتاب الطهارة، رقم: 648]
"جب کتا تم میں سے کسی کے برتن میں منہ ڈال دے، اسے انڈیل دو۔ پھر اسے سات مرتبہ دھو دو۔ "
ان کا کہنا ہے کہ جس طرح گھی میں چوہا گرنے سے اس گھی کے پھینکنے کا حکم دیا گیا ہے بعینہ اسی طرح جس برتن میں کتا منہ ڈالے اس برتن کے پانی کو بھی انڈیلنے کا حکم دیا گیا ہے۔
امام ابو حنیفہ رحمة الله علیه اور ان کے اصحاب اس مسئلہ کے متعلق فرماتے ہیں: کتا ناپاک ہے، لیکن جس برتن کو کتا منہ لگائے، اسے پاک کرنے کے لیے بغیر کسی حد کے دو یا تین دفعہ دھو لیا جائے، جس طرح معمول کے مطابق نجاست کو دھویا جاتا ہے۔
احناف نے اس مسئلہ کے متعلق جتنی بھی احادیث ہیں انہیں رد کر دیا ہے۔
طحاوی رحمة الله علیه فرماتے ہیں:
اس حدیث کے راوی سیدنا ابوہریرہ رضی الله عنہ ہیں اور اس کے معنی و مفہوم کو خوب جاننے والے ہیں، لیکن اس کے باوجود وہ کتے کے منہ لگائے برتن کو پاک کرنے کے لیے دو یا تین مرتبہ دھونے کا فتویٰ صادر فرمایا کرتے ہیں۔
اس کے بعد امام طحاوی رقم طراز ہیں: سیدنا ابو ہریرہ رضی الله عنہ کا یہ فتویٰ اس بات کا غماز ہے کہ ان کے نزدیک یہ حدیث یا تو درست نہیں ہے یا پھر انہیں اس کے منسوخ ہونے کا علم ہو گیا تھا۔
لیکن امام شافعی رحمة الله علیہ احناف کے اس جواب کو قابل اعتناء نہیں سمجھتے، اس لیے کہ دلیل سنت رسول صلی الله علیہ وسلم ہے نہ کہ خلاف سنت۔ دیکھئے تفصیل کے لیے: [الاستذكار: 1/ 258، 260]
علاوہ ازیں امام بغوی رحمة الله علیہ فرماتے ہیں: اس مسئلہ کے متعلق اکثر محدثین کا مذہب ہے کہ جس برتن سے کتے نے پانی پیا ہے وہ معمولی مقدار میں پانی ہو یا کوئی اور مانع چیز ہو، وہ پلید ہے اور وہ برتن اس وقت تک پاک نہیں ہو سکتا، جب تک اسے سات مرتبہ پانی اور ان سات مرتبہ میں سے ایک مرتبہ مٹی رگڑ کر دھو نہ لیا جائے۔
اور اصحاب الرائے کا اس بارے میں مؤقف ہے کہ جس برتن کو کتا منہ لگا لے اسے پاک کرنے کے لیے اور کوئی عدد معین نہیں، بلکہ وہ برتن بقیہ نجاسات پر محمول ہوگا، یعنی دو یا تین مرتبہ دھویا جائے گا۔ کتے کے منہ لگائے برتن کو سات مرتبہ پانی اور ان میں ایک مرتبہ مٹی سے دھونے کی جو علت ہے، وہ یہ ہے کہ برتن کو ان مہلک جراثیم سے مبرا کرنا ہے، جو کتے کے منہ لگانے سے لاحق ہوئے ہیں۔
[الاسلام والطب، ص: 286 - السنة والعلم والحديث، ص: 76 ,77]
صحیفہ ہمام بن منبہ شرح حافظ عبداللہ شمیم، حدیث/صفحہ نمبر: 36