394- مالك عن عبد المجيد بن سهيل عن ابن المسيب عن أبى سعيد الخدري وعن أبى هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم استعمل رجلا على خيبر فجاءه بتمر جنيب، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”أكل تمر خيبر هكذا؟“ فقال: لا والله، إنا لنأخذ الصاع من هذا بالصاعين، والصاعين بالثلاثة، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”لا تفعل، بع الجمع بالدراهيم، ثم ابتع بالدراهيم جنيبا.“
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو خیبر (کے علاقے) پر عامل یعنی امیر بنایا تو وہ اعلیٰ قسم کی کھجوریں لے کر آیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: ”کیا خیبر کی ساری کھجوریں اسی طرح ہیں؟“ اس نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم! ہم دو صاع کھجوریں دے کر اس قسم کی کھجوروں کا ایک صاع لیتے ہیں اور تین ساع دے کر دو ساع لیتے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایسا نہ کرو، عام کھجوروں کو درہموں (رقم) کے بدلے میں بیچ دو پھر رقم سے اعلی قسم کی کھجوریں خرید لو۔“
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4557
´کھجور کے بدلے کھجور کمی زیادتی کے ساتھ بیچنے کا بیان۔`
ابو سعید خدری اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو خیبر کا عامل بنایا، وہ «جنیب» (نامی عمدہ قسم کی) کھجور لے کر آیا تو آپ نے فرمایا: ”کیا خیبر کی ساری کھجوریں اسی طرح ہیں؟“ وہ بولا: نہیں، اللہ کی قسم! ہم یہ کھجور دو صاع کے بدلے ایک صاع یا تین صاع کے بدلے دو صاع لیتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایسا نہ کرو، گھٹیا اور ردی کھجوروں کو درہم (پیسوں) سے بیچ دو، [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4557]
اردو حاشہ:
(1) کھجور کے عوض کھجور کا کمی بیشی کے ساتھ سودا کرنا، حرام ہے خواہ کھجور کی ایک قسم کتنی ہی عمدہ و اعلیٰ اور دوسری کتنی ہی ردی ہو۔
(2) یہ حدیث صراحتاََ دلالت کرتی ہے کہ سودی کاروبار کرنا قطعاََ حرام ہے ایسا کیا ہوا سودا صحیح نہیں ہو گا۔
(3) بعض معاملات میں حرام کام کامرتکب اس وقت تک معذور سمجھائے گا جب تک اسے اس کام کی حرمت کا علم نہ ہو۔ یہ یاد رہے کہ عذر بالجہل مطلقاََ قابل قبول نہیں، تاہم بعض معاملات، جن کا شریعت مطہرہ اور عرفِ عام لحاظ رکھیں، ان میں ایسا عذر قابل قبول ہو گا۔
(4) اس حدیث مبارکہ سے خود ساختہ صوفیوں کے اس خشک زہد کا رد ہوتا ہے جو اچھی اشیاء کے استعمال سے گریز کرتے اور اپنے باطل زعم میں اسے تقویٰ سمجھتے ہیں، اپنے آپ کو مشقت میں مبتلا کرکے اسے نفس کشی کا نام دیتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بڑا عابد و زاہد بھلا کون ہو سکتا ہے؟ لیکن اس کے باوجود انھوں نے اپنے استعمال کے لیے، ردی کھجور کے عوض اچھی اور عمدہ کھجور پسند کی ہے اور اسے خریدا ہے۔
(5) امام اور دینی و مذہبی ذمہ دار شخص کو خصوصی طور پر دین کے معاملات کو اہمیت دینی چاہیے۔ جن لوگوں کو ان کا علم نہ ہو انھیں تعلیم دینی چاہیے اور انھیں نا جائز و حرام امور سے متنبہ کر کے جائز و مباح اور حلال امور کی طرف ان کی راہنمائی کونی چاہیے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابی کی رہنمائی فرماتے ہوئے اسے حرام کام سے ہٹا کر حلال کی طرف راستہ دکھایا۔
(6) یہ حدیث ربوا بالفضل کی حرمت کی صریح دلیل ہے۔
(7) شکوک و شبہات میں مبتلا شخص کی تلاش حق میں اس وقت تک مدد کرنی چاہیے جب تک کہ اس کے لیے حق واضح نہ ہو جائے۔
(8) جنیب اعلیٰ قسم کی کھجور تھی اور ”جمع“ ردی کھجور جس میں گٹھلی نہیں ہوتی تھی۔ یا جمع سے مراد ملی جلی کھجوریں ہیں۔ کوئی کسی قسم کی کوئی کسی قسم کی جیسا کہ صدقہ و عشر میں عام ہوتا ہے۔ چونکہ خیبر میں بھی ہر قسم کی کھجوروں سے حصہ وصول کیا گیا تھا، لہٰذا وہ ملی جلی تھیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4557
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4081
حضرت ابوہریرہ اور حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو عدی انصار کے قبیلہ کے ایک فرد کو خیبر کا عامل (حاکم) بنا کر بھیجا، اور وہ کھجور کی جنیب نامی اعلیٰ قسم لایا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: ”کیا خیبر کی تمام کھجوریں اس قسم کی ہیں؟“ اس نے کہا، نہیں، اللہ کی قسم! اے اللہ کے رسول! ہم ردی یا ملی جلی دو صاع کھجوروں کے عوض ایک صاع اچھی کھجوریں خرید لیتے ہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:4081]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
جنيب:
اعلیٰ یا منتخب کھجوریں۔
(2)
جمع:
مخلوط،
اچھی اور نکمی ملی جلی۔
فوائد ومسائل:
بنو عدی کے جس فرد کو آپﷺ نے بھیجا تھا،
اس نے عدم علم اور ناواقفیت و جہالت کی بنا پر ایک جنس کی مختلف انواع و اقسام میں ماپ میں کمی و بیشی کی،
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اس فعل سے روکا کہ ایک جنس کی اشیاء جو خوراک سے تعلق رکھتی ہیں،
ان کی اعلیٰ اور ادنیٰ قسم کا تبادلہ برابری کی صورت میں جائز ہے،
یا پھر نکمی قسم کو بیچ کر،
اس قیمت سے اعلیٰ قسم خریدنا ہو گا،
ظاہر ہے،
دوسری صورت میں ماپ یا تول کے اعتبار سے کم ہی ہو گی،
لیکن یہ ربا یا سودی معاملہ نہیں ہو گا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4081
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2201
2201. حضرت ابو سعید خدری ؓ اور حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو خیبر کا تحصیل دار بنایا۔ وہ عمدہ قسم کی کھجوریں لے کر حاضر خدمت ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ” کیاخیبر کی تمام کھجوریں ایسی ہی ہوتی ہیں؟“ اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! نہیں، اللہ کی قسم ہم اس عمدہ کھجور کے ایک صاع کو دوسری کھجوروں کے دو صاع کے عوض اور دو صاع کو تین صاع کے عوض لیتے ہیں۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ایسا مت کیا کرو بلکہ تم ان ردی کھجوروں کو درہموں کے عوض فروخت کرکے پھر ان درہموں سے عمدہ کھجور خریدلیاکرو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2201]
حدیث حاشیہ:
اس صورت میں بیاج سے محفوظ رہے گا۔
ایسا ہی سونا کے بدلے میں دوسرا سونا کم وبیش لینے کی ضرورت ہے، تو پہلے سونے کو روپوں یا اسباب کے بدل بیچ ڈالے۔
پھر روپوں یا اسباب کے عوض دوسرا سونا لے لے۔
حافظ ؒ فرماتے ہیں:
و في الحدیث جواز اختیارطیب الطعام و جواز الوکالة في البیع و غیرہ و فیه أن البیوع الفاسدة ترد الخ یعنی اس حدیث سے ثابت ہوا کہ اچھے غلے کو پسند کرنا جائز ہے اور بیع وغیرہ میں وکالت درست ہے اور یہ بھی کہ بیع فاسد کو رد کیا جاسکتا ہے۔
اس حدیث میں خیبر کا ذکر آیا ہے جو یہودیوں کی ایک بستی مدینہ شریف سے شمال مشرق میں تین چار منزل کے فاصلہ پر واقع تھی۔
اس مقام پر مدینہ کے یہودی قبائل کو ان کی مسلسل غداریوں اور فتنہ انگیزیوں کی وجہ سے جلاوطن کر دیا گیا تھا۔
اور یہاں آنے کے بعد وہ دوسرے یہودیوں کو ساتھ لے کر ہر وقت اسلام کے استیصال کے لیے تدبیریں کرتے تھے۔
اس طرح خیبر عام اشتعال اور فسادات کا مرکز بنا ہوا تھا۔
ان کی ان غلط در غلط کوششوں کو پامال کرنے اور وہاں قیام امن کے لیے آنحضرت ﷺ نے محرم 7ھ میں چودہ سو جاں نثار صحابہ کرام کے ہمراہ سفر فرمایا۔
یہود خیبر نے یہ اطلاع پاکر جملہ اقوام عرب کی طرف امداد کے لیے اپنے قاصد و سفراءدوڑائے مگر صرف بنی فزارہ ان کی امداد کے نام سے آئے۔
وہ بھی موقع پاکر مسلمانوں کے اونٹوں کے گلے لوٹ کر واپس بھاگ گئے اور یہود تنہا رہ گئے۔
بڑی خون ریز جنگ ہوئی، آخر اللہ پاک نے اپنے سچے رسول ﷺ کو فتح مبین عطا فرمائی اور یہودیوں کو شکست فاش ہوئی۔
اطراف میں بھی یہودیوں کے مختلف مواضعات تھے۔
وطیح، سلالم، فدک وغیرہ ان کے باشندوں نے خود بخود اپنے آپ کو رسول کریم ﷺ کے حوالہ کر دیا اور معافی کے خواستگار ہوئے۔
آنخضرت ﷺ نے نہایت فیاضی سے سب کو معافی دے دی ان کی جائیداد منقولہ اور غیر منقولہ میں کوئی دست اندازی نہیں کی گئی۔
ان کو پوری مذہبی آزادی بھی دے دی گئی اور زمین کی نصف پیداوار پر ان کی حفاظت کا ذمہ اٹھایا گیا۔
اور وہاں سے غلہ کی وصولی کے لیے ایک شخص کو تحصیل دار مقرر کیا گیا۔
اسی کا ذکر اس حدیث میں مذکور ہے اور یہ بیع کا معاملہ بھی اس تحصیلدار صاحب سے متعلق ہے۔
مزید تفصیل اپنے مقام پر آئے گی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2201
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2202
2202. حضرت ابو سعید خدری ؓ اور حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو خیبر کا تحصیل دار بنایا۔ وہ عمدہ قسم کی کھجوریں لے کر حاضر خدمت ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ” کیاخیبر کی تمام کھجوریں ایسی ہی ہوتی ہیں؟“ اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! نہیں، اللہ کی قسم ہم اس عمدہ کھجور کے ایک صاع کو دوسری کھجوروں کے دو صاع کے عوض اور دو صاع کو تین صاع کے عوض لیتے ہیں۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ایسا مت کیا کرو بلکہ تم ان ردی کھجوروں کو درہموں کے عوض فروخت کرکے پھر ان درہموں سے عمدہ کھجور خریدلیاکرو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2202]
حدیث حاشیہ:
اس صورت میں بیاج سے محفوظ رہے گا۔
ایسا ہی سونا کے بدلے میں دوسرا سونا کم وبیش لینے کی ضرورت ہے، تو پہلے سونے کو روپوں یا اسباب کے بدل بیچ ڈالے۔
پھر روپوں یا اسباب کے عوض دوسرا سونا لے لے۔
حافظ ؒ فرماتے ہیں:
و في الحدیث جواز اختیارطیب الطعام و جواز الوکالة في البیع و غیرہ و فیه أن البیوع الفاسدة ترد الخ یعنی اس حدیث سے ثابت ہوا کہ اچھے غلے کو پسند کرنا جائز ہے اور بیع وغیرہ میں وکالت درست ہے اور یہ بھی کہ بیع فاسد کو رد کیا جاسکتا ہے۔
اس حدیث میں خیبر کا ذکر آیا ہے جو یہودیوں کی ایک بستی مدینہ شریف سے شمال مشرق میں تین چار منزل کے فاصلہ پر واقع تھی۔
اس مقام پر مدینہ کے یہودی قبائل کو ان کی مسلسل غداریوں اور فتنہ انگیزیوں کی وجہ سے جلاوطن کر دیا گیا تھا۔
اور یہاں آنے کے بعد وہ دوسرے یہودیوں کو ساتھ لے کر ہر وقت اسلام کے استیصال کے لیے تدبیریں کرتے تھے۔
اس طرح خیبر عام اشتعال اور فسادات کا مرکز بنا ہوا تھا۔
ان کی ان غلط در غلط کوششوں کو پامال کرنے اور وہاں قیام امن کے لیے آنحضرت ﷺ نے محرم 7ھ میں چودہ سو جاں نثار صحابہ کرام کے ہمراہ سفر فرمایا۔
یہود خیبر نے یہ اطلاع پاکر جملہ اقوام عرب کی طرف امداد کے لیے اپنے قاصد و سفراءدوڑائے مگر صرف بنی فزارہ ان کی امداد کے نام سے آئے۔
وہ بھی موقع پاکر مسلمانوں کے اونٹوں کے گلے لوٹ کر واپس بھاگ گئے اور یہود تنہا رہ گئے۔
بڑی خون ریز جنگ ہوئی، آخر اللہ پاک نے اپنے سچے رسول ﷺ کو فتح مبین عطا فرمائی اور یہودیوں کو شکست فاش ہوئی۔
اطراف میں بھی یہودیوں کے مختلف مواضعات تھے۔
وطیح، سلالم، فدک وغیرہ ان کے باشندوں نے خود بخود اپنے آپ کو رسول کریم ﷺ کے حوالہ کر دیا اور معافی کے خواستگار ہوئے۔
آنخضرت ﷺ نے نہایت فیاضی سے سب کو معافی دے دی ان کی جائیداد منقولہ اور غیر منقولہ میں کوئی دست اندازی نہیں کی گئی۔
ان کو پوری مذہبی آزادی بھی دے دی گئی اور زمین کی نصف پیداوار پر ان کی حفاظت کا ذمہ اٹھایا گیا۔
اور وہاں سے غلہ کی وصولی کے لیے ایک شخص کو تحصیل دار مقرر کیا گیا۔
اسی کا ذکر اس حدیث میں مذکور ہے اور یہ بیع کا معاملہ بھی اس تحصیلدار صاحب سے متعلق ہے۔
مزید تفصیل اپنے مقام پر آئے گی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2202
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2201
2201. حضرت ابو سعید خدری ؓ اور حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو خیبر کا تحصیل دار بنایا۔ وہ عمدہ قسم کی کھجوریں لے کر حاضر خدمت ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ” کیاخیبر کی تمام کھجوریں ایسی ہی ہوتی ہیں؟“ اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! نہیں، اللہ کی قسم ہم اس عمدہ کھجور کے ایک صاع کو دوسری کھجوروں کے دو صاع کے عوض اور دو صاع کو تین صاع کے عوض لیتے ہیں۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ایسا مت کیا کرو بلکہ تم ان ردی کھجوروں کو درہموں کے عوض فروخت کرکے پھر ان درہموں سے عمدہ کھجور خریدلیاکرو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2201]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث کے پیش نظر سودی معاملات میں اس قسم کے حیلے کو جائز قرار دیا گیا ہے، مثلاً:
ایک عمدہ سونے کے عوض کم قیراط والے سونے کو کمی بیشی کے ساتھ لینے کی ضرورت ہوتو پہلے عمدہ سونے کو روپے کے عوض فروخت کردیا جائے، پھر ان کے عوض دوسرا سونا خریدا جائے۔
ہم جنس اشیاء کا کمی بیشی کے ساتھ تبادلہ کرنا سود ہے، خواہ نقد بنقد ہی کیوں نہ ہو۔
رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے اور برابر، برابر لینے دینے کا حکم دیا ہے جیسا کہ صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے۔
(صحیح مسلم، المساقاة، حدیث: 4081(1593)
رسول اللہ ﷺ نے اس قسم کے سودے کو سود قرار دیا ہے اور اسے واپس کرنے کا حکم دیا ہے، حضرت ابو سعید خدری ؓ سے مروی ایک روایت میں اس کی صراحت ہے۔
(صحیح مسلم، المساقاة، حدیث: 4083(1594)
حضرت بلال ؓ سے بھی اس قسم کا ایک واقعہ منقول ہے، اس کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
افسوس! یہ تو بعینہ سود ہے آئندہ ایسا مت کرنا۔
(صحیح مسلم، المساقاة، حدیث: 4087(1594)
ہم جنس اشیاء کی باہمی خریدوفروخت کے متعلق اس ضابطے کے حوالے سے آج کل یہ عام سوال کیا جاتا ہے کہ اگر ایک جنس، مثلاً:
کھجور بہتر قسم کی ہو اور دوسری کمتر کوالٹی کی ہو جیسا کہ مذکورہ واقعہ میں ہے تو دونوں کو ہم مقدار رکھنا کیسے قرین انصاف ہوسکتا ہے جبکہ اسلام نے ہمیں عدل وانصاف کا حکم دیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہر نوع کی کھجور یا گندم بنیادی طور پر انسان کی بھوک مٹاتی ہے، محض تنوع یا ذائقے میں فرق رکھنے کے اعتبار سے تبادلے کی گنجائش ہے لیکن بھوک مٹانے میں دونوں برابر ہیں۔
اس بنا پر تبادلہ کرتے وقت دونوں کی مقدار برابر رکھی جائے۔
عدل وانصاف کا یہی تقاضا ہے۔
اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ غذائی ضرورت کو پورا کرنے میں ایک نوع دوسری نوع سے بہتر ہے،اس لیے ان دونوں کا تبادلہ کرتے وقت فرق کو ملحوظ رکھا جائے۔
عام آدمی کے پاس تو ایسا کوئی آلہ یا ترازو موجود نہیں جو عدل و انصاف کے مطابق ایک کوالٹی کے دوسری کوالٹی سے تبادلے میں دونوں کی مقداریں صحیح طور پر متعین کرسکے، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے اس کا حل یہ بتایا ہے کہ گھٹیا کوالٹی کی نقدی کے ذریعے سے قیمت طے کرلو اور اسے طے شدہ نقدی کے عوض فروخت کرو پھر اعلیٰ کوالٹی کی قیمت بھی بذریعہ نقدی طے کرلو اور اسے نقدی کے عوض خرید لو۔
اس طرح عدل و انصاف کے تقاضے صحیح معنوں میں پورے ہوجائیں گے۔
کوالٹی کا فرق کتنا ہے اس کو وزن یا ماپ کے ذریعے سے متعین نہیں کیا جاسکتا، قیمت کے ذریعے سے متعین کیا جاسکتا ہے، کوالٹی کے تعین کے لیے قیمت ہی ایک غیر جانبدار اور مناسب ترین ذریعہ ہے۔
اگر قیمت کا طریقہ اختیار نہ کیا جائے بلکہ محض وزن میں کمی بیشی کے ذریعے سے کام چلانے کی کوشش کی جائے تو دونوں میں سے ایک فریق کا حق ضرور مارا جائے گا۔
کوالٹی کا فرق متعین کرنے کے لیے وزن کو معیار بنایا گیا تو باہمی رضامندی کے تقاضے بھی پورے نہیں ہوں گے جو صحت بیع کے لیے ضروری ہے۔
والله أعلم. (2)
صاحب تدبر قرآن نے حسب عادت اس مقام پر بھی خلط مبحث سے کام لیا ہے۔
ان کی حدیث دانی کا یہ عالم ہے کہ لکھا ہے:
رسول اللہ ﷺ نے یہ حکم نہیں دیا کہ کھجوروں کا مبادلہ برابر مقدار ہی میں کرنا ہوگا۔
(تدبر حدیث: 1/486)
حالانکہ اس بات کی ایک روایت میں صراحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”تم ایسا مت کرو بلکہ مقدار برابر رکھو یا ایک کو قیمت سے فروخت کرکے اس قیمت سے دوسری کھجوریں خرید لو۔
“ (صحیح البخاري، الاعتصام، حدیث: 7351،7350)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2201
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2202
2202. حضرت ابو سعید خدری ؓ اور حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو خیبر کا تحصیل دار بنایا۔ وہ عمدہ قسم کی کھجوریں لے کر حاضر خدمت ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ” کیاخیبر کی تمام کھجوریں ایسی ہی ہوتی ہیں؟“ اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! نہیں، اللہ کی قسم ہم اس عمدہ کھجور کے ایک صاع کو دوسری کھجوروں کے دو صاع کے عوض اور دو صاع کو تین صاع کے عوض لیتے ہیں۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ایسا مت کیا کرو بلکہ تم ان ردی کھجوروں کو درہموں کے عوض فروخت کرکے پھر ان درہموں سے عمدہ کھجور خریدلیاکرو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2202]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث کے پیش نظر سودی معاملات میں اس قسم کے حیلے کو جائز قرار دیا گیا ہے، مثلاً:
ایک عمدہ سونے کے عوض کم قیراط والے سونے کو کمی بیشی کے ساتھ لینے کی ضرورت ہوتو پہلے عمدہ سونے کو روپے کے عوض فروخت کردیا جائے، پھر ان کے عوض دوسرا سونا خریدا جائے۔
ہم جنس اشیاء کا کمی بیشی کے ساتھ تبادلہ کرنا سود ہے، خواہ نقد بنقد ہی کیوں نہ ہو۔
رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے اور برابر، برابر لینے دینے کا حکم دیا ہے جیسا کہ صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے۔
(صحیح مسلم، المساقاة، حدیث: 4081(1593)
رسول اللہ ﷺ نے اس قسم کے سودے کو سود قرار دیا ہے اور اسے واپس کرنے کا حکم دیا ہے، حضرت ابو سعید خدری ؓ سے مروی ایک روایت میں اس کی صراحت ہے۔
(صحیح مسلم، المساقاة، حدیث: 4083(1594)
حضرت بلال ؓ سے بھی اس قسم کا ایک واقعہ منقول ہے،اس کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
افسوس! یہ تو بعینہ سود ہے آئندہ ایسا مت کرنا۔
(صحیح مسلم، المساقاة، حدیث: 4087(1594)
ہم جنس اشیاء کی باہمی خریدوفروخت کے متعلق اس ضابطے کے حوالے سے آج کل یہ عام سوال کیا جاتا ہے کہ اگر ایک جنس، مثلاً:
کھجور بہتر قسم کی ہو اور دوسری کمتر کوالٹی کی ہو جیسا کہ مذکورہ واقعہ میں ہے تو دونوں کو ہم مقدار رکھنا کیسے قرین انصاف ہوسکتا ہے جبکہ اسلام نے ہمیں عدل وانصاف کا حکم دیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہر نوع کی کھجور یا گندم بنیادی طور پر انسان کی بھوک مٹاتی ہے، محض تنوع یا ذائقے میں فرق رکھنے کے اعتبار سے تبادلے کی گنجائش ہے لیکن بھوک مٹانے میں دونوں برابر ہیں۔
اس بنا پر تبادلہ کرتے وقت دونوں کی مقدار برابر رکھی جائے۔
عدل وانصاف کا یہی تقاضا ہے۔
اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ غذائی ضرورت کو پورا کرنے میں ایک نوع دوسری نوع سے بہتر ہے، اس لیے ان دونوں کا تبادلہ کرتے وقت فرق کو ملحوظ رکھا جائے۔
عام آدمی کے پاس تو ایسا کوئی آلہ یا ترازو موجود نہیں جو عدل و انصاف کے مطابق ایک کوالٹی کے دوسری کوالٹی سے تبادلے میں دونوں کی مقداریں صحیح طور پر متعین کرسکے،اس لیے رسول اللہ ﷺ نے اس کا حل یہ بتایا ہے کہ گھٹیا کوالٹی کی نقدی کے ذریعے سے قیمت طے کرلو اور اسے طے شدہ نقدی کے عوض فروخت کرو پھر اعلیٰ کوالٹی کی قیمت بھی بذریعہ نقدی طے کرلو اور اسے نقدی کے عوض خرید لو۔
اس طرح عدل و انصاف کے تقاضے صحیح معنوں میں پورے ہوجائیں گے۔
کوالٹی کا فرق کتنا ہے اس کو وزن یا ماپ کے ذریعے سے متعین نہیں کیا جاسکتا، قیمت کے ذریعے سے متعین کیا جاسکتا ہے، کوالٹی کے تعین کے لیے قیمت ہی ایک غیر جانبدار اور مناسب ترین ذریعہ ہے۔
اگر قیمت کا طریقہ اختیار نہ کیا جائے بلکہ محض وزن میں کمی بیشی کے ذریعے سے کام چلانے کی کوشش کی جائے تو دونوں میں سے ایک فریق کا حق ضرور مارا جائے گا۔
کوالٹی کا فرق متعین کرنے کے لیے وزن کو معیار بنایا گیا تو باہمی رضامندی کے تقاضے بھی پورے نہیں ہوں گے جو صحت بیع کے لیے ضروری ہے۔
والله أعلم. (2)
صاحب تدبر قرآن نے حسب عادت اس مقام پر بھی خلط مبحث سے کام لیا ہے۔
ان کی حدیث دانی کا یہ عالم ہے کہ لکھا ہے:
رسول اللہ ﷺ نے یہ حکم نہیں دیا کہ کھجوروں کا مبادلہ برابر مقدار ہی میں کرنا ہوگا۔
(تدبر حدیث: 1/486)
حالانکہ اس بات کی ایک روایت میں صراحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”تم ایسا مت کرو بلکہ مقدار برابر رکھو یا ایک کو قیمت سے فروخت کرکے اس قیمت سے دوسری کھجوریں خرید لو۔
“ (صحیح البخاري، الاعتصام، حدیث: 7351،7350)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2202
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4245
4245. حضرت ابو سعید خدری اور حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو خیبر کا تحصیل دار مقرر کیا۔ وہ وہاں سے عمدہ کھجوریں لایا تو رسول اللہ ﷺ نے اس سے دریافت فرمایا: ”کیا خیبر کی تمام کھجوریں ایسی ہی ہیں؟“ اس نے کہا: اللہ کے رسول! واللہ ایسی نہیں ہیں۔ ہم اس طرح کی ایک صاع کھجوریں دوسری دو یا تین صاع کے عوض خرید لیتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ایسا مت کیا کرو بلکہ گھٹیا کھجوریں درہموں کے بدلے فروخت کر کے ان درہموں سے عمدہ کھجوریں خرید لیا کرو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4245]
حدیث حاشیہ:
1۔
خیبر کا علاقہ بڑازرخیزاور وہاں کی زمین زرعی اور باغبانی تھی۔
فتح کے بعد یہ علاقہ یہودیوں کو بٹائی پر دے دیاگیا۔
وہاں سے پیدا وار کا حصہ وصول کرنے کے لیے رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو تعینات کیا، انھوں نے وہاں سے وصولی ایسے طریقے سے کی جس سے سواری کارو بار کی حوصلہ افزائی ہوتی تھی۔
وہ رسول اللہ ﷺ کے لیے وہاں کی کھجوریں بطور تحفہ لائے تو رسول اللہ ﷺ نے انھیں مذکورہ بالا ہدایت فرمائی۔
2۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حرام سے بچنے کے لیے کوئی حیلہ کیا جائے تو جائز ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے خود اسے حیلے کی تعلیم دی۔
حرام سے بچنے کے لیے بسا اوقات ایسا کرنا مستحب بلکہ واجب ہوتا ہے3۔
حضرت ایوب ؑ کے واقعے میں حیلے کی نظیر خود قرآن نے بیان کی ہے۔
ہاں اگر کسی واجب سے گریز کے لیے کوئی حیلہ کیا جائے تو ایسا کرنانا جائز اور حرام ہے جیسا کہ چھ ماہ تک زیورات بیوی کے نام اور چھ ماہ تک کے لیے شوہر کے نام کر دیے جائیں تاکہ کسی ایک کی ملکیت میں ان پر سال نہ گزرے اور نہ ان پر زکوۃ واجب ہو۔
ایسا کرنا ناجائز اور حرام ہے۔
قرآن کریم نے اس قسم کے حیلوں کی مذمت کی ہے جیسا کہ سمندر کے کنارے مچھلیاں پکڑنے والوں کے واقعے سے ظاہر ہوتا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4245
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7351
7351. سیدنا ابو سعید خدری اور سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے قبیلہ بنو ساعدی کے ایک شخص کو خیبر کا عامل بنا کر بھیجا تو وہ بہت عمدہ قسم کی کھجوریں لے کر آیا۔ رسول اللہﷺ نے اس سے پوچھا: ”کیا خیبر کی تمام کھجوریں اسی طرح کی ہیں؟“ اس نے کہا: نہیں، اے اللہ کے رسول! ہم اس قسم کی عمدہ کھجور کا ایک صاع ردی کھجور کے دو صاع کے عوض خرید لیتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ایسا نہ کرو بلکہ برابر برابر میں خریدو، یا ردی کھجور نقد فروخت کرو، پھر یہ عمدہ کھجور اس قیمت کے عوض خرید کرو۔ تولی جانے والی دیگر اشیاء کی خرید وفروخت بھی اسی طرح کیا کرو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7351]
حدیث حاشیہ:
1۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الاحکام میں اس عنوان سے ملتا جلتا عنوان ان الفاظ میں قائم کیا ہے:
(باب إِذَا قَضَى الْحَاكِمُ بِجَوْرٍ أَوْ خِلاَفِ أَهْلِ الْعِلْمِ فَهْوَ رَدٌّ)
”جب کوئی حاکم اہل علم کےخلاف یا ظلم پر مبنی فیصلہ کرےتو وہ مردود ہے۔
“ (صحیح البخاري، الأحکام، باب:
نمبر35)
یہ تکرار نہیں بلکہ پہلا عنوان اجماع کے خلاف اور مذکورہ عنوان سنت کے خلاف فیصلے کورد کرنے سے متعلق ہے۔
2۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ اگر کسی نے سنت کے خلاف فیصلہ کیا ہے خواہ وہ جہالت یا غلطی کی وجہ سے ہو تو حق واضح ہونے کے بعد اس سے رجوع ضروری ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو فرض قرار دیا ہے۔
صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے کتنے فیصلے ایسے ہیں کہ حق معلوم ہونے کے بعد انھوں نے رجوع کیا اور اپنے غلط موقف کو چھوڑ دیا۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں:
اس حدیث کے عنوان سے مطابقت اس طرح ہے کہ صحابی نے اجتہاد کیا اور ردی کھجوریں دے کر مقدار میں کم،عمدہ کھجوریں لے لیں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے فعل کو غلط قرار دیا اگرچہ اجتہاد کی وجہ سے اسے معذور خیال کیا۔
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”اوہ یہ توعین سود ہے۔
اس طرح مت کرو۔
“ ایسا کام آئندہ مت کرنا، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے کام کو برقرار نہیں رکھا بلکہ اسے غلط کہہ کر مسترد کر دیا۔
(صحیح البخاري، الوکالة، حدیث: 2312 و فتح الباري: 389/13)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7351