موطا امام مالك رواية ابن القاسم
عدت کے مسائل
جس عورت کا شوہر فوت ہو جائے اس کی عدت
حدیث نمبر: 383
407- مالك عن سعد بن إسحاق بن كعب بن عجرة عن عمته زينب بنت كعب بن عجرة أن الفريعة بنت مالك بن سنان وهى أخت أبى سعيد الخدري أخبرتها أنها جاءت رسول الله صلى الله عليه وسلم تسأله أن ترجع إلى أهلها فى بني خدرة، فإن زوجها خرج فى طلب أعبد له أبقوا، حتى إذا كانوا بطرف القدوم لحقهم فقتلوه. قالت: فسألت رسول الله صلى الله عليه وسلم أن أرجع إلى أهلي بني خدرة، فإن زوجي لم يتركني فى مسكن يملكه ولا نفقة. قالت: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”نعم“ قالت: فخرجت حتى إذا كنت فى الحجرة أو فى المسجد دعاني أو أمر بي فدعيت له، فقال: ”كيف قلت؟“ قالت: فرددت عليه القصة التى ذكرت له من شأن زوجي، فقال: ”امكثي فى بيتك حتى يبلغ الكتاب أجله“ قالت: فاعتددت فيه أربعة أشهر وعشرا. قالت: فلما كان عثمان بن عفان أرسل إلى فسألني عن ذلك فأخبرته، فاتبعه وقضى به.
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی بہن فریعہ بنت مالک بن سنان رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یہ پوچھنے کے لئے آئیں کہ کیا وہ بنو خدرہ میں اپنے گھر والوں کے پاس جا سکتی ہیں کیونکہ ان کے خاوند اپنے بھاگے ہوئے غلاموں کی تلاش میں نکلے اور جب قدوم کے مقام پر ان کے پاس پہنچ گئے تو ان غلاموں نے انہیں قتل کر دیا۔ فریعہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کیا میں بنو خدرہ میں اپنے گھر والوں کے پاس جا سکتی ہوں کیونکہ میرے خاوند نے میرے لئے اپنی ملکیت میں نہ کوئی گھر چھوڑا ہے اور نہ نان نفقہ؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں“، پھر میں وہاں سے نکل کر حجرے یا مسجد تک پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلوایا یا بلوانے کا حکم دیا پھر فرمایا: تو نے کیسے کہا تھا؟ میں نے اپنے خاوند کے بارے میں سارا قصہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیان کر دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے گھر میں ہی ٹھہری رہو حتیٰ کہ عدت پوری ہو جائے۔“ تو میں نے وہاں چار مہینے دس دن عدت گزاری پھر جب سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے مجھے بلایا اور اس بارے میں پوچھا: تو میں نے آپ کو بتا دیا اور انہوں نے اسی کے مطابق فیصلہ کیا۔
تخریج الحدیث: «407- الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 591/2 ح 1290، ك 29 ب 31 ح 87 وقال سعيد بن اسحاق/والصواب: سعد بن اسحاق) التمهيد 27/21، الاستذكار: 1209، و أخرجه أبوداود (2300) و الترمذي (1204، وقال: ”حسن صحيح“) من حديث مالك به و صححه ابن حبان (الاحسان: 4278/4292)، وفي رواية يحيي بن يحيي:”يملكه“.»
قال الشيخ زبير على زئي: سنده صحيح