116- وبه قال: كان أبو طلحة أكثر الأنصار بالمدينة مالا من نخل، وكان أحب أمواله إليه بيرحاء وكانت مستقبلة المسجد، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يدخلها ويشرب من ماء فيها طيب. قال أنس: فلما أنزلت هذه الآية: {لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون} قام أبو طلحة إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله إن الله يقول فى كتابه: {لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون} وإن أحب أموالي إلى بيرحاء، وإنها صدقة لله أرجو برها وذخرها عند الله، فضعها يا رسول الله حيث شئت. قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم بخ، ذلك مال رابح، ذلك مال رابح قد سمعت ما قلت فيها، وإني أرى أن تجعلها فى الأقربين.“ فقال أبو طلحة: أفعل يا رسول الله، فقسمها أبو طلحة فى أقاربه وبني عمه.
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 287
تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 1461، 2752، و مسلم 2315/998، من حديث مالك به]
تفقه:
➊اس حدیث میں سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کی زبردست فضیلت ہے جنہوں نے اپنا محبوب ترین مال اللہ کے راستے میں خرچ کر دیا۔
➋ صحابہ کرام ہر وقت قرآن و حدیث پر اپنے اموال اور اپنی جانیں قربان کرنے کے لئے تیار رہتے تھے۔
➌ نیکی، صلہ رحمی، حسن سلوک اور صدقات میں سب سے پہلے رشتہ داروں کو ترجیح دینی چاہئے اور یہی افضل ہے۔
➍ مال سے محبت فطری امر ہے بشرطیکہ شریعت کے خلاف نہ ہو۔ اسی طرح باغات وغیرہ بنانا اور علمائے کرام کا ان سے استفادہ کرنا سب جائز ہے۔
➎ عموم پر عمل جائز ہے اِلا یہ کہ تخصیص کی دلیل ہو۔
➏ جو شخص کوئی چیز صدقہ کر دے تو پھر اسے رجوع کا حق حاصل نہیں ہے۔
➐ اللہ تعالیٰ کے راستے میں بہترین چیز خرچ کرنی چاہئے، وہ خواہ مال ہو یا جان، اس لئے دینی تعلیم کے حصول کے لئے اپنی اولاد میں سے محبوب ترین اور ذہین ترین افراد کا انتخاب کرنا چاہئے۔
➑ سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کا عمل آیت مبارکہ: «لَنْ تَنَالُوا البِرَّ» کی بہترین تفسیر ہے۔ «سبحان الله»
➒ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کا مال انھی کے اقرباء میں تقسیم کرنے کا حکم دیا، اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کمال استغناء ثابت ہوتا ہے۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 116
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1689
´رشتے داروں سے صلہ رحمی (اچھے برتاؤ) کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جب «لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون» کی آیت نازل ہوئی تو ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! میرا خیال ہے کہ ہمارا رب ہم سے ہمارے مال مانگ رہا ہے، میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اریحاء نامی اپنی زمین اسے دے دی، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”اسے اپنے قرابت داروں میں تقسیم کر دو“، تو انہوں نے اسے حسان بن ثابت اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہما کے درمیان تقسیم کر دیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: مجھے محمد بن عبداللہ انصاری سے یہ بات معلوم ہوئی کہ ابوطلحہ کا نام: زید بن سہل بن اسود بن حرام بن عمرو ابن زید مناۃ بن عدی بن عمرو بن مالک بن النجار ہے، اور حسان: ثابت بن منذر بن حرام کے بیٹے ہیں، اس طرح ابوطلحہ رضی اللہ عنہ اور حسان رضی اللہ عنہ کا سلسلہ نسب حرام پر مل جاتا ہے وہی دونوں کے تیسرے باپ (پردادا) ہیں، اور ابی رضی اللہ عنہ کا سلسلہ نسب اس طرح ہے: ابی بن کعب بن قیس بن عتیک بن زید بن معاویہ بن عمرو بن مالک بن نجار، اس طرح عمرو: حسان، ابوطلحہ اور ابی تینوں کو سمیٹ لیتے ہیں یعنی تینوں کے جد اعلیٰ ہیں، انصاری (محمد بن عبداللہ) کہتے ہیں: ابی رضی اللہ عنہ اور ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے نسب میں چھ آباء کا فاصلہ ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1689]
1689. اردو حاشیہ: کہاں یہ جاہلیت کے چچا تائے کی اولاد آپس میں حریف گرانے جاتے ہوں۔اور کہاں یہ محبت والفت کہ پر دادا بلکہ چھٹے باپ کی اولاد اس قدرحسن سلوک۔۔۔کہ قیمتی زمین ان کے نام لگادی۔اللہ تعالیٰ نے سورہ انفال میں سچ فرمایا۔ <قرآن> هُوَ الَّذِي أَيَّدَكَ بِنَصْرِهِ وَبِالْمُؤْمِنِينَ ﴿٦٢﴾ وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ ۚ لَوْ أَنفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مَّا أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ ۚ إِنَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (الانفال۔6
➋ 63)
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1689
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3632
´وقف کس طرح لکھا جائے گا؟ ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث ابن عون پر ان کے تلامذہ کے اختلاف کا ذکر۔`
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب آیت «لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون» ”تم «بِر» (بھلائی) کو حاصل نہیں کر سکتے جب تک کہ تم اس میں سے خرچ نہ کرو جسے تم پسند کرتے ہو“ (آل عمران: ۹۲) نازل ہوئی تو ابوطلحہ نے کہا: اللہ تعالیٰ ہم سے ہمارے اچھے مال میں سے مانگتا ہے، تو اللہ کے رسول! میں آپ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے اپنی زمین اللہ کی راہ میں وقف کی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الاحباس/حدیث: 3632]
اردو حاشہ:
(1) ”اپنی زمین“ دراصل یہ بیرحاء نامی باغ تھا جو مسجد نبوی کے سامنے شمال کی جانب تھا۔ بہت زرخیز اور گھنا تھا۔
(2) ”تقسیم کردو“ معلوم ہوا کہ یہ مشہور معنیٰ میں وقف نہیں تھا ورنہ کسی کو مالک نہ بناتے‘ البتہ حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے ابتدئی الفاظ: جَعَلْتُ أَرْضيَ لِلّٰہِ وقف پر دلالت کرتے ہیں۔ شاید ان الفاظ کی بنا پر ہی اس راویت کو ”وقف“ کے باب میں لایا گیا ہے۔ ممکن ہے رسول اللہ ﷺ نے وقف کے بجائے تقسیم کو مناسب خیال فرمایا ہو‘ لہٰذا یہ حکم فرمایا۔
(3) اقرباء میں سے سب سے زیادہ قرابت دار کو دینا واجب نہیں بلکہ جسے مناسب ہو اسے دے دیا جائے۔
(4) آدمی اپنے باغ کے گرد چار دیواری بنا سکتا ہے۔ نیک اور اہل علم لوگوں کا باغ میں تفریح کرنے اور اس کا پانی اور پھل استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ یہ باغ مالک کے لیے نیکیاں شمار ہوں گی۔
(5) آدمی مرض الموت میں نہ ہو تو ثلث مال سے زائد کی وصیت کرسکتا ہے نبی اکرم ﷺ نے ابوطلحہ رضی اللہ عنہ سے یہ نہیں پوچھا کہ کتنے مال کا صدقہ کیا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3632
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2997
´سورۃ آل عمران سے بعض آیات کی تفسیر۔`
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب یہ آیت: «لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون» ۱؎ یا «من ذا الذي يقرض الله قرضا حسنا» ۲؎ نازل ہوئی۔ اس وقت ابوطلحہ رضی الله عنہ کے پاس ایک باغ تھا، انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! میرا باغ اللہ کی رضا کے لیے صدقہ ہے، اگر میں اسے چھپا سکتا (تو چھپاتا) اعلان نہ کرتا ۳؎ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے اپنے رشتہ داروں کے لیے وقف کر دو۔“ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 2997]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
جب تک تم اپنی پسندیدہ چیز سے اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو گے ہرگز بھلائی نہ پاؤ گے۔
(آل عمران: 92)
2؎:
ایسا بھی کوئی ہے جو اللہ تعالیٰ کو اچھا قرض دے (البقرۃ: 245)
3؎:
کیونکہ چھپا کر صدقہ وخیرات کرنا اللہ کو زیادہ پسند ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2997
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2316
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جب یہ آیت اتری کہ تم حق ادا نہیں کر سکو گے حتی کہ اپنی محبوب ترین چیز (اللہ کی راہ میں) صرف کر دو ابو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہنے لگے میں سمجھتا ہوں اللہ تعالیٰ ہم سے ہمارا مال چاہتا ہے۔ اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میں آپ کو گواہ بنا کر اپنی بیرحاء زمین اللہ تعالیٰ کے لیے دیتا ہوں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے رشتہ داروں کو دے دو“ تو انھوں نے حضرت حسان بن ثابت... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:2316]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
دور کے رشتے دور بھی رشتہ دار ہی ہیں اس لیے اگر وہ ضرورت مند اور محتاج ہوں تو وہ زیادہ حقدار ہیں،
حضرت حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتویں پشت میں جا کر رشتہ داربنتے ہیں حضرت ابو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپﷺ کے اسی حکم پر کہ ”رشتہ داروں کو دو“ ان کو باغ تقسیم کر دیا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2316
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2318
2318. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ حضرت ابو طلحہ ؓ مدینہ طیبہ کے انصار میں سے سب سے زیادہ مال دار تھے۔ اور ان کے نزدیک ان کا بہترین مال ان کا باغ بیرحاء تھا۔ اور وہ مسجد نبوی کے بالکل سامنے واقع تھا۔ رسول اللہ ﷺ وہاں تشریف لے جایا کرتے اور اس کا شریں پانی نوش فرماتے تھے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی۔ ﴿لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّىٰ تُنفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ﴾ ”تم بھلائی ہر گز نہیں حاصل کر سکتے حتیٰ کہ اپنی محبوب چیز خرچ کرو۔“ تو ابو طلحہ ؓ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ!اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمایا ہے۔ ﴿لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّىٰ تُنفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ﴾ ”تم پوری نیکی ہر گز نہیں حاصل کر سکتے جب تک اپنا پسندیدہ مال خرچ نہ کرو۔“ اور میرا محبوب ترین مال یہ باغ بیرحاءہے تو وہ اللہ کی راہ میں صدقہ ہے۔ میں اللہ کے ہاں اس کی نیکی اور ثواب کا امیدوار ہوں۔ اللہ کے رسول۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2318]
حدیث حاشیہ:
حضرت ابوطلحہ ؓ نے بیر حاءکے بارے میں آنحضرت ﷺ کو وکیل ٹھہرایا اور آپ نے اسے انہی کے رشتہ داروں میں تقسیم کر دینے کا حکم فرمایا۔
اسی سے ترجمۃ الباب ثابت ہوا۔
چونکہ رشتہ داروں کا حق مقدم ہے اور وہی صاحب میراث بھی ہوتے ہیں۔
اس لیے آنحضرت ﷺ نے ان ہی کو ترجیح دی۔
جو رسول کریم ﷺ کی بہت ہی بڑی دور اندیشی کا ثبوت ہے۔
یہ کنواں مدینہ شریف میں حرم نبوی کے قریب اب بھی موجود ہے اور میں نے بھی وہاں حاضری کا شرف حاصل کیا ہے۔
و الحمد للہ علی ذلك۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2318
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2769
2769. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: حضرت ابو ر ؓ مدینہ طیبہ میں تمام انصار سے زیادہ مال دار تھے۔ ان کے پاس کھجوروں کے باغات تھے۔ مسجد نبوی کے سامنے ان کا سب سے پسندیدہ مال بیرحاء کا باغ تھا جس میں نبی ﷺ تشریف لاتے اور اس کا بہترین پانی نوش جاں کرتے تھے۔ حضرت انس ؓ نے کہا: جب یہ آیت اتری: ”تم لوگ اس وقت تک نیکی حاصل نہیں کر سکتے جب تک اپنی محبوب ترین چیز خرچ نہ کرو۔“ تو حضرت ابو طلحہ ؓ رسول اللہ ﷺ کے حضور کھڑے ہوئے اور عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ!اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”تم ہرگزنیکی نہیں حاصل کر سکتے جب تک اپنی پیاری چیز اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو۔“ اور میرے نزدیک سب سے زیادہ محبوب مال بیرحاء نامی باغ ہے۔ یہ اللہ کے لیے صدقہ ہے۔ میں اللہ کے حضور اس کے ثواب اور ذخیرے کی امید رکھتا ہوں۔ آپ اسے رکھ لیں اور جہاں مناسب خیال فرمائیں اسے خرچ کریں۔۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2769]
حدیث حاشیہ:
ترجمہ باب کی مطابقت صاف ظاہر ہے کہ ابو طلحہ نے بیرحاءکو صدقہ کردیا۔
اس کے حدود بیان نہیں کئے کیونکہ بیرحاءباغ مشہورو معروف تھا‘ ہر کوئی اس کو جانتا تھا اگر کوئی ایسی زمین وقف کرے کہ وہ معروف و مشہور نہ ہو تب تو اس کی حدود بیان کرنی ضروری ہیں لفظ بیرحاءدو کلموں سے مرکب ہے پہلا کلمہ بیئر ہے جس کے معنی کنویں کے ہیں دوسرا کلمہ حاءہے اس کے بارے میں اختلاف ہے کہ کسی مرد یا عورت کا نام ہے یا کسی جگہ کا نام جس کی طرف یہ کنواں منسوب کیا گیا ہے یا یہ کلمہ اونٹوں کے ڈانٹنے کے لئے بولا جاتا تھا اور اس جگہ اونٹ بکثرت چرائے جاتے تھے‘ لوگ ان کو ڈانٹنے کیلئے لفظ حاءکا استعمال کرتے۔
اسی سے یہ لفظ بیرحاءمل کر ایک کلمہ بن گیا۔
پھر حضرت ابو طلحہ ؓ کا سارا باغ ہی اس نام سے موسوم ہوگیا کیونکہ یہ کنواں اس کے اندر تھا لفظ بخ بخواہ واہ کی جگہ بولا جاتا تھا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2769
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4554
4554. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: مدینہ طیبہ میں حضرت ابوطلحہ ؓ کے پاس سب انصار سے زیادہ کھجوروں کے باغات تھے۔ اور "بیرحاء" نامی باغ انہیں اپنی جائیداد میں سب سے زیادہ عزیز تھا۔ یہ مسجد نبوی کے بالکل سامنے تھا اور خود رسول اللہ ﷺ اس باغ میں تشریف لے جاتے اور اس کا شیریں اور عمدہ پانی نوش جاں فرمایا کرتے تھے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی: ﴿لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّىٰ تُنفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ﴾ تو حضرت ابوطلحہ ؓ اٹھ کھڑے ہوئے اور عرض کی: اللہ کے رسول! اللہ تعالٰی نے فرمایا ہے: "جب تک تم اپنی پسندیدہ اور مرغوب چیز کو خرچ نہیں کرو گے نیکی کو نہ پا سکو گے۔" مجھے اپنی جائیداد میں سب سے زیادہ عزیز "بیرحاء" ہے اور یہ اللہ کی راہ میں صدقہ ہے۔ میں اللہ سے اس کے اجروثواب اور اس کے ہاں اس کے ذخیرہ بننے کی امید رکھتا ہوں۔ اللہ کے رسول! آپ جہاں مناسب خیال کریں اسے خرچ کر دیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "بہت خوب! یہ مال و دولت فنا ہونے والا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4554]
حدیث حاشیہ:
تو نے اچھا کیا جو خیرات کر کے اس کو قائم کردیا، عبداللہ بن یوسف کی روایت کو خود امام بخاری نے روایت کیا ہے۔
بعض صحابہ ؓ ناقص کھجور اصحاب صفہ کو دیتے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔
اچھا مال موجود ہوتے ہوئے راہ خدا میں ناقص مال دینا اچھا نہیں ہے جیسا مال ہو ویسا ہی دینا چاہیے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4554
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5611
5611. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ حضرت ابو طلحہ ؓ مدینہ طیبہ میں کھجوروں کے باغات کے لحاظ سے تمام انصار سے زیادہ مال دار تھے۔ ان کا محبوب ترین مال بیرحاء تھا اور وہ مسجد نبوی کے بالکل سامنے واقع تھا۔ رسول اللہ ﷺ وہاں تشریف لے جاتے اور اس میں میٹھا پانی نوش فرماتے تھے۔ حضرت انس ؓ فرماتے ہیں: جب یہ آیت نازل ہوئی: ”تم ہرگز بھلائی نہیں پاؤ گے حتٰی کہ تم اپنے محبوب مال سے خرچ کرو۔“ تو حضرت ابو طلحہ کھڑے ہوئے اور عرض کی: اللہ کے رسول! اللہ تعالٰی فرماتا ہے: ”تم ہرگز نیکی نہیں پاؤ گے حتیٰ کہ اپنی محبوب ترین چیز خرچ کرو۔“ اور میرا محبوب ترین مال بیرحاء ہے وہ اللہ کے لیے صدقہ ہے۔ میں اس کا اجر و ثواب اللہ کے ہاں پانے کی امید رکھتا ہوں۔ اللہ کے رسول! آپ جہاں مناسب سمجھیں اسے خرچ کر دیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”خوب! یہ بہت فائدہ بخش مال ہے۔“ (آپ نے مزید فرمایا) ”جو کچھ تو نے کہا میں اسے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5611]
حدیث حاشیہ:
بیرحاء کے میٹھے پانی والے باغ میں پانی پینے کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تشریف لے جانا یہی باب اور حدیث میں مطابقت ہے بیرحی یا بیرحاء یہ ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے باغ کا نام تھا۔
(لغات الحدیث، کتاب، ص: 4)
میٹھا پانی اللہ کی بڑی بھاری نعمت ہے۔
جیسا کہ حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے وارد ہے کہ (إِنَّ أَوَّلَ مَا يُسْأَلُ عَنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَعْنِي الْعَبْدَ مِنْ النَّعِيمِ أَنْ يُقَالَ لَهُ:
أَلَمْ نُصِحَّ لَكَ جِسْمَكَ وَنُرْوِيَكَ مِنْ الْمَاءِ الْبَارِدِ)
یعنی قیامت کے روز اللہ پہلے ہی حساب میں فرمائے گا کہ اے بندے! کیا میں نے تجھ کو تندرستی نہیں دی تھی اور کیا میں نے تجھے ٹھنڈے میٹھے پانی سے سیراب نہیں کیا تھا۔
﴿وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ﴾ (الضحیٰ: 11)
کی تعمیل میں یہ نوٹ لکھا گیا ﴿وَاللہُ عَلیم بِذاتِ الصُدُور﴾ الحمد للہ خادم نے اپنے کھیتوں واقع موضع رہپواہ میں دو کنوئیں تعمیر کرائے ہیں جس میں بہترین میٹھا پانی ہے۔
پہلا کنواں حضرت ڈاکٹر عبدالوحید صاحب کوٹہ راجستھان کا تعمیر کردہ ہے جس کا پانی بہت ہی میٹھا ہے جزاہ اللہ خیر الجزاء في الدارین (خادم راز عفي عنه)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5611
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1461
1461. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا:حضرت ابو طلحہ ؓ مدینہ میں تمام انصار سے زیادہ مالدار اور کھجوروں کے باغات رکھنے والے تھے، انھیں سب سے زیادہ پسند بیر حاء نامی باغ تھا جو مسجد نبوی کے سامنے واقع تھا، وہاں رسول اللہ ﷺ تشریف لے جاتے اور اس کا خوش گوار پانی نوش فرماتے، حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی:”تم نیکی نہیں حاصل کر سکتے جب تک اپنی پسندیدہ چیزوں میں سے خرچ نہ کرو۔“ تو حضرت طلحہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے کھڑے ہو کر عرض کیا:اللہ کے رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:”تم نیکی نہیں حاصل کر سکتے جب تک اپنی پسندیدہ چیزوں میں سے خرچ نہ کرو۔“ اور میرا سب سے محبوب مال بیرحاء ہے، لہٰذاوہ آج سے اللہ کی راہ میں وقف ہے اور میں اللہ کے ہاں اس کے ثواب اور آخرت میں اس کے ذخیرہ ہونے کا امیدوارہوں۔ اللہ کے رسول اللہ ﷺ آپ اسے اللہ کے حکم کے مطابق مصرف میں لے آئیں، حضرت انس ؓ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1461]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے صاف نکلا کہ اپنے رشتہ داروں پر خرچ کرنا درست ہے۔
یہاں تک کہ بیوی بھی اپنے مفلس خاوند اور مفلس بیٹے پر خیرات کرسکتی ہے۔
اور گویہ صدقہ فرض زکوٰۃ نہ تھا۔
مگر فرض زکوٰۃ کو بھی اس پر قیاس کیاہے۔
بعضوں نے کہا جس کا نفقہ آدمی پر واجب ہوجیسے بیوی کا یا چھوٹے لڑکے کا تو اس کو زکوٰۃ دینا درست نہیں۔
اور چونکہ عبداللہ بن مسعود ؓ زندہ تھے‘ اس لیے ان کے ہوتے ہوئے بچے کا خرچ ماں پر واجب نہ تھا۔
لہٰذا ماں کو اس پر خیرات خرچ کرنا جائز ہوا۔
واللہ أعلم۔
(وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1461
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1461
1461. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا:حضرت ابو طلحہ ؓ مدینہ میں تمام انصار سے زیادہ مالدار اور کھجوروں کے باغات رکھنے والے تھے، انھیں سب سے زیادہ پسند بیر حاء نامی باغ تھا جو مسجد نبوی کے سامنے واقع تھا، وہاں رسول اللہ ﷺ تشریف لے جاتے اور اس کا خوش گوار پانی نوش فرماتے، حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی:”تم نیکی نہیں حاصل کر سکتے جب تک اپنی پسندیدہ چیزوں میں سے خرچ نہ کرو۔“ تو حضرت طلحہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے کھڑے ہو کر عرض کیا:اللہ کے رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:”تم نیکی نہیں حاصل کر سکتے جب تک اپنی پسندیدہ چیزوں میں سے خرچ نہ کرو۔“ اور میرا سب سے محبوب مال بیرحاء ہے، لہٰذاوہ آج سے اللہ کی راہ میں وقف ہے اور میں اللہ کے ہاں اس کے ثواب اور آخرت میں اس کے ذخیرہ ہونے کا امیدوارہوں۔ اللہ کے رسول اللہ ﷺ آپ اسے اللہ کے حکم کے مطابق مصرف میں لے آئیں، حضرت انس ؓ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1461]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اپنے رشتہ داروں پر خرچ کرنا زیادہ فضیلت کا باعث ہے، کیونکہ اس کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے مشورہ دیا تھا، خاص طور پر جب رشتہ دار محتاج اور نادار ہوں تو انہیں ترجیح دینی چاہیے، تاہم جن رشتہ داروں کی کفالت انسان کی ذمہ داری میں شامل ہو ان پر فرض زکاۃ خرچ نہیں کی جا سکتی۔
(2)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اپنا پسندیدہ مال اللہ کی راہ میں خرچ کرنا بہت فضیلت کا باعث اور حصول نیکی کا ذریعہ ہے، نیز صدقات و خیرات کے وقت اہل فضل سے مشورہ کر لینا چاہیے۔
(3)
راوی حدیث روح بن عبادہ کی متابعت کو امام بخاری ؒ نے خود ہی اپنی متصل سند سے بیان کیا ہے۔
(صحیح البخاري، تفسیرالقرآن، حدیث: 4554) (4)
دوسری روایات جن میں رايح کے الفاظ ہیں، اس کے معنی ہیں:
یہ تو چلتا ہوا مال ہے، یعنی نفع خوب دینے والا ہے اور بھرپور فائدہ پہنچانے والا ہے۔
اس سلسلے میں یحییٰ بن یحییٰ کی روایت کو کتاب الوکالۃ اور اسماعیل بن ابی اویس کی روایت کو کتاب التفسیر میں متصل سند سے بیان کیا گیا ہے۔
(صحیح البخاري، الوکالة، حدیث: 2318، و کتاب التفسیر، حدیث: 4554، وفتح الباري: 411/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1461
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2318
2318. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ حضرت ابو طلحہ ؓ مدینہ طیبہ کے انصار میں سے سب سے زیادہ مال دار تھے۔ اور ان کے نزدیک ان کا بہترین مال ان کا باغ بیرحاء تھا۔ اور وہ مسجد نبوی کے بالکل سامنے واقع تھا۔ رسول اللہ ﷺ وہاں تشریف لے جایا کرتے اور اس کا شریں پانی نوش فرماتے تھے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی۔ ﴿لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّىٰ تُنفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ﴾ ”تم بھلائی ہر گز نہیں حاصل کر سکتے حتیٰ کہ اپنی محبوب چیز خرچ کرو۔“ تو ابو طلحہ ؓ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ!اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمایا ہے۔ ﴿لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّىٰ تُنفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ﴾ ”تم پوری نیکی ہر گز نہیں حاصل کر سکتے جب تک اپنا پسندیدہ مال خرچ نہ کرو۔“ اور میرا محبوب ترین مال یہ باغ بیرحاءہے تو وہ اللہ کی راہ میں صدقہ ہے۔ میں اللہ کے ہاں اس کی نیکی اور ثواب کا امیدوار ہوں۔ اللہ کے رسول۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2318]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس عنوان كا مقصد یہ ہے کہ وکالت کا معاملہ اس وقت تک پورا نہیں ہوتا جب تک وکیل اس وکالت کو قبول نہ کرلے۔
”جو تونے کہا اسے میں نے سن لیا ہے۔
“ اس سے مراد وکیل کا قبول کرنا اور اس کا اظہار آمادگی ہے۔
حضرت ابو طلحہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ کو بیر حاء کے متعلق اپنا وکیل ٹھہرایا تو آپ نے اس وکالت کو قبول فرمایا۔
آپ نے اسے رائے دی کہ اسے اپنی قریبی رشتہ داروں میں تقسیم کردیں۔
چونکہ رشتہ داروں کا حق مقدم ہے اور وہی وراثت میں حصہ پاتے ہیں، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے ان کے حق کو ترجیح دی۔
یہ رسول اللہ ﷺ کی دور اندیشی تھی۔
(2)
حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ عقد وکالت اس وقت مکمل ہوگا جب وکیل اسے قبول کرلے۔
(فتح الباري: 621/4)
والله أعلم. (3)
اسماعیل کی متابعت کو امام بخاری ؒ نے خود ہی متصل سند سے بیان کیا ہے۔
(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4554)
ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابو طلحہ ؓ نے وہ باغ حضرت حسان بن ثابت اور ابی بن کعب ؓ میں تقسیم کیا۔
حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ مجھے اس باغ سے کچھ نہیں ملا۔
(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4555)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2318
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2752
2752. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت ابو طلحہ ؓ سے فرمایا: ”میری رائے کے مطابق آپ اپنا باغ قریبی رشتہ داروں میں تقسیم کردیں۔“ حضرت ابو طلحہ ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! میں ایسا ہی کروں گا، چنانچہ ابو طلحہ ؓ نے وہ(باغ) اپنے قرابت داروں اور چچا زاد بھائیوں میں تقسیم کردیا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: جب یہ آیت نازل ہوئی: ”آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کوڈرائیں۔“ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”اے بنو فہر! اے بنو عدی!“ یہ قریش کے مختلف خاندانوں کے نام ہیں۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ نے کہا: جب یہ آیت نازل ہوئی: ”آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو خبردار کریں۔“ تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”اے قریش کے لوگو!(اللہ سے ڈرو)۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2752]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے یہاں تین روایات کو یکجا بیان کیا ہے۔
پہلی روایت انتہائی مختصر ہے، آئندہ تفصیل سے بیان ہو گی کہ حضرت ابو طلحہ ؓ انصار میں باغات کے اعتبار سے زیادہ مال دار تھے۔
ان کا ایک باغ مسجد نبوی کے سامنے تھا جہاں رسول اللہ ﷺ تشریف لے جاتے اور وہاں قدرتی چشموں سے میٹھا پانی پیا کرتے۔
اس باغ کو انہوں نے اپنے رشتے داروں حضرت ابی بن کعبؓ، حضرت حسان بن ثابتؓ، ان کے بھائی حضرت شداد بن اوس ؓ اور نبیط بن جابر ؓ میں تقسیم کر دیا تھا۔
حضرت حسان ؓ نے اپنا حصہ ایک لاکھ درہم کے عوض حضرت معاویہ ؓ کو فروخت کر دیا تھا۔
(فتح الباري: 486/5) (2)
دوسری اور تیسری روایت حضرت ابن عباس ؓاور حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مختصر طور پر بیان ہوئی ہے۔
تفصیلی روایت سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بنو عبد مناف، حضرت عباسؓ، حضرت صفیہ ؓاور اپنی لخت جگر حضرت فاطمہ ؓ کو آواز دے کر پکارا اور کہا:
”میں تمہیں اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکوں گا۔
اس دنیا میں رہتے ہوئے اپنا تحفظ خود کر لو۔
“ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4771) (3)
امام بخاری ؒ کا مطلب یہ ہے کہ رشتے داروں میں مرد اور عورتیں سب شامل ہوتے ہیں، نیز یہ بھی بتانا چاہتے ہیں کہ اگر قریبی رشتے داروں کے لیے وصیت ہو تو تمام قریبی رشتے داروں کو دینا ضروری نہیں ہوتا کیونکہ بنو حرام جس میں ابو طلحہ اور حسان ؓ جمع ہوئے ہیں وہ مدینہ طیبہ میں بکثرت آباد تھے اور عمرو بن مالک کے قرابت دار جس میں ابو طلحہ اور ابی بن کعب ؓ جمع ہوئے تھے وہ تو بے حد و شمار تھے لیکن ان سب میں باغ تقسیم نہیں کیا بلکہ صرف ابی بن کعب اور حضرت حسان ؓ میں تقسیم کر دیا گیا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2752
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2769
2769. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: حضرت ابو ر ؓ مدینہ طیبہ میں تمام انصار سے زیادہ مال دار تھے۔ ان کے پاس کھجوروں کے باغات تھے۔ مسجد نبوی کے سامنے ان کا سب سے پسندیدہ مال بیرحاء کا باغ تھا جس میں نبی ﷺ تشریف لاتے اور اس کا بہترین پانی نوش جاں کرتے تھے۔ حضرت انس ؓ نے کہا: جب یہ آیت اتری: ”تم لوگ اس وقت تک نیکی حاصل نہیں کر سکتے جب تک اپنی محبوب ترین چیز خرچ نہ کرو۔“ تو حضرت ابو طلحہ ؓ رسول اللہ ﷺ کے حضور کھڑے ہوئے اور عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ!اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”تم ہرگزنیکی نہیں حاصل کر سکتے جب تک اپنی پیاری چیز اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو۔“ اور میرے نزدیک سب سے زیادہ محبوب مال بیرحاء نامی باغ ہے۔ یہ اللہ کے لیے صدقہ ہے۔ میں اللہ کے حضور اس کے ثواب اور ذخیرے کی امید رکھتا ہوں۔ آپ اسے رکھ لیں اور جہاں مناسب خیال فرمائیں اسے خرچ کریں۔۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2769]
حدیث حاشیہ:
(1)
وقف کرنے والے کو چاہیے کہ وہ اپنی وقف کی ہوئی چیز کی حدود کو متعین کرے، مثلاً:
بہت سے باغات ہیں تو جب تک وقف کے لیے کسی باغ کا تعین نہیں کرے گا وقف صحیح نہیں ہو گا۔
اسی طرح جب کوئی زمین وقف کرے اور اس کی حدود اربعہ کا ذکر نہ کرے تو وقف جائز ہے بشرطیکہ لوگوں میں اس کی حدود اربعہ معروف ہوں، بصورت دیگر اس کی حدود اربعہ متعین کرنا ضروری ہے۔
اس کے بغیر وقف صحیح نہیں ہو گا کیونکہ حدود متعین نہ ہونے کی صورت میں دوسری حدود سے التباس کا اندیشہ ہے۔
اس سے دوسروں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
بہرحاء کا باغ ممتاز اور اس کی حدود متعین تھیں، اس کے التباس کا اندیشہ نہیں تھا، اس لیے حدود ذکر نہیں کی گئیں۔
(2)
حکم کے اعتبار سے صدقہ اور وقف ملتے جلتے ہیں اور ان کا ایک ہی حکم ہے۔
(3)
امام بخاری ؒ نے اسماعیل بن ابی اویس کی روایت کو "کتاب التفسیر" میں، عبداللہ بن یوسف کی روایت کو "کتاب الزکاۃ" میں اور یحییٰ بن یحییٰ کی روایت کو "کتاب الوکالۃ" میں متصل سند سے بیان کیا ہے۔
(فتح الباري: 486/5)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2769
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4554
4554. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: مدینہ طیبہ میں حضرت ابوطلحہ ؓ کے پاس سب انصار سے زیادہ کھجوروں کے باغات تھے۔ اور "بیرحاء" نامی باغ انہیں اپنی جائیداد میں سب سے زیادہ عزیز تھا۔ یہ مسجد نبوی کے بالکل سامنے تھا اور خود رسول اللہ ﷺ اس باغ میں تشریف لے جاتے اور اس کا شیریں اور عمدہ پانی نوش جاں فرمایا کرتے تھے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی: ﴿لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّىٰ تُنفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ﴾ تو حضرت ابوطلحہ ؓ اٹھ کھڑے ہوئے اور عرض کی: اللہ کے رسول! اللہ تعالٰی نے فرمایا ہے: "جب تک تم اپنی پسندیدہ اور مرغوب چیز کو خرچ نہیں کرو گے نیکی کو نہ پا سکو گے۔" مجھے اپنی جائیداد میں سب سے زیادہ عزیز "بیرحاء" ہے اور یہ اللہ کی راہ میں صدقہ ہے۔ میں اللہ سے اس کے اجروثواب اور اس کے ہاں اس کے ذخیرہ بننے کی امید رکھتا ہوں۔ اللہ کے رسول! آپ جہاں مناسب خیال کریں اسے خرچ کر دیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "بہت خوب! یہ مال و دولت فنا ہونے والا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4554]
حدیث حاشیہ:
1۔
حضرت ابوطلحہ ؓ نے اپنا پسندیدہ باغ اللہ کی راہ میں وقف کرکے دنیا وآخرت کی سعادتوں کو حاصل کرلیا۔
مذکورہ آیت کریمہ پر فوری عمل کرنے والوں میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓ بھی شامل ہیں، چنانچہ حافظ ابن حجرؒ نے مسند بزار کے حوالے سے لکھا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے اس آیت مبارکہ کو تلاوت فرمایا اور کہا:
میری رومی لونڈی مرجانہ سے بڑھ کوئی مجھے کوئی چیز محبوب نہیں، میں نے اسے اللہ کی راہ میں آذاد کردیا ہے، اگرمیرا یہ دستور نہ ہوتا کہ جو چیز میں اللہ کی راہ میں دیتا ہوں اس کی طرف کسی صورت میں پلٹتا نہیں ہوں تو میں اس سے نکاح کرلیتا۔
(مسند البزار، رقم: 2194، وفتح الباري: 282/8)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4554
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5611
5611. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ حضرت ابو طلحہ ؓ مدینہ طیبہ میں کھجوروں کے باغات کے لحاظ سے تمام انصار سے زیادہ مال دار تھے۔ ان کا محبوب ترین مال بیرحاء تھا اور وہ مسجد نبوی کے بالکل سامنے واقع تھا۔ رسول اللہ ﷺ وہاں تشریف لے جاتے اور اس میں میٹھا پانی نوش فرماتے تھے۔ حضرت انس ؓ فرماتے ہیں: جب یہ آیت نازل ہوئی: ”تم ہرگز بھلائی نہیں پاؤ گے حتٰی کہ تم اپنے محبوب مال سے خرچ کرو۔“ تو حضرت ابو طلحہ کھڑے ہوئے اور عرض کی: اللہ کے رسول! اللہ تعالٰی فرماتا ہے: ”تم ہرگز نیکی نہیں پاؤ گے حتیٰ کہ اپنی محبوب ترین چیز خرچ کرو۔“ اور میرا محبوب ترین مال بیرحاء ہے وہ اللہ کے لیے صدقہ ہے۔ میں اس کا اجر و ثواب اللہ کے ہاں پانے کی امید رکھتا ہوں۔ اللہ کے رسول! آپ جہاں مناسب سمجھیں اسے خرچ کر دیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”خوب! یہ بہت فائدہ بخش مال ہے۔“ (آپ نے مزید فرمایا) ”جو کچھ تو نے کہا میں اسے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5611]
حدیث حاشیہ:
(1)
میٹھا اور شیریں پانی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے باغ میں میٹھا پانی پینے کے لیے تشریف لے جاتے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے میٹھا پانی "سُقیا" کے گھروں میں لایا جاتا تھا۔
راوئ حدیث حضرت قتیبہ کہتے ہیں کہ سقیا ایک چشمے کا نام ہے جو مدینہ طیبہ سے دو دن کی مسافت پر تھا۔
(سنن أبي داود، الأشربة، حدیث: 3735) (2)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ حضرت انس، ہند اور حارثہ جو اسماء کے بیٹے ہیں بیوت السقیا سے پانی لایا کرتے تھے اور ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کے گھروں میں پہنچاتے تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا غلام حضرت رباح بھی میٹھا پانی لانے کا اہتمام کرتا تھا، کبھی بئر عرس سے اور کبھی بیوت السقیا سے لاتا تھا۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ کے گھر میں پڑاؤ کیا تو وہ بھی مالک بن نضر رضی اللہ عنہ کے کنویں سے میٹھا پانی آپ کے لیے لایا کرتے تھے۔
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم بھی اس کا اہتمام کرتے تھے۔
(فتح الباري: 94/10)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5611