Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب فَرْضِ الْخُمُسِ
کتاب: خمس کے فرض ہونے کا بیان
4. بَابُ مَا جَاءَ فِي بُيُوتِ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَا نُسِبَ مِنَ الْبُيُوتِ إِلَيْهِنَّ:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کے گھروں اور ان گھروں کا انہی کی طرف منسوب کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 3100
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ، حَدَّثَنَا نَافِعٌ سَمِعْتُ ابْنَ أَبِي مُلَيْكَةَ، قَالَ: قَالَتْ: عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا" تُوُفِّيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِي وَفِي نَوْبَتِي وَبَيْن سَحْرِي وَنَحْرِي وَجَمَعَ اللَّهُ بَيْنَ رِيقِي وَرِيقِهِ، قَالَتْ: دَخَلَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بِسِوَاكٍ فَضَعُفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْهُ، فَأَخَذْتُهُ فَمَضَغْتُهُ، ثُمَّ سَنَنْتُهُ بِهِ".
ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے نافع نے بیان کیا ‘ کہا کہ میں نے ابن ابی ملیکہ سے سنا۔ انہوں نے بیان کیا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے گھر ‘ میری باری کے دن ‘ میرے حلق اور سینے کے درمیان ٹیک لگائے ہوئے وفات پائی ‘ اللہ تعالیٰ نے (وفات کے وقت) میرے تھوک اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تھوک کو ایک ساتھ جمع کر دیا تھا ‘ بیان کیا (وہ اس طرح کہ) عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ (عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھائی) مسواک لیے ہوئے اندر آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے چبا نہ سکے۔ اس لیے میں نے اسے اپنے ہاتھ میں لے لیا اور میں نے اسے چبانے کے بعد وہ مسواک آپ کے دانتوں پر ملی۔
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3100 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3100  
حدیث حاشیہ:
وفات نبوی کے بعد کچھ لوگوں نے یہ وہم پھیلانا چاہا کہ رسو ل کریم ﷺ اپنی وفات کے وقت حضرت علی ؓ کو اپنا وصی قرار دے کر گئے ہیں۔
یہ بات حضرت عائشہ ؓ نے بھی سنی‘ اس پر آپ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کے آخری ایام پورے طور پر میرے حجرے میں گزرے۔
ان ایام میں ایک لمحہ بھی میں نے آپ کو تنہا نہیں چھوڑا۔
وفات کے وقت حضور ﷺ اپنا سرمبارک میرے سینے پر رکھے ہوئے تھے۔
ان حالات میں میں نہیں سمجھ سکتی کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت علی ؓ کو کب اپنا وصی قرار دے دیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3100   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1831  
´موت کی شدت۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی، تو اس وقت آپ کا سر مبارک میری ہنسلی اور ٹھوڑی کے درمیان تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنے کے بعد کبھی کسی کی موت کی سختی مجھے ناگوار نہیں لگتی ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 1831]
1831۔ اردو حاشیہ: موت بذات خود سب سے زیادہ تکلیف دہ چیز ہے۔ اس کے مقابلے میں دیگر تکالیف ہیچ ہیں۔ مومن کی اس تکلیف کا بھی ثواب ملتا ہے اور اس سے گناہ معاف ہوتے ہیں، لہٰذا اس کے لیے موت کی سختی رحمت بن جاتی ہے جبکہ وہ کافر و منافق کے لیے عذاب ہے، لہٰذا موت کی سختی یا نرمی کسی کے ایمان و کفر یا نفاق و فسق کی نشانی نہیں، موت کی سختی یا تکلیف صرف متعلقہ شخص ہی جانتا ہے، دیکھنے والا صحیح اندازہ نہیں لگا سکتا۔ جب موت کا عمل (فرشتوں والا) شروع ہو جاتا ہے تو پھر اس شخص کو ہوش نہیں رہتاکہ وہ موت کی سختی بیان کر سکے۔ (استغفراللہ)
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1831   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4446  
4446. حضرت عائشہ‬ ؓ ہ‬ی سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ کا سر مبارک وفات کے وقت میری ٹھوڑی اور سینے کے درمیان تھا۔ اور جب سے میں نے نبی ﷺ پر موت کی سختی دیکھی ہے، اس کے بعد موت کی سختی کو کسی کے لیے برا نہیں سمجھتی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4446]
حدیث حاشیہ:
رسول اللہ ﷺ پر موت بہت سخت واقع ہوئی چنانچہ حدیث میں ہے کہ آپ کے پاس ایک برتن میں پانی موجود تھا آپ بار بار اس میں ہاتھ ڈالتے اور پانی لے کر اسے بار بار اپنے منہ پر پھیرتے۔
"لااله الااللہ موت میں بڑی سختیاں ہیں۔
" نیز آپ ان الفاظ میں دعا کرتے۔
اے اللہ! موت کی سختیوں پر میری مدد فرما۔
اور موت کی سختیاں برداشت کرنے پر آپ کو اللہ کی طرف سے کئی گنا اجر دیا جائے گا، چنانچہ حدیث میں ہے کہ انبیاء ؑ کے گروہ کے لیے سختیاں اور آزمائشیں بہت ہیں اس لیے ہمارے اجرو ثواب میں بھی کئی گنا اضافہ ہو گا۔
(فتح الباري: 176/8)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4446