موطا امام مالك رواية ابن القاسم
جنازے کے مسائل
جنازے میں چار تکبیریں کہنی چاہئیں
حدیث نمبر: 222
14- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نعى للناس النجاشي فى اليوم الذى مات فيه، وخرج بهم إلى المصلى، فصف بهم وكبر أربع تكبيرات.
اور اسی سند کے ساتھ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بےشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو نجاشی رضی اللہ عنہ کی وفات کی اطلاع اس دن دی جس دن وہ (نجاشی) فوت ہوئے اور آپ صحابہ کرام کے ساتھ جنازہ گاہ تشریف لے گئے پھر آپ نے ان کی صفیں بنائیں اور چار تکبیریں کہیں۔ (نجاشی) فوت ہوئے اور آپ صحابہ کرام کے ساتھ جنازہ گاہ تشریف لے گے پھر آپ نے ان کی صفیں بنائیں اور چار تکبیریں کہیں۔
تخریج الحدیث: «14- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 226/1، 227، ح 533، ك 16 ب 5 ح 14) التمهيد 324/6، الاستذكار: 490، و أخرجه البخاري (1245) ومسلم (951) من حديث مالك به.»
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم کی حدیث نمبر 222 کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 222
تخریج الحدیث:
[الموطأ رواية يحيٰ بن يحيٰ 226/1، 227، ح 533، ك 16 ب 5 ح 14، التمهيد 324/6، الاستذكار: 490 و أخرجه البخاري 1245، ومسلم 951، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ لوگوں کو میت کی اطلاع دینا جائز ہے۔ دیکھئے: [فتح الباري 116/3]
● سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کی وفات کی اطلاع مدینے کے ارد گرد والی بستیوں تک پہنچانے کا حکم دیا تھا۔ [المعجم الكبير للطبراني 239/4 ح 4242، السنن الكبريٰ للبيهقي 74/4 وسنده صحيح]
➋ ایک روایت میں میت کی اطلاع دینے سے منع کیا گیا ہے۔ [سنن الترمذي: 986 وقال: هٰذا حديث حسن]
● لیکن یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ بلال بن یحییٰ کی سیدنا حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ سے ملاقات ثابت نہیں ہے۔
● اگر یہ روایت صحیح بھی ہوتی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اہل جاہلیت کی طرح گلی کوچوں میں چیخ چیخ کر موت کا اعلان کرنا ممنوع ہے۔ دیکھئے: [ماهنامه الحديث حضرو 20/11] اور [كتاب الجنائز للمباركپوري ص 18]
➌ نمازِ جنازہ میں چار تکبیریں کہنا بہتر ہے لیکن پانچ تکبیریں بھی جائز ہیں جیسا کہ [صحيح مسلم 957/72 (2216)] سے ثابت ہے۔
➍ نماز جنازہ مسجد سے باہر پڑھنا بہتر ہے جبکہ مسجد میں پڑھنا بھی جائز ہے۔
➎ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو دور کی خبریں بذریعہ وحی بتا دیتا تھا۔
➏ اگر کوئی شرعی عذر ہو تو غائبانہ نماز جنازہ جائز ہے۔
➐ نماز جنازہ میں جفت یا طاق صفوں کی کوئی شرط نہیں ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز جنازہ پڑھائی اور آپ کے پیچھے دو صفیں تھیں۔ [صحيح مسلم: 952، دارالسلام: 2209]
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 14
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 449
´موت کی اطلاع دینا اور غائبانہ نماز جنازہ پڑھنے کا جواز`
”سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نجاشی کی خبر وفات اسی روز دی جس روز وہ فوت ہوا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو لے کر جنازہ گاہ کی طرف تشریف لے گئے۔ صف بندی کروائی اور اس پرچار تکبیریں کہیں۔“ [بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 449]
فائدہ: اس حدیث سے کسی کو موت کی اطلاع دینا ثابت ہو رہا ہے اور غائبانہ نماز جنازہ پڑھنے کا جواز بھی معلوم ہو رہا ہے، تاہم یہ مسئلہ آج تک علماء کے مابین مختلف فیہ چلا آ رہا ہے۔ بعض علماء کہتے ہیں کہ ہر ایک میت کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی جا سکتی ہے حتی کہ بعض نے تو یہاں تک کہا ہے کہ آدمی کو چاہیے کہ ہر شام کو نماز جنازہ پڑھے اور نیت یہ کرے کہ ہر اس مسلمان کی نماز جنازہ ہے جو آج روئے زمین پر فوت ہوا ہے۔ کچھ اہل علم کا کہنا ہے کہ ہر ایک کی غائبانہ نماز جنازہ جائز نہیں، صرف اس شخص کی غائبانہ پڑھی جائے جس کے بارے میں یہ معلوم ہو کہ اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھی گئی۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور شیخ ابن عثیمین رحمہ الله نے اسی قول کو راجح قرار دیا ہے، جبکہ ایک تیسرے گروہ کا کہنا ہے کہ ہر اس شخص کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی جائے جس نے علم نافع وغیرہ کی صورت میں مسلمانوں پر احسان کیا ہو، تاہم اس مسئلے کی بابت ہمارے نزدیک راجح اور اقرب الی الصواب بات درج ذیل باتوں کو ملحوظ رکھنا ہے۔
❀ فوت ہونے والا اچھی شہرت اور سیاسی، مذہبی اور علمی حیثیت کا حامل ہو، ہر چھوٹے بڑے کی نماز جنازہ غائبانہ طور پر پڑھنا غیر مسنون ہے۔
❀ غائبانہ نماز جنازہ کی ادائیگی میں سیاسی یا مالی مفادات وابستہ نہ ہوں، صرف اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی مطلوب ہو۔
❀ اس کے لیے اعلانات، اشتہارات اور بینر وغیرہ لگانا، مخصوص علمائے کرام یا مذہبی و سیاسی قائدین سے نماز جنازہ پڑھوانا، نیز انتظار اور اسی قسم کے دیگر ذرائع ابلاغ کو استعمال کرنا، جیسا کہ آج کل ہمارے ہاں یہ وبا عام ہے، شرعی طور پر محل نظر ہے، لہٰذا اس کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔
❀ غائبانہ نماز جنازہ کے موقع پر تقاریر یا خطابات کا بھی قطعاً اہتمام نہ ہو، ایسا کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت نہیں۔ بصورت دیگر فوت ہونے والے شخص کے لیے صرف دعا کرنا ہی زیادہ بہتر معلوم ہوتا ہے کہ اسے اپنی خصوصی دعاوں میں یاد رکھا جائے۔ واللہ اعلم بالصواب۔
❀ غائبانہ نماز جنازہ کا طریقہ وہی ہے جو میت سامنے ہونے کی صورت میں نماز جنازہ کا ہے۔ وضاحت:
نجاشی رحمہ الله ”نون“ پر فتحہ اور ”جیم“ مخفف ہے۔ حبشہ کے بادشاہ ہے جیسا کہ روم کے بادشاہ کو قیصر اور ایران کے بادشاہ کو کسریٰ کہتے تھے۔ نجاشی کا اصل نام اصحمہ بن ابحر تھا۔ کفار مکہ کے فتنے سے اپنے دین کو بچانے کے لیے مسلمانوں نے اسی بادشاہ کے دور میں حبشہ کی جانب ہجرت کی تھی۔ اسے نبی صلى الله عليه وسلم نے 6 ہجری کے آخر میں یا محرم 7 ہجری میں عمرو بن امیہ ضمری رضی اللہ عنہ کے ذریعے سے خط لکھ کر، اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔ اس نے آپ کے مکتوب گرامی کو بوسہ دیا، اسے اپنی آنکھوں سے بھی لگایا، پھر اپنے تخت شاہی سے نیچے اتر آیا اور حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر اسلام قبول کر لیا اور نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو یہ ساری صورتحال تحریر کر کے بھجوا دی۔ 9 ہجری کے بعد رجب میں غزوہ تبوک کے بعد وفات پائی، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے نائب کو بھی اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔ بہت سے لوگوں کو ان دونوں خطوط کے بارے میں میں التباس و اختلاط ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 449
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1880
´موت کی خبر دینے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حبشہ کے بادشاہ نجاشی کی موت کی خبر اسی دن دی جس دن وہ مرے، اور فرمایا: ”اپنے بھائی کے لیے مغفرت کی دعا کرو۔“ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 1880]
1880۔ اردو حاشیہ: نجاشی لقب تھا۔ نام ان کا اصحمہ تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باقاعدہ صف بندی کے ساتھ ان کا جنازہ بھی پڑھایا تھا۔ تفصیل ان شاء اللہ آگے آئے گی۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1880
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2043
´مسلمانوں کے لیے مغفرت طلب کرنے کے حکم کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب نجاشی (شاہ حبشہ) کا انتقال ہوا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم لوگ ان کی بخشش کی دعا کرو۔“ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 2043]
اردو حاشہ:
معلوم ہوا کسی کی وفات کی اطلاع ملنے پر (إنّا للهِ وإنّا إليه راجِعونَ) پڑھنے کے ساتھ اس کے لیے بخشش کی دعا بھی کرنی چاہیے تاکہ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی معاف فرمائے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2043
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3204
´جو مسلمان مشرکین کے علاقے میں فوت ہو جائے۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (حبشہ کا بادشاہ) نجاشی ۱؎ جس دن انتقال ہوا اسی دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی موت کی اطلاع مسلمانوں کو دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کو لے کر عید گاہ کی طرف نکلے، ان کی صفیں بنائیں اور چار تکبیروں کے ساتھ نماز (جنازہ) پڑھی ۲؎۔ [سنن ابي داود/كتاب الجنائز /حدیث: 3204]
فوائد ومسائل:
جب کسی صاحب علم یا فضل یا اہم شخصیت کی دوسرے شہر یا ملک میں وفات ہوجائے۔
تو اس کی نماز جنازہ غائبانہ پڑھنی جائز ہے۔
اسی طرح قبر پر نماز جنازہ بھی ایک اعتبار سے نماز جنازہ غائبانہ ہی ہے مگر اسے (غائبانہ نماز جنازہ کو)عام مسلمانوں کے لئے عام کردینا بھی درست نہیں۔
(تفصیل کےلئے دیکھئے۔
نیل الاوطار باب الصلواۃ علی الغائب)
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3204
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1534
´نجاشی کی نماز جنازہ کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نجاشی کا انتقال ہو گیا ہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مقبرہ بقیع کی طرف گئے، ہم نے صف باندھی، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے، پھر آپ نے چار تکبیریں کہیں۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1534]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
حضرت نجاشی رحمۃ اللہ علیہ حبشہ کے بادشاہ تھے ان کا نام اصحمہ تھا۔ (صحیح البخاري، مناقب الأنصار، باب موت النجاشی، حدیث: 3879)
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے نجاشی کی وفات 8 یا 9 ہجری لکھی ہے۔
اور فرمایا ہے کہ اکثر علماء کے نزدیک ان کی وفات 9 ہجری میں ہوئی ہے۔
دیکھئے: (فتح الباري، 240/7، حدیث: 3877)
(2)
مذکورہ حدیث سے غائبانہ نماز جنازہ پڑھنے کا جواز معلوم ہوتا ہے تاہم یہ مسئلہ آج تک علماء کے مابین مختلف فیہ چلا آرہا ہے۔
بعض علماء کہتے ہیں کہ ہر ایک میت کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی جاسکتی ہے حتیٰ کہ بعض نے تو یہاں تک کہا ہے کہ آدمی کوچاہیے کہ ہرشام کو نماز جنازہ پڑھے اور نیت یہ کرے کہ ہر اس مسلمان کی نماز جنازہ ہے۔
جو آج روئے زمین پر فوت ہوا ہے۔
کچھ اہل علم کا کہنا ہے کہ ہر ایک کی غائبانہ نماز جنازہ جائز نہیں۔
صرف اسی شخص کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی جائے۔
جس کے بارے میں یہ معلوم ہوکہ اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھی گئی۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اور شیخ ابن عثمین رحمۃ اللہ علیہ نے اسی قول کوراحج قراردیا ہے۔
جبکہ ایک تیسرے گروہ کا کہنا ہے کہ ہراس شخص کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی جائے جس نے علم نافع وغیرہ کی صورت میں مسلمانوں پر احسان کیاہو۔
تاہم اس مسئلے کی بابت ہمارے نزدیک راحج اور اقرب الی الصواب بات درج ذیل باتوں کو ملحوظ رکھنا ہے۔
٭ فوت ہونے والا اچھی شہرت اور سیاسی مذہبی اور علمی حیثیت کا حامل ہو۔
ہرچھوٹے بڑے کی نماز جنازہ غائبانہ طور پر پڑھناغیر مسنون ہے۔
٭ غائبانہ نماز جنازہ کی ادایئگی میں سیاسی یا مالی مفادات وابستہ نہ ہوں۔
صرف اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی مطلوب ہو۔
٭ اس کے لئے اعلانات کرنا، شتہارات اور بینرز وغیرہ لگانا مخصوص علمائے کرام یا مذہبی وسیاسی قائدین سے نماز جنازہ پڑھوانا نیز انتظار اور اسی قسم کے دیگر ذرائع ابلاغ کو استعمال کرنا جیسا کہ آج کل ہمارے ہاں یہ وبا عام ہے۔
شرعی طور پر محل نظر ہے لہٰذا اس کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔
غائبانہ نماز جنازہ کے موقع پرتقاریر یا خطابات کا بھی قطعاً اہتمام نہ ہو ایسا کرنا رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام رضوان للہ عنہم اجمعین سے ثابت نہیں۔
بصورت دیگر فوت ہونے والے شخص کےلئے صرف دعا کرنا ہی زیادہ بہتر معلوم ہوتا ہے کہ اسے اپنی خصوصی دعاؤں میں یاد رکھا جائے۔
واللہ أعلم بالصواب۔
(3)
غائبانہ نماز جنازہ کا طریقہ وہی ہے جو میت سامنے ہونے کی صورت میں ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1534
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1053
1053- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، جب نجاشی کا انتقا ل ہوا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کے لیے دعائے مغفرت کرو۔“ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1053]
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ میت کی اطلاع ملے تو اس کے لیے بخشش کی دعا کرنی چاہیے۔ فائده نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی غائبانہ نماز جنازہ بھی پڑھائی تھی۔ [صحيح مسلم: 951]
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1052
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1245
1245. حضرت ابو ہریرۃ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت نجاشی کے فوت ہونے کی خبر سنائی جس دن وہ فوت ہوئے تھے۔ پھر آپ عید گاہ تشریف لے گئے،صفیں درست کرنے کے بعد چار تکبیریں کہیں اور اس کی نماز جنازہ ادا کی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1245]
حدیث حاشیہ:
بعضوں نے اس کو برا سمجھا ہے، امام بخاری ؒ نے یہ باب لا کر ان کا رد کیا، کیونکہ آنحضرت ﷺ نے خود نجاشی اور زید اور جعفر اور عبد اللہ بن رواحہ کی موت کی خبریں ان کے لوگوں کو سنائیں، آپ ﷺ نے نجاشی پر نماز جنازہ پڑھی۔
حالانکہ وہ حبش کے ملک میں مرا تھا۔
آپ ﷺ مدینہ میں تھے تو میت غائب پر نماز پڑھنا جائز ہوا۔
اہلحدیث اور جمہور علماء کے نزدیک یہ جائز ہے اور حنفیہ نے اس میں خلاف کیا ہے۔
یہ حدیث ان پر حجت ہے۔
اب یہ تاویل کہ اس کا جنازہ آنحضرت ﷺ کے سامنے لایا گیا تھا فاسد ہے، کیونکہ اس کی کوئی دلیل نہیں۔
دوسرے اگر سامنے بھی لایا گیا ہو تو آنحضرت ﷺ کے سامنے لایا گیا ہو گا نہ کہ صحابہ کے، انہوں نے تو غائب پر نماز پڑھی۔
(وحیدي)
نجاشی کے متعلق حدیث کو مسلم و احمد و نسائی و ترمذی نے بھی روایت کیا ہے اور سب نے ہی اس کی تصحیح کی ہے۔
علامہ شوکانى ؒ فرماتے ہیں:
وقد استدل بھذہ القصة القائلون بمشروعیة الصلوة علی الغائب عن البلد قال في الفتح وبذلك قال الشافعي وأحمدوجمهور السلف حتی قال ابن حزم لم یأت عن أحد من الصحابة منعه قال الشافعي علی المیت دعاء فکیف لا یدعی له وھو غائب أو في القبر۔
(نیل الأوطار)
یعنی جو حضرات نماز جنازہ غائبانہ کے قائل ہیں انہوں نے اسی واقعہ سے دلیل پکڑی ہے اور فتح الباری میں ہے کہ امام شافعی اور احمد اور جمہور سلف کا یہی مسلک ہے۔
بلکہ علامہ ابن حزم کا قول تو یہ ہے کہ کسی بھی صحابی سے اس کی ممانعت نقل نہیں ہوئی۔
امام شافعی کہتے ہیں کہ جنازہ کی نماز میت کے لئے دعا ہے۔
پس وہ غائب ہو یا قبر میں اتاردیا گیا ہو، اس کے لیے دعا کیوں نہ کی جائے گی۔
نجاشی کے علاوہ آنحضرت ﷺ نے معاویہ بن معاویہ لیثی ؓ کا جنازہ غائبانہ ادا فرمایا جن کا انتقال مدینہ میں ہوا تھا اور آنحضرت ﷺ تبوک میں تھے اور معاویہ بن مقرن اور معاویہ بن معاویہ مزنی کے متعلق بھی ایسے واقعات نقل ہوئے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے ان کے جنازے غائبانہ ادا فرمائے۔
اگرچہ یہ روایات سند کے لحاظ سے ضعیف ہیں۔
پھر بھی واقعہ نجاشی سے ان کی تقویت ہوتی ہے۔
جو لوگ نماز جنازہ غائبانہ کے قائل نہیں ہیں وہ اس بارے میں مختلف اعتراض کرتے ہیں۔
علامہ شوکانی بحث کے آخر میں فرماتے ہیں:
والحاصل أنه لم یأت المانعون من الصلوة علی الغائب بشيء یعتد به الخ۔
یعنی مانعین کوئی ایسی دلیل نہ لا سکے ہیں جسے گنتی شمار میں لایا جائے۔
پس ثابت ہوا کہ نماز جنازہ غائبانہ بلا کراہت جائز و درست ہے۔
تفصیل مزید کے لیے نیل الاوطار (جلد: 3ص55، 56)
کا مطالعہ کیا جائے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1245
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1245
1245. حضرت ابو ہریرۃ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت نجاشی کے فوت ہونے کی خبر سنائی جس دن وہ فوت ہوئے تھے۔ پھر آپ عید گاہ تشریف لے گئے،صفیں درست کرنے کے بعد چار تکبیریں کہیں اور اس کی نماز جنازہ ادا کی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1245]
حدیث حاشیہ:
(1)
بعض حضرات کا خیال ہے کہ میت کے لواحقین کو وفات کی اطلاع نہیں دینی چاہیے، کیونکہ ایسا کرنا انہیں پریشان اور رنج و الم میں مبتلا کرنا ہے، پھر احادیث میں کسی کے مرنے کا اعلان کرنا منع آیا ہے۔
امام بخاری ؓ نے ثابت کیا ہے کہ اہل میت کو وفات کی اطلاع دینا جائز ہے۔
اگرچہ انہیں پریشانی تو ہوتی ہے لیکن مصلحت کا تقاضا ہے کہ ان کی پریشانی کو ملحوظ رکھتے ہوئے انہیں مطلع کر دیا جائے تاکہ وہ ان کی تجہیز و تکفین اور تدفین وغیرہ کا بندوبست کریں۔
لوگوں کو اطلاع کرنے سے نماز جنازہ میں بکثرت لوگ شامل ہوں گے اور زیادہ سے زیادہ لوگ اس کی مغفرت کے لیے اللہ سے دعا کریں گے، نیز اس کی وصیت وغیرہ پر عمل کا بھی موقع میسر آئے گا۔
اس کے علاوہ متعدد ایسے احکام ہیں جن پر عمل اسی صورت ممکن ہے جب اس کے عزیز و اقارب کو وفات کی اطلاع کی جائے۔
اس کے متعلق حکم امتناعی کی وضاحت ہم آئندہ حدیث کے تحت کریں گے۔
(2)
واضح رہے کہ نجاشی ملک حبشہ کے فرماں روا کو کہا جاتا تھا۔
جس نجاشی کا حدیث میں ذکر ہے اس کا نام ”اصحمہ“ تھا اور وہ حضرت جعفر بن ابی طالب ؓ کے ہاتھوں مسلمان ہوا تھا۔
جب رسول اللہ ﷺ 9 ہجری کو جنگ تبوک سے واپس ہوئے تو آپ کو اس کے فوت ہونے کی بذریعہ وحی اطلاع کر دی گئی۔
چونکہ اہل مدینہ کے ساتھ اس کا دینی رشتہ تھا، علاوہ ازیں اس کے عزیز و اقارب بھی مدینہ میں آباد تھے، آپ نے دینی اور خونی رشتے داروں کو اس کے فوت ہونے کی اطلاع دی۔
امام بخاری ؓ نے اس اطلاع سے اپنا عنوان ثابت کیا ہے۔
(فتح الباري: 151/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1245