موطا امام مالك رواية ابن القاسم
حرام و ناجائز امور کا بیان
ضرورت کے بغیر مانگنا جائز نہیں ہے
حدیث نمبر: 597
174- وبه: عن عطاء بن يسار عن رجل من بني أسد أنه قال: نزلت أنا وأهلي ببقيع الغرقد، فقال لي أهلي: اذهب إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فسله لنا شيئا نأكله، وجعلوا يذكرون من حاجتهم فذهبت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فوجدت عنده رجلا يسأله ورسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ”لا أجد ما أعطيك“، فتولى الرجل عنه وهو مغضب وهو يقول: لعمري إنك لتعطي من شئت. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”إنه ليغضب على أن لا أجد ما أعطيه، من سأل منكم وله أوقية أو عدلها فقد سأل إلحافا.“ قال الأسدي: فقلت: للقحة لنا خير من أوقية. قال مالك: والأوقية أربعون درهما، قال الأسدي: فرجعت ولم أسأله، فقدم على رسول الله صلى الله عليه وسلم بعد ذلك بشعير وزبيب، فقسم لنا منه حتى أغنانا الله.
بنو اسد کے ایک آدمی (صحابی رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ میں اور میرے گھر والے بقیع غرقد میں اترے، تو میرے گھر والوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ اور ہمارے لئے کھانے کے لئے کچھ چیز مانگو۔ وہ اپنی محتاجیاں اور ضرورتیں بیان کرنے لگے۔ پس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی دیکھا جو سوال کر رہا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: ”میرے پاس تجھے دینے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے“۔ پھر وہ آدمی یہ کہتے ہوئے غصے سے واپس لوٹا کہ میری زندگی کی قسم! آپ جسے چاہتے ہیں اسے نوازتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ مجھ پر (اس وجہ سے) غصہ کر رہا ہے کہ میرے پاس اسے دینے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ تم میں سے اگر کوئی شخص (اس حالت میں) سوال کرے کہ اس کے پاس ایک اوقیہ چاندی یا اس کے برابر ہو گا تو اس نے لپٹ لپٹ کر سوال کیا۔“ اَسدی صحابی نے کہا: ہماری دودھ دینے والی اونٹنی تو ایک اوقیہ چاندی سے بہتر ہے۔ (امام) مالک نے فرمایا: اوقیہ چالیس درہم کو کہتے ہیں۔ اسدی (صحابی رضی اللہ عنہ) نے فرمایا: پھر میں واپس چلا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ بھی نہیں مانگا۔ پھر اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جَو اور خشک انگور لائے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سے تقسیم کر کے ہمیں بھی دیا حتیٰ کہ اللہ نے ہمیں بے نیاز کر دیا۔
تخریج الحدیث: «174- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 999/2 ح 1949، ك 58 ب 2 ح 11) التمهيد 93/4 وقال ”وهو حديث صحيح“، الاستذكار:1886، و أخرجه ا النسائي (98/5، 99 ح 2597) من حديث ابن القاسم عن مالك، و أبوداود (1627) من حديث مالك به.»
قال الشيخ زبير على زئي: سنده صحيح