Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

موطا امام مالك رواية ابن القاسم
وراثت کے مسائل
انبیاء علیہ السلام کی وراثت کا مسئلہ
حدیث نمبر: 387
372- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”لا يقسم ورثتي دينارا، ما تركت بعد نفقة نسائي ومؤنة عاملي فهو صدقة.“
اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے ورثاء ایک دینار بھی تقسیم میں نہیں لیں گے۔ میری بیویوں کے نان نفقے اور میرے عامل کے خرچ کے بعد میں نے جو بھی چھوڑا ہے سب صدقہ ہے۔

تخریج الحدیث: «372- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 993/2، ح 1936، ك 56 ب 12 ح 28) التمهيد 171/18، الاستذكار: 1873، و أخرجه البخاري (3096) و مسلم (1760) من حديث مالك به.»

قال الشيخ زبير على زئي: سنده صحيح

موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم کی حدیث نمبر 387 کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 387  
تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 3096 و مسلم 1760 من حديث مالك به]

تفقه:
➊ فقہ الحدیث کے لیے دیکھئے: الموطأ حدیث: 44
➋ انبیاء اور رسولوں کی مالی وراثت نہیں ہوتی بلکہ علمی وراثت ہوتی ہے۔ وہ جو مال بھی چھوڑ جائیں شرعی مصارف کے بعد باقی سب صدقہ ہوتا ہے۔
➌ بیوی کا نان نفقہ شوہر کے ذمے ہوتا ہے۔
➍ موطأ امام مالک کے جس باب میں یہ حدیث مذکور ہے، اس سے ایک باب پہلے «ماجاء فى التقي» میں سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عمر بن الخطاب (رضی اللہ عنہ) ایک چار دیواری میں (اپنے آپ سے باتیں کرتے ہوئے) فرما رہے تھے: عمر بن خطاب! امیر المؤمنین ہو! واہ واہ! اللہ کی قسم! (اے عمر!) تجھے ضرور بالضرور اللہ سے ڈرنا ہوگا ورنہ وہ تجھے عذاب دے گا۔ میں دیوار کے پیچھے سے یہ سن رہا تھا۔ [الموطأ 2/992 ح1933، وسنده صحيح]
➎ موطأ امام مالک (روایۃ ابی مصعب الزہری) میں اس حدیث والے باب سے پہلے باب میں لکھا ہوا ہے کہ عبداللہ بن الزبیر (رضی اللہ عنہ) جب رعد (کڑک چمک) کی آواز سنتے تو باتیں ترک کردیتے اور فرماتے: «سُبْحَانَ الَّذِيْ يُسَبِّحُ الرَّعْدُ بِحَمْدِهِ وَالْمَلَائِكَةُ مِنْ خِيْفَتِهِ» پاک ہے وہ ذات جس کی حمد کے ساتھ رعد تسبیح کررہا ہے اور فرشتے اس کے خوف سے تسبیح کررہے ہیں۔ پھر آپ فرماتے: زمین والوں کے لئے یہ شدید دھمکی ہے۔ [الموطأ رواية ابي مصعب 2/171 ح2094، وسنده صحيح، البخاري فى الأدب المفرد: 723، البيهقي فى السنن الكبريٰ: 3/362]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 372   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2776  
2776. حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "میرے ورثاء درہم و دینار کو تقسیم نہ کریں۔ میں نے اپنی بیویوں کے اخراجات اور اپنے عاملین کے مشاہرات (جائیدادکی دیکھ بھال کرنے والوں کے خرچے)کے بعد جو چھوڑا ہے وہ سب صدقہ ہے۔ " [صحيح بخاري، حديث نمبر:2776]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ جو کوئی وقفی جائداد کا انتظام کرے‘ اس کا وہ متولی ہو وہ اپنی محنت کا واجبی معاوضہ جائداد میں سے دلانے کا مستحق ہو گا۔
(وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2776   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3096  
3096. حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میرے وارث میرے بعد ایک دینار بھی تقسیم نہ کریں بلکہ میں جو چیز چھوڑ جاؤں، اس میں سے میرے عاملوں کی تنخواہیں اور میری بیویوں کا خرچ نکال کر باقی سب صدقہ ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3096]
حدیث حاشیہ:
یعنی جس طرح اسلامی حکومت کے کارندوں کی تنخواہیں دی جائیں گی۔
ازواج مطہرات کا نفقہ بھی اسی طرح بیت المال سے ادا کیا جائے گا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3096   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3096  
3096. حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میرے وارث میرے بعد ایک دینار بھی تقسیم نہ کریں بلکہ میں جو چیز چھوڑ جاؤں، اس میں سے میرے عاملوں کی تنخواہیں اور میری بیویوں کا خرچ نکال کر باقی سب صدقہ ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3096]
حدیث حاشیہ:

عامل سے مراد وہ لوگ ہیں جو صدقات کی نگرانی کرتے تھے بعض شارحین نے اس سے حاکم وقت اور خلیفہ مراد لیا ہے۔

رسول اللہ ﷺ اپنی زندگی میں اپنے صدقات میں سے اہل خانہ کا خرچ اور نگرانوں کے وظائف نکال کر جو بچتا تھا اسے مسلمانوں کے امور اور ان کی ضروریات پر خرچ کرتے تھے چونکہ آپ کی بیویوں کو آپ کی وفات کے بعد کسی سے عقد ثانی کرنے کی اجازت نہیں تھی اس لیے آپ کی وفات کے بعد ان کا نان و نفقہ بھی اسی مد سے ادا کیا جاتا تھا۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے دور خلافت میں امہارت المومنین کو اختیار دیا تھا کہ خرچ لیتی رہیں یا زمینی قطعات لے لیں اور ان میں مزارعت کرائیں۔
چنانچہ حضرت عائشہ ؓ اور حضرت حفصہ ؓ نے زمین کو پسند کیا تو انھیں غابہ میں زمین دے دی گئی اور ان کا صدقات سے حصہ ختم کردیا گیا باقی ازواج کو بدستورخرچہ دیا جاتا رہا۔
(عمدة القار: 432/10)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3096