موطا امام مالك رواية ابن القاسم
طب و عیادت کے مسائل
نظر سے بچاؤ کے لئے دھاگے منگے لٹکانا منع ہے
حدیث نمبر: 432
307- وبه: عن عباد بن تميم أن أبا بشير الأنصاري أخبره أنه كان مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فى بعض أسفاره، قال: فأرسل رسول الله صلى الله عليه وسلم رسولا، قال عبد الله بن أبى بكر: حسبت أنه قال والناس فى مبيتهم: ”لا تبقين فى رقبة بعير قلادة من وتر أو قلادة إلا قطعت.“ قال مالك: أرى ذلك من العين.
سیدنا ابوبشیر الانصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی سفر میں تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک پیغامبر (اعلان کرنے والا) بھیجا۔ عبداللہ بن ابی بکر (رحمہ اللہ، راوی حدیث) فرماتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ لوگ اپنی خوابگاہوں میں تھے کہ اس نے اعلان کیا: خبردار! کسی اونٹ کی گردن پر تانت کا پٹا یا کوئی اور پٹا کاٹے بغیر نہ چھوڑنا۔، امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: میرا خیال ہے کہ انہوں نے نظر سے (بچاؤ) کے لیے یہ پٹے (گنڈے) ڈال رکھے تھے۔
تخریج الحدیث: «307- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 937/2 ح 1809، ك 49 ب 13 ح 39) التمهيد 159/17، الاستذكار: 1744، و أخرجه البخاري (3005) و مسلم (894) من حديث مالك به.»
قال الشيخ زبير على زئي: سنده صحيح
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم کی حدیث نمبر 432 کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 432
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 3005، ومسلم 2115، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ دھاگے منکے وغیرہ لٹکا کر یہ سمجھنا کہ بیماری نہیں لگے گی یا نظر بد سے بچاؤ ہوجائے گا، جائز نہیں ہے مگر قرآنی اور غیر شرکیہ عبارات لکھ کر لٹکانے کے بارے میں سلف صالحین کے درمیان اختلاف ہے۔ سیدنا سعید بن المسیب رحمہ اللہ اسے جائز سمجھتے تھے۔ دیکھئے [السنن الكبريٰ للبيهقي 351/9 وسنده صحيح] لیکن بہتر یہی ہے کہ ان سے بھی اجتناب کیا جائے۔
◄ ابرہیم نخعی رحمہ اللہ بچوں کے لئے بیت الخلاء میں داخل ہونے کی وجہ سے تعویذ مکروہ سمجھتے تھے۔ [مصنف ابن ابي شيبه 376/7 ح 23466 وسنده صحيح، دوسرا نسخه 16/8 ح 23823،]
➋ اسحاق بن منصور الکوسج رحمہ اللہ نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے قرآن لٹکانے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا: ہر شئے (علاج کے لئے لکھ کر) لٹکانا مکروہ ہے۔ [ديكهئے مسائل اسحاق و احمد ج 1 ص 193 فقره 382، التمهيد 164/17] ۔ راجح یہی ہے کہ قرآنی و غیر شرکیہ تعویذ شرک یا بدعت نہیں ہے لیکن سدِ ذرائع کے طور پر یہ تعویذ بھی نہیں پہننے چاہئیں۔
➌ شبہات والی اور مشکوک چیزوں سے بچنا ضروری ہے۔
➍ نظر کا لگ جانا برحق ہے۔ دیکھئے [صحيح بخاري 5740 و صحيح مسلم 2187] لیکن اس کا علاج تعویذ گنڈے نہیں بلکہ مسنون دعائیں ہیں۔ مثلاً «أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّةِ مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ وَهَامَّةٍ وَمِنْ كُلِّ عَيْنٍ لَامَّةٍ» والی دعا۔ دیکھئے [صحيح بخاري 3371]
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 307
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2552
´گھوڑے کی گردن میں تانت کے گنڈے پہنانے کا بیان۔`
ابوبشیر انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک قاصد کے ذریعہ پیغام بھیجا، لوگ اپنی خواب گاہوں میں تھے: ”کسی اونٹ کی گردن میں کوئی تانت کا قلادہ باقی نہ رہے، اور نہ ہی کوئی اور قلادہ ہو مگر اسے کاٹ دیا جائے۔“ مالک کہتے ہیں: میرا خیال ہے لوگ یہ گنڈا نظر بد سے بچنے کے لیے باندھتے تھے۔ [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2552]
فوائد ومسائل:
علامہ خطابی لکھتے ہیں کہ امام مالک اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ لوگ اسے نظر بد سے بچائو کےلئے بطور تعویذ ڈالتے تھے۔
اور اسے ہی موثر سمجھتے تھے۔
کئی علماء کا خیال ہے کہ لوگ یہ ان کے گلوں میں گھنٹیاں باندھنے کے لئے ڈالتے تھے۔
کچھ نے کہا کہ ایسا نہ ہو کہ دوڑتے بھاگتے ہوئے جانور کا گلا گھٹ جائے۔
بہر حال وجہ کوئی بھی ہو تانت ڈالنے سے منع فرمایا گیا ہے۔
اور اسی طرح دیگر جاہلانہ تعویز گنڈے بھی ڈالنا جائز نہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2552
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5549
حضرت ابو بشیر انصاری رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کے کسی سفر میں شریک تھے تو آپ نے ایک ایلچی روانہ کیا، عبداللہ بن ابی بکر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں، میرے خیال میں انہوں نے کہا، جبکہ لوگ اپنی آرام گاہ میں تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی اونٹ کی گردن میں تانت کا ہار یا کوئی ہار باقی نہ رہے، مگر اسے کاٹ دیا جائے۔“ امام مالک کہتے ہیں، میرا خیال ہے، لوگ اس کو بدنظری کا علاج سمجھتے تھے۔... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:5549]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
جاہلیت کے دور میں لوگ حیوانات خاص کر اونٹ کی گردن میں تانت کا ہار ڈالتے تھے اور سمجھتے تھے،
اس میں نظر بد سے بچانے کا خاصہ ہے،
اس لیے آپﷺ نے اس کو کاٹنے کا حکم دیا کہ اس کا نظر بد سے بچانے میں کوئی دخل نہیں،
بعض حضرات کا خیال ہے،
یہ حیوان کے لیے تکلیف کا باعث ہے،
اس سے چرنے اور سانس لینے میں دقت پیدا ہوتی ہے،
کسی درخت میں پھنس کر گھٹنے کا بھی اندیشہ ہے اور بعض کا خیال ہے،
اس میں گھنٹی باندھتے تھے،
اگر ہار کھلا ہو،
کسی قسم کا اندیشہ نہ ہو،
محض زیب و زینت کے لیے ہو تو بقول امام نووی جائز ہے اور بقول علامہ عینی اگر یہ تعویذ کے لیے ہو اور اس میں قرآن کی آیت ہو،
یا اللہ کا نام ہو،
جس کا مقصد برکت حاصل کرنا یا اللہ کے اسماء اور اس کے ذکر کی پناہ لینا ہو تو ممنوع نہیں ہے،
اس طرح اگر تکسیر اور اسراف سے بچ کر زینت کے لیے ہو تو پھر بھی ممنوع نہیں۔
(عمدۃ القاری ج 7 ص 43)
مگر ظاہر ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآنی آیات یا اسماء الٰہی کو جانوروں کے گلے میں نہیں ڈالا تو ہمیں بھی اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5549
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3005
3005. حضرت ابو بشیر انصاری ؓسے روایت ہے کہ وہ کسی سفر میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ تھے۔ جب سب لوگ اپنی اپنی خواب گاہوں میں چلے گئے تو رسول اللہ ﷺ نے ایک قاصد کے ہاتھ پیغام بھیجا۔ ”کسی اونٹ کی گردن میں کوئی بندھن یا تانت وغیرہ باقی نہ رہے بلکہ اسے کاٹ دیا جائے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3005]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ کسی جانور کے گلے میں محض زینت اور تفاخر کے لئے گھنٹی یا کوئی اور باجے کی قسم کا لٹکانا منع ہے۔
قال ابن الجوزي وفي المراد بالأوتار ثلاثة أقوال أحدھم أنھم کانوا یقلدون الإبل أوتار القیسي لئلا یصیبھا العین بزعمھم فأمروا یقطعھا إعلاما بأن الأوتار لا ترد من أمر اللہ شیئا۔
یعنی پہلا قول یہ کہ جہلائے عرب اونٹوں کے گلوں میں کوئی تانت بطور تعویذ لٹکا دیتے تاکہ ان کو نظر بد نہ لگے۔
پس ان کے کاٹ پھینکنے کا حکم دیا گیا‘ تاکہ وہ جان لیں کہ اللہ کے حکم کو یہ لوٹا نہیں سکتی۔
دوسرا قول یہ کہ ایسے تانت وغیرہ جانوروں کے گلوں میں لٹکانے اس خوف سے منع کئے گئے کہ ممکن ہے وہ ان کے گلے میں تنگ ہو کر ان کا گلا گھونٹ دیں یا کسی درخت سے الجھ کر تکلیف کا باعث بن جائیں اور جانوروں کو ایذاء پہنچے۔
تیسرا قول یہ کہ وہ گھنٹے لٹکاتے حالانکہ بجنے والے گھنٹوں کی جگہ میں رحمت کے فرشتے نہیں آتے۔
حضرت امام بخاریؒ نے دارقطنی ؒ کی روایت کردہ اس حدیث پر اشارہ کیا ہے۔
جس میں صاف یوں ہے:
«لاَ يَبْقَيَنَّ فِي رَقَبَةِ بَعِيرٍ قِلاَدَةٌ مِنْ وَتَرٍ، أَوْ قِلاَدَةٌ إِلَّا قُطِعَتْ» الا قطع یعنی کسی بھی جانور کے گلے میں کوئی تانت ہو یا گھنٹہ وہ باقی نہ رکھے جائیں۔
(فتح الباري)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3005
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3005
3005. حضرت ابو بشیر انصاری ؓسے روایت ہے کہ وہ کسی سفر میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ تھے۔ جب سب لوگ اپنی اپنی خواب گاہوں میں چلے گئے تو رسول اللہ ﷺ نے ایک قاصد کے ہاتھ پیغام بھیجا۔ ”کسی اونٹ کی گردن میں کوئی بندھن یا تانت وغیرہ باقی نہ رہے بلکہ اسے کاٹ دیا جائے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3005]
حدیث حاشیہ: اس حکم امتناعی کے متعلق محدثین کرام اقوال ذکر کیے ہیں۔
لوگ اونٹ کے گلے میں تانت وغیرہ باندھتے تھے تاکہ انھیں نظر بدنہ لگے۔
رسول اللہ ﷺ نے انھیں کاٹنےکا حکم دیا کہ اس سے عقیدہ خراب ہوتا ہے اور ایسا کرنا اللہ کی تقدیر کو رد نہیں کر سکتا۔
لوگ اس تانت میں گھنٹی باندھتے تھے چنانچہ ایک حدیث میں ہے۔
”فرشتے اس قافلے کے ساتھ نہیں چلتے جس میں گھٹنیاں بجتی ہوں۔
“ (سنن أبي داود، الجهاد، حدیث: 2554) ویسے بھی گھنٹی وغیرہ جنگی چال کے منافی ہے۔
اس قسم کی تانت سے گلا کٹنے کا اندیشہ ہے بعض اوقات سانس تنگ ہو جاتا ہے اور چارا چرنے میں تکلیف کا باعث ہے نیز ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ تانت درخت کے ساتھ پھنس جائے اس سے جانور کا گلاکٹ جائے ان وجوہات کی بنا پر رسول اللہ ﷺ نے مذکورہ حکم امتناعی جاری فرمایا۔
امام بخاری ؒکے عنوان سے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے دوسری توجیہ کو پسند کیا ہے۔
(فتح الباري: 172/6) واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3005