صحيح البخاري
كِتَاب فَرْضِ الْخُمُسِ
کتاب: خمس کے فرض ہونے کا بیان
5. بَابُ مَا ذُكِرَ مِنْ دِرْعِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَصَاهُ وَسَيْفِهِ وَقَدَحِهِ وَخَاتَمِهِ:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زرہ، عصاء مبارک، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار، پیالہ اور انگوٹھی کا بیان۔
حدیث نمبر: 3109
حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، عَنْ أَبِي حَمْزَةَ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،" أَنَّ قَدَحَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْكَسَرَ، فَاتَّخَذَ مَكَانَ الشَّعْبِ سِلْسِلَةً مِنْ فِضَّةٍ، قَالَ عَاصِمٌ: رَأَيْتُ الْقَدَحَ وَشَرِبْتُ فِيهِ".
ہم سے عبدان نے بیان کیا ‘ ان سے ابوحمزہ نے ‘ ان سے عاصم نے ‘ ان سے ابن سیرین نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پانی پینے کا پیالہ ٹوٹ گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ٹوٹی ہوئی جگہوں کو چاندی کی زنجیروں سے جڑوا لیا۔ عاصم کہتے ہیں کہ میں نے وہ پیالہ دیکھا ہے۔ اور اس میں میں نے پانی بھی پیا ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3109 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3109
حدیث حاشیہ:
مقصد حضرت اما م کا یہ ہے کہ اگر آپ ﷺ کا ترکہ تقسیم کیا جاتا تو وہ پیالہ تقسیم ہوتا‘ حالانکہ وہ تقسیم نہیں ہوا۔
بلکہ خلفاء اسے یوں ہی بطور تبرک اپنے پاس محفوظ رکھتے چلے آئے۔
اس طرح پچھلی احادیث میں آنحضرت ﷺ کے پرانے جوتوں کا ذکر ہے اور حدیث عائشہ میں آپ کی کملی اور تہبند کا ذکر ہے۔
معلوم ہوا کہ رسول کریم ﷺ کی ترک فرموداہ اشیاءمیں سے کوئی چیز تقسیم نہیں کی گئی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3109
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3109
حدیث حاشیہ:
1۔
ایک حدیث میں ہے کہ وہ پیالہ بہت بڑا اور عمدہ قسم کاتھا جو بہترین لکڑی سے تیار شدہ تھا۔
(صحیح البخاري، الأشربة، حدیث: 5638)
اس حدیث کے آخر میں ہے کہ اس میں لوہے کا ٹکڑا تھا۔
حضرت انس ؓنے اس کی جگہ سونے یا چاندی کا کڑا لگانے کاارادہ کیا تو حضرت ابوطلحہ ؓنے انھیں منع کردیا اور فرمایا:
اس میں کوئی تبدیلی نہ کرو بلکہ اسی حالت میں رہنے دو جس حالت میں رسول اللہ ﷺ کے پاس تھا، چنانچہ حضرت انس ؓ اسی حالت میں رہنے دیا۔
(صحیح البخاري، الأشربة، حدیث: 5638)
حضرت حجاج بن حسان کہتے ہیں:
ہم ایک مرتبہ حضرت انس ؓ کے پاس تھے انھوں نے ایک برتن منگوایا جسے تین لوہےکے ٹکڑے لگے ہوئے تھے اور اس میں لوہے کا کڑا بھی تھا، اسے آپ نے سیاہ غلاف سے نکالا اور اس میں پانی ڈال کر ہمارے پاس لایا گیا، ہم نے اس سے پانی پیا، اپنے سروں اور مونہوں پر چھڑکا اور رسول اللہ ﷺ پر درود بھی پڑھا۔
(مسند أحمد187/3)
2۔
حافظ ابن حجر ؒنے علامہ قرطبی ؒ کے حوالے سے لکھا ہے:
امام بخاری ؒ فرماتے ہیں:
میں نے بصرہ میں وہ پیالہ کسی کے پاس دیکھا اور اس سے پانی نوش کیا۔
اس نے وہ پیالہ نضر بن انس کو ملنے والی جائیداد سے آٹھ لاکھ میں خریدا تھا۔
(فتح الباري: 124/10)
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ رسول اللہ ﷺ کا یہ پیالہ بھی معدوم ہوگیا یا جنگوں اور فتنوں کی نظر ہوکرضائع ہوگیا۔
3۔
امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی چھوڑی ہوئی اشیاء میں سے کوئی چیز بھی تقسیم نہیں کی گئی بلکہ انھیں تبرک کے طور پر رکھاگیا۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3109
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 21
´برتن پر تھوڑی سی چاندی استعمال کرنا`
«. . . ان قدح النبي صلى الله عليه وآله وسلم انكسر فاتخذ مكان الشعب سلسلة من فضة . . .»
”. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذاتی پیالہ ٹوٹ گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ٹوٹی جگہ پر چاندی کا تار لگوا دیا . . .“ [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 21]
� لغوی تشریح:
«اَلْقَدَح» ”قاف“ اور ”دال“ دونوں پر فتحہ ہے۔ چھوٹا پیالہ۔
«اَلشَّعْب» ”شین“ کے فتحہ اور ”عین“ کے سکون کے ساتھ ہے۔ ٹوٹی ہوئی جگہ۔
«سِلْسِلَة» دونوں جگہ ”سین“ کے فتحہ کے ساتھ۔ ایک چیز کو دوسری کے ساتھ ملانے اور جوڑنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ اور دونوں جگہ ”سین“ کے کسرہ کے ساتھ بھی ہے۔ اس صورت میں معنی یہ ہوں گے: لوہے کی وہ زنجیر جو دھاگے کی طرح باریک ہو۔ معنی یہ ہوا کہ دونوں جانب شکستہ مقام کو چاندی کے تار سے ملا دیا۔
فوائد و مسائل:
➊ یہ حدیث دلیل ہے کہ ایسی ضروریات و اغراض کے لیے تھوڑی سی چاندی استعمال کرنا جائز ہے۔ گویا کھانے پینے کے برتنوں میں ضرورتاً اتنی کم مقدار میں سونا اور چاندی اگر لگا ہوا ہو تو ایسے برتنوں میں کھانا پینا جائز ہے اور ان سے وضو اور غسل وغیرہ کرنا بھی بلا کراہت درست اور جائز ہے۔
➋ سونے چاندی سے بنے ہوئے برتنوں کے استعمال میں تکبر اور فخر کا عمل دخل ہوتا ہے۔ کبر و نخوت اور فخر، خالق کائنات کو پسند نہیں، اس لیے ان کا استعمال ناجائز قرار دیا گیا اور شکستہ برتن کو تار کے ذریعے سے پیوستہ کر کے استعمال کرنے میں ضرورت ہوتی ہے، اس میں کبر و غرور کا کوئی عمل دخل نہیں، اس بنا پر استعمال کی اجازت دی گئی ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 21
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5638
5638. حضرت عاصم احول سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس نبی ﷺ کا پیالہ دیکھا جو ٹوٹ گیا تھا تو حضرت انس رضی اللہ عنہ نے اسے چاندی کے تار سے جوڑ دیا۔ حضرت عاصم نے کہا کہ وہ پیالہ عمدہ، فراخ اور نضار کے درخت سے بنا ہوا تھا حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے متعدد دفعہ اس سے رسول اللہ ﷺ کو پانی پلایا تھا۔ ابن سیرین کہتے ہیں کہ اس پیالے میں لوہے کا ایک حلقہ تھا حضرت انس رضی اللہ عنہ نے چاہا کہ اس کی جگہ سونے یا چاندی کا حلقہ لگا دیں تو ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا: جس چیز کو رسول اللہ ﷺ نے برقرار رکھا ہے اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہ کریں پھر انہوں نے اپنا یہ ارادہ ترک کر دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5638]
حدیث حاشیہ:
حضرت عاصم احول اور حضرت علی بن حسن اور حضرت امام بخاری نے بصرہ میں وہ پیالہ دیکھا ہے اوران جملہ حضرات نے اس میں پیا ہے۔
تفصیل کے لیے دیکھو فتح الباری۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5638
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5638
5638. حضرت عاصم احول سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس نبی ﷺ کا پیالہ دیکھا جو ٹوٹ گیا تھا تو حضرت انس رضی اللہ عنہ نے اسے چاندی کے تار سے جوڑ دیا۔ حضرت عاصم نے کہا کہ وہ پیالہ عمدہ، فراخ اور نضار کے درخت سے بنا ہوا تھا حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے متعدد دفعہ اس سے رسول اللہ ﷺ کو پانی پلایا تھا۔ ابن سیرین کہتے ہیں کہ اس پیالے میں لوہے کا ایک حلقہ تھا حضرت انس رضی اللہ عنہ نے چاہا کہ اس کی جگہ سونے یا چاندی کا حلقہ لگا دیں تو ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا: جس چیز کو رسول اللہ ﷺ نے برقرار رکھا ہے اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہ کریں پھر انہوں نے اپنا یہ ارادہ ترک کر دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5638]
حدیث حاشیہ:
(1)
صحیح مسلم میں ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس پیالے سے شہد، نبیذ، پانی اور دودھ پلاتا رہا ہوں۔
(صحیح مسلم، الأشربة، حدیث: 5237 (2008)
حضرت عاصم کہتے ہیں کہ میں نے وہ پیالہ دیکھا ہے اور اس میں پانی بھی پیا ہے۔
(2)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تبرکات کی تفصیل ہم کتاب فرض الخمس باب: 5 کے تحت بیان کر آئے ہیں، ایک نظر اسے دیکھ لیا جائے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5638