Note: Copy Text and paste to word file

موطا امام مالك رواية ابن القاسم
طریقہ نماز کا بیان
تشہد میں بیٹھنے کی کیفیت
حدیث نمبر: 125
383- مالك عن عبد الرحمن بن القاسم بن محمد بن أبى بكر الصديق عن عبد الله بن عبد الله بن عمر بن الخطاب أنه أخبره أنه كان يرى عبد الله بن عمر يتربع فى الصلاة إذا جلس، قال: ففعلته وأنا يومئذ حديث السن، فنهاني عبد الله بن عمر وقال: إنما سنة الصلاة أن تنصب رجلك اليمنى وتثني رجلك اليسرى، فقلت له: فإنك تفعل ذلك، فقال: إن رجلي لا تحملاني.
عبیداللہ بن عبداللہ بن عمر بن الخطاب رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ وہ دیکھتے تھے کہ (ان کے والد) عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب نماز میں (تشہد کے لئے) بیٹھتے ہیں تو چار زانو بیٹھتے ہیں انہوں نے کہا کہ (ایک دفعہ) میں نے بھی ایسا کیا اور ان دنوں میں چھوٹا بچہ تھا، تو سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے مجھے منع کیا اور فرمایا: نماز کی سنت تو یہ ہے کہ تم اپنا دایاں پاؤں کھڑا کرو اور بایاں پاؤں بچھا دو، میں نے آپ سے کہا: آپ تو چار زانو بیٹھتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا: میرے پاؤں مجھے اٹھا نہیں سکتے، یعنی میں بیمار ہوں۔

تخریج الحدیث: «383- الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 89/1، 90، ح 198، ك 3 ب 12 ح 51) التمهيد 345/19، الاستذكار: 198، و أخرجه البخاري (827) من حديث مالك به.»

قال الشيخ زبير على زئي: سنده صحيح
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم کی حدیث نمبر 125 کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 125  
تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 827، من حديث مالك به]

تفقه:
➊ اگر شرعی عذر ہو مثلاً بیماری تو حالت تشہد میں چار زانو بیٹھنا جائز ہے۔
➋ چھوٹے بچوں کی تربیت پر خاص توجہ دینی چاہئے تاکہ وہ ایمان وعقائد اچھی طرح سیکھ لیں۔
➌ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایک آدمی نماز پڑھ رہا تھا پھر وہ آدمی (تشہد میں) چار زانو بیٹھ گیا پھر جب ابن عمر رضی اللہ عنہ نے سلام پھیرا تو اسے اچھا نہ سمجھا یعنی منع کیا۔ اس شخص نے کہا: آپ خود چار زانو بیٹھے ہیں؟ تو (سیدنا) عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں بیمار ہوں۔ [الموطأ 89/1 ح196، وسنده صحيح]
● ایک روایت میں آپ نے قدموں کے سینے پر اٹھنے کے بارے میں فرمایا: یہ نماز کے طریقے میں سے نہیں ہے، میں تو اس وجہ سے کرتا ہوں کہ میں بیمار ہوں۔ [الموطأ 1/89 ح197، وسنده صحيح]
➍ قولِ راجح میں صحابی کا کسی کام کو سنت کہنا مرفوع یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہوتا ہے۔ دیکھئے [الام للشافعي ج1 ص271، معرفة علوم الحديث للحاكم ص22، دوسرا نسخه ص156، اور اختصار علوم الحديث لابن كثير 1/150، نوع: 8]
◄ حاکم نیشاپوری کہتے ہیں: «وقد أجمعوا عليٰ أن قول الصحابي سنة حديث مسند» اور اس پر اجماع ہے کہ صحابی کا (کسی کام کو) سنت کہنا مسند (مرفوع) حدیث ہے۔ [المستدرك 1/358 ح1323]
● اجماع کے دعویٰ میں تو نظر ہے لیکن یہ جمہور کا قول ہے اور یہی قول راجح ہے۔
➎ اضطراری حالت پر صحیح حالت کو قیاس کرنا غلط ہوتا ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 383