Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيفه همام بن منبه
متفرق
متفرق
کم ہسنا اور زیادہ رونا
حدیث نمبر: 12
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَوْ تَعْلَمُونَ مَا أَعْلَمُ، لَبَكَيْتُمْ كَثِيرًا وَلَضَحِكْتُمْ قَلِيلا"
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے! جو کچھ میں جانتا ہوں اگر تمہیں بھی معلوم ہو جائے تو تم روتے زیادہ اور کم ہنستے۔

تخریج الحدیث: «صحيح بخاري، كتاب الايمان والنذور، رقم: 6637، حدثنا إبراهيم بن موسىٰ: أخبرنا هشام - هو ابن يوسف - عن معمر، عن همام، عن أبى هريرة قال: قال أبوالقاسم صلى الله عليه وسلم.... - صحيح مسلم، كتاب الصلاة، رقم: 961- مسند أحمد: 34/16، رقم: 10/8109 - شرح السنة: 368/14، رقم: 4170 - سنن ترمذي، رقم: 2313. سنن ابن ماجه، رقم: 4191- سنن دارمي، رقم: 2735 - مؤطا، كتاب الصلاة، حديث رقم: 1.»

صحیفہ ہمام بن منبہ کی حدیث نمبر 12 کے فوائد و مسائل
  حافظ عبدالله شميم حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيفه همام بن منبه   12  
شرح الحدیث:
جو کچھ میں جانتا ہوں وہ اگر تم بھی جان لو:
اس بارے میں کئی ایک اقوال ہیں جن کا مفہوم تقریباً یہی ہے کہ "نبی صلی الله علیہ وسلم کے اس فرمان کا مطلب ہے امور آخرت، اس کی سختیاں، جہنم کی ہولناکیاں، گنہگاروں کو عذاب دینا اور موت و قبر کے احوال وغیرہ، ان کی حقیقت کا مجھے ہی علم ہے اگر تمہیں معلوم ہو جائے تو تم بہت ہی کم ہنسو۔ (فتح الباری: 11/ 527-528)
ان الفاظ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کے دل میں الله کی خشیت اور خوف بہت زیادہ تھا، جو کسی اور کے دل میں کبھی بھی نہیں ہو سکتا۔ مزید برآں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا فرمان ہے: ((إِنِّىْ أَخْشَاكُمْ لِلّهِ وَأَتْقَاكُمْ لَهُ)) "میں تم سب سے زیادہ الله سے ڈرنے والا اور اس کا تقوی رکھنے والا ہوں۔ " (فتح الباری: 11/ 527-528)
اس حدیث سے نبی صلی الله علیہ وسلم کی فضیلت بھی ظاہر ہوتی ہے۔

تم زیادہ روتے اور کم ہنستے:
یہ بات نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ کو ڈرانے کے لیے ارشاد فرمائی، تاکہ وہ تھوڑی بہت وقتی طور پر بھی غفلت کا شکار نہ ہوں، اور الله کا خوف ہمیشہ ہمیشہ ان کے دلوں میں رہے۔
حسن بصری رحمة الله علیہ کا قول ہے: "جو شخص یہ جانتا ہے کہ موت نے آنا ہے، قیامت قائم ہونی ہے، اور الله کے سامنے کھڑے ہوکر حساب و کتاب دینا ہے، تو اس کے لیے ضروری ہے کہ دنیا میں (زندگی کا) طویل حصہ رنج و غم میں گزارے۔ " (فتح الباری: 11/ 319-320)
رسول الله صلی الله علیہ وسلم قرآن مجید کے مفسر اعظم ہیں۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کی یہ حدیث الله تعالیٰ کے اس فرمان کی تفسیر ہے:
فَلْيَضْحَكُوا قَلِيلًا وَلْيَبْكُوا كَثِيرًا جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ (التوبة: 82)
"پس وہ تھوڑا ہنسیں اور زیادہ روئیں، اس سبب سے جو انہوں نے کمایا ہے۔ "
ابن ابو طلحہ نے ابن عباس رضی الله عنہما سے روایت کیا ہے کہ دنیا کی زندگی بہت قلیل ہے، یہ اس میں جس قدر چاہیں ہنس لیں جب دنیا ختم ہو جائے گی اور یہ الله تعالیٰ کے پاس پہنچیں گے تو انہیں اس قدر رونا پڑے گا جو کبھی ختم نہ ہوگا۔ (تفسیر ابن کثیر: 3/ 135، طبع دارالسلام۔ تفسیر ابن ابی حاتم: 6/ 1855)

بقول شاعر
ہر وقت کا ہنسنا تجھے برباد نہ کر دے
تنہائی کے لمحوں میں کبھی رو بھی لیا کر
   صحیفہ ہمام بن منبہ شرح حافظ عبداللہ شمیم، حدیث/صفحہ نمبر: 12