موطا امام مالك رواية ابن القاسم
دیت، قصاص اور حد کے مسائل
اگر قتل کا معاملہ مشتبہ ہو تو دیت کون دے گا؟
حدیث نمبر: 537
525- مالك عن أبى ليلى بن عبد الله بن عبد الرحمن ابن سهل عن سهل بن أبى حثمة أنه أخبره هو ورجل من كبراء قومه: أن عبد الله بن سهل ومحيصة خرجا إلى خيبر من جهد أصابهم فأتي محيصة فأخبر أن عبد الله بن سهل قد قتل وطرح فى فقير بئر أو عين، فأتى يهود فقال: أنتم والله قتلتموه، قالوا: والله ما قتلناه. فأقبل حتى قدم على قومه، فذكر ذلك لهم، ثم أقبل هو وأخوه حويصة وهو أكبر منه وعبد الرحمن بن سهل، فذهب محيصة ليتكلم وهو الذى كان بخيبر، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لمحيصة: ”كبر كبر“ يريد السن، فتكلم حويصة ثم تكلم محيصة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”إما أن يدوا صاحبكم وإما أن يؤذنوا بحرب“ فكتب إليهم رسول الله صلى الله عليه وسلم فى ذلك، فكتبوا: إنا والله ما قتلناه. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لحويصة ومحيصة وعبد الرحمن: ”أتحلفون وتستحقون دم صاحبكم؟“ قالوا: لا، قال: ”أفتحلف لكم يهود؟“ قالوا: ليسوا بمسلمين. فوداه رسول الله صلى الله عليه وسلم من عنده، فبعث إليهم بمئة ناقة حتى أدخلت عليهم الدار. قال سهل: لقد ركضتني منها ناقة حمراء.
سیدنا سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ کو ان کی قوم کے بزرگوں نے بتایا کہ عبداللہ بن سہل اور محیصہ دونوں بھوک کی وجہ سے خیبر گئے تو محیصہ نے آ کر بتایا کہ عبداللہ بن سہل قتل ہو گئے اور انہیں کنویں یا چشمے کے پاس پھینک دیا گیا ہے۔ پھر وہ یہودیوں کے پاس آئے تو کہا: اللہ کی قسم! تم نے انہیں (عبداللہ بن سہل کو) قتل کیا ہے۔ یہودیوں نے کہا: اللہ کی قسم! ہم نے انہیں قتل نہیں کیا۔ پھر وہ اپنی قوم کے پاس آئے اور انہیں یہ بات بتائی پھر وہ اور ان کے بڑے بھائی حویصہ رضی اللہ عنہ اور عبدالرحمٰن بن سہل رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو محیصہ جو خیبر گئے تھے باتیں کرنے کی کوشش کرنے لگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محیصہ سے فرمایا: ”بڑے کو بات کرنے دو، بڑی عمر والے کو بات کرنے دو“، تو حویصہ نے بات کی پھر محیصہ نے بات کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یا تو وہ تمہارے ساتھی کی دیت دیں یا جنگ کے لئے تیار ہو جائیں۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کی طرف لکھ بھیجا تو انہوں نے جوابی تحریر میں کہا: اللہ کی قسم! ہم نے اسے قتل نہیں کیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حویصہ، محیصہ اور عبدالرحمٰن کو کہا: ”کیا تم قسم کھاتے ہو اور اپنے ساتھی کے خون کے حق دار بنتے ہو؟“ انہوں نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تمہارے لئے یہودی قسم کھائیں؟“ انہوں نے کہا: وہ مسلمان نہیں ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طرف سے دیت عطا فرمائی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف ایک سو اونٹنیاں بھیجیں حتی کہ وہ ان کے گھر میں داخل کی گئیں۔ سہل رضی اللہ عنہ نے کہا: ان میں سے سرخ اونٹنی نے مجھے لات ماری تھی۔
تخریج الحدیث: «525- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 877/2، 878 ح 1696، ك 44 ب 1 ح 1) التمهيد 150/24، 151، الاستذكار: 1725، و أخرجه البخاري (7192) ومسلم (1669/6) من حديث مالك به، وفي رواية يحيي بن يحيي: ”ورجال“.»
قال الشيخ زبير على زئي: سنده صحيح
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم کی حدیث نمبر 537 کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 537
تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 7192، ومسلم 6/ 1669، من حديث مالك به وفي رواية يحييٰ بن يحييٰ: ”وَرِجَالٌ“]
تفقه:
➊ شروع دن سے یہود اور تمام کفار مسلمانوں کے پکے دشمن ہیں۔
➋ شروع اسلام میں مسلمان بے حد غریب تھے پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے رزق کے خزانے کھول دیئے۔
➌ اپنے گمان پر یقین ہو تو قسم کھائی جا سکتی ہے لیکن فیصلہ دلیل پر ہی ہو گا، قسم وگمان پر نہیں ہو گا اِلا یہ کہ قسم کا مطالبہ کیا جائے۔
➍ آداب مجلس کا خیال رکھنا چاہئے مثلاً بڑی عمر والے یا بڑے عالم کے مقابلے میں خود خاموش رہ کر سنیں اور انہیں گفتگو کرنے دیں۔
➎ مظلوم مسلمانوں کا دفاع کرنا اسلامی حکومت کا حق ہے۔
➏ اگر مدعا علیہ انکار کردے تو اس کے خلاف گواہوں اور ثبوت کے بغیر فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔
➐ اصولِ حدیث کا ایک مسئلہ ہے کہ راوی کے عادل (یعنی ثقہ) ہونے کے لئے مسلمان ہونا شرط ہے یعنی کافر و مشرک عادل و ثقہ نہیں ہوتا۔ اس حدیث سے اس اصول کی تصدیق ہوتی ہے۔
➑ اگر قاتل کا سراغ نہ مل سکے تو سرکاری خزانے سے مقتولین کو دیت ادا کی جا سکتی ہے۔
➒ کفار اگر خیانت یا زیادتی کریں یا خیانت و زیادتی وغیرہ کا شبہ ہو جائے اور قرائن بھی اس کی تائید کرتے ہوں تو ان سے معاہدہ توڑا یعنی فسخ کیا جا سکتا ہے۔
➓ مدعا علیہ اگر صراحت کے ساتھ قسم کھا کر الزام انکار کر دے تو بَری ہو جاتا ہے اِلا یہ کہ اس کے خلاف واضح دلیل و ثبوت پیش کر دیا جائے۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 525