صحيفه همام بن منبه
متفرق
متفرق
قیامت کی نشانی، دو بڑی جماعتوں کی جنگ
حدیث نمبر: 24
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تَقْتَتِلَ فِئَتَانِ عَظِيمَتَانِ، يَكُونُ بَيْنَهُمَا مَقْتَلَةٌ عَظِيمَةٌ وَدَعْوَاهُمَا وَاحِدَةٌ"
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک دو بڑی جماعتیں آپس میں جنگ نہ کر لیں، دونوں میں بڑی بھاری جنگ ہو گی، حالانکہ دونوں کا دعویٰ ایک ہی ہو گا۔“
تخریج الحدیث: «صحيح بخاري، كتاب المناقب، رقم: 3609، حدثنا عبدالله بن محمد: حدثنا عبدالرزاق: أخبرنا معمر عن همام، عن أبى هريرة رضى الله عنه عن النبى صلى الله عليه وسلم.... - صحيح مسلم، كتاب الفتن، رقم: 7256، حدثنا محمد بن رافع: حدثنا عبدالرزاق: حدثنا معمر عن همام بن منبه، قال: هذا ما حدثنا أبو هريرة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، فذكر أحاديث منها: وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم.... - مسند أحمد: 41/16، رقم: 3/8121 - شرح السنة: 38/15، رقم: 4242.»
صحیفہ ہمام بن منبہ کی حدیث نمبر 24 کے فوائد و مسائل
حافظ عبدالله شميم حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيفه همام بن منبه 24
شرح الحديث:
مذکورہ بالا حدیث کی شرح میں درج ذیل باتیں یاد رکھیں کہ: «تَقُوْمُ السَّاعَةُ» قیامت قائم ہوگی اس میں کوئی شک نہیں۔ چناچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
«إِنَّ السَّاعَةَ آتِيَةٌ أَكَادُ أُخْفِيهَا لِتُجْزَىٰ كُلُّ نَفْسٍ بِمَا تَسْعَىٰ» [طٰهٰ: 15]
"بے شک قیامت آنے والی ہے، میں اسے ظاہر کرنے والا ہوں، تاکہ ہر شخص کو اس کے کیے کا بدلہ دیا جائے۔ "
اور اس سے پہلے «تَقْتَتِلَ فِئْتَانِ عَظِيْمَتَانِ» "دو بڑی جماعتیں لڑائی کریں گی۔ " اکثر اہل علم کا کہنا ہے کہ یہ پیشن گوئی آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس لڑائی کی فرمائی، جو سیدنا علی رضی الله عنہ اور سیدنا معاویہ رضی الله عنہ میں ہوئی۔ ان کی دلیل یہ ہے: «دَعْوَهُمَا وَاحِدٌ» "دونوں جماعتوں کا دعویٰ ایک ہی ہوگا۔ " دونوں جماعتوں کا دعویٰ ایک ہی تھا کہ ہم مسلمان ہیں اور حق پر لڑتے ہیں۔ اور خود سیدنا علی رضی الله عنہ سے منقول ہے کہ انہوں نے سیدنا معاویہ رضی الله عنہ اور ان کے گروہ کے متعلق فرمایا کہ وہ ہمارے بھائی ہیں، جنہوں نے ہم پر بغاوت کی، وہ کافر یا فاسق نہیں ہیں۔
علامہ عینی رحمة الله علیه فرماتے ہیں:
ان گروہوں کے متعلق گفتگو کرنا محل نظر ہے، احسن یہ ہے کہ ان کے متعلق خاموشی اختیار کی جائے۔ " اور یہی بات درست ہے۔
تاہم اس حدیث کی اس شرح کو ان دو جماعتوں تک محدود بھی نہیں کرنا چاہیے، اس سے زیادہ جنگوں کے واقعات بھی مراد لیے جا سکتے ہیں، جو بعد کے زمانے سے آج تک ہوئے یا ایسی عظیم جنگیں بھی مراد لی جا سکتی ہیں جو آئندہ ہو سکتی ہیں، کیونکہ حدیث کے لفظ عموم پر دلالت کرتے ہیں لہٰذا ان کو محدود نہیں کرنا چاہیے۔ «والله اعلم»
لڑنے والے مومن ہی رہتے ہیں، ان میں صلح کرا دو:
الله تعالیٰ نے ایک دوسرے پر زیادتی کرنے والی جماعتوں میں صلح کرا دینے کا حکم دیا ہے: چناچہ ارشاد فرمایا:
«وَإِن طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا ۖ فَإِن بَغَتْ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَىٰ فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي حَتَّىٰ تَفِيءَ إِلَىٰ أَمْرِ اللَّـهِ ۚ فَإِن فَاءَتْ فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَأَقْسِطُوا ۖ إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ» [الحجرات: 9]
"اور اگر مسلمانوں کی دو جماعتیں آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں میل ملاپ کرا دیا کرو۔ پھر اگر ان دونوں میں سے ایک جماعت دوسری جماعت پر زیادتی کرے تو تم (سب) اس گروه سے جو زیادتی کرتا ہے لڑو۔ یہاں تک کہ وه الله کے حکم کی طرف لوٹ آئے، اگر لوٹ آئے تو پھر انصاف کے ساتھ صلح کرا دو اور عدل کرو بیشک الله تعالیٰ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے."
غور فرمائیں کہ لڑائی کے باوجود ان لڑنے والوں کو الله تعالیٰ نے مومن قرار دیا ہے، اس آیت کریمہ سے امام بخاری رحمة الله علیه اور دیگر کئی محدیثین نے استدلال کیا ہے کہ معصیت خواہ کتنی بڑی ہو اس سے انسان دائرہ ایمان سے خارج نہیں ہوتا، جیسا کہ خوارج اور ان کے اتباع معتزلہ مرتکب معصیت کو دائرہ ایمان سے خارج قرار دیتے ہیں۔ " [صحيح بخاري، كتاب الايمان، باب: "وان طائفتن من المومنين" قبل حديث رقم: 31]
صحیح بخاری ہی میں حسن کی ابوبکرہ سے حدیث میں ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ایک دن خطبہ ارشاد فرمایا اور آپ کے ساتھ منبر پر حسن بن علی رضی الله عنہما بھی تھے، آپ کبھی ان کی طرف دیکھتے اور کبھی لوگوں کی طرف اور پھر فرمایا:
«إِنَّ ابْنِي هَذَا سَيِّدٌ، وَلَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يُصْلِحَ بِهِ بَيْنَ فِئَتَيْنِ عَظِيمَتَيْنِ مِنَ الْمُسْلِمِينَ» [صحيح بخاري، كتاب الصلح، رقم: 2704]
"میرا یہ بیٹا سردار ہے اور شاید الله تعالیٰ اس کی وجہ سے مسلمانوں کی دو عظیم جماعتوں میں صلح کرا دے۔ "
آپ صلی الله علیہ وسلم کی یہ پیشن گوئی سچ ثابت ہوئی، طویل جنگوں اور ہولناک واقعات کے بعد الله تعالیٰ نے آپ کو اہل شام اور اہل عراق میں صلح کرا دینے کی توفیق عطا فرمائی۔ اس صلح کی تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجئے: [صحيح بخاري، كتاب الصلح، رقم: 2704]
صحیفہ ہمام بن منبہ شرح حافظ عبداللہ شمیم، حدیث/صفحہ نمبر: 24