موطا امام مالك رواية ابن القاسم
دعا و اذکار کا بیان
بخشش اور طلب رحم کی دعا سنت ہے
حدیث نمبر: 442
483- مالك عن هشام بن عروة عن عباد بن عبد الله بن الزبير عن عائشة زوج النبى صلى الله عليه وسلم أنها أخبرته أنها سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم قبل أن يموت وهو مستند إلى صدرها وأصغت إليه يقول: ”اللهم اغفر لي، وارحمني، وألحقني بالرفيق الأعلى.“ كمل حديث هشام بن عروة، وهو أربعة وثلاثون حديثا.
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے پہلے سنا، وہ ان کی طرف متوجہ تھیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے سینے سے ٹیک لگائے فرما رہے تھے: ”اے اللہ! مجھ پر (اپنی رحمت کا) پردہ ڈال اور رحم فرما اور مجھے الرفیق الاعلیٰ کے ساتھ ملا دے۔“ ہشام بن عروہ کی (بیان کردہ) حدیثیں مکمل ہوئیں اور یہ چونتیس حدیثیں ہیں۔
تخریج الحدیث: «483- الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 238/1ح 565، ك 16 ب 16 ح 46) التمهيد 254/22، الاستذكار: 519، و أخرجه مسلم (2444) من حديث مالك به.»
قال الشيخ زبير على زئي: سنده صحيح
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم کی حدیث نمبر 442 کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 442
تخریج الحدیث:
[وأخرجه مسلم 2444، من حديث ما لك به]
تفقه:
➊ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو چکے ہیں۔
➋ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم مشکل کشا نہیں تھے۔
➌ بیماری کے ایام میں مریض کی دیکھ بھال اور خدمت کرنا باعث اجر و ثواب ہے۔
➍ ہمیشہ الله تعالی سے ڈرتے رہنا اور ہمہ وقت اس کی رحمت کا طلب گار رہنا تقویٰ کی علامت ہے۔
➎ تمام انبیاء اور رسول ہرقسم کے گناہ سے پاک و معصوم تھے، اس کے باوجود انبیاء و پیغمبر اللہ سے استغفار کرتے رہے اور یہ ان کی تواضع اور اللہ تعالی سے محبت کی اعلٰی دلیل ہے۔ مثلا یہودیوں اور عیسائیوں کی مقدس کتاب میں لکھا ہوا ہے کہ داود علیہ السلام نے اپنے مزمور میں فرمایا: ”اور میرے سب گناہ معاف فرما۔“ [زبور باب 25 فقره: 18، بائبل عهد نامه قديم ص 541،]
اسی عبارت کے انگریزی متن میں لکھا ہوا ہے کہ ”and forgive all my sins“
(The Bible Psalms 25:18 Page 476)
حالانکہ سب لوگوں کو معلوم ہے کہ انبیائے کرام ہر قسم کے گناہوں سے بالکل معصوم اور پاک تھے لہٰذا ایسی دعا ئیں تواضع، عاجزی اور امت کی تعلیم و تربیت پرمحمول ہیں۔ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بعض روایتوں میں «اللهم اغْفِرْلِيْ ذَنبِْيْ كُلَّهُ» کے الفاظ آئے ہیں، ان کا ترجمہ کرتے ہوئے احمد یار خان میں بریلوی نے لکھا: خدایا! میرے سارے گناہ بخش دے۔ [ترجمه مشكوة المصابيح ج 1 ص 194، شائع كرده مكتبه اسلاميه، 40، اردو بازار لاهور،]
یہ ”مکتبہ اسلامیہ“ بریلویوں کا ہے جنہوں نے اس کتاب کو پیر بھائی پرنٹرز پریس سے شائع کیا ہے۔ دوسرا مکتبہ اسلامیہ اہل حدیث کا ہے جس کے مالک محترم سرور عاصم صاحب ہیں، اس مکتبے نے کتاب مذکور کو شائع نہیں کیا۔ اسے خوب سمجھ لیں۔
حدیث مذکور کا ترجمہ کرتے ہوئے غلام رسول سعیدی بریلوی نے لکھا: ”اے اللہ! میرے تمام گناہ معاف فرما دے“ [شرح صحيح مسلم ج 1 ص 1275، حديث:987 مطبوعه فريد بك سٹال 38 اردو بازار لاهور نمبر2]
◄ ہماری تحقیق میں حدیث مذکور کا مفہوم وہ نہیں بلکہ یہ ہے: ”اے اللہ! میرے اور گناہوں کے درمیان پردہ حائل کر دے۔“
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 483