6- قال مالك: حدثني ابن شهاب: أن سهل بن سعد الساعدي أخبره، أن عويمرا العجلاني جاء إلى عاصم بن عدي الأنصاري، فقال له: أرأيت يا عاصم لو أن رجلا وجد مع امرأته رجلا أيقتله فتقتلونه أم كيف يفعل؟ سل لي يا عاصم عن ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم، فسأل عاصم رسول الله صلى الله عليه وسلم فكره رسول الله صلى الله عليه وسلم المسائل وعابها حتى كبر على عاصم ما سمع من رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلما رجع عاصم إلى أهله جاءه عويمر فقال: يا عاصم، ماذا قال لك رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقال عاصم لعويمر: لم تأتني بخير، قد كره رسول الله صلى الله عليه وسلم المسألة التى سألته عنها. فقال عويمر: والله لا أنتهي حتى أسأله عنها، فأقبل عويمر حتى أتى رسول الله صلى الله عليه وسلم وسط الناس، فقال: يا رسول الله، أرأيت رجلا وجد مع امرأته رجلا، أيقتله فتقتلونه أم كيف يفعل؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”قد أنزل فيك وفي صاحبتك فاذهب فأت بها“ قال سهل: فتلاعنا وأنا مع الناس عند رسول الله صلى الله عليه وسلم. فلما فرغا قال عويمر: كذبت عليها يا رسول الله إن أمسكتها، فطلقها ثلاثا قبل أن يأمره رسول الله صلى الله عليه وسلم. قال ابن شهاب: فكانت تلك سنة المتلاعنين.قال ابن شهاب: فكانت تلك سنة المتلاعنين.
سیدنا سہل بن سعد الساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عویمر العجلانی رضی اللہ عنہ عاصم بن عدی الانصاری رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور ان سے کہا: اے عاصم! آپ کا کیا خیال ہے کہ اگر کوئی آدمی اپنی بیوی کے ساتھ کسی مرد کو دیکھے؟ کیا وہ اسے قتل کر دے، تو آپ اس (قاتل) کو قتل کر دیں گے؟ یا وہ کیا کرے؟ اے عاصم! اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ پوچھیں۔ پھر عاصم رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ پوچھا: تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایسے) مسئلوں کو ناپسند فرمایا اور معیوب سمجھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام سن کر عاصم رضی اللہ عنہ کو (اپنے آپ پر) بوجھ سا محسوس ہوا۔ جب عاصم اپنے گھر واپس گئے تو ان کے پاس عویمر نے آ کر پوچھا: اے عاصم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو کیا جواب دیا ہے؟ عاصم نے عویمر سے کہا: آپ میرے پاس خیر کے ساتھ نہیں آئے۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو مسئلہ پوچھا: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ناپسند کیا۔ عویمر نے کہا: اللہ کی قسم! میں تو اس وقت تک نہیں رکوں گا جب تک آپ سے پوچھ نہ لوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے درمیان تشریف فرما تھے کہ عویمر آئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ کا کیا خیال ہے کہ اگر کوئی آدمی اپنی بیوی کے ساتھ کسی مرد کو دیکھے؟ کیا وہ اسے قتل کر دے تو آپ اس (قاتل) کو قتل کر دیں گے؟ یا وہ کیا کر ے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے اور تمہاری بیوی کے بارے میں (حکم) نازل ہوا ہے، جاؤ اور اسے (اپنی بیوی کو) لے آؤ۔ سہل رضی اللہ عنہ نے فرمایا: پھر دونوں نے لعان کیا اور میں لوگوں کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا۔ پھر جب وہ دونوں (لعان سے) فارغ ہوئے (تو) عویمر نے کہا: یا رسول اللہ! اگر میں اسے (اپنی بیوی بنا کر) روکے رکھوں تو میں نے اس پر جھوٹ بولا؟ پھر انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے پہلے اسے (اپنی بیوی کو) تین طلاقیں دے دیں۔ ابن شہاب (الزہری) نے کہا: پس لعان کرنے والوں یہی سنت قرار پائی۔
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 536
تخریج الحدیث:
[الموطأ رواية يحييٰ بن يحييٰ 566/2، 567 ح 1232، ك 29 ب 13، ح 34، التمهيد 183/6 - 185، الاستذكار: 1152 ● أخرجه البخاري 5259، ومسلم 1492، من حديث مالك به]
تفقہ:
➊ ”شریعت میں لعان یہ ہے کہ خاوند چار دفعہ یہ قسم کھائے کہ میں اپنی بیوی کی طرف زنا کی نسبت کرنے یعنی اسے زنا سے متہم کرنے میں سچا ہوں اور پانچویں قسم یہ ہو کہ وہ کہے اگر وہ اپنے اس دعوے میں جھوٹا ہو تو وہ خدا کی لعنت کا مستحق ہو، پھر بیوی چار دفعہ خاوند کے جھوٹا ہونے پر قسم کھائے اور اس کی پانچویں قسم یہ ہو کہ اگر وہ سچا ہو تو وہ (بیوی) خدا کے غضب کی مستحق ہو یہ کہنے پر وہ حد زنا سے بری ہو جائے گی۔“ [القاموس الوحيد ص 1478]
➋ لعان کا حکم قرآن مجید میں سورۃ النور میں نازل ہوا ہے۔ ديكهئے: [آيت: 6، 7]
➌ اس حدیث سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ لعان کے بعد خاوند بیوی میں خود بخود تفرقہ یعنی جدائی نہیں ہوتی بلکہ طلاق کے بعد جدائی ہوتی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «باب اللعان و من طلق بعد اللعان» لعان کا باب اور جو شخص لعان کے بعد طلاق دے۔ [كتاب الطلاق باب: 29 قبل ح 5308]
➍ واقع شدہ مسئلہ پوچھنے میں شرمانا نہیں چاہئے اور غیر واقع شدہ یعنی فرضی مسائل پوچھنے سے ہمیشہ اجتناب کرنا چاہئے۔
➎ لعان کے بعد شرعی ثبوت کے بغیر فریقین پر حد جاری نہیں ہو گی۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 6
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3431
´ایک ساتھ تین طلاقیں دے دینے کی رخصت کا بیان۔`
سہل بن سعد ساعدی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ عویمر عجلانی رضی اللہ عنہ نے عاصم بن عدی رضی اللہ عنہ کے پاس آ کر کہا: عاصم! بتاؤ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر آدمی کو پائے تو کیا وہ اسے قتل کر دے؟ (وہ قتل کر دے) تو لوگ اسے اس کے بدلے میں قتل کر دیں گے! بتاؤ وہ کیا اور کیسے کرے؟ عاصم! اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ کر مجھے بتاؤ، عاصم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (یہ مسئلہ) پوچھا، تو رسول اللہ صلی اللہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3431]
اردو حاشہ:
(1) ”آپ اسے قتل کردیں گے“ کیونکہ کسی پر حد نافذ کرنا حکومت کا کام ہے۔ کوئی شخص اپنے طور پر حد نافذ نہیں کرسکتا‘ لہٰذا اگر کوئی اشتعال میں آکر بیوی کے ساتھ لیٹے ہوئے آدمی کو قتل کردے تو اگر وہ گواہ پیش نہ کرسکے تو اسے قصاصاً قتل کردیا جائے گا‘ ورنہ تو لوگوں کے لیے قتل کا بہانہ بن جائے گا۔ البتہ آخرت میں اللہ تعالیٰ اس سے اپنے علم کے مطابق سلوک فرمائے گا‘ یعنی اگر مقتول واقعتا جرم زنا کا مرتکب تھا اور شادی شدہ تھا تو قاتل کو معافی مل جائے گی‘ ورنہ سزا ہوگی۔
(2) ”ناپسند فرمایا“ کیونکہ آپ نے خیال فرمایا کہ یہ فرضی سوالات ہیں‘ کوئی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا۔ اور فرضی سوالات کرنا قبیح بات ہے۔ اللہ تعالیٰ کو تو علم تھا کہ حقیقتاً یہ واقعہ ہوچکا ہے‘ اس لیے اللہ تعالیٰ نے وحی اتاری۔
(3) ان شاء اللہ لعان کی تفصیل آگے آئے گی۔
(4) ”تین طلاقیں دے دیں“ اور رسول اللہﷺ نے انہیں منع نہیں فرمایا۔ ظاہراً اس روایت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ تین طلاقیں اکٹھی دینا جائز نہیں۔ باقی رہا مسئلہ کہ عویمر نے تین طلاقیں دیں‘ تو ان کا یہ فعل ناواقفیت کی بنا پر تھا‘ لعان کے بعد اس کی ضرورت ہی نہیں تھی‘ اس لیے اس واقعے سے بہ یک وقت تین طلاقیں دینے کا جواز ثابت نہیں ہوتا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3431
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3496
´لعان کے آغاز کا بیان۔`
سہل بن سعد رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ عاصم بن عدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ قبیلہ بنی عجلان کا ایک شخص عویمر میرے پاس آیا اور کہنے لگا: عاصم! بھلا بتاؤ تو صحیح؟ ایک آدمی اپنی بیوی کے ساتھ ایک غیر شخص کو دیکھتا ہے، اگر وہ اسے قتل کر دیتا ہے تو کیا تم لوگ اسے قتل کر دو گے یا وہ کیا کرے؟ عاصم میرے واسطے یہ مسئلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھو تو عاصم رضی اللہ عنہ نے اس کے متعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3496]
اردو حاشہ:
(1) خاوند اپنی بیوی کو زنا کی حالت میں دیکھے لیکن اس کے علاوہ موقع کا کوئی گواہ موجود نہ ہو تو شریعت نے خاوند کے لیے رعایت رکھی ہے‘ ورنہ عام آدمی ایسی حالت میں یہ بات افشا نہیں کرسکتا۔ اسے خاموش رہنا پڑے گا لیکن خاوند کو اجازت ہے کہ وہ عدالت میں پیش ہو۔ عدالت عورت کو بھی طلب کرے گی اور دونوں سے قسمیں لے گی۔ اگر ان میں سے کوئی قسمیں کھانے سے انکار کردے تو اسے سزاد دی جائے گی۔ مرد کو تہمت کی اور اور عورت کو زنا کی۔ اگر دونوں قسمیں کھائیں تو عدالت ان کا نکاح ختم کردے گی اور کسی کو کچھ نہیں کہے گی۔ لعان کا طریقہ تفصیلاً آگے آرہا ہے۔ (باقی تفصیل کے لیے دیکھیے‘ حدیث:3431)
(2) لایعنی سوال کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔ ایسے مسائل کی حوصلہ شکنی کی جاسکتی ہے۔
(3) بعض امور اگرچہ قبیح ہوتے ہیں لیکن مبتلا آدمی کا اس کے بارے میں سوال کرنا اور حل طلب کرنا مشروع ہے۔
(4) ناگزیر شرعی ضرورت کی بنا پر کسی کے مذموم اوصاف کا ذکر کرنا غیبت کے زمرے میں نہیں آتا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3496
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2245
´لعان کا بیان۔`
سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ عویمر بن اشقر عجلانی، عاصم بن عدی رضی اللہ عنہ سے آ کر کہنے لگے: عاصم! ذرا بتاؤ، اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے پاس کسی (اجنبی) شخص کو پا لے تو کیا وہ اسے قتل کر دے پھر اس کے بدلے میں تم اسے بھی قتل کر دو گے، یا وہ کیا کرے؟ میرے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مسئلہ پوچھو، چنانچہ عاصم رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلہ میں سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (بغیر ضرورت) اس طرح کے سوالات کو ناپسند فرمایا اور اس کی اس قدر برائی کی کہ عاصم رضی اللہ عنہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات گراں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2245]
فوائد ومسائل:
حضرت عويمر رضي الله عنه کا طلاق دینا گیرت اور غضب کی بناء پر تھا نہ کہ رسول اللہ ﷺ کے فرمان سے۔
(اس مسئلے کی وضاحت آگے حدیث نمبر 2250کے فائدے میں آرہی ہے۔
)
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2245
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2251
´لعان کا بیان۔`
سہل بن سعد رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں دونوں لعان کرنے والوں کے پاس موجود تھا، اور میں پندرہ سال کا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کے درمیان لعان کے بعد جدائی کرا دی، یہاں مسدد کی روایت پوری ہو گئی، دیگر لوگوں کی روایت میں ہے کہ: ”وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھے آپ نے دونوں لعان کرنے والے مرد اور عورت کے درمیان جدائی کرا دی تو مرد کہنے لگا: اللہ کے رسول! اگر میں اسے رکھوں تو میں نے اس پر بہتان لگایا۔“ ابوداؤد کہتے ہیں کہ سفیان ابن عیینہ کی کسی نے اس بات پر متابعت نہیں کی کہ: ”آپ صلی اللہ علیہ و۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2251]
فوائد ومسائل:
ان زوجین میں تفریق فسخ کی بناء پر تھی نہ کہ طلاق کی بناء پر کیونکہ یہ طلاق رسول اللہ ﷺ کے فرمان سے نہ تھی جیسے کہ پیچھے گزرا ہے۔
اور تفریق کا مطلب یہاں یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے لعان کا یہ حکم بیان کیا کہ اس کے بعد دونوں میاں بیوی اکٹھے نہیں رہ سکتے۔
ان کے درمیان ہمیشہ کے لیے جدائی (تفریق) ہوگئی ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2251
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3743
حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ عویمر عجلانی رضی اللہ تعالی عنہ، حضرت عاصم بن عدی انصاری رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس آئے اور ان سے پوچھا، اے عاصم! آپ مجھے بتائیں، اگر کوئی آدمی اپنی بیوی کے ساتھ کسی دوسرے مرد کو پائے تو کیا اسے قتل کر دے اور تم اسے (قاتل کو) قتل کر دو؟ یا وہ کیا کرے؟ تو آپ میری خاطر رسول اللہ سے پوچھ کر بتائیں، اے عاصم! تو عاصم رضی اللہ تعالی عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا، آپ نے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:3743]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
لعان:
ملاعنة اور تلاعنکا معنی ہوتا ہے،
خاوند بیوی کا ایک دوسرے پر لعنت بھیجنا اور شرعی طور پر اس کا معنی یہ ہے کہ ایک مرد اپنی بیوی پر زنا کی تہمت لگاتا ہے،
لیکن اس کے پاس کوئی چار گواہ نہیں ہیں تو وہ شرعی قاضی کے پاس جاتا ہے،
تو قاضی دونوں کو بلا کر تلقین ونصیحت کرتا ہے،
اگر دونوں اپنی اپنی بات پراصرار کریں،
تو پھر وہ ان سے گواہیاں لیتا ہے،
اور آغاز مرد سے کرتا ہے،
وہ چار بار کہتا ہے،
میں اللہ تعالیٰ کو اس بات پر گواہ بناتا ہوں کہ اس نے فلاں مرد سے زنا کیا ہے اور میں اس بات میں سچا ہوں اور پانچویں بار کہے گا،
اگر میں اس بات میں جھوٹا ہوں تو مجھ پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو،
اس کے بعد عورت چار بار الگ الگ کہے گی،
میں اللہ کو گواہ بناتی ہوں کہ میرا خاوند،
مجھ پر تہمت لگانے میں جھوٹا ہے اور پانچویں بار کہے گی،
اگر میرا خاوند اس تہمت لگانے میں سچا ہو تو مجھ پر اللہ کا غضب نازل ہو،
لعان سے وہ عورت،
اپنے خاوند سے جدا ہو جائے گی،
اور اب ان میں کسی صورت میں بھی نکاح کی گنجائش نہیں رہے گی اور اگر عورت حاملہ ہوتو بچہ عورت کی طرف منسوب ہو گا،
باپ کا وارث نہیں ہو گا اور نہ اس کی طرف منسوب ہو گا اور چونکہ گواہیوں کا آغاز مرد کرتا ہے اور اس کی حیثیت مضبوط ہے،
وہی لعان کرتا ہے اور اپنی پانچویں گواہی میں،
اپنے لیے لعنت کی بددعا کرتا ہے،
اس لیے،
اس شہادت کو لعان کا نام دیا گیا ہے،
اور لعان کا یہ واقعہ پہلی دفعہ شعبان 10ہجری میں پیش آیا ہے،
ائمہ احناف کے نزدیک لعان،
ان گواہیوں کا نام ہے جن کو اللہ کی قسم کے ذریعہ مؤکد کیا گیا ہے جن میں لعنت ہے اور ائمہ ثلاثہ مالک،
شافعی اور احمد کے نزدیک،
ان قسموں کا نام ہے جن کو شہادت کے لفظ سے مؤکد کیا گیا ہے۔
اس لیے اہلیت قسم ہونے کے سبب،
مسلمان اور اس کی کافر بیوی،
اور کافر میاں بیوی میں لعان ہو سکتا ہے،
لیکن احناف کے نزدیک اس کے لیے اہلیت شہادت کا ہونا ضروری ہے اور یہ اہلیت مسلمان،
بالغ،
عاقل،
اور ان کے بقول جس پر حد قذف نہ لگ چکی ہو،
پائی جاتی ہے۔
اس لیے صرف مسلمان میاں بیوی میں ہی مذکورہ شروط کی موجودگی میں لعان ہو سکے گا۔
فوائد ومسائل:
1۔
حضرت عاصم بن عدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ،
حضرت عویمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے باپ کے چچا زاد تھے اور عجلان قبیلہ کے سربراہ تھے،
اور عویمر کی بیوی حضرت عاصم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیٹی یا بھتیجی تھی اس لیے عویمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سوال کے لیے ان کا انتخاب کیا۔
2۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سوال کو اس لیے ناپسند فرمایا کہ آپ سمجھتے تھے یہ واقعہ پیش نہیں آیا ہے،
اس لیے یہ سوال بلا ضرورت اور بلا محل ہے اور بلاوجہ کسی مسلمان مرد اور عورت کی پردہ ذری ہے اور اس سے بے حیائی کی اشاعت کا موقع پیدا ہوتا ہے۔
ہاں ایسا سوال جو کسی پیش آمدہ واقعہ کے بارے میں ہو محض تکلف اور بال کی کھال اتارنے کے لیے نہ ہو،
تو وہ پوچھنا چاہیے۔
اس لیے آپ ایسے سوالات کے بلا تکلف جو بات مرحمت فرماتے تھے۔
اس لیے جب عویمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتا دیا کہ حضور میں اس سے دوچار ہو چکا ہوں تو یہ آیات نازل ہوئیں اور یہ واقعہ ہلال بن امیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ بھی پیش آ چکا تھا اس لیے اس نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا جیسا کہ آگے آ رہا ہے،
اس کے بعد ان آیات کا نزول ہوا تو جب دوبارہ عویمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے،
اس وقت آیات نازل ہو چکی تھیں،
اس لیے یہ آیات دونوں کے واقعہ پر چسپاں ہوتی ہیں کیونکہ وہ یکساں ہیں اس لیے دونوں کو سبب نزول ٹھہرانا درست ہے۔
3۔
حضرت عویمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا تصور یہ تھا کہ لعان کرنے سے میاں بیوی میں جدائی ہوتی،
اس لیے انھوں نے تفریق پیدا کرنے کی خاطر بیوی کو تین طلاقیں دے دیں،
اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر انکار اس لیے نہ کیا کہ اس کی ضرورت نہ تھی۔
اس لیے بعض حضرات کا یہ کہنا کہ لعان سے تفریق نہیں ہوتی،
جب تک کہ خاوند طلاق نہ دے،
درست نہیں ہے،
لعان ہی تفریق کا باعث ہے۔
4۔
لعان کا یہ واقعہ مسجد نبوی میں جمعہ کے دن عصر کے بعد ہوا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3743
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4745
4745. حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے کہ حضرت عویمر بن حارث ؓ حضرت عاصم بن عدی ؓ کے پاس آئے جو (عویمر کے) قبیلہ بنو عجلان کے سردار تھے اور ان سے پوچھا: اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو کسی غیر مرد کے ساتھ دیکھے تو تم اس بارے میں کیا کہتے ہو؟ اگر وہ اس کو مار ڈالے تو تم لوگ بھی اسے مار ڈالو گے؟ پھر وہ کیا کرے؟ آپ میرے لیے رسول اللہ ﷺ سے اس مسئلے کا حل دریافت کریں، چنانچہ حضرت عاصم بن عدی ؓ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی: اللہ کے رسول! (اس مسئلے کا کیا حل ہے؟) رسول اللہ ﷺ نے اس قسم کے سوالات کو برا خیال کیا۔ پھر جب حضرت عویمر ؓ نے حضرت عاصم ؓ سے اپنے مسئلے کا جواب پوچھا تو وہ کہنے لگے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس قسم کے مسائل پوچھنے کو ناپسند کیا اور معیوب قرار دیا ہے۔ حضرت عویمر ؓ نے کہا: اللہ کی قسم! میں تو رسول اللہ ﷺ سے اس مسئلے کا حل پوچھ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4745]
حدیث حاشیہ:
اگر میاں بیوی کو کسی ساتھ زنا کی حالت میں دیکھ لے توممکن ہے کہ وہ دوسروں کو اسے دکھانا پسند کرے۔
ادھر شریعت میں زنا کے احکام جتنے سخت ہیں، اس کی سزا بھی اتنی ہی سخت ہے جتنا ثبوت پہنچانا سخت ہے۔
زنا کی شرعی سزا اس وقت دی سکتی ہے جب چار عادل گواہ عین حالت زنا میں مرد وعورت کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کی صاف لفظوں میں گواہی دیں۔
اگر کسی نے کسی پر زنا کا الزام لگایا اور اسلامی قانون کے مطابق وہ گواہی نہ دے سکا تو اس کی بھی سزا بہت سخت ہے۔
اب اگر ایک غیرت مند میاں بیوی کو اس بے حیائی میں گرفتار دیکھتا ہے تو اس کے لئے دہری مصیبت ہے۔
نہ اسے اتنی مہلت مل سکتی ہے کہ چار گواہوں کو لا کر دکھائے اور نہ وہ خود اسے گوارا ہی کر سکتا ہے۔
ایسی صورت میں اگر وہ اپنی بیوی پر زنا کا الزام لگاتا ہے تو الزام زنا کی حد کا وہ مستحق ٹھہرتا ہے اور اگر خاموش رہتا ہے تو یہ بھی اس کے لئے بے حیائی ہے اور اگر قانون اپنے ہاتھ میں لیتا ہے اور خود کوئی حرکت کر بیٹھتا ہے تو اسے پھر قانون شکنی کی سزا بھگتنی پڑتی ہے۔
ایسی ہی ایک صورت حال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں بھی پیش آگئی تھی۔
قرآن مجید نے اس کا حل یہ بتایا کہ میاں کو اسلامی عدالت میں اپنی بیوی کے سا تھ لعان کرنا چاہئے۔
لعان یہ ہے کہ میاں عدالت میں کھڑا ہو کر یہ کہے کہ ”میں اللہ کی قسم کھاتا ہوں کہ میں نے اپنی بیوی پر جو زنا کا الزام لگایا ہے اس میں میں سچا ہوں۔
یہ الفاظ چار مرتبہ وہ کہے اور پانچویں مرتبہ کہے کہ ”مجھ پر اللہ کی لعنت ہو اگر میں اپنے اس الزام میں جھوٹا ہوں۔
“ اب اگر عورت اپنے میاں کے اس الزام کا انکار کرتی ہے تو اس سے بھی کہا جائے گا کہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر کہے کہ ”بلا شبہ اس کا شوہر زنا کی اس الزام دہی میں جھوٹا ہے۔
“ اور پانچویں مرتبہ کہے کہ ”مجھ پر اللہ کا غضب ہو اگر مرد سچا ہے۔
“ اگر اس نے میاں کے الزام کی اس طرح سے تردید کر دی تو اس پر زنا کی حد نہیں لگائی جائے گی۔
یہی وہ طریقہ ہے جو قرآن مجید نے بتایا ہے۔
لعان کے بعد میاں بیوی میں جدائی ہو جائے گی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4745
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4746
4746. حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول! بتائیں اگر کوئی شخص کسی دوسرے کو اپنی بیوی کے ہمراہ مصروف کار دیکھے تو کیا وہ اسے قتل کر دے؟ اس صورت میں آپ اسے بھی (قصاص میں) قتل کر دیں گے؟ یا پھر وہ کیا کرے؟ اللہ تعالٰی نے ان کے متعلق لعان کا حکم نازل فرمایا جو قرآن میں ذکر کیا گیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا: ”تمہارے اور تمہاری بیوی کے متعلق فیصلہ ہو چکا ہے۔“ چنانچہ ان دونوں نے لعان کیا۔ میں اس وقت رسول اللہ ﷺ کے پاس موجود تھا۔ آپ نے اس عورت کو اس سے علیحدہ کر دیا۔ اب یہی طریقہ رائج ہو گیا کہ لعان کرنے والوں کے درمیان علیحدگی کر دی جائے۔ وہ عورت حاملہ تھی۔ مرد نے اس حمل کا انکار کر دیا تو اس کا بیٹا ماں کی طرف منسوب ہو کر پکارا جاتا تھا۔ پھر وراثت کے متعلق یہ طریقہ جاری ہوا کہ وہ لڑکا اپنی ماں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4746]
حدیث حاشیہ:
لعان کا بچہ اپنے باپ کا تو وارث نہ ہوگا کیونکہ باپ نے اپنا بیٹا ہونے سے انکار کیا ہے ماں کا وارث ضرور ہوگا۔
اس لئے کہ ماں نے اس کا ولد الزنا ہونا تسلیم نہیں کیا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4746
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5309
5309. سیدنا سہل بن سعد ؓ جو بنو ساعدہ سے ہیں، ان سے روایت ہے کہ انصار کا ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور عرض کی: اللہ کے رسول! آپ اس آدمی کے متعلق کیا کہتے ہیں جو اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر مرد کو دیکھے، کیا وہ اسے قتل کر دے یا اسے کیا کرنا چاہئے؟ تو اس وقت اللہ تعالٰی نے قرآن مجہد میں وہ آیات نازل فرمائیں جن میں لعان کرنے والوں کے متعلق تفصیلات ہیں۔ نبی ﷺ نے (ان سے) فرمایا: ”اللہ تعالٰی نے تمہارے اور تمہاری بیوی کے متعلق فیصلہ کر دیا ہے۔“ پھر میاں بیوی دونوں نے مسجد میں لعان کیا۔ میں اس وقت وہاں موجود تھا۔ جب دونوں لعان سے فارغ ہوئے تو انصاری صحابی نے عرض کی: اللہ کے رسول! اگر اب بھی میں اسے اپنے نکاح میں رکھوں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ میں نے اس پر جھوٹی تہمت لگائی تھی چانچہ لعان سے فراغت کے فوراً بعد رسول اللہ ﷺ کے حکم سے پہلے ہی اس نے تین طلاقیں دے دیں اور نبی ﷺ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5309]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے علم قیافہ کا معتبر ہونا پایا جاتا ہے۔
مگر ہم کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بالہام غیبی علم قیا فہ کی وہ بات بتلائی جاتی جو حقیقت میں سچ ہوتی۔
دوسرے لوگ اس علم کی رو سے قطعاً کو ئی حکم نہیں دے سکتے۔
امام شافعی نے بھی علم قیافہ کو معتبر رکھا ہے، پھر بھی یہ علم یقینی نہیں بلکہ ظنی ہے۔
وحرہ (چھپکلی کے مانند ایک زہریلا جانور، پستہ قد عورت یا اونٹ کی تشبیہ اس سے دیتے ہیں)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5309
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5259
5259. سیدنا سہل بن سعد ساعد ؓ سے روایت ہے کہ سیدنا عویمر عجلانی ؓ سیدنا عاصم بن عدی انصاری ؓ کے پاس آئے اور ان سے کہا: اے عاصم! تمہارا کیا خیال ہے اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر مرد کو پائے تو کیا وہ اسے قتل کر سکتا ہے، اس صورت میں تم اس (شوہر) کو بھی قتل کر دو گے یا پھر وہ (شوہر) کیا کرے؟ اے عاصم! میرے لیے یہ مئسلہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھ کر بتاؤ، چنانچہ سیدنا عاصم ؓ نے جب یہ مسئلہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا تو رسول اللہ ﷺ نے اس قسم کے سوالات کو ناپسند فرمایا اور انہیں معیوب قرار دیا جو کہ سیدنا عاصم ؓ سے سنی تھے۔ جب عاصم ؓ اپنے گھر آئے تو حضرت عویمر ؓ نے آ کر ان سے پوچھا: اے عاصم! رسول اللہ ﷺ نے آپ سے کیا فرمایا ہے؟ سیدنا عاصم ؓ نے کہا: تم نے تو مجھے آفت میں ڈال دیا ہے کیونکہ جو سوال تم نے پوچھا وہ رسول اللہ ﷺ کو بہت ناگوار گزرا۔ سیدنا عویمر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5259]
حدیث حاشیہ:
کہ لعان کے بعد وہ مل کر نہیں رہ سکتے بلکہ ہمیشہ کے لیے ایک دوسرے سے جدا ہو جاتے ہیں۔
یہ حدیث ان لوگوں کی دلیل ہے جو کہتے ہیں تین طلاق اکٹھا دے دے تب بھی تینوں پڑ جاتی ہیں۔
اہلحدیث یہ جواب دیتے ہیں کہ عویمر رضی اللہ عنہ نے نادانی سے یہ فعل کیا کیونکہ اس کو یہ معلوم نہ تھا کہ خود لعان سے مرد اور عورت میں جدائی ہو جاتی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر انکار اس وجہ سے نہیں کی کہ وہ عورت اب اس کی عورت نہ رہی تھی تو تین طلاق کیا اگر ہزار طلاق دیتا تب بھی بیکار تھی۔
ہاں اگر لعان نہ ہوا ہوتا تو آپ ضرور اس پر انکار کرتے اور فرماتے کہ ایک ہی طلاق پڑی ہے جیسے محمود بن لبید نے روایت کیا ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا کہ ایک مرد نے اپنی عورت کو تین اکٹھی طلاق دے دی ہیں۔
آپ غصہ ہوئے اور فرمایا کیا کتاب اللہ سے کھیل کرتے ہو، ابھی میں تم میں موجود ہوں تو یہ حال ہے۔
اس کو نسائی نے نکالا اس کے راوی ثقہ ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5259
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7304
7304. سیدنا سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے،انہوں نے کہا: سیدنا عویمر عجلانی ؓ سیدنا عاصم بن عدی ؓ کے پاس آئے اور کہا: اس شخص کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ مرد کو پائے اور اس سے قتل کر دیں گے؟ اے عاصم! آپ رسول اللہ ﷺ سے میرے لیے یہ مسلہ دریافت کریں۔ انہوں نے آپ ﷺ سے اس کے متعلق پوچھا تو نبی ﷺ نے اس طرح کے سوالات کو ناپسند فرمایا اور معیوب خیال کیا۔ سیدنا عاصم ؓ نے واپس آکر انہیں بتایا کہ نبی ﷺ نے اس طرح کے سوالات کو ناپسند فرمایا ہے۔ سیدنا عویمر ؓ نے کہا: اللہ کی قسم! میں خود نبی ﷺ کے پاس جاتا ہوں۔ پھر وہ آئے جبکہ اللہ تعالیٰ نے سیدنا عاصم ؓ کے واپس جانے کے بعد قرآن کی آیات آپ پر نازل کر دی تھیں۔ آپ ﷺ نے ان سے فرمایا: ”تمہارے متعلق اللہ تعالیٰ نے قرآن نازل کیا ہے۔“ پھر آپ نے دونوں (میاں بیوی) کو بلایا۔ وہ دونوں آئے اور لعان کیا۔ پھر عویمر نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7304]
حدیث حاشیہ:
ترجمہ باب اس سے نکلتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے سولات کو برا جانا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7304
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4745
4745. حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے کہ حضرت عویمر بن حارث ؓ حضرت عاصم بن عدی ؓ کے پاس آئے جو (عویمر کے) قبیلہ بنو عجلان کے سردار تھے اور ان سے پوچھا: اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو کسی غیر مرد کے ساتھ دیکھے تو تم اس بارے میں کیا کہتے ہو؟ اگر وہ اس کو مار ڈالے تو تم لوگ بھی اسے مار ڈالو گے؟ پھر وہ کیا کرے؟ آپ میرے لیے رسول اللہ ﷺ سے اس مسئلے کا حل دریافت کریں، چنانچہ حضرت عاصم بن عدی ؓ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی: اللہ کے رسول! (اس مسئلے کا کیا حل ہے؟) رسول اللہ ﷺ نے اس قسم کے سوالات کو برا خیال کیا۔ پھر جب حضرت عویمر ؓ نے حضرت عاصم ؓ سے اپنے مسئلے کا جواب پوچھا تو وہ کہنے لگے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس قسم کے مسائل پوچھنے کو ناپسند کیا اور معیوب قرار دیا ہے۔ حضرت عویمر ؓ نے کہا: اللہ کی قسم! میں تو رسول اللہ ﷺ سے اس مسئلے کا حل پوچھ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4745]
حدیث حاشیہ:
1۔
اگر کوئی شخص کسی غیر عورت پر تہمت لگائے تو اس کا فیصلہ شہادتوں کی بنا پر ہوگا اور اگر اپنی بیوی پر الزام لگائے تو اس کا فیصلہ لعان کی صورت میں ہوگا جس کی صورت حسب ذیل ہے۔
پہلے خاوند عدالت میں یا حاکم مجاز ک سامنے چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر یہ کہے گا کہ وہ اپنی بیوی پر زنا کی تہمت لگانے میں سچا ہے اور پانچویں مرتبہ کہے گا:
اگر وہ جھوٹا ہے تو اس پر اللہ کی لعنت ہو پھر بیوی خاوند کے جواب میں چار مرتبہ اللہ کی قسم اٹھا کریہ کہہ دے کہ میرا خاوند جھوٹا ہے اور پانچویں مرتبہ کہے:
اگر اس کا خاوند سچا ہے تو مجھ پر اللہ کا غضب نازل ہو۔
اس صورت میں وہ زنا کی سزا سے بچ جائے گی۔
اس کے بعد میاں بیوی کے درمیان ہمیشہ کے لیے جدائی ہو جائے گی اور وہ دونوں زندگی میں کبھی میاں بیوی کی زندگی نہیں گزارسکیں گے۔
2۔
قسم کھانے کے دوران میں قاضی فریقین کو اللہ سے ڈرکر صحیح بات کی تلقین کرتا رہے۔
اگرخاوند اپنے دعویٰ سے رک جائے تو اس پر حد قذف لگے گی اور اگرمرد کی طرف سے قسمیں اٹھانے کے بعد عورت رک جائے تو اس نے گویا اپنے جرم کا اقرار کرلیا۔
اس صورت میں اسے رجم کیا جائے گا۔
لعان کے بعد مرد طلاق دے یا نہ دے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، دونوں میاں بیوی میں ہمیشہ کے لیے جدائی اور از خود واقع ہو جاتی ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4745
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4746
4746. حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول! بتائیں اگر کوئی شخص کسی دوسرے کو اپنی بیوی کے ہمراہ مصروف کار دیکھے تو کیا وہ اسے قتل کر دے؟ اس صورت میں آپ اسے بھی (قصاص میں) قتل کر دیں گے؟ یا پھر وہ کیا کرے؟ اللہ تعالٰی نے ان کے متعلق لعان کا حکم نازل فرمایا جو قرآن میں ذکر کیا گیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا: ”تمہارے اور تمہاری بیوی کے متعلق فیصلہ ہو چکا ہے۔“ چنانچہ ان دونوں نے لعان کیا۔ میں اس وقت رسول اللہ ﷺ کے پاس موجود تھا۔ آپ نے اس عورت کو اس سے علیحدہ کر دیا۔ اب یہی طریقہ رائج ہو گیا کہ لعان کرنے والوں کے درمیان علیحدگی کر دی جائے۔ وہ عورت حاملہ تھی۔ مرد نے اس حمل کا انکار کر دیا تو اس کا بیٹا ماں کی طرف منسوب ہو کر پکارا جاتا تھا۔ پھر وراثت کے متعلق یہ طریقہ جاری ہوا کہ وہ لڑکا اپنی ماں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4746]
حدیث حاشیہ:
لعان کے بعد مرد، عورت سے حق مہر یا دیگر اخراجات کی واپسی کا مطالبہ نہیں کرسکتا، نیز دوران عدت میں عورت کا نان ونفقہ یا رہائش وغیرہ مرد کے ذمے نہ ہوگی۔
پیدا ہونے والا بچہ ماں کی طرف منسوب ہوگا۔
زانی یا خاوند کی طرف اسے منسوب نہیں کیا جائے گا۔
اگروضع حمل کےبعد عورت قرائن کی بنا پر مجرم ثابت ہوجائے توبھی اسے سنگسار نہیں کیا جائے گا، چونکہ خاوند اس لڑکے سے انکار کررہا ہے، اس لیے لعان کا بچہ خاوند کا وارث نہیں ہوگا لیکن ماں کا وارث ہوگا کیونکہ اس نے اسے ولد الزنا ہونا تسلیم نہیں کیا۔
واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4746
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5259
5259. سیدنا سہل بن سعد ساعد ؓ سے روایت ہے کہ سیدنا عویمر عجلانی ؓ سیدنا عاصم بن عدی انصاری ؓ کے پاس آئے اور ان سے کہا: اے عاصم! تمہارا کیا خیال ہے اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر مرد کو پائے تو کیا وہ اسے قتل کر سکتا ہے، اس صورت میں تم اس (شوہر) کو بھی قتل کر دو گے یا پھر وہ (شوہر) کیا کرے؟ اے عاصم! میرے لیے یہ مئسلہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھ کر بتاؤ، چنانچہ سیدنا عاصم ؓ نے جب یہ مسئلہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا تو رسول اللہ ﷺ نے اس قسم کے سوالات کو ناپسند فرمایا اور انہیں معیوب قرار دیا جو کہ سیدنا عاصم ؓ سے سنی تھے۔ جب عاصم ؓ اپنے گھر آئے تو حضرت عویمر ؓ نے آ کر ان سے پوچھا: اے عاصم! رسول اللہ ﷺ نے آپ سے کیا فرمایا ہے؟ سیدنا عاصم ؓ نے کہا: تم نے تو مجھے آفت میں ڈال دیا ہے کیونکہ جو سوال تم نے پوچھا وہ رسول اللہ ﷺ کو بہت ناگوار گزرا۔ سیدنا عویمر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5259]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ یکبارگی تین طلاقیں دی جا سکتی ہیں، لیکن کیا تینوں نافذ ہوں گی یا ایک؟ اس حدیث سے کچھ بھی ثابت نہیں ہوتا۔
ہمارے رجحان کے مطابق حضرت عویمر رضی اللہ عنہ نے جذبات میں یہ کام کر ڈالا۔
شاید انھیں معلوم نہ تھا کہ خود لعان کرنے سے ہی خاوند اور بیوی کے درمیان جدائی ہو جاتی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر اس وجہ سے انکار نہیں کیا کہ لعان کرنے سے وہ عورت اس کی بیوی نہیں رہتی، لہٰذا تین طلاقیں کیا اگر وہ ہزار طلاق بھی دے دے تو بھی بےسود اور بے کار ہیں ہاں، اگر لعان نہ ہوتا تو آپ اس کا ضرور انکار کرتے جیسا کہ حدیث میں ہے۔
حضرت محمود بن لبید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک آدمی نے اپنی بیوی کو اکٹھی تین طلاقیں دے دیں تو آپ بہت ناراض ہوئے اور آپ نے غصے ہو کر فرمایا:
”میری موجودگی میں تم لوگوں نے اللہ کی کتاب کے ساتھ کھیلنا شروع کر دیا ہے۔
“ آپ کی برہمی کو دیکھ کرایک آدمی نے عرض کی:
اللہ کے رسول! آپ مجھے اجازت دیں میں اسے قتل کر دوں۔
(سنن النسائي، الطلاق، حدیث: 3430) (2)
جو حضرات اس حدیث سے یہ مسئلہ کشید کرتے ہیں کہ ایک ہی بار اکٹھی طلاقیں دینے سے تینوں واقع ہو جاتی ہیں ان کا یہ موقف انتہائی محل نظر ہے۔
والله اعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5259
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5308
5308. سیدنا سہل بن سعد ساعدی ؓ سے روایت ہے کہ عویمر عجلانی، سیدنا عاصم بن عدی ؓ کے پاس آئے اور ان سے کہا: اے عاصم! مجھے اس آدمی کے متعلق بتاؤ جو اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر کو پائے تو کیا اسے قتل کرے؟ لیکن پھر اپ لوگ اسے بھی قتل کر دیں گے۔ آخر اسے کیا کرنا چاہیے؟ اے عاصم! میرے لیے یہ مسئلہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھ دو، چنانچہ عاصم ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے یہ مسئلہ پوچھا تو رسول اللہ ﷺ نے اس طرح کے سوالات کو نا پسند فرمایا اور اظہار ناگواری کیا حتیٰ کہ عاصم ؓ نے اس سلسلے میں جو کچھ رسول اللہ ﷺ سے سنا وہ ان پر بہت گراں گزرا۔ جب عاصم ؓ اپنے گھر واپس آئے تو عویمر ان کے پاس آئے اور کہا: اے عاصم! تمہیں رسول اللہ ﷺ نے کیا جواب دیا؟عاصم نے عویمر سے کہا: تم نے میرے ساتھ کوئی اچھا سلوک نہیں کیا۔ جو مسئلہ تم نے پوچھا رسول اللہ ﷺ نے اسے ناپسند فرمایا سیدنا عویمر ؓ نے کہا: اللہ کی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5308]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس مسئلے میں اہل علم کا اختلاف ہے کہ جب میاں بیوی لعان کر چکے ہوں تو صرف لعان سے دونوں میں علیحدگی واقع ہو گی یا لعان سے فراغت کے بعد حاکم وقت ان میں تفریق کرے یا پھر شوہر کی طلاق سے ان میں جدائی ہو گی۔
امام مالک شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ صرف لعان ان کے درمیان علیحدگی کا باعث ہے جبکہ امام ثوری اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میاں بیوی میں اس وقت تک جدائی نہیں ہوگی جب تک حاکم وقت فیصلہ نہ کرے اس سلسلے میں عثمان البتی کا موقف ہے کہ جب تک شوہر جدا نہ کرے میاں بیوی میں علیحدگی نہیں ہوگی کیونکہ قرآن کریم میں علیحدگی کا کوئی ذکر نہیں اور ظاہر حدیث کے مطابق خاوند ہی نے اسے طلاق دے کر فارغ کیا ہے۔
(فتح الباري: 553/9)
اس آخری انتہا کے مقابلے میں دوسری انتہا یہ ہے کہ قذف ہی سے علیحدگی ہو جائے گی، خواہ لعان کرنے کی نوبت نہ آئے۔
ہمارے رجحان کے مطابق جب میاں بیوی دونوں لعان سے فارغ ہوں گے تو خود بخود علیحدگی ہو جائے گی، خواہ حاکم تفریق نہ بھی کرے کیونکہ لعان کے بعد وہ عورت ہمیشہ کے لیے اس شوہر پر حرام ہو چکی ہے، لہٰذا اگر وہ اکٹھے رہنا بھی چاہیں تو کسی صورت میں بھی اکٹھے نہیں رہ سکتے۔
(2)
حدیث میں اگر شوہر کا طلاق دینا مذکور ہے لیکن اس سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کوئی حکم نہیں دیا جیسا کہ حدیث میں اس کی بات صراحت ہے، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش اس لیے رہے کہ اب علیحدگی تو ہوچکی ہے، خواہ طلاق دے یا نہ دے۔
یہ شخص جذبات میں آ کر اسے طلاق دے رہا تھا اور نفرت کے جذبات کا اظہار کر رہا تھا، اس لیے آپ خاموش رہے کہ ایسی عورت قابل نفرت ہی ہے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5308
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5309
5309. سیدنا سہل بن سعد ؓ جو بنو ساعدہ سے ہیں، ان سے روایت ہے کہ انصار کا ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور عرض کی: اللہ کے رسول! آپ اس آدمی کے متعلق کیا کہتے ہیں جو اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر مرد کو دیکھے، کیا وہ اسے قتل کر دے یا اسے کیا کرنا چاہئے؟ تو اس وقت اللہ تعالٰی نے قرآن مجہد میں وہ آیات نازل فرمائیں جن میں لعان کرنے والوں کے متعلق تفصیلات ہیں۔ نبی ﷺ نے (ان سے) فرمایا: ”اللہ تعالٰی نے تمہارے اور تمہاری بیوی کے متعلق فیصلہ کر دیا ہے۔“ پھر میاں بیوی دونوں نے مسجد میں لعان کیا۔ میں اس وقت وہاں موجود تھا۔ جب دونوں لعان سے فارغ ہوئے تو انصاری صحابی نے عرض کی: اللہ کے رسول! اگر اب بھی میں اسے اپنے نکاح میں رکھوں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ میں نے اس پر جھوٹی تہمت لگائی تھی چانچہ لعان سے فراغت کے فوراً بعد رسول اللہ ﷺ کے حکم سے پہلے ہی اس نے تین طلاقیں دے دیں اور نبی ﷺ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5309]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بڑے بڑے معاملات کا فیصلہ بڑی بڑی مساجد میں ہونا چاہیے تاکہ لوگوں کو ان کی اہمیت کا علم ہو، اس لیے مدینہ طیبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منبر کے پاس، مکہ مکرمہ میں حجرا سود اور مقام ابراہیم کے درمیان، مسجد قدس میں صخره کے نزدیک اور ان کے علاوہ دیگر مقامات پر شہر کی بڑی بڑی مساجد میں اس کا اہتمام ہونا چاہیے، اسی طرح لعان کا معاملہ عصر کے بعد نمٹایا جائے کیونکہ اس وقت میں جھوٹی قسم اٹھانا بہت خطرناک اور مشکل معاملہ ہے۔
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ لعان مسجد میں ہونا چاہیے ہاں، اگر عورت حائضہ ہے تو مسجد کے دروازے پر اس کا اہتمام کیا جائے کیونکہ حائضہ عورت کا مسجد میں ٹھہرنا جائز نہیں۔
(عمدةالقاري: 324/14) (2)
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان اور پیش کردہ حدیث سے احناف کی تردید کی ہے کیونکہ ان حضرات کے نزدیک مسجد میں لعان ضروری نہیں بلکہ یہ حاکم وقت کی صوابدید پر موقوف ہےوہ جہاں چاہے اس کا اہتمام کر سکتا ہے۔
(فتح الباري: 560/9)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5309
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7304
7304. سیدنا سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے،انہوں نے کہا: سیدنا عویمر عجلانی ؓ سیدنا عاصم بن عدی ؓ کے پاس آئے اور کہا: اس شخص کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ مرد کو پائے اور اس سے قتل کر دیں گے؟ اے عاصم! آپ رسول اللہ ﷺ سے میرے لیے یہ مسلہ دریافت کریں۔ انہوں نے آپ ﷺ سے اس کے متعلق پوچھا تو نبی ﷺ نے اس طرح کے سوالات کو ناپسند فرمایا اور معیوب خیال کیا۔ سیدنا عاصم ؓ نے واپس آکر انہیں بتایا کہ نبی ﷺ نے اس طرح کے سوالات کو ناپسند فرمایا ہے۔ سیدنا عویمر ؓ نے کہا: اللہ کی قسم! میں خود نبی ﷺ کے پاس جاتا ہوں۔ پھر وہ آئے جبکہ اللہ تعالیٰ نے سیدنا عاصم ؓ کے واپس جانے کے بعد قرآن کی آیات آپ پر نازل کر دی تھیں۔ آپ ﷺ نے ان سے فرمایا: ”تمہارے متعلق اللہ تعالیٰ نے قرآن نازل کیا ہے۔“ پھر آپ نے دونوں (میاں بیوی) کو بلایا۔ وہ دونوں آئے اور لعان کیا۔ پھر عویمر نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7304]
حدیث حاشیہ:
1۔
اس طرح کا ایک واقعہ حضرت ہلال بن امیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پیش آیا جب انھوں نے اپنی بیوی کو شریک بن سحماء سے متہم کیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ہلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ سےفرمایا:
”گواہ لاؤ بصورت دیگر تمھاری پشت پر حد قذف لگے گی۔
“ آخر کار ان کے درمیان لعان ہوا۔
لعان کی تفصیل سورہ نور آیت 6 تا 9۔
میں بیان ہوئی ہے 2۔
لعان کے بعد مرد طلاق دے یا نہ دے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہمیشہ کے لیے جدائی خود بخود عمل میں آ جاتی ہے۔
مرد اپنی بیوی سے حق مہر یا دیگر اخراجات کی واپسی کا مطالبہ نہیں کر سکتا۔
لعان کے بعد دوران عدت میں عورت کا نان ونفقہ یا رہائش وغیرہ مرد کے ذمے نہیں ہوتی۔
پیدا ہونے والا بچہ ماں کی طرف منسوب ہو گا اور وہی اس کا وارث ہو گا۔
چنانچہ اس قسم کے مسائل اور سوالات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناپسند فرمایا:
اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسے بیان کیا ہے۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7304