موطا امام مالك رواية ابن القاسم
طب و عیادت کے مسائل
طاعون والی جگہ جانا اور وہاں سے فرار جائز نہیں ہے
حدیث نمبر: 434
63- مالك عن ابن شهاب عن عبد الحميد بن عبد الرحمن بن زيد بن الخطاب عن عبد الله بن عبد الله بن الحارث بن نوفل عن عبد الله بن عباس: أن عمر بن الخطاب خرج إلى الشام حتى إذا كان بسرغ لقيه أمراء الأجناد أبو عبيدة ابن الجراح وأصحابه فأخبروه أن الوباء قد وقع بالشام. قال ابن عباس: فقال عمر: ادع لي المهاجرين الأولين، فدعاهم فاستشارهم وأخبرهم أن الوباء قد وقع بالشام فاختلفوا، فقال بعضهم: قد خرجت لأمر ولا نرى أن ترجع عنه، وقال بعضهم: معك بقية الناس وأصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم ولا نرى أن تقدمهم على هذا الوباء. فقال: ارتفعوا عني، ثم قال: ادع لي الأنصار، فدعوهم له فاستشارهم فسلكوا سبيل المهاجرين واختلفوا كاختلافهم، فقال: ارتفعوا عني. ثم قال: ادع لي من كان ههنا من مشيخة قريش من مهاجرة الفتح، فدعوهم فلم يختلف عليه منهم رجلان، فقالوا: نرى أن ترجع بالناس ولا تقدمهم على هذا الوباء. فنادى عمر فى الناس: إني مصبح على ظهر فأصبحوا عليه، فقال أبو عبيدة ابن الجراح: أفرارا من قدر الله؟ فقال عمر: لو غيرك قالها يا أبا عبيدة، نعم نفر من قدر الله إلى قدر الله، أرأيت لو كانت لك إبل فهبطت واديا له عدوتان إحداهما خصبة والأخرى جدبة، أليس إن رعيت الخصبة رعيتها بقدر الله وإن رعيت الجدبة رعيتها بقدر الله. قال: فجاء عبد الرحمن بن عوف وكان متغيبا فى بعض حاجته، فقال: إن عندي من هذا علما. سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ”إذا سمعتم به بأرض فلا تقدموا عليه وإذا وقع بأرض وأنتم بها فلا تخرجوا فرارا منه.“قال: فحمد الله عمر ثم انصرف.
سیدنا عبداﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ شام کی طرف جہاد کے لیے نکلے، جب آپ سَرغ (وادی تبوک کے قریب ایک مقام) پہنچے تو آپ کے فوجی امراء (جو کہ اردن، حمص، دمشق، فلسطین اور قنسرین پر مقر ر تھے) ابوعبیدبن الجراح رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی آپ کے پاس آئے اور بتایا کہ شام میں (طاعون کی) وبا پھیلی ہوئی ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: کہ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میرے پاس مہاجرین اولین کو بلاؤ۔ آپ نے انہیں بلا کر ان سے مشورہ کیا اور بتایا کہ شام میں وبا پھیلی ہوئی ہے تو ان کے درمیان اختلاف ہو گیا۔ بعض نے کہا: آپ ایک کام کے لیے گھر سے نکلے ہیں اور ہمارے خیال میں آپ کو اسے چھوڑ کر واپس نہیں جانا چاہیے۔ بعض نے کہا: آپ کے ساتھ السابقون الاولون باقی رہنے والے صحابہ اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے دیگر صحابہ ہیں اور ہمارا یہ خیال ہے کہ آپ انہیں وبا والے علاقے میں لے کر نہ جائیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: آپ میرے پاس سے اٹھ جائیں۔ پھر آپ نے کہا: میرے پاس انصاریوں کو بلاؤ۔ پھر آپ نے ان سے مشورہ کیا تو انہوں نے بھی مہاجرین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ان کی طرح آپس میں اختلاف کیا تو عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے بھی کہا: آپ میرے پاس سے اٹھ جائیں۔ پھر انہوں نے فرمایا: میرے پاس مہاجرین فتح مکہ کے بوڑھے قریشیوں کو لاؤ۔ پھر انہیں بلایا گیا تو ان میں سے کسی نے بھی اختلاف نہیں کیا۔ انہوں نے کہا: ہم یہ سمجھتے ہیں کہ آپ لوگوں کے ساتھ واپس لوٹ جائیں اور انھیں وبا والے علاقے میں لے کر نہ جائیں۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں میں اعلان کیا: میں صبح (واپسی کے لیے) سواری کی پیٹھ پر ہوں گا اور تم بھی اپنی سواریوں پر سوار ہو جانا۔ ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا آپ اﷲ کی تقدیر سے بھاگ رہے ہیں؟ تو عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے ابوعبید! اگر تمہارے علاوہ کوئی اور یہ کہتا تو جی ہاں! ہم اﷲ کی تقدیر سے اﷲ کی تقدیر کی طرف بھاگ رہے ہیں۔ تمہارا کیا خیال ہے؟ اگر تمہارے پاس اونٹ ہوں پھر تم دو وادیوں کے پاس جاؤ، ایک سرسبز و شاداب ہو اور دوسری خشک و خراب ہو تو تم کہاں جاؤ گے؟ اگر تم اونٹوں کو سرسبز و شاداب وادی میں چراتے ہو تو اﷲ کی تقدیر سے چراتے ہو اور اگر خشک و خراب وادی میں چراتے ہو تو اﷲ کی تقدیر سے چراتے ہو۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: پھر سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ جو اپنے کسی کام سے لشکر سے غیرحاضر تھے تشریف لائے تو صحابہ کا اختلاف معلوم ہونے کے بعد انہوں نے فرمایا: میرے پاس اس کے بارے میں علم موجود ہے۔ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ جب تم اس وبا کے بارے میں سنو کہ کسی علاقے میں پھیلی ہوئی ہے تو وہاں نہ جاؤ اور اگر کسی ایسے علاقے میں وبا پھیل جائے جہاں تم موجود ہو تو وہاں سے راہ فرار اختیار کرتے ہوئے نہ نکلو۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: تو عمر رضی اللہ عنہ نے اﷲ کی حمد و ثنا بیان فرمائی اور واپس لوٹ گئے۔
تخریج الحدیث: «63- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 894/2 - 896 ح 1720ك 45 ب 7 ح 22، وعنده: فدعوتهم بدل فدعوهم) التمهيد 361/8-363، الاستذكار: 1652، و أخرجه البخاري (5729) مسلم (2219) من حديث مالك به.»
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم کی حدیث نمبر 434 کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 434
تخریج الحدیث:
[و اخرجه البخاري 5729، ومسلم 2219، من حديث مالك به]
تفقہ:
➊ طاعون اور وبا والے علاقے سے لوگوں کو نہ بھاگنے اور باہر والوں کے وہاں نہ جانے میں کئی حکمتیں ہیں مثلاً:
اول: اگر یہ بیماری اس علاقے کے باہر والے کسی شخص کو لگ گئی تو اس کا عقیدہ خراب ہو سکتا ہے کہ اس بیماری میں بذات خود چھوت پن اور متعدی مرض لگنے کی صلاحیت ہے۔ یہی معاملہ باہر سے آنے والے شخص کا ہے جسے یہ بیماری لگ جائے لہٰذا اس غلط عقیدے کا سدباب کیا گیا ہے۔
دوم: افراتفری اور خوف و ہراس نہ پھیلے۔
➋ صحیح حدیث اگرچہ خبر واحد ہو، حجت ہے کیونکہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ایک صحابی سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ حدیث پر عمل کیا تھا۔ دیکھئے: حدیث [موطا امام مالك: 9]
➌ اصحاب اقتدار کو چاہئے کہ وہ اجتہادی امور میں اصحاب حل و عقد کے مشورے سے عمل کریں۔
➍ عام مسلمانوں کو بھی اہم امور میں اپنے قابل اعتماد بھائیوں سے مشورہ کرنا چاہئے۔
➎ جس مسئلے کے بارے میں کتاب و سنت واجماع میں صریح دلیل نہ ہو تو عموم ادلہ (عام دلیل) سے استدلال یا اجتہاد کیا جا سکتا ہے۔
➏ حقیقی علم قرآن و حدیث ہے۔
➐ یہ عین ممکن ہے کہ چھوٹے عالم کو وہ دلیل معلوم ہو جو بڑے عالم کو معلوم نہیں ہے۔
➑ اس صحیح حدیث کے خلاف مرزا غلام احمد قادیانی (متنبی کذاب) لکھتا ہے اور مجھے معلوم ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جب کسی شہر میں وبا نازل ہو تو اس شہر کے لوگوں کو چاہئے کہ بلا توقف اس شہر کو چھوڑ دیں ورنہ وہ خدا تعالیٰ سے لڑائی کرنے والے ٹھہریں گے۔“ [مجموعه اشتهارات ج2 ص 713] مرزا کا یہ بیان سراسر جھوٹ ہے۔
➒ حدیث رسول کا علم ہو جانے کے بعد قیل و قال کے بجائے فوراً سر تسلیم خم کرنا چاہئے۔
➓ صحابہ کرام کے مبارک دور میں تقلید نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 63
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5729
5729. حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ ملک شام تشریف لے جارہے تھے، جب سرغ مقام پر پہنچے تو آپ کی ملاقات امراء افواج حضرت ابو عبیدہ بن جراح اور ان کے ساتھیوں سے ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ شام میں طاعون کی وبا پھوٹ پڑی ہے۔ یہ سن کر حضرت عمر بن خطاب ؓ نے فرمایا: مہاجرین اولین کو میرے پاس بلاؤ۔ ان کو بلایا تو ان سے مشورہ طلب کیا اور ان سے کہا کہ شام مین طاعون کی وباء پھوٹ پڑی ہے مہاجرین اولین نے باہم اختلاف رائے کیا: بعض نے کہا: آپ ایک عظیم مقصد (جہاد) کے لیے نکلے ہیں، لہذا ہم آپ کا واپس چلے جانا مناسب نہیں سمجھتے جبکہ کچھ دوسرے حضرات نے کہا کہ آپ کےساتھ رسول اللہ ﷺ کے باقی ماندہ صحابہ کرام ؓ ہیں ہم یہ مناسب نہیں سمجھتےکہ آپ ان کو لے کروبائی علاقے میں جائیں۔ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے فرمایا: آپ حضرات تشریف لے جائیں۔ پھر فرمایا: انصار کو بلاؤ۔ حضرت عباس کہتے ہیں کہ انصا کو بلالایا۔ آپ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5729]
حدیث حاشیہ:
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایسا جواب دیا جو بہت ہی لاجواب تھایعنی بھاگنا بھی بتقدیر الٰہی ہے کیونکہ کوئی کام دنیا میں جب تک تقدیر میں نہ ہو واقع نہیں پڑتا۔
اس حدیث سے یہ نکلا کہ اگر کسی ملک یا قصبہ میں وبا واقع ہو تو وہاں نہ جانا بلکہ وہاں سے لوٹ آنا درست ہے اور یہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی ارشاد تھا لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس کی خبر نہ تھی ان کی رائے ہمیشہ حکم الٰہی کے موافق ہوا کرتی تھی۔
اس مسئلہ میں بھی موافق ہوئی۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ مع ساتھیوں کے مدینہ کی طرف لوٹ کرچلے۔
حضرت ابو عبیدہ ابن جراح رضی اللہ عنہ کہنے لگے کیا اللہ کی تقدیر سے بھاگتے ہو؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہااگر یہ کلمہ کوئی اور کہتا تو اس کو سزا دیتا۔
یہ قصہ طاعون عمواس سے تعلق رکھتا ہے یہ سنہ 18ھ کا واقعہ ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ شام کے ملک کا سرکاری دورہ کرنے نکلے تھے کہ طاعون عمواس کا ذکر آپ کے سامنے کیا گیا اس وقت ملک شام آپنے کئی مواضعات میں تقسیم کر رکھا تھا ہر جگہ فوج کا ایک ایک سردار تھا۔
خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اور زید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ اور شرحبیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ اور عمر و بن عاص رضی اللہ عنہ یہ سب گورنر تھے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5729
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5729
5729. حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ ملک شام تشریف لے جارہے تھے، جب سرغ مقام پر پہنچے تو آپ کی ملاقات امراء افواج حضرت ابو عبیدہ بن جراح اور ان کے ساتھیوں سے ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ شام میں طاعون کی وبا پھوٹ پڑی ہے۔ یہ سن کر حضرت عمر بن خطاب ؓ نے فرمایا: مہاجرین اولین کو میرے پاس بلاؤ۔ ان کو بلایا تو ان سے مشورہ طلب کیا اور ان سے کہا کہ شام مین طاعون کی وباء پھوٹ پڑی ہے مہاجرین اولین نے باہم اختلاف رائے کیا: بعض نے کہا: آپ ایک عظیم مقصد (جہاد) کے لیے نکلے ہیں، لہذا ہم آپ کا واپس چلے جانا مناسب نہیں سمجھتے جبکہ کچھ دوسرے حضرات نے کہا کہ آپ کےساتھ رسول اللہ ﷺ کے باقی ماندہ صحابہ کرام ؓ ہیں ہم یہ مناسب نہیں سمجھتےکہ آپ ان کو لے کروبائی علاقے میں جائیں۔ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے فرمایا: آپ حضرات تشریف لے جائیں۔ پھر فرمایا: انصار کو بلاؤ۔ حضرت عباس کہتے ہیں کہ انصا کو بلالایا۔ آپ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5729]
حدیث حاشیہ:
(1)
یہ اٹھارہ ہجری کا واقعہ ہے۔
شام کے علاقہ عمواس میں طاعون کی وبا پھیلی۔
عمواس، رملہ اور بیت المقدس کے درمیان ایک قصبے کا نام ہے۔
اس وبا سے تقریباً تیس ہزار افراد لقمۂ اجل بنے۔
یہ وہ طاعون تھا جو اسلام میں سب سے پہلے واقعہ ہوا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ وہاں کے حالات معلوم کرنے کے لیے شام جانا چاہتے تھے، لیکن راستے میں طاعون کے پھوٹ پڑنے کی اطلاع ملی تو انہوں نے واپسی کا پروگرام بنایا۔
اگرچہ انہیں اس کے متعلق کوئی حدیث معلوم نہ تھی لیکن اکثر ان کی رائے حکم الٰہی کے موافق ہوا کرتی تھی، بعد میں جب پتا چلا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی یہی ارشاد ہے تو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔
(2)
بہرحال اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کسی ملک یا قصبے میں طاعون کی وبا پھوٹ پڑے تو وہاں نہیں جانا چاہیے اور وہاں کے لوگوں کو اس مقام سے نہیں نکلنا چاہیے اور ایسا کرنا اللہ تعالیٰ کی تقدیر سے راہ فرار اختیار کرنا نہیں بلکہ تقدیر ہی کا ایک حصہ ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5729