Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ
کتاب: جہاد کا بیان
194. بَابُ لاَ هِجْرَةَ بَعْدَ الْفَتْحِ:
باب: فتح مکہ کے بعد وہاں سے ہجرت کرنے کی ضرورت نہیں رہی۔
حدیث نمبر: 3080
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ عَمْرٌو: وَابْنُ جُرَيْجٍ سَمِعْتُ عَطَاءً، يَقُولُ: ذَهَبْتُ مَعَ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ إِلَى عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، وَهِيَ مُجَاوِرَةٌ بِثَبِيرٍ، فَقَالَتْ:" لَنَا انْقَطَعَتِ الْهِجْرَةُ مُنْذُ فَتَحَ اللَّهُ عَلَى نَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَّةَ".
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا کہ عمرو اور ابن جریح بیان کرتے تھے کہ ہم نے عطا سے سنا تھا ‘ وہ بیان کرتے تھے کہ میں عبید بن عمیر کے ساتھ عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس وقت آپ ثبیر پہاڑ کے قریب قیام فرما تھیں۔ آپ نے ہم سے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ پر فتح دی تھی ‘ اسی وقت سے ہجرت کا سلسلہ ختم ہو گیا تھا (ثبیر مشہور پہاڑ ہے)۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3080 کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3080  
حدیث حاشیہ:

ثبیر،مزدلفہ کے نزدیک ایک بڑا پہاڑ ہے جو منیٰ کی طرف جانے والے کے بائیں طرف پڑتا ہے۔
اس حدیث میں بھی ایک خاص ہجرت مراد ہے جو مکہ فتح ہونے کے بعد ختم ہوچکی ہے،البتہ طلب علم اورفتنہ وفساد سے محفوظ رہنے کی نیت سے اپنا مالوف وطن چھوڑنا اور اس سے ہجرت کرجانا اب بھی باقی ہے اور اس قسم کی ہجرت ہمیشہ باقی رہے گی۔

بہرحال اب بھی جہاں کہیں دارالحرب ہے اگر کوئی شخص اپنے دین کو بچانے کی نیت سے ہجرت کرنے پر قادر ہے تو اس پر ہجرت واجب ہے تاکہ ہرقسم کے خطرات سے محفوظ ہوجائے اور اگرعاجز ہوتو کراہت کے ساتھ وہاں اقامت رکھی جاسکتی ہے لیکن اگر مصائب و آلام جھیل کر نکل جائے تو اسے اللہ کے ہاں بہت اجرثواب ملے گا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3080   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4312  
4312. حضرت عطاء بن ابی رباح سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں عبید بن عمیر کے ہمراہ حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے ملنے گیا تو انہوں نے آپ سے ہجرت کے بارے میں پوچھا: حضرت عائشہ‬ ؓ ن‬ے فرمایا: آج ہجرت باقی نہیں رہی کیونکہ پہلے آدمی اپنے دین کو بچانے کے لیے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف بھاگتا تھا، مبادا دین کی وجہ سے کسی فتنے میں مبتلا ہو جائے۔ آج فتح مکہ کے بعد اللہ تعالٰی نے اسلام کو غلبہ دیا ہے، اس لیے مومن جہاں چاہے اپنے رب کی عبادت کر سکتا ہے لیکن جہاد اور ہجرت (کی نیت کا ثواب) باقی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4312]
حدیث حاشیہ:
یہ سوال فتح مکہ کے بعد مدینہ شریف ہی کی طرف ہجرت کر نے سے متعلق تھا جس کا جواب وہ دیا گیا جو روایت میں مذکور ہے، باقی عام حیثیت سے حالات کے تحت دار الکفر سے دار الاسلام کی طرف ہجرت کر نا بوقت ضرورت اب بھی جائز ہے۔
بشرطیکہ ایسے حالات پائے جو اس کیلئے ضروری ہیں۔
روایات بالا میں کسی نہ کسی پہلو سے فتح مکہ کا ذکر ہو ا ہے، اسی لیے ان کو اس باب کے تحت لایا گیاہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4312   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3900  
3900. حضرت عطاء بن ابی رباح سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں عبید بن عمیر لیثی کے ہمراہ حضرت عائشہ‬ ؓ ک‬ی خدمت میں حاضر ہوا تو ہم نے ان سے ہجرت کے متعلق سوال کیا۔ انہوں نے فرمایا: اب ہجرت نہیں رہی، کیونکہ ایک وقت تھا جب مومن اپنے دین کی حفاظت کے لیے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف بھاگتے تھے۔ انہیں یہ خوف تھا کہ وہ دین کے بارے میں فتنے میں پڑ جائیں گے۔ اب تو اللہ تعالٰی نے اسلام کو غالب کر دیا ہے۔ آج اہل ایمان جہاں چاہیں اپنے رب کی عبادت کر سکتے ہیں، البتہ جہاد اور اس کی نیت کا ثواب باقی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3900]
حدیث حاشیہ:
فتح مکہ کے بعدمدینے کی طرف ہجرت کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہی۔
اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ اب ہجرت کی مشروعیت ختم ہوچکی ہے کیونکہ دارالکفر سے دارالسلام کی طرف ہجرت کرنا اب بھی واجب ہے بشرط یہ کہ دین میں خلل کا اندیشہ ہو۔
حضرت عائشہ ؓ کے فرمان سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جہاں اللہ کی عبادت آزادی کے ساتھ نہ ہوسکے ایسے ملک سے ہجرت کرنا واجب ہے بصورت دیگر واجب نہیں۔
اگر کوئی مسلمان دارالحرب میں اپنا دین ظاہر کرسکتاہے اوربلاروک ٹوک اللہ کی عبادت کرسکتا ہے تو اس کا حکم دارالسلام جیسا ہوگا بلکہ وہاں ٹھہرنا ہجرت سے افضل ہے کیونکہ وہاں قیام رکھنے سے لوگوں سے امید کی جاسکتی ہے کہ وہ تبلیغ اسلام کے نتیجے میں اسلام میں داخل ہوں گے، اس لیے اس قسم کی احادیث کو مقامی پس منظر میں دیکھنا چاہیے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3900   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4312  
4312. حضرت عطاء بن ابی رباح سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں عبید بن عمیر کے ہمراہ حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے ملنے گیا تو انہوں نے آپ سے ہجرت کے بارے میں پوچھا: حضرت عائشہ‬ ؓ ن‬ے فرمایا: آج ہجرت باقی نہیں رہی کیونکہ پہلے آدمی اپنے دین کو بچانے کے لیے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف بھاگتا تھا، مبادا دین کی وجہ سے کسی فتنے میں مبتلا ہو جائے۔ آج فتح مکہ کے بعد اللہ تعالٰی نے اسلام کو غلبہ دیا ہے، اس لیے مومن جہاں چاہے اپنے رب کی عبادت کر سکتا ہے لیکن جہاد اور ہجرت (کی نیت کا ثواب) باقی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4312]
حدیث حاشیہ:

ایک روایت میں ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا:
جب سے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کے لیے مکہ مکرمہ فتح کردیا ہے اس وقت سے یہ ہجرت ختم ہو چکی ہے۔
(صحیح البخاري، الجهاد والسیر، حدیث: 3080۔
)

یعنی شروع اسلام میں مسلمان کمزور تھے انھیں اسلام لانے کی وجہ سے تکلیفیں پہنچائی جاتیں، لوگ فتنے کے ڈر سے اپنے دین کی حفاظت کے لیے ہجرت کرتے تھے اب جبکہ اللہ تعالیٰ نے مکہ فتح کردیا ہے اور اسلام مغلوب ہونے کی بجائے غالب ہے تو مذکورہ خطرات ختم ہو چکے ہیں، اس لیے اب کافروں سے اللہ کی راہ میں جہاد اور ہجرت کی نیت کا ثواب بدستور قائم ہے۔

جہاد بالفعل یا جہاد بالقوہ ہو لیکن اسے صرف جنگ و قتال میں بند کرنا صحیح نہیں بلکہ جہاد بالمال جہاد باللسان اور جہاد بالقلم سب کو شامل ہے جہاد عملاً نہ ہو تو بھی اس کی نیت ضرور ہونی چاہیے لیکن نیت کے یہ معنی نہیں کہ ارادہ کر کے انسان اپنے گھر میں بیٹھا رہے اور اس کے لیے تیاری نہ کرے نیت کا معیار ﴿وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ﴾ (الأنفال: 60/8)
کو قراردیا گیا ہے۔
اس کی تیاری ضرور ہونی چاہیے۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4312