Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

موطا امام مالك رواية ابن القاسم
خوف و سفر کی نماز کا بیان
سفر میں دو نمازیں جمع کرنا
حدیث نمبر: 172
108- مالك عن أبى الزبير المكي عن أبى الطفيل عامر بن واثلة أن معاذ بن جبل أخبره أنهم خرجوا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم عام تبوك، فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يجمع بين الظهر والعصر والمغرب والعشاء. قال: فأخر الصلاة يوما ثم خرج فصلى الظهر والعصر جميعا، ثم دخل ثم خرج فصلى المغرب والعشاء جميعا. ثم قال: ”إنكم ستأتون غدا إن شاء الله عين تبوك، وإنكم لن تأتوها حتى يضحى النهار، فمن جاءها فلا يمس من مائها شيئا حتى آتي.“ قال: فجئناها وقد سبق إليها رجلان والعين مثل الشراك تبض بشيء من ماء، فسألهما رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”هل مسستما من مائها شيئا؟“ فقالا: نعم. فسبهما وقال لهما ما شاء الله أن يقول، ثم غرفوا من العين بأيديهم قليلا قليلا حتى اجتمع فى شيء ثم غسل رسول الله صلى الله عليه وسلم فيه وجهه ويديه ثم أعاده فيها فجرت العين بماء كثير، فاستقى الناس، ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”يوشك يا معاذ إن طالت بك حياة أن ترى ما ههنا قد ملئ جنانا.“
ابوالزبیر (محمد بن تدرس) المکی سے روایت ہے، وہ سیدنا ابوالطفیل عامر بن واثلہ سے بیان کرتے ہیں کہ انہیں (سیدنا) معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ وہ غزوہ تبوک والے سال، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (جہاد کے لئے) نکلے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر و عصر کی اور مغرب و عشاء کی (نمازیں) جمع کرتے تھے، سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز مؤخر کی پھر (خیمے سے) باہر آ کر ظہر و عصر کی دونوں نمازیں پڑھائیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اندر تشریف لے گئے، پھر (بعد میں) باہر آ کر مغرب و عشاء  کی دونوں نمازیں اکٹھی پڑھائیں پھر فرمایا: تم سب ان شاء اللہ کل تبوک کے چشمے پر پہنچو گے اور تم دن چڑھنے سے پہلے نہیں پہنچ سکو گے، پس تم میں سے جو بھی چشمے پر پہنچے تو میرے آنے سے پہلے اس کے پانی کو ہاتھ نہ لگائے۔ سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: پھر جب ہم وہاں پہنچے تو دو آ دمی ہم سے پہلے پہنچ چکے تھے اور چشمہ (تھوڑے سے) پانی کے ساتھ چمک رہا تھا گویا کہ ایک تسمہ ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں سے پوچھا: کیا تم نے اس چشمے کے پانی میں سے کچھ چھوا ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ڈانٹا اور جو اللہ چاہتا تھا وہ فرمایا، پھر لوگوں نے چشمے میں سے اپنے ہاتھوں کے ساتھ تھوڑے تھوڑے چُلّو بھر کے پانی لیا حتیٰ کہ وہ کسی چیز (برتن) میں اکٹھا ہو گیا، پھر ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے اپنا چہرا (رُخ انور) اور ہاتھ دھوئے، پھر اس پانی کو چشمے میں ڈال دیا تو اس چشمے سے بہت  زیادہ پانی بہنے لگا لوگوں نے پانی پیا اور پلایا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے معاذ! اگر تمہاری زندگی لمبی ہوئی تو عنقریب دیکھو گے کہ یہ علاقہ باغوں سے بھرا ہو گا۔

تخریج الحدیث: «108- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 143/1، 144 ح 326، ك 9 ب 1 ح 2) التمهيد 193/12، 194 وقال: ”هذا حديث صحيح ثابت“، الاستذكار: 296، و أخرجه مسلم (706/10 بعد ح 2281) من حديث مالك به وصرح ابوالزبير بالسماع عند احمد (229/5) وابن خزيمه (966)»

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم کی حدیث نمبر 172 کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 172  
تخریج الحدیث:
[وأخرجه مسلم 706/10 بعدح 2281، من حديث ما لك به وصرح ابوالبيز بالسماع عند احمد 229/5، وابن خزيمه 966]

تفقه
➊ سفر میں ظہر و عصر کی دو نمازیں (دو رکعتیں دو رکعتیں) اور مغرب و عشاء کی نمازیں (تین رکعتیں دو رکعتیں) جمع کر کے پڑھنا جائز ہے۔
➋ خلیفہ بذات خود اپنی فوجوں کے ساتھ کافروں سے جنگ کر سکتا ہے۔
➌ غزوہ تبوک شام کے عیسائیوں کے خلاف تھا جو مسلمانوں پر حملہ کرنا چاہتے تھے۔ بعض اہل علم نے کہا ہے کہ یہ واقعہ رجب 9 ہجری میں ہوا تھا۔ دیکھئے: [التمهيد 196/12]
➍ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مسافر دوران سفر حالت قیام میں دو نمازیں میں جمع کر سکتا ہے۔ دیکھئے: [التمهيد 196/12]
➎ جمع تقدیم کا مطلب یہ ہے کہ ظہر کے وقت عصر کی اور مغرب کے وقت عشاء کی نماز پڑھنا اور جمع تاخیر عصر کے وقت ظہر اور عشاء کے وقت مغرب پڑھنے کو کہتے ہیں۔ جمع صوری کا مطلب یہ ہے کہ ظہر کے آخری وقت میں ظہر کی نماز اور عصر کے ابتدائی وقت میں عصر کی نماز پڑھ کر جمع کرنا، اسی طرح مغرب کے آخری وقت میں مغرب کی اور عشاء کے ابتدائی وقت میں عشاء کی نماز پڑھنا ہے۔ جمع کی یہ تینوں قسمیں جائز ہیں۔ ان میں سے کسی ایک قسم کا اقرار اور باقی کا انکار صحیح نہیں ہے۔
➏ اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم معجزے کا ذکر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کے پانی کی برکت سے اللہ نے چشمہ جاری کر دیا۔ بعد میں صدیوں بعد محمد بن وضاح نے یہ چشمہ دیکھا تھا۔ دیکھئے: [التمهيد 208/12 وسندہ صحیح]
➐ نبی صلی اللہ علیہ وسلم (اللہ کی وحی سے) غیب کی خبریں بیان کرتے تھے۔ حافظ ابن عبدالبر نے کہا:
«وفيه إخباره - صلَّى اللهُ عَليهِ وسَلمَ - بغيب كان بعده وهذا غير عجيب منه ولا مجهول من شأنه۔ صلَّى اللهُ عَليهِ وسَلمَ۔ وأعلى ذكره»
اور اس میں یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد غیب کی خبر دی اور یہ عجیب نہیں ہے اور نہ آپ صلى الله عليه وسلم کی شان سے غیر معلوم ہے۔ اللہ آپ کا ذکر بلند فرمائے۔ [االتمهيد 12/ 208،]
● یاد رہے کہ عالم الغیب ہونا صرف الله تعالی کی ہی صفت خاصہ ہے۔
➑ ارشاد نبوی کی مخالفت کرنا کبھی جائز نہیں ہے۔
➒ ابن شہاب الزہری نے سالم بن عبداللہ بن عمر سے پوچھا: کیا سفر میں ظہر و عصر کی نمازیں میں جمع کی جا سکتی ہیں؟ انہوں نے فرمایا: جی ہاں! اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ کیا تم نے عرفات میں لوگوں کو (جمع کی) نماز پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا؟ [موطأ مالك 145/1 ح 330 وسنده صحيح]
➓ نیز دیکھئے: [الموطأ حديث 109، 199، ومسلم 703، 705]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 108   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 588  
´مسافر کس وقت ظہر اور عصر کو جمع کرے؟`
ابوالطفیل عامر بن واثلۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے انہیں خبر دی کہ وہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ تبوک کے سال نکلے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کی نمازوں کو جمع کر کے پڑھتے رہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن نماز کو مؤخر کیا، پھر نکلے اور ظہر اور عصر کو ایک ساتھ ادا کیا، پھر اندر داخل ہوئے، پھر نکلے تو مغرب اور عشاء ایک ساتھ پڑھی۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 588]
588 ۔ اردو حاشیہ: اس میں بطاہر جمع تاخیر کا بیان ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 588   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1208  
´دو نمازوں کو جمع کرنے کا بیان۔`
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ غزوہ تبوک میں سفر سے پہلے سورج ڈھل جانے کی صورت میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصر کو ظہر کے ساتھ ملا کر پڑھ لیتے، اور اگر سورج ڈھلنے سے پہلے کوچ کرتے تو ظہر کو مؤخر کر دیتے یہاں تک کہ آپ عصر کے لیے قیام کرتے، اسی طرح آپ مغرب میں کرتے، اگر کوچ کرنے سے پہلے سورج ڈوب جاتا تو عشاء کو مغرب کے ساتھ ملا کر پڑھ لیتے اور اگر سورج ڈوبنے سے پہلے کوچ کرتے تو مغرب کو مؤخر کر دیتے یہاں تک کہ عشاء کے لیے قیام کرتے پھر دونوں کو ملا کر پڑھ لیتے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے ہشام بن عروہ نے حصین بن عبداللہ سے حصین نے کریب سے، کریب نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے، ابن عباس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مفضل اور لیث کی حدیث کی طرح روایت کیا ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب صلاة السفر /حدیث: 1208]
1208۔ اردو حاشیہ:
➊ اثنائے سفر میں جمع بین الصلٰواتین مسنون ہے۔
➋ عصر کو ظہر کے وقت میں اور عشاء کو مغرب کے وقت میں پڑھنا جمع تقدیم کہلاتا ہے، اور ظہر کو عصر کے وقت میں اور مغرب کو عشاء کے وقت میں پڑھنا جمع تاخیر اور حسب احوال دونوں ہی صورتیں جائز ہیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ صرف جمع صوری جائز ہے جس کا طریقہ یہ ہے کہ ظہر کو اس کے آخری وقت میں پڑھا جائے اور عصر کو اس کے ابتدائی وقت میں اسی طرح مغرب، عشاء کو جمع کرنے کا مسئلہ ہے۔ یعنی مغرب کو اس کے آخری وقت میں اور عشاء کو اس کے ابتدائی وقت میں پڑھا جائے، لیکن اس طرح جمع کر کے پڑھنے کو، کیا جمع کر کے پڑھنا کہا جا سکتا ہے؟ یہ تو ہر نماز اپنے اپنے ہی وقت پر ادا ہوئی ہے، اسے جمع کہنا ہی غلط ہے، اس لئے انہوں نے اس کا نام ہی جمع صوری رکھا ہے۔ یعنی دیکھنے میں جمع ہے لیکن حقیقت میں جمع نہیں لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جمع تقدیم یا جمع تاخیر کی ہے۔ کیا وہ جمع صرف صورتاً اسی طرح تھیں، جس طرح جمع صوری کا طریقہ بیان کیا گیا ہے۔ ظاہری بات ہے حدیث کے الفاظ اس کو قبول نہیں کرتے، حدیث سے تو واضح طور پر معلوم ہو رہا ہے کہ جمع تقدیم کی صورت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نماز کو اس کے اول وقت میں (ظہر یا مغرب کی نماز کو) پڑھا اور اس کے ساتھ ہی فوراً دوسری نماز (عصر یا عشاء) پڑھ لی۔ اور تاخیر کی صورت میں پہلی نماز کا وقت نکل جانے کے بعد دوسری نماز کے وقت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں نمازیں (عصرکے وقت میں عصر کے ساتھ نماز ظہر بھی اور عشاء کے وقت میں عشاء کی نماز کے ساتھ مغرب کی نماز بھی) پڑھیں، ان کو کسی طرح بھی جمع صوری نہیں کہا جا سکتا۔ یہ حقیقی جمع تھیں اس لئے حالات کے مطابق جمع تقدیم اور جمع تاخیر دونوں طریقے جائز ہیں۔ اور یہ واضح طور پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں۔ یہ اسلام کے ان محاسن میں سے ایک ہے، جن کی بنا پر اسلام کو «دين يسر . . .» (آسان دین) اور دین رحمت کہا جاتا ہے اس کو صرف جمع صوری کی شکل میں محدود کر دینے والے اس «یسر» آسانی اور رحمت سے مسلمانوں کو محروم کر دینا چاہتے ہیں، جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے امتیوں کو عطا کی ہیں۔ «هداهم الله إلى صراط المستقيم»
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1208   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1070  
´سفر میں جمع بین الصلاتین (دو نمازیں جمع کرنے) کا بیان۔`
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر و عصر، اور مغرب و عشاء کی نماز کو غزوہ تبوک کے سفر میں جمع فرمایا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1070]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
سفر میں جس طرح نماز قصرکرنا جائز ہے۔
اسی طرح دو نمازوں کو ملا کر ایک وقت میں پڑھ لینا بھی جائز ہے۔

(2)
سفر میں نمازیں جمع کرنے کے دو طریقے ہیں۔
ایک تو یہ کہ پہلی نماز کو مؤخر کرکے دوسری نماز کے وقت میں ادا کیاجائے۔
یعنی ظہر کی نماز عصر کے وقت پڑھی جائے۔
اور مغرب کی نماز عشاء کےوقت پڑھی جائےاسے جمع تاخیر کہتے ہیں۔
دوسرا طریقہ یہ ہے کہ دوسری نماز کو معروف وقت سے پہلے پہلی نماز کے وقت ہی میں پڑھ لیا جائے۔
یعنی عصر کو ظہر کے وقت اور عشاء کو مغرب کے وقت پڑھ لیا جائے اسے جمع تقدیم کہتے ہیں۔
دیکھئے: (جامع الترمذي، الصلاۃ، باب ما جاء فی الجمع بین الصلاتین، حدیث: 553)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1070   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 553  
´دو نمازوں کو ایک ساتھ پڑھنے کا بیان۔`
معاذ بن جبل رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک میں جب سورج ڈھلنے سے پہلے کوچ کرتے تو ظہر کو مؤخر کرتے یہاں تک کہ اسے عصر کے ساتھ ملا دیتے اور دونوں کو ایک ساتھ پڑھتے، اور جب سورج ڈھلنے کے بعد کوچ کرتے تو عصر کو پہلے کر کے ظہر سے ملا دیتے اور ظہر اور عصر کو ایک ساتھ پڑھتے پھر روانہ ہوتے۔ اور جب مغرب سے پہلے کوچ فرماتے تو مغرب کو مؤخر کرتے یہاں تک کہ اسے عشاء کے ساتھ ملا کر پڑھتے، اور جب مغرب کے بعد کوچ فرماتے تو عشاء کو پہلے کر کے مغرب کے ساتھ ملا کر پڑھتے۔ [سنن ترمذي/أبواب السفر/حدیث: 553]
اردو حاشہ:
1؎:
جو آگے آ رہی ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 553   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5947  
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ تبوک کے لیے نکلے تو آپﷺ دو نمازوں کو جمع کرتے تھے، آپ نے ظہر اور عصر اکٹھی پڑھیں اور مغرب وعشاء کو جمع کیا، حتیٰ کہ آپ نے ایک دن نماز کو مؤخر کیا، پھر نکلے اورظہر اور عصر کو اکٹھا پڑھا، پھر اپنے خیمےمیں داخل ہوگئے، پھر اس کے بعد نکلے اور مغرب وعشاء کو جمع کیا، پھر فرمایا، تم کل ان شاء اللہ تبوک کے چشمہ پر پہنچ جاؤ گے اور تم اس پردن چڑھے ہی... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:5947]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
تبض:
تھوڑا تھوڑا بہہ رہا ہے،
قطرہ قطرہ نکل رہا ہے۔
(2)
ماؤ منهمر:
مسلسل بہنے والا۔
(3)
غزير:
بہت زیادہ۔
(4)
جنان:
جنة کی جمع ہے،
باغ،
یہ آپ کا معجزہ ہے کہ آپ کی پیشن گوئی کے مطابق اس چشمہ کے اردگرد سرسبز و شاداب باغات لہلہانے لگے۔
فوائد ومسائل:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تبوک کے چشمہ پر پہنچ کر لوگوں کو اس پانی کے استعمال کرنے سے روک دیا تھا،
تاکہ آپ سے پہلے،
اس کو ہاتھ لگانے سے کہیں،
وہ بالکل خشک نہ ہو جائے اور برکت کے ظہور کے لیے پانی ہی نہ مل سکے،
اللہ چاہے تو پتھر سے بھی پانی کے 12 چشمے نکل پڑتے ہیں۔
اور امام کسی مصلحت کے تحت مفاد عامہ کی چیز کے استعمال سے روک سکتا ہے،
ان دو آدمیوں نے نادانی،
جہالت یا بھول کے سبب آپ کے حکم کی مخالفت کی اور مخالفت کے سبب آپ نے ان کو سرزنش اور توبیخ فرمائی کہ تمہیں میرے فرمان کا پاس کرنا چاہیے تھا اور بقول بعض وہ دونوں منافق تھے،
دو نمازیں جمع کرنے کا مسئلہ،
نماز کے مسائل میں گزر چکا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5947