موطا امام مالك رواية ابن القاسم
اخلاق و آداب سے متعلق مسائل
غصے پر قابو پانے کی اہمیت
حدیث نمبر: 470
17- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”ليس الشديد بالصرعة، إنما الشديد الذى يملك نفسه عند الغضب.“
اور اسی سند کے ساتھ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”طاقتور اور بہادر وہ نہیں جو کشتی لڑنے سے غالب آئے بلکہ طاقتور اور بہادر وہ ہے جو غصے کی حالت میں اپنے آپ پر قابو پائے۔“
تخریج الحدیث: «17- متفق عليه،الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 906/2، ح 1762، ك 47 ب 3 ح 12) التمهيد 321/6، الاستذكار: 1678، و أخرجه البخاري (6114) ومسلم (2609) من حديث مالك به.»
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم کی حدیث نمبر 470 کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 470
تخریج الحدیث:
[الموطأ رواية يحييٰ بن يحييٰ 906/2، ح 1762، ك 47 ب 3 ح 12، التمهيد 321/6، الاستذكار: 1678 ● وأخرجه البخاري 6114، ومسلم 2609، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ «الصُّرَعَةُ:» لغت میں بہت پچھاڑنے والے، زبردست پہلوان اور غالب رہنے والے شخص کو کہتے ہیں۔ دیکھئے: [القاموس الوحيد ص 921]
«الصُّرْعَةُ:» بہت پچھاڑے جانے والے، کمزور پہلوان اور مغلوب رہنے والے شخص کو کہتے ہیں۔
➋ ذاتی دشمن کے خلاف لڑائی کی بہ نسبت صبر و تحمل اور مجاہدہ نفس افضل کام ہے۔ دیکھئے: [التمهيد 323/6]
➌ بغیر کسی شرعی عذر کے غصہ کرنا پسندیدہ کام نہیں۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 17
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عبدالسلام بن محمد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1278
اصل پہلوان وہ ہے جو غصے پر قابو پائے
«وعنه رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: ليس الشديد بالصرعة وإنما الشديد الذى يملك نفسه عند الغضب۔ متفق عليه»
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بہت زیادہ طاقتور وہ نہیں جو (مقابل کو) بہت زیادہ پچھاڑنے والا ہے، بہت زیادہ طاقتور صرف وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے آپ پر قابورکھے۔“ متفق عليه۔ [بلوغ المرام/كتاب الجامع: 1278]
تخریج:
[بخاري 6114]،
[مسلم البر والصلة 6644]،
[تحفة الاشراف 332/9]، [14/10]
مفردات:
«الصرعة» - صاد کے ضمہ اور راء اور عین کے فتحہ کے ساتھ بروزن «هُمَزَة» جو اپنی قوت سے دوسروں کو پچھاڑ دے۔ اگر راء کے سکون کے ساتھ ہو «الصُّرْعَةُ» تو اس کا معنی ہو گا وہ شخص جسے دوسرے پچھاڑ دیں۔ اسی طرح «ضُحْكَةٌ، خُدْعَةُ» وغيرہ جس پر دوسرے ہنسیں، جسے دوسرے دھوکہ دیں۔ ”تا“ صفت مثبہ میں مبالغہ کے لئے ہے تانیث کے لئے نہیں۔
فوائد:
➊ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے غصے پر قابو پانے والوں کی تعریف فرمائی ہے۔
«وَالَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ وَإِذَا مَا غَضِبُوا هُمْ يَغْفِرُونَ» [42-الشورى:37]
”وہ لوگ جو بڑے گناہوں اور بے حیائی کے کاموں سے بچتے ہیں اور جب غصے میں آتے ہیں تو معاف کر ریتے ہیں۔“
اور فرمایا:
«الَّذِينَ يُنفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ» [3-آل عمران:134]
”وہ لوگ جو خوشی اور تکلیف میں خرچ کرتے ہیں اور غصے کو پی جانے والے ہیں۔“
➋ انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کچھ لوگوں کے پاس سے گزرے جو کشتی کر رہے تھے فرمایا: کیا ہو رہا ہے؟ انہوں نے کہا: فلاں آدمی جس سے بھی کشتی کرتا ہے اسے پچھاڑ (گرا) دیتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تمہیں اس سے زیادہ طاقت والا آدمی نہ بتاؤں؟ وہ آدمی جس سے کسی آدمی نے (غصہ دلانے والی) بات کی تو وہ اپنے غصے کو پی گیا پس اس پر غالب آ گیا اپنے شیطان پر غالب آ گیا اور اپنے ساتھی کے شیطان پر غالب آ گیا۔ [رواه البزار بسند حسن فتح الباري 10 كتاب الادب باب 76]
صحیح مسلم میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اپنے آپ سے «الصُّرَعَةُ» پچھاڑنے والا کسے شمار کرتے ہو؟ انہوں نے کہا: جسے آدمی پچھاڑ نہ سکیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پچھاڑنے والا صرف وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے نفس پر قابو رکھے۔“
➌ غصے پر قابو پانے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی طریقے سکھائے ہیں۔ سب سے پہلے تو یہ سمجھنا چاہیے کہ غصے کو بھڑکانا اصل میں شیطان کی طرف سے ہوتا ہے اس لئے اس کا علاج بھی یہی ہے کہ شیطان سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کی جائے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
«وَإِمَّا يَنزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللَّـهِ إِنَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ» [7-الأعراف:200]
”اگر تمہیں شیطان کی طرف سے چوکا لگے (یعنی شیطان غصے کو مشتعل کر دے) تو اللہ کی پناہ مانگ یقیناً وہی سننے والا جانے والا ہے۔“
سلیمان بن صرد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا تھا دو آدمی آپس میں گالی گلوچ کر رہے تھے ان میں سے ایک کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ اور گلے کی رگیں پھول گئیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے ایک ایسا کلمہ معلوم ہے کہ اگر یہ وہ کلمہ کہہ لے تو اس کی یہ حالت ختم ہو جائے اگر یہ کہہ لے «أعُوذُ بِاللَّـهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ» تو جو کچھ اس پر گزر رہی ہے ختم ہو جائے۔“ [بخاري 3282]
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «إذا غضب أحدكم فليسكت» ”جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے تو خاموش ہو جائے۔“ [احمد- صحيح الجامع 693]
”ابوذر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے اور وہ کھڑا ہو تو بیٹھ جائے اگر غصہ ختم ہو جائے تو بہتر ورنہ لیٹ جائے۔“ [احمد، ابوداؤد، ابن حبان، صحيح الجامع 694]
➍ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حقیقی قوت جسمانی قوت نہیں بلکہ معنوی قوت ہے۔ تو جس طرح اجنبی دشمنوں سے جو اللہ کے دین کی مخالفت کریں مقابلہ ضروری ہے اور اس کے لئے قوت کی ضرورت ہے اسی طرح نفس جب اللہ کے احکام کی مخالفت پر اتر آئے خصوصاً جب وہ غصے میں مشتعل ہو چکا ہو اور شیطان اس کو برابر بھڑکا رہا ہو زبان سے گالی گلوچ ہاتھ سے مارنے اور قتل کرنے پر آمادہ ہو، چہرہ سرخ بلکہ سیاہ ہو چکا ہو جسم پر کپکپی طاری ہو رگیں پھول چکی ہوں، دل بغض اور کینے سے بھر چکا ہو۔ اس وقت اس کا مقابلہ اور اس پر قابو پانا بھی دشمن پر قابو پانے سے بھی مشکل ہے اس لئے جو اس پر قابو پائے اس نے گویا کئی حریفوں کو زیر کیا اس لئے اصل بہادر اور پہلوان وہ ہے۔
➎ غصہ ایک طبعی خصلت ہے اسے روکنے اور اس پر قابو پانے کا حکم اس وقت ہے جب اس کی وجہ سے اللہ کے احکام کی مخالفت لازم آرہی ہو۔ ہاں اللہ کے احکام کی حفاظت کے لئے اللہ کی نافرمانی کو روکنے اور اللہ کے دشمنوں سے لڑنے کے لئے غصہ آئے تو قابل تعریف ہے اور اللہ کی عطا کی ہوئی بہت بڑی نعمت ہے۔ اللہ کے احکام کی پامالی کو دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی سخت غصے میں آ جاتے تھے۔ امام بخاری رحمہ اللہ رحمہ الله نے صحیح میں اس سلسلے میں پانچ احادیث بیان کی ہیں۔ دیکھئے: کتاب الادب باب ما يجوز من الغضب والشدۃ لامر اللہ تعالیٰ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا
«يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنَافِقِينَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ» [9-التوبة:73]
”اے نبی! کفار اور منافقین سے جہاد کر اور ان پر سخت کر۔“
شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام کتاب الجامع، حدیث/صفحہ نمبر: 133
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1278
´برے اخلاق و عادات سے ڈرانے اور خوف دلانے کا بیان`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” کسی کو پچھاڑ دینا بہادری نہیں ہے۔ بہادر تو وہ ہے جو غصہ میں اپنے آپ کو قابو میں رکھے۔“ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 1278»
تخریج: «أخرجه البخاري، الأدب، باب الحذر من الغضب، حديث:6114، ومسلم، البر والصلة، باب فضل من يملك نفسه عند الغضب...، حديث:2609.»
تشریح:
1. اس حدیث میں اپنے حریف اور دشمن کو معاف کرنے اور اس سے درگزر کرنے کی فضیلت بیان ہوئی ہے کہ آدمی طاقت کے باوجود غصے کی حالت میں اپنے مدمقابل سے انتقامی کارروائی نہ کرے اور ایسے نازک موقع پر اپنے آپ کو قابو میں رکھے۔
2.حقیقت یہ ہے کہ نفس کا جہاد‘ کفار کے خلاف جہاد سے بھی مشکل ہے۔
اسی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غصے کے موقع پر اپنے نفس پر قابو پا لینے والے کو تمام لوگوں سے زیادہ طاقت ور اور قوی شمار کیا ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1278
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6114
6114. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”پہلوان وہ نہیں جو کشتی کرتے وقت دوسرے کو بہت زیادہ پچھاڑنے والا ہو کہ بلکہ پہلوان وہ ہے جو غصے کی حالت میں اپنے آپ پر کنٹرول کرلے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6114]
حدیث حاشیہ:
(1)
نفس، انسان کا بہت بڑا دشمن ہے، جب کوئی اپنے نفس کو کنٹرول کر لیتا ہے اور اس پر قابو پا لیتا ہے تو گویا اس نے قوی ترین دشمن پر غلبہ حاصل کر لیا ہے۔
(2)
آیات میں بھی غصے کے وقت اسے پی جانے والوں کی تعریف کی گئی ہے۔
اللہ تعالیٰ بھی درگزر کرنے والوں اور تحمل مزاج لوگوں کو پسند کرتا ہے۔
اس سے مراد ذاتی قسم کا غصہ ہے، اسے پی جانے کا حکم ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
”اصل پہلوانی یہ ہے کہ جب انسان کو غصہ آئے، جس سے اس کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں اور چہرہ سرخ ہو جائے تو اس وقت وہ اپنے غصے پر کنٹرول کرے۔
“ (مسند أحمد: 367/5)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6114