Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

موطا امام مالك رواية ابن القاسم
غلام آزاد کرنے کا بیان
رشتہ ولاء اسی کا ہے جو غلام آزاد کرے
حدیث نمبر: 520
470- وبه: أنها قالت: جاءت بريرة فقالت: إني كاتبت أهلي على تسع أواق، فى كل عام أوقية، فأعينيني؛ فقالت عائشة: إن أحب أهلك أن أعدها لهم ويكون لي ولاؤك فعلت فذهبت بريرة إلى أهلها فقالت لهم ذلك، فأبوا عليها، فجاءت من عند أهلها ورسول الله صلى الله عليه وسلم جالس، فقالت: إني قد عرضت ذلك عليهم فأبوا على إلا أن يكون الولاء لهم. فسمع ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم فسألها فأخبرته عائشة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ”خذيها واشترطي الولاء لهم فإنما الولاء لمن أعتق“ ففعلت عائشة. ثم قام رسول الله صلى الله عليه وسلم فى الناس فحمد الله واثنى عليه ثم قال: ”أما بعد فما بال قوم يشترطون شروطا ليست فى كتاب الله ما كان من شرط ليس فى كتاب الله فهو باطل وإن كان مئة شرط، قضاء الله أحق، وشرط الله أوثق، وإنما الولاء لمن أعتق.“
اور اسی سند کے ساتھ (سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے) روایت ہے کہ بریرہ رضی اللہ عنہا آئی تو کہا: میں نے اپنی آزادی کے لئے اپنے مالکوں سے نو (9) اوقیہ چاندی پر تحریری معاہدہ کر لیا ہے، میں انہیں ہر سال ایک اوقیہ دوں گی، آپ اس سلسلے میں میری امداد کریں تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اگر تمہارے مالک اس پر راضی ہوں تو میں انہیں نقد ادا کر دوں لیکن رشتہ ولاء میرا ہو گا۔ بریرہ اپنے مالکوں کے پاس گئی تو انہیں یہ بات بتائی۔ انہوں نے انکار کر دیا تو وہ اپنے مالکوں سے (عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کے پاس) آئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (بھی وہاں) بیٹھے ہوئے تھے۔ اس نے کہا: میں نے انہیں یہ بات کہی ہے مگر انہوں نے انکار کر دیا ہے (اور کہا) کہ رشتہ ولایت انہی کا ہو گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ سنا تو پوچھا: (کیا بات ہے؟) پھر عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہیں بتا دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے لے لو اور ان کا رشتہ ولایت مان لو کیونکہ رشتہ ولایت تو اسی کا ہو گا جو آزاد کرتا ہے۔ تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے اسی طرح کیا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں کھڑے ہو گئے تو حمد و ثنا کے بعد فرمایا: اما بعد، کیا وجہ ہے کہ لوگ ایسی شرطیں مقرر کرتے ہیں جو کتاب اللہ میں نہیں ہیں، جو شرط کتاب اللہ میں نہیں ہے وہ باطل ہے اگرچہ وہ ایک سو شرطیں ہی کیوں نہ ہوں۔ اللہ کا فیصلہ سب سے زیادہ برحق ہے اور اللہ کی شرط سب سے زیادہ قوی ہے اور رشتہ ولاء تو اسی کا ہوتا ہے جو آزاد کرتا ہے۔

تخریج الحدیث: «470- الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 780/2، 781 ح 1559، ك 38 ب 10 ح 17) التمهيد 160/22، 161، الاستذكار: 1488، و أخرجه البخاري (2168، 2729) من حديث مالك به، ورواه مسلم (1445/7) من حديث هشام بن عروة به.»

قال الشيخ زبير على زئي: سنده صحيح

موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم کی حدیث نمبر 520 کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 520  
تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 2168، 2729، من حديث مالك، ورواه مسلم 8/1504، من حديث هشام بن عروة به]

تفقه:
➊ جو کسی غلام کو آزاد کرتا ہے تو رشتۂ ولاء کا مالک بھی وہی ہوتا ہے۔
➋ صحیح حدیث حجت ہے بلکہ کتاب اللہ کے مترادف ہے کیونکہ حدیث کو بھی کتاب اللہ کہا گیا ہے۔
➌ خطبے میں پہلے حمد وثنا ہونی چاہئے بعد میں لوگوں کو نصیحت کی جائے اور دینی مسائل بتائے جائیں۔
➍ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عالم الغیب نہیں ورنہ آپ بریرہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں کیوں پوچھتے؟ یاد رہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سوال کو اللہ تعالیٰ کے سوال پر قیاس کرنا باطل ہے کیونکہ اللہ عالم الغیب ہے اور کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہیں ہے۔ «وهو أعلم بهم» [ديكهئے الموطأ ح330]
➎ ہدیہ قبول کرنا مسنون ہے جیسا کہ اس حدیث کے طویل سیاق وسباق سے ثابت ہے۔ دیکھئے: [التمهيد 22/161]
➏ مقررہ مدت تک قرض کی ادائیگی کا تحریری معاہدہ ہو اور اس سے پہلے ہی یہ قرض ادا کردیا جائے تو معاہدہ ختم ہوجاتا ہے۔
➐ اسلام نے ایسے ذرائع کی طرف ترغیب دی ہے جن سے بتدریج غلامی خود بخود ختم ہوگئی۔
➑ ایک دوسرے کے ساتھ معروف میں تعاون کرنا اہل ایمان کا شیوہ ہے۔
➒ اگر مسلمان آپس میں ایسی شرطیں طے کرلیں جو کتاب و سنت کے مخالف نہ ہوں تو ان شرطوں کا پورا کرنا ضروری ہے۔
◄ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «المسلمون علیٰ شروطھم۔» مسلمان اپنی شرطوں پر ہوتے ہیں۔ [سنن ابي داود: 3594 وسنده حسن وصححه ابن الجارود: 637 وابن حبان، الموارد: 1199، نيز ديكهئے صحيح البخاري ج3 ص120 قبل ح2274]
◄ یاد رہے کہ کتاب وسنت کے صریح خلاف ہر شرط مردود ہے۔
➓ اس حدیث سے بہت سے فقہی مسائل ثابت ہوتے ہیں۔ تفصیل کے لئے دیکھئے: [التمهيد 22/160،1890]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 470