Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

موطا امام مالك رواية ابن القاسم
مناقب صحابہ وصحابیات رضی اللہ عنہم أجمعین
سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کا مثالی کردار
حدیث نمبر: 633
116- وبه قال: كان أبو طلحة أكثر الأنصار بالمدينة مالا من نخل، وكان أحب أمواله إليه بيرحاء وكانت مستقبلة المسجد، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يدخلها ويشرب من ماء فيها طيب. قال أنس: فلما أنزلت هذه الآية: {لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون} قام أبو طلحة إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله إن الله يقول فى كتابه: {لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون} وإن أحب أموالي إلى بيرحاء، وإنها صدقة لله أرجو برها وذخرها عند الله، فضعها يا رسول الله حيث شئت. قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم بخ، ذلك مال رابح، ذلك مال رابح قد سمعت ما قلت فيها، وإني أرى أن تجعلها فى الأقربين.“ فقال أبو طلحة: أفعل يا رسول الله، فقسمها أبو طلحة فى أقاربه وبني عمه.
اور اسی سند کے ساتھ روایت ہے کہ (سیدنا) انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: انصار مدینہ میں سے (سیدنا) ابوطلحہ رضی اللہ عنہ سب سے زیادہ مالدار  تھے کہ ان کے کھجور کے باغات تھے اور انہیں ان میں سے بیرحاء کا باغ سب سے زیادہ پسند تھا جو مسجد کے سامنے تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس (باغ) میں تشریف لے جاتے اور اس کا میٹھا پانی پیتے تھے، سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جب یہ آیت نازل ہوئی « لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ» [ آل عمران: 92]  تم اس وقت نیکی (کے درجے) تک نہیں پہنچ سکتے جب تک (اس کے راستے میں) وہ نہ خرچ کر دو جسے تم  پسند کرتے ہو ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: یا رسول اللہ! اللہ اپنی کتاب میں فرماتا ہے: « لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ» اور مجھے اپنے اموال میں سے بیرحاء (کا باغ) سب سے زیادہ پسند ہے اور یہ (اب) اللہ کے لئے صدقہ ہے، مجھے امید ہے کہ یہ اللہ کے دربار میں میرے لئے نیکی اور ذخیرہ ہو گا، یا رسول اللہ! آ پ جیسے چاہیں اسے استعمال کریں انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: واہ! یہ نفع بخش مال ہے، یہ نفع بخش مال ہے، میں نے تمہاری بات سنی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ تم اسے اپنے رشتہ داروں میں خرچ کرو، تو ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یا رسول اللہ! میں اسی طرح کرتا ہوں، پھر اسے ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے اپنے رشتہ داروں اور اپنے چچا کی اولاد میں تقسیم کر دیا ۔

تخریج الحدیث: «116- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 995/2، 996 ح 1940، ك 58 ب 1 ح 2) التمهيد 198/1، الاستذكار: 1877، و أخرجه البخاري (2752، 1461) ومسلم (998/42) من حديث مالك به.»

قال الشيخ زبير على زئي: سنده صحيح