صحيفه همام بن منبه
متفرق
متفرق
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے غیر صحابی کی محبت
حدیث نمبر: 29
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَيَأْتِيَنَّ عَلَى أَحَدِكُمْ يَوْمٌ لا يَرَانِي، ثُمَّ لأَنْ يَرَانِي أَحَبُّ إِلَيْهِ مِنْ مِثْلِ أَهْلِهِ وَمَالِهِ مَعَهُمْ"
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم میں سے کسی شخص پر ایسا دن ضرور آئے گا جس میں وہ مجھے نہیں دیکھے گا، پھر ایسا دور آئے گا کہ اسے اپنے اہل اور مال کے دیکھنے کی بہ نسبت مجھے دیکھنا زیادہ محبوب ہو گا۔“
تخریج الحدیث: «صحيح مسلم، كتاب الفضائل، باب فضل النظر إليه صلى الله عليه وسلم وتمنيه، رقم: 2364/42، حدثنا محمد بن رافع: حدثنا عبدالرزاق: أخبرنا معمر عن همام بن منبه، قال: هذا ما حدثنا أبو هريرة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم.... - مسند أحمد: 44/16 - شرح السنة: 55/14.»
صحیفہ ہمام بن منبہ کی حدیث نمبر 29 کے فوائد و مسائل
حافظ عبدالله شميم حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيفه همام بن منبه 29
شرح الحديث:
امام مسلم رحمة الله علیه نے اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد فرمایا کہ ابو اسحاق رحمة الله علیه کہتے ہیں:
"میرے نزدیک اس حدیث میں (بااعتبار الفاظ) تقدیم و تاخیر ہے اور اس کا معنی یہ ہے کہ «لأَنْ يَّرَانِىْ مَعَهُمْ أَحَبُّ إِلَيْهِ مِنْ اَهْلِهِ وَ مَالِهِ» "اس کا مجھے اپنے ساتھ دیکھ لینا اپنے اہل و عیال اور مال و منال کو دیکھ لینے سے زیادہ محبوب ہوگا۔ " "مَعَھُمْ" کا لفظ حدیث میں اہل اور مال و ثروت کے لیے مستعمل ہے، لیکن اس کا تعلق اس سے ماقبل جملہ "لِأَنْ یَّرَانِیْ" کے ساتھ ہے۔ (اس نفس کا مجھے اپنے ساتھ پالینا)
علامہ نووی فرماتے ہیں کہ قاضی عیاض کا بھی یہی قول ہے۔ اور اس لفظ "مَعَھُمْ" کو اگر حدیث کے آخر میں بھی رکھیں، تو معنی میں کوئی خلش واقع نہیں ہوتی یعنی اگر حدیث کا معنی یوں کیا جائے کہ "کسی نفس کا مجھے پالینا اسے اپنے اہل اور مال کو دیکھنے سے زیادہ عزیز ہوگا۔ "
بہر طور اس حدیث سے نبی اکرم صلی الله علیه وسلم کی فضیلت و مرتبت اور اہمیت، واضح نکھر کر سامنے آ جاتی ہے۔ لیکن چونکہ اس وقت نبی انور صلی الله علیه وسلم ہمارے یہاں موجود نہیں ہیں، تو آپ کے فرمودات کو سننا، ان کا فہم حاصل کرنا اور ان پر عمل پیرا ہونا ہمارے لیے باعث نظارۂ چہرہ مصطفیٰ صلی الله علیه وسلم ہوگا۔
سلف صالحین کا قول ہے:
«أَهْلُ الْحَدِيْثِ هُمُو اَهْلُ النَّبِىِّ»
«وَإِنْ لَّمْ يَصْحَبُوْا نَفْسَهُ اَنْفَاسَهُ صَحِبُوْا»
اہل حدیث ہی اصل میں اہل النبی صلی الله علیه وسلم ہیں، اور اگرچہ بنفس نفیس رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے اصحاب نہیں بن سکے، لیکن آپ صلی الله علیه وسلم کی سانسوں کے باران تو بہر صورت بنے ہی ہیں۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ جو علمائے وقت عوام الناس کو مسائل سے آگاہ کرتے اور فتاویٰ سے ہمکنار کرتے ہیں، ان سے تعلق رکھنا بھی نبی انور صلی الله علیه وسلم سے تعلق رکھنے کے مترادف ہے، کیونکہ نبی کریم صلی الله علیه وسلم کا فرمان مبارک ہے: «اَلْعُلَمَاءُ وَرَثَةُ الْاَنْبِيَاءِ» (اہل علم انبیاء کے وارث ہوتے ہیں) اور وراثت قرابت پر دلالت کرتی ہے۔ یہ واضح اصول ہے۔
صحیفہ ہمام بن منبہ شرح حافظ عبداللہ شمیم، حدیث/صفحہ نمبر: 29