Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب فَرْضِ الْخُمُسِ
کتاب: خمس کے فرض ہونے کا بیان
1. بَابُ فَرْضِ الْخُمُسِ:
باب: خمس کے فرض ہونے کا بیان۔
حدیث نمبر: 3093
فَقَالَ: لَهَا أَبُو بَكْرٍ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ فَغَضِبَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَهَجَرَتْ أَبَا بَكْرٍ، فَلَمْ تَزَلْ مُهَاجِرَتَهُ حَتَّى تُوُفِّيَتْ وَعَاشَتْ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سِتَّةَ أَشْهُرٍ، قَالَتْ: وَكَانَتْ فَاطِمَةُ تَسْأَلُ أَبَا بَكْرٍ نَصِيبَهَا مِمَّا تَرَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ خَيْبَرَ وَفَدَكٍ وَصَدَقَتَهُ بِالْمَدِينَةِ، فَأَبَى أَبُو بَكْرٍ عَلَيْهَا ذَلِكَ، وَقَالَ: لَسْتُ تَارِكًا شَيْئًا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْمَلُ بِهِ إِلَّا عَمِلْتُ بِهِ، فَإِنِّي أَخْشَى إِنْ تَرَكْتُ شَيْئًا مِنْ أَمْرِهِ أَنْ أَزِيغَ فَأَمَّا صَدَقَتُهُ بِالْمَدِينَةِ فَدَفَعَهَا عُمَرُ إِلَى عَلِيٍّ وَعَبَّاسٍ، وَأَمَّا خَيْبَرُ وَفَدَكٌ فَأَمْسَكَهَا عُمَرُ، وَقَالَ: هُمَا صَدَقَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَتَا لِحُقُوقِهِ الَّتِي تَعْرُوهُ وَنَوَائِبِهِ، وَأَمْرُهُمَا إِلَى مَنْ وَلِيَ الْأَمْرَ، قَالَ: فَهُمَا عَلَى ذَلِكَ إِلَى الْيَوْمِ، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: اعْتَرَاكَ افْتَعَلْتَ مِنْ عَرَوْتُهُ فَأَصَبْتُهُ وَمِنْهُ يَعْرُوهُ وَاعْتَرَانِي.
ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اپنی حیات میں) فرمایا تھا کہ ہمارا (گروہ انبیاء علیہم السلام کا) ورثہ تقسیم نہیں ہوتا ‘ ہمارا ترکہ صدقہ ہے۔ فاطمہ رضی اللہ عنہا یہ سن کر غصہ ہو گئیں اور ابوبکر رضی اللہ عنہ سے ترک ملاقات کی اور وفات تک ان سے نہ ملیں۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد چھ مہینے زندہ رہی تھیں۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خیبر اور فدک اور مدینہ کے صدقے کی وراثت کا مطالبہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کیا تھا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اس سے انکار تھا۔ انہوں نے کہا کہ میں کسی بھی ایسے عمل کو نہیں چھوڑ سکتا جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زندگی میں کرتے رہے تھے۔ (عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مدینہ کا جو صدقہ تھا وہ عمر رضی اللہ عنہ نے علی اور عباس رضی اللہ عنہما کو (اپنے عہد خلافت میں) دے دیا۔ البتہ خیبر اور فدک کی جائیداد کو عمر رضی اللہ عنہ نے روک رکھا اور فرمایا کہ یہ دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا صدقہ ہیں اور ان حقوق کے لیے جو وقتی طور پر پیش آتے یا وقتی حادثات کے لیے رکھی تھیں۔ یہ جائیداد اس شخص کے اختیار میں رہیں گی جو خلیفہ وقت ہو۔ زہری نے کہا ‘ چنانچہ ان دونوں جائیدادوں کا انتظام آج تک (بذریعہ حکومت) اسی طرح ہوتا چلا آتا ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3093 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3093  
حدیث حاشیہ:
اس طویل حدیث میں بہت سے امور کے ساتھ خمس کا بھی ذکر ہے۔
اسی لئے حضرت امام اسے یہاں لائے۔
آنحضرت ﷺ نے اپنے ترکہ کے بارے میں واضح طور پر فرما دیا کہ ہمارا ترکہ تقسیم نہیں ہوتا۔
وہ جو بھی ہو سب صدقہ ہے۔
لیکن حضرت فاطمہ ؓنے حضرت صدیق اکبر ؓسے اپنی وراثت کا مطالبہ کیا۔
حضرت صدیق اکبر ؓنے حدیث نبوی لا نُورِثُ ما ترکناہ صدقة خود آنحضرت ﷺسے سنی تھی۔
اس لئے اس کا خلاف کیونکر کرسکتے تھے۔
اور حضرت فاطمہ ؓ کی ناراضگی اس پر مبنی تھی کہ ان کو اس حدیث کی خبر نہ تھی اسی لئے وہ متروکہ جائداد نبوی میں اپنے حصے کی طالب ہوئیں۔
جائداد کی تفصیل یہ کہ فدک ایک مقام ہے مدینہ سے تین منزل پر‘ وہاں کی زمین آنحضرت ﷺنے خاص اپنے لئے رکھی تھی اورخاص مدینہ میں بنو نضیر کے کھجور کے باغات ‘مخیریق کے سات باغات‘ انصار کی دی ہوئی اراضی‘ وادی القریٰ کی تہائی زمین وغیرہ ابو بکر ؓنے ان جائدادوں کی تقسیم سے انکار فرمادیا۔
اگر آپ حضرت فاطمہ ؓ کا حصہ الگ کردیتے تو پھر آپ کی بیویوں کا اور حضرت عباس ؓ کا حصہ بھی الگ الگ کردینا پڑتا اور وہ طرز عمل جو آنحضرت ﷺ کا اس جائداد میں تھا پورا کرنا ممکن نہ رہتا۔
لہذا آپ نے تقسیم سے انکار کیا۔
جس کا مطلب یہ تھا کہ سب کام اور سب مصارف اسی طرح جاری رہیں جس طرح آنحضرت ﷺ کی حیات دنیاوی میں کیا کرتے تھے‘ اور یہ ان کا کمال احتیاط اور پرہیزگاری تھی۔
بیہقی کی روایت میں ہے کہ حضرت فاطمہ کی بیماری میں حضرت ابو بکر ؓصدیق ان کی عیادت کو گئے اور حضرت فاطمہ ؓکو راضی کرلیا اور وہ راضی ہوگئی تھیں۔
حضرت ابو بکر ؓاور حضرت عمر ؓاپنی خلافت میں ان جائدادوں سے آپ ﷺ کی بیویوں کے مصارف اور دوسرے ضروری مصارف ادا کرتے رہے لیکن حضرت عثمان ؓنے اپنی خلافت میں بطور مقطعہ کے مروان کو فدک دے دیا۔
وہ خود غنی تھے ان کو یہ حاجت نہ تھی کہ فدک سے اپنے مصارف چلاتے (خلاصہ وحیدی)
وقد جاء في الکتاب المغازي أن فاطمة جاءت تسأل نصیبھا مما ترك رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مما أفاءاللہ علیه وفدك وما بقي من خمس خیبر وإلی ھذا أشار البخاري۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3093   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3093  
حدیث حاشیہ:

حضرت فاطمہ ؓ کو اس حدیث کا علم نہیں تھا جو حضرت ابو بکر ؓنے پیش کی۔
کہ ہماری جائیداد میں وراثت نہیں چلتی بلکہ وہ صدقہ ہوتی ہے۔
اس بنا پر انھوں نے رسول اللہ ﷺ کو چھوڑی ہوئی جائیداد سے وراثتی حصہ طلب فرمایا۔
رسول ا للہ ﷺ کی مملوکہ جائیداد کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
قبیلہ بنو نضیر میں منحریق نامی یہودی کے سات باغ تھے اس نے غزوہ احد کے وقت وصیت کی تھی کہ اگر وہ جنگ میں مارا گیا تو اس کے تمام اموال رسول اللہ ﷺ کے ہوں گے۔
چنانچہ وہ اس جنگ میں قتل ہو گیا۔
لہٰذا اس کے تمام باغات رسول اللہ ﷺ کی تحویل میں آگئے۔
انصار نے اپنی کچھ زمینیں رسول اللہ ﷺ کو ہبہ کی تھیں۔
ان تک پانی نہیں پہنچتا تھا وہ بھی آپ کی ملک تھیں۔
بنو نضیر کو جب جلا وطن کیا گیا تو ان کی مملوکہ زمینیں بھی مال فے کے طور پر رسول اللہ ﷺ کے قبضے میں آگئیں۔
فتح خیبر کے بعد اہل فدک نصف زمینیں دینے پر رسول اللہ ﷺسے صلح کر لی تھی
خیبر کے دو قلعے وطیح اور سلالم بھی یہودیوں سے صلح کے نتیجے میں آپ کو ملے تھے۔
خیبر جوبطور شمشیر فتح ہوا تھا اس کے مال غنیمت سے آپ کو پانچواں حصہ ملا تھا وہ بھی آپ کی ملک تھا۔
یہ تمام جائیداد رسول اللہ ﷺ کی تھی اس میں کسی کا کوئی حصہ نہیں تھا۔
رسول اللہ ﷺ اس کی پیداوار سے اپنا اور اپنے اہل خانہ کا خرچ نکال کرباقی مسلمانوں کی ضروریات میں خرچ کر دیتے تھے۔
(عمدةالقاری: 424/10)

اگرچہ اس حدیث میں خمس کا ذکر نہیں ہے تاہم صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہےکہ سیدہ فاطمہ ؓنے حضرت ابو بکر ؓسے مدینہ طیبہ کی بطور فے املاک، فدک اور جو کچھ خمس خیبر سے بچا تھا اس سے حصہ دینے کا مطالبہ کیا تھا۔
(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4240۔
4241)


اس وضاحت سے معلوم ہوا کہ یہ حدیث عنوان کے مطابق ہے بیہقی کی ایک روایت میں ہے کہ جب سیدہ فاطمہ ؓبیمارہوئیں تو حضرت ابو بکر ؓ ان کی تیمارداری کے لیے تشریف لے گئے وہاں آپ نے حضرت فاطمہ ؓ کو مطمئن کر دیا تھا۔
اور وہ راضی ہو گئیں۔
(السنن الکبری: 301/6)

حدیث کے آخر میں لفظ (تَعرُوهُ)
آیا ہے اسی مناسبت سے امام بخاری ؒنے ایک قرآنی لفظ (اعْتَرَاكَ) (ھود 11/54)
کی لغوی تشریح فرمائی ہے۔
(عمدةالقاري: 424/10)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3093