227- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان إذا قفل من غزو أو حج أو عمرة يكبر على شرف من الأرض ثلاث تكبيرات، ثم يقول: ”لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير. آيبون تائبون عابدون ساجدون لربنا حامدون. صدق الله وعده، ونصر عبده، وهزم الأحزاب وحده.“
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 452
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 1797، ومسلم 428/1344، من حديث مالك به]
تفقه
➊ اونچی جگہ پر چڑھتے ہوئے تکبیر (اللہ اکبر) کہنا اور نیچے اُترتے ہوئے سبحان اللہ کہنا سنت ہے۔
➋ ہر وقت اپنی زبان ذکر الٰہی سے تر رکھنی چاہئے۔
➌ اللہ تعالی سب پر غالب ہے لہٰذا صرف اسی سے مدد مانگنی چاہئے۔
➍ دین اسلام ایک کامل دین ہے، زندگی کے ہر قسم کے نشیب و فراز پر ہماری مکمل رہنمائی کرتا ہے۔
➎ مناظر قدرت کو دیکھ کر اللہ کی تکبیر و تسبیح بیان کرنی چاہئے۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 227
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 6385
´سفر میں جاتے وقت یا سفر سے واپسی کے وقت دعا کرنا`
«. . . عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا،" أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا قَفَلَ مِنْ غَزْوٍ، أَوْ حَجٍّ، أَوْ عُمْرَةٍ، يُكَبِّرُ عَلَى كُلِّ شَرَفٍ مِنَ الْأَرْضِ ثَلَاثَ تَكْبِيرَاتٍ، ثُمَّ يَقُولُ:" لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ، وَلَهُ الْحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، آيِبُونَ تَائِبُونَ عَابِدُونَ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ صَدَقَ اللَّهُ وَعْدَهُ، وَنَصَرَ عَبْدَهُ، وَهَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَهُ . . .»
”. . . عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی غزوہ یا حج یا عمرہ سے واپس ہوتے تو زمین سے ہر بلند چیز پر چڑھتے وقت تین تکبیریں کہا کرتے تھے۔ پھر دعا کرتے «لا إله إلا الله، وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد، وهو على كل شيء قدير. آيبون تائبون عابدون، لربنا حامدون. صدق الله وعده. ونصر عبده، وهزم الأحزاب وحده» ”اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اس کے لیے بادشاہی ہے اور اسی کے لیے تمام تعریفیں ہیں اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ لوٹتے ہیں ہم توبہ کرتے ہوئے اپنے رب کی عبادت کرتے ہوئے اور حمد بیان کرتے ہوئے۔ اللہ نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا، اپنے بندہ کی مدد کی اور تنہا تمام لشکر کو شکست دی۔“ [صحيح البخاري/كِتَاب الدَّعَوَاتِ: 6385]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 6385 کا باب: «بَابُ الدُّعَاءِ إِذَا أَرَادَ سَفَرًا أَوْ رَجَعَ:»
باب اور حدیث میں مناسبت:
ترجمۃ الباب امام بخاری رحمہ اللہ نے سفر میں جاتے ہوئے اور واپس آتے ہوئے کی دعا پر قائم فرمایا، جبکہ تحت الباب حدیث میں صرف واپسی کا ذکر ہے اور دعا بھی صرف واپسی کے وقت ہی کی نقل فرمائی ہے، لہذا باب حدیث سے مکمل طور پر مناسبت نہیں رکھتا، چنانچہ باب اور حدیث میں مناسبت دیتے ہوئے عبدالحق الہاشمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث میں روانگی سفر کی دعا مذکور نہیں ہے لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے اشارہ فرمایا اس روایت کی طرق کی طرف جس میں روانگی کے وقت کی دعا مذکور ہے۔“
«كان إذا استوى على بعيره خارجًا إلى سفر، كبر ثلاثًا ثم قال: . . . . ..» (1)
”یعنی امام بخاری رحمہ اللہ نے حدیث کے دوسرے طرق کی طرف اشارہ فرمایا ہے جس میں نکلتے وقت کو بھی دعا مذکور ہے کہ تین مرتبہ اللہ اکبر کہو . . . . .۔“
علامہ قسطلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«ولم يذكر المؤلف الدعا إذا أراد سفرًا و لعله يشير إلى نحو ما وقع عند مسلم فى رواية على بن عبدالله الأزدي عن ابن عمر أن النبى صلى الله عليه وسلم كان إذا استوى على بعيره خارجًا إلى سفر كبر ثلاثًا ثم قال: ”سُبْحَانَ الَّذِيْ سَخَّرَ لَنَا هَذَا . . . . .“ الحديث.» (2)
امام قسطلانی رحمہ اللہ نے بھی یہی فرمایا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس روایت کی طرف اشارہ فرمایا ہے جس میں سفر کے لیے نکلتے وقت کی دعا مذکور ہے جسے امام مسلم نے اپنی صحیح میں بطریق علی بن عبداللہ الازدی عن ابن عمر رضی اللہ عنہما سے نکالا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنی سواری پر سوار ہوتے سفر کے نکلنے کے لیے تو فرماتے: «سُبْحَانَ الَّذِيْ سَخَّرَ لَنَا هَذَا . . . . .»
لہذا باب اور حدیث میں مناسبت اس جہت سے ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اشارہ فرمایا ہے اس روایت کی طرف جس میں نکلتے وقت بھی سفر کی دعا کا ذکر ہے۔
عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 211
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2770
´سفر میں ہر بلندی پر چڑھتے وقت تکبیر کہنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب جہاد یا حج و عمرہ سے لوٹتے تو ہر بلندی پر چڑھتے وقت تین بار «الله اكبر» کہتے، اور اس کے بعد یہ دعا پڑھتے: «لا إله إلا الله، وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير، آيبون تائبون عابدون ساجدون لربنا حامدون، صدق الله وعده، ونصر عبده، وهزم الأحزاب وحده» ”اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، وہ تن تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کے لیے بادشاہت ہے، اور اسی کے لیے حمد ہے، او وہ ہر چیز پر قادر ہے، ہم لوٹنے والے ہیں، توبہ کرنے والے ہیں، عب۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2770]
فوائد ومسائل:
مسنون یہی ہے کہ بلندی پرچڑھتے ہوئے تکبیر (اللہ أکبر) اور پستی کیطرف اترتے ہوئے تسبیح (سبحان اللہ) کہا جائے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2770
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3278
0 [صحيح مسلم، حديث نمبر:3278]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
قَفَلَ:
واپس لوٹنا۔
(2)
جَيُوْش:
جیش کی جمع ہے،
بڑا لشکر۔
(3)
سَرَايَا:
سرية کی جمع ہے،
چھوٹا لشکر،
اَوْفیٰ:
چڑھتے،
بلند ہوتے۔
(4)
ثَنِيَّة:
پہاڑی،
ٹیلہ۔
(5)
فَدْفَدْ:
زمین کا بلند اور سخت ٹکڑا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3278
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2995
2995. حضرت عبد اللہ بن عمر ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی ﷺ جب حج و عمرہ کے سفر سے واپس ہوتے، اور میں خوب جانتا ہوں کہ آپ نے سفر جہاد کا بھی ذکر فرمایا: جب بھی کسی بلندی پر چڑھتے یا (نشیب سے) کنکریوں والے کھلے میدان میں پہنچتے تو تین مرتبہ اللہ أکبر کہتے۔ پھر یوں دعا کرتے: ”اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ وہ یکتا ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ اسی کے لیے بادشاہی ہے اور اسی کے لیے تمام تعریفیں ہیں۔ وہی چیز پر پوری قدرت رکھنے والا ہے۔ ہم واپس ہو رہے ہیں، توبہ کرتے ہوئے، اس کی عبادت بجا لاتے ہوئے، اپنے پروردگار کی بارگاہ میں سجدہ کرتے ہوئے، اس کی حمد پڑھتے ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنا وعدہ سچا کر دکھایا۔ اس نے اپنے بندے کی مدد فرمائی اور اس اکیلے نے لشکروں کو شکست سے دوچار کیا۔“ (راوی حدیث) صالح نے کہا: میں نے ان (اپنے شیخ حضرت سالم بن عبداللہ)سے پوچھا: کیا حضرت عبد اللہ ؓنے إن شاء اللہ کے الفاظ نہیں کہے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2995]
حدیث حاشیہ:
رسول کریمﷺ نے حمد مذکورہ میں صدق اللہ وعدہ الخ کے الفاظ غزوہ خندق کے موقع پر ارشاد فرمائے تھے‘ اور حجۃ الوداع سے واپسی پر بھی جب کہ اسلام کو فتح کامل ہوچکی تھی اب بھی ان پاک ایام کی یاد تازہ کرنے کے لئے ان جملہ کلمات طیبات کو ایسے مبارک مواقع پر پڑھا جاسکتا ہے۔
لفظ مبارک إن شاء اللہ کا تعلق مستقبل کے ساتھ ہے نہ کہ ماضی کے اسی لئے اس موقع پر جو ماضی سے متعلق تھا‘ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے لفظ إن شاء اللہ نہیں کہا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2995
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3084
3084. حضرت عبداللہ بن عمر ؓسے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ جب سفر سے واپس ہوتے تو تین مرتبہ اللہ أکبر کہتے اور پھر یہ دعا پڑھتے: ”ہم إن شاءاللہ (اللہ کی طرف) لوٹنے والے ہیں۔ توبہ کرنے، عبادت کرنے والے، اپنے رب کی حمدوثنا کرنے والے اور اس کے حضور سجدہ ریزہونے والے ہیں۔ اللہ نے اپنا وعدہ سچا کردکھایا۔ اس نے اپنے بندے کی مدد فرمائی۔ اور اس اکیلے نے کافروں کو شکست سے دوچار کردیا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3084]
حدیث حاشیہ:
آئبون کا مطلب أي نحن راجعون الی اللہ یعنی ہم اللہ کی طرف رجوع کرنے والے ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3084
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4116
4116. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ جب کسی جنگ یا حج و عمرہ سے واپس آتے تو پہلے تین مرتبہ اللہ اکبر کہتے، پھر یوں فرماتے: ”اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ اسی کی حکومت ہے۔ حمد و ثنا اسی کے لیے ہے اور وہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔ اے اللہ! ہم واپس ہو رہے ہیں، توبہ کرتے ہوئے، عبادت کرتے ہوئے، اپنے رب کے حضور سجدہ کرتے ہوئے اور اپنے رب کی حمد و ثنا کرنے والے ہیں، اللہ تعالٰی نے اپنا وعدہ سچا کر دکھایا، اپنے بندے کی مدد فرمائی اور اس اکیلے نے کفار کی فوجوں کو شکست دی۔" [صحيح بخاري، حديث نمبر:4116]
حدیث حاشیہ:
سچ ہے:
نور خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4116
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6385
6385. حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب کسی غزوے یا حج یا عمرے سے واپس لوٹتے تو سطح زمین سے ہر بلند جگہ پر چڑھتے وقت تین دفعہ اللہ اکبر کہتے، پھر کہتے: اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اسی کے لیے بادشاہی ہے اور اسی کے لیے تمام تعریفیں ہیں اور وہ ہر چیز پر خوب قدرت رکھنے والا ہے۔ ہم توبہ کرتے ہوئے اس کی عبادت کرتے ہوئے اپنے رب کی حمد و ثناء کرتے ہوئے لوٹ رہے ہیں اللہ نے اپنا وعدہ سچا کر دکھایا۔ اس نے اپنے بندے کی مدد کی اور اس اکیلے نے تمام لشکروں کی شکست دی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6385]
حدیث حاشیہ:
بلندی پر چڑھتے ہوئے اللہ کی بلندی وبڑائی کو یاد رکھ کر نعرئہ تکبیر بلند کرنا شان ایمانی ہے۔
ایسے عقیدہ وعمل والوں کو اللہ دنیا میں بھی بلندی دیتا ہے آیت ﴿کتبَ اللہُ لأَغلبَنَّ أنا و رُسُلي﴾ (المجادلة)
میں وہی اشارہ ہے۔
لشکر کو شکست دینے کا اشارہ جنگ احزاب پر ہے جہاں کفار بڑی تعداد میں جمع ہوئے تھے مگر آخر میں خائب و خاسر ہوئے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6385
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1797
1797. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ جہاد یا حج وعمرے سے لوٹتے تو زمین کی ہر اونچی جگہ پر چڑھتے وقت تین مرتبہ اللہ أکبر کہتے پھر یہ دعا پڑھتے: " لا إله إلاَّ اللَّه وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ المُلْك ولَهُ الحمْدُ، وَهُو على كلِّ شَيءٍ قَدِيرٌ . آيِبُونَ تَائِبُونَ عابِدُونَ ساجِدُونَ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ . صدقَ اللَّه وَعْدهُ، وَنَصر عبْده، وَهَزَمَ الأَحزَابَ وحْدَه " ”اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ اسی کی حکومت وبادشاہت ہے۔ وہی تعریف کے لائق ہے اور وہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھنے والا ہے۔ ہم سفر سے لوٹنے والے توبہ کرنے والے، اپنے مالک کی بندگی کرنے والے، اس کے حضور سجدہ ریز ہونے والے اپنے پروردگار کی تعریف کرنے والے ہیں جس نے اپنا وعدہ سچا کردکھایا اپنے بندے کی مدد فرمائی اور اس اکیلے نے کفار کی افواج کوشکست سے دوچارکردیاہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1797]
حدیث حاشیہ:
(1)
یہ دعا جہاد اور حج و عمرے کے سفر کے لیے ہی خاص نہیں بلکہ ہر سفر سے واپسی پر پڑھی جا سکتی ہے جو اللہ کی اطاعت کے لیے اختیار کیا گیا ہو، چنانچہ امام بخاری ؒ نے کتاب الدعوات میں اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے:
(باب الدعاء إذا أراد سفرا أو رجع)
”جب سفر پر جائے یا واپس آئے تو کیا پڑھے؟“ چونکہ حج و عمرہ کے احکام و مسائل بیان کیے جا رہے ہیں اس مناسبت سے امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو یہاں بیان کیا ہے۔
(فتح الباري781/3) (2)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب کوئی حج و عمرے یا غزوے سے واپس آئے تو اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرے، اس کی نعمتوں کا اقرار کرے، اس کے حضور خضوع و خشوع بجا لائے کہ اللہ تعالیٰ نے حج و عمرے کے ارکان ادا کرنے کی توفیق دی، پھر اسے بخیریت اپنے گھر واپس لوٹا دیا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1797
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2995
2995. حضرت عبد اللہ بن عمر ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی ﷺ جب حج و عمرہ کے سفر سے واپس ہوتے، اور میں خوب جانتا ہوں کہ آپ نے سفر جہاد کا بھی ذکر فرمایا: جب بھی کسی بلندی پر چڑھتے یا (نشیب سے) کنکریوں والے کھلے میدان میں پہنچتے تو تین مرتبہ اللہ أکبر کہتے۔ پھر یوں دعا کرتے: ”اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ وہ یکتا ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ اسی کے لیے بادشاہی ہے اور اسی کے لیے تمام تعریفیں ہیں۔ وہی چیز پر پوری قدرت رکھنے والا ہے۔ ہم واپس ہو رہے ہیں، توبہ کرتے ہوئے، اس کی عبادت بجا لاتے ہوئے، اپنے پروردگار کی بارگاہ میں سجدہ کرتے ہوئے، اس کی حمد پڑھتے ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنا وعدہ سچا کر دکھایا۔ اس نے اپنے بندے کی مدد فرمائی اور اس اکیلے نے لشکروں کو شکست سے دوچار کیا۔“ (راوی حدیث) صالح نے کہا: میں نے ان (اپنے شیخ حضرت سالم بن عبداللہ)سے پوچھا: کیا حضرت عبد اللہ ؓنے إن شاء اللہ کے الفاظ نہیں کہے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2995]
حدیث حاشیہ:
1۔
رسول اللہ ﷺ نے مذکورہ الفاظ غزوہ خندق کے موقع پر ارشاد فرمائے تھے۔
حجۃ الوداع سے واپسی پر آپ نے ان کلمات کو دہرایا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کو غلبہ عطا فرمایا:
اور جذبہ شکر کے طور پر آپ نے یہ الفاظ کہے۔
ہم بھی ایسے مبارک مواقع پر انھیں پڑھ سکتے ہیں۔
2۔
امام بخاری ؒ کا اس حدیث سے مقصود یہ ہے کہ جب انسان کسی بلندی پر چڑھے تو اللہ أکبر کہے تاکہ اللہ تعالیٰ کی عظمت و کبریائی کا اظہار ہو۔
بلندی پر چڑھتے ہوئے یہ خیال نہیں آنا چاہیے کہ ہم بلند ہو رہے ہیں بلندی كے لائق صرف ذات کبریا ہے۔
ہم تو اس کے عاجز بندے ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2995
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3084
3084. حضرت عبداللہ بن عمر ؓسے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ جب سفر سے واپس ہوتے تو تین مرتبہ اللہ أکبر کہتے اور پھر یہ دعا پڑھتے: ”ہم إن شاءاللہ (اللہ کی طرف) لوٹنے والے ہیں۔ توبہ کرنے، عبادت کرنے والے، اپنے رب کی حمدوثنا کرنے والے اور اس کے حضور سجدہ ریزہونے والے ہیں۔ اللہ نے اپنا وعدہ سچا کردکھایا۔ اس نے اپنے بندے کی مدد فرمائی۔ اور اس اکیلے نے کافروں کو شکست سے دوچار کردیا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3084]
حدیث حاشیہ:
یہ روایت متعدد مرتبہ پہلے گزرچکی ہے۔
قبل ازیں بیان ہوا تھاکہ رسول اللہ ﷺ جب کسی بالائی حصے پر چڑھتے تو اللہ أکبر کہتے۔
(صحیح البخاري، الجھاد، حدیث: 2993)
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب حج، عمرے یا کسی غزوے سے واپس ہوتے تو مذکورہ دعا پڑھتے۔
(صحیح البخاري، العمرة، حدیث: 1797)
امام بخاری ؒنے ثابت کیا ہے کہ مجاہدین جب جہاد سے واپس لوٹیں تو مذکورہ دعا پڑھیں۔
اس میں سراسر اللہ کے حضور اپنی خود سپردگی کو بیان کیا گیا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3084
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4116
4116. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ جب کسی جنگ یا حج و عمرہ سے واپس آتے تو پہلے تین مرتبہ اللہ اکبر کہتے، پھر یوں فرماتے: ”اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ اسی کی حکومت ہے۔ حمد و ثنا اسی کے لیے ہے اور وہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔ اے اللہ! ہم واپس ہو رہے ہیں، توبہ کرتے ہوئے، عبادت کرتے ہوئے، اپنے رب کے حضور سجدہ کرتے ہوئے اور اپنے رب کی حمد و ثنا کرنے والے ہیں، اللہ تعالٰی نے اپنا وعدہ سچا کر دکھایا، اپنے بندے کی مدد فرمائی اور اس اکیلے نے کفار کی فوجوں کو شکست دی۔" [صحيح بخاري، حديث نمبر:4116]
حدیث حاشیہ:
اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولﷺ اور مسلمانوں کی دعاؤں کو شرف قبولیت سے نوازا، چنانچہ مشرکین کی صفوں میں پھوٹ پڑجانے اور پست ہمتی سرایت کرجانے کے بعداللہ تعالیٰ نے ان پر تند ہواؤں کا طوفان بھیج دیا جس نے ان کے خیمے اکھاڑ دیے، ہنڈیاں الٹ دیں اور اس کے ساتھ ہی فرشتوں کا لشکر بھیج دیا جس نے انھیں ہلاڈالا اور ان کے دلوں میں رعب اور خوف ڈال دیا، اس طرح اللہ تعالیٰ نے اپناوعدہ پورا کیا، اپنے لشکر کو عزت بخشی، اپنے بندے کی مدد کی اور اکیلے ہی نے لشکروں کو شکست دی، چنانچہ رسول اللہ ﷺ اس کے بعد بخیر وسلامتی مدینہ طیبہ واپس آگئے۔
رسول اللہ ﷺ جس روز خندق سے واپس آئے وہ بدھ کا دن تھا اور ذی قعدہ کے ختم ہونے میں صرف سات دن باقی تھے جبکہ محاصرے کا آغاز ماہ شوال میں ہوا تھا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”اور کفار کو اللہ تعالیٰ نے مقصد حاصل کیے بغیر اپنے دلوں کی جلن دلوں ہی میں لیے واپس لوٹا دیا اورلڑائی کے لیے اہل ایمان کی طرف سے اللہ تعالیٰ کافی ہوگیا۔
یقیناً وہ بڑی قوت والا اور زبردست ہے۔
“ (الأحزاب: 25/33)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4116
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6385
6385. حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب کسی غزوے یا حج یا عمرے سے واپس لوٹتے تو سطح زمین سے ہر بلند جگہ پر چڑھتے وقت تین دفعہ اللہ اکبر کہتے، پھر کہتے: اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اسی کے لیے بادشاہی ہے اور اسی کے لیے تمام تعریفیں ہیں اور وہ ہر چیز پر خوب قدرت رکھنے والا ہے۔ ہم توبہ کرتے ہوئے اس کی عبادت کرتے ہوئے اپنے رب کی حمد و ثناء کرتے ہوئے لوٹ رہے ہیں اللہ نے اپنا وعدہ سچا کر دکھایا۔ اس نے اپنے بندے کی مدد کی اور اس اکیلے نے تمام لشکروں کی شکست دی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6385]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں سفر سے واپسی کی دعا کا ذکر ہے، البتہ امام بخاری رحمہ اللہ نے قائم کردہ عنوان میں اس روایت کی طرف اشارہ کیا ہے جس میں سفر کے آغاز کی دعا ہے، چنانچہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر میں جانے کے لیے سواری پر بیٹھ جاتے تو یہ دعا پڑھتے:
(الله اكبر، الله اكبر، الله اكبر، «سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَذَا، وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ، وَإِنَّا إِلَى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُونَ، اللهُمَّ إِنَّا نَسْأَلُكَ فِي سَفَرِنَا هَذَا الْبِرَّ وَالتَّقْوَى، وَمِنَ الْعَمَلِ مَا تَرْضَى، اللهُمَّ هَوِّنْ عَلَيْنَا سَفَرَنَا هَذَا، وَاطْوِ عَنَّا بُعْدَهُ، اللهُمَّ أَنْتَ الصَّاحِبُ فِي السَّفَرِ، وَالْخَلِيفَةُ فِي الْأَهْلِ، اللهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ وَعْثَاءِ السَّفَرِ، وَكَآبَةِ الْمَنْظَرِ، وَسُوءِ الْمُنْقَلَبِ فِي الْمَالِ وَالْأَهْلِ» (صحیح مسلم، الحج، حدیث: 3275 (1342)
''اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے۔
پاک ہے وہ ذات جس نے ہماری سواری کو ہمارے لیے مسخر کر دیا ورنہ ہم اسے قابو کرنے والے نہ تھے۔
بالآخر ہم بھی اپنے مالک کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔
اے اللہ! ہم تجھ سے اس سفر میں نیکی اور پرہیزگاری کا سوال کرتے ہیں، نیز ان اعمال کا جو تیری رضا کا باعث ہوں۔
اے اللہ! تو اس سفر کو ہم پر آسان کر دے اور اس کی لمبائی اور طوالت کو ہمارے لیے مختصر کر دے۔
اے اللہ! بس تو ہی اس سفر میں ہمارا ساتھی ہے اور تو ہی ہمارے پیچھے ہمارے مال اور اہل و عیال کی نگرانی کرنے والا ہے۔
اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں اس سفر کی مشقت سے اور اس بات سے کہ دوران سفر میں کوئی رنج والی اور تکلیف دہ بات دیکھوں یا سفر سے لوٹ کر اپنے اہل خانہ میں کوئی بری بات پاؤں۔
اس دعا کا ایک ایک جز اپنے اندر کمال درجے کی معنویت رکھتا ہے۔
واللہ المستعان
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6385