Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

موطا امام مالك رواية ابن القاسم
طب و عیادت کے مسائل
طاعون والی جگہ جانا اور وہاں سے فرار جائز نہیں ہے
حدیث نمبر: 433
9- مالك عن ابن شهاب عن عبد الله بن عامر بن ربيعة العدوي أن عمر بن الخطاب خرج إلى الشام. فلما جاء سرغ بلغه أن الوباء قد وقع بالشام، فأخبره عبد الرحمن بن عوف أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”إذا سمعتم به بأرض فلا تقدموا عليه وإذا وقع بأرض وأنتم بها، فلا تخرجوا فرارا منه“، فرجع عمر بن الخطاب رضى الله عنه من سرغ.
عبداللہ بن عامر بن ربیدہ العدوی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ شام کر طرف (جہاد کے لئے) نکلے، جب آپ سَرغ (شام کے قریب، وادی تبوک کے ایک مقام) پر پہنچے تو آپ کو معلوم ہوا کہ شام میں (طاعون کی) وبا پھیلی ہوئی ہے۔ پس سیدنا عبدالرحٰمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے آپ کو بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تمہیں کسی علاقے میں اس (وبا) کے وقوع کا پتا چلے تو وہاں نہ جاؤ اور اگر اس علاقے میں یہ (وبا) پھیل جائے جس میں تم موجود ہو تو اس سے راہ فرار اختیار کرتے ہوئے نہ بھاگو۔ پس عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سرغ سے واپس لوٹا آئے۔

تخریج الحدیث: «9- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 896/2، 897 ح 1722، كه 45، ب 7، ح 24) التمهيد 210/6، الاستذكار: 1654، أخرجه البخاري (5730، 6973) و مسلم (2219) من حديث مالك به.»

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم کی حدیث نمبر 433 کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 433  
تخریج الحدیث: [الموطأ رواية يحييٰ بن يحييٰ 896/2، 897 ح 1722، كه 45، ب 7، ح 24، التمهيد 210/6، الاستذكار: 1654، أخرجه البخاري 5730، 6973، و مسلم 2219، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ سالم بن عبداللہ بن عمر رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ، عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کی حدیث کی وجہ سے واپس لوٹے تھے۔ [صحيح بخاري: 6973 و صحيح مسلم: 2219/100]
یہ اتباع سنت کی اعلیٰ مثال ہے۔
➋ خبر واحد حجت ہے بشرطیکہ خبر بیان کرنے والا ثقہ و صدوق ہو۔
➌ اگر وباء والے علاقے میں کوئی شخص اس وباء کا شکار ہو جائے تو عین ممکن ہے کہ اس شخص کا عقیدہ خراب ہوجائے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ وباء زدہ علاقے میں جانے اور وہاں سے نکلنے سے منع کیا گیا ہے۔
➍ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ کرام کی محبت بے مثال ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 9   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5787  
حضرت عبداللہ بن عامر ربیعہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ شام کی طرف روانہ ہوئے تو جب سرغ مقام پر پہنچے، انہیں اطلاع ملی کہ شام میں وبا پھیل چکی ہے تو انہیں حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے جب تم کسی علاقہ میں اس کا ہونا سنو تو وہاں نہ جاؤ اور جب تمہارے علاقہ میں پڑ جائے تو اس سے بھاگتے ہوئے وہاں نہ نکلو۔ اس وجہ سے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:5787]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضرت سالم رضی اللہ عنہ کے قول سے معلوم ہوتا ہے،
حضرت عمر کے عزم میں پختگی حدیث سننے سے ہی پیدا ہوئی،
بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے،
حضرت عمر نے واپسی پر ندامت کا اظہار کیا تو ممکن ہے جب جلدی وباء ختم ہو گئی تو انہیں خیال پیدا ہوا ہو گا،
اگر میں سرغ میں ٹھہرتا اور وباء کے خاتمہ کے بعد شام چلا جاتا تو میں نے جس مقصد کے لیے سفر کیا تھا،
وہ بھی پورا ہو جاتا اور حدیث پر بھی عمل ہو جاتا ہے،
یہ نہیں ہے کہ ان کی رائے بدل گئی تھی اور وہ وبائی علاقہ میں جانا درست سمجھنے لگے تھے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5787   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5730  
5730. حضرت عبداللہ بن عامر سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ شام کے لیے روانہ ہوئے، جب آپ سرغ مقام پر پہنچے تو آپ کو اطلاع ملی کہ شام میں طاعون کی وبا پھوٹ پڑی ہے پھر حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ نے انہیں بتایا کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: جب تم کسی علاقے کے متعلق سنو کہ وہاں وبا پھوٹ پڑی ہے تو وہاں مت جاؤ، اور جب کسی ایسی جگہ وبا پھوٹ پڑے جہاں تم موجود ہوتو وہاں سے مت نکلو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5730]
حدیث حاشیہ:
(1)
جب حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سنائی تو انہوں نے واپسی کا پختہ پروگرام بنا لیا۔
مصنف ابن ابی شیبہ کی روایت میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو واپس لوٹنے پر ندامت ہوئی اور آپ یوں دعا کیا کرتے تھے:
اے اللہ! میرا مقام سرغ سے واپس آنا معاف کر دے۔
(المصنف لابن ابی شیبۃ: 7/28، رقم: 33837)
ان کا اظہار ندامت اس لیے تھا کہ وہ ایک بہت بڑی مہم کے لیے نکلے تھے، جب منزل مقصود کے قریب پہنچ گئے تو واپس آ گئے، وہاں قریب کسی مقام پر طاعون ختم ہونے کا انتظار کر لیتے پھر اپنی مہم پر روانہ ہو جاتے، وہ طاعون جلدی ہی ختم ہو گیا۔
(2)
شاید انہیں جب جلدی ختم ہونے کی اطلاع ملی تو انہوں نے اس پر اظہار ندامت کیا ہو کیونکہ واپس لوٹنے میں جس قدر مشقت اور ذہنی کوفت برداشت کرنا پڑی وہ انتظار کرنے میں نہ ہوتی، نیز حدیث وہاں جانے سے ممانعت کے لیے تھی، وہاں سے واپس آنے کے متعلق نہ تھی۔
(فتح الباری: 10/230)
واللہ اعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5730