Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

موطا امام مالك رواية ابن القاسم
امامت کا بیان
امامت کے لئے افضل آدمی کا انتخاب کیا جائے
حدیث نمبر: 86
453- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”مروا أبا بكر فليصل للناس“ فقالت عائشة: يا رسول الله، إن أبا بكر إذا قام فى مقامك لم يسمع الناس من البكاء، فأمر عمر فليصل للناس، فقال: ”مروا أبا بكر فليصل للناس“. فقالت عائشة: فقلت لحفصة: قولي له: إن أبا بكر إذا قام فى مقامك لم يسمع الناس من البكاء، فأمر عمر فليصل للناس، ففعلت حفصة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”مه إنكن لأنتن صواحبات يوسف، مروا أبا بكر فليصل بالناس“ فقالت حفصة لعائشة: ما كنت لأصيب منك خيرا.
اور اسی سند کے ساتھ (سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اپنی آخری بیماری میں) فرمایا: ابوبکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: یا رسول اللہ! یقیناًً جب ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ کے مقام پر کھڑے ہوں گے تو رونے کی وجہ سے لوگوں کو آواز نہیں سنا سکیں گے آپ عمر رضی اللہ عنہ کو حکم دیں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابوبکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ پھر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا سے کہا: آپ انہیں کہیں کہ اگر ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ کے مقام پر کھڑے ہوں گے تو رونے کی وجہ سے لوگوں کو آواز نہیں سنا سکیں گے، لہٰذا آپ عمر رضی اللہ عنہ کو حکم دیں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہ نے ایسا ہی کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسی باتیں نہ کرو، تم ان عورتوں کی طرح ہو جو یوسف علیہ السلام کے بارے میں اکٹھی ہوئی تھیں، ابوبکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔، تو سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا: آپ کی طرف سے مجھے کبھی خیر نہیں پہنچی۔

تخریج الحدیث: «453- الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 170/1، 171 ح 413، ك 9 ب 24 ح 83) التمهيد 123/22، الاستذكار: 383، و أخرجه البخاري (679) من حديث مالك به، وفي رواية يحيي بن يحيي: ”فمر.“»

قال الشيخ زبير على زئي: سنده صحيح

موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم کی حدیث نمبر 86 کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 86  
تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 679، من حديث مالك به، وفي رواية يحييٰ بن يحييٰ: «فَمُرْ» ]
تفقه:
➊ امت مسلمہ میں تمام صحابۂ کرام اور ان کے بعد آنے والوں مثلاً امام مہدی کے مقابلے میں سیدنا ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ سب سے افضل ہیں۔
➋ مرضِ وفات میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو مسجدِ نبوی میں امام بنانا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ حکومت کے بھی امام اور خلیفہ بلافصل ہیں۔
➌ مشاور ت میں خیر ہے لیکن شرعی امور میں کسی کے ذاتی مشورے کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
➍ اگر شاگردوں یا عوام سے کتاب وسنت کے خلاف حرکت صادر ہو تو علماء اُن کے خلاف حتی الامکان تادیبی کاروائی کرسکتے ہیں۔
➎ امامت کا مستحق افضل انسان اور کتاب وسنت کا سب سے بڑا عالم ہوتا ہے۔
➏ اگر ریاکاری اور دکھاوا نہ ہو تو نماز میں خشوع وخضوع سے رونا جائز ہے۔
➐ سیدنا ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ بہت نرم دل تھے اور آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے۔
➑ حدیث کے مقابلے میں اپنی رائے کبھی پیش نہیں کرنی چاہئے۔
➒ دین کا پہنچا دینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داری ہے اور اس پر عمل کرنا قیامت تک ہر مسلمان پر فرض ہے۔
➓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگوں تک دین کی بات پہنچانے میں دنیا کا کوئی شخص روک نہیں سکتا تھا لہٰذا ثابت ہوا کہ آپ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو اپنے بعد خلیفہ یا وصی مقرر کرنا ہوتا تو آپ یہ وصیت ضرور لکھواتے اور کسی کے روکے نہ رکتے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 453   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 198  
´ٹھنڈے پانی سے مریض کو غسل دلانا`
«. . . أَنَّ عَائِشَةَ، قَالَتْ: " لَمَّا ثَقُلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاشْتَدَّ بِهِ وَجَعُهُ اسْتَأْذَنَ أَزْوَاجَهُ فِي أَنْ يُمَرَّضَ فِي بَيْتِي، فَأَذِنَّ لَهُ، فَخَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ رَجُلَيْنِ تَخُطُّ رِجْلَاهُ فِي الْأَرْضِ بَيْنَ عَبَّاسٍ وَرَجُلٍ آخَرَ، قَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ: فَأَخْبَرْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ، فَقَالَ: أَتَدْرِي مَنِ الرَّجُلُ الْآخَرُ؟ قُلْتُ: لَا، قَالَ: هُوَ عَلِيُّ، وَكَانَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا تُحَدِّثُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ بَعْدَمَا دَخَلَ بَيْتَهُ وَاشْتَدَّ وَجَعُهُ: هَرِيقُوا عَلَيَّ مِنْ سَبْعِ قِرَبٍ لَمْ تُحْلَلْ أَوْكِيَتُهُنَّ لَعَلِّي، أَعْهَدُ إِلَى النَّاسِ، وَأُجْلِسَ فِي مِخْضَبٍ لِحَفْصَةَ: زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ طَفِقْنَا نَصُبُّ عَلَيْهِ تِلْكَ حَتَّى طَفِقَ يُشِيرُ إِلَيْنَا أَنْ قَدْ فَعَلْتُنَّ، ثُمَّ خَرَجَ إِلَى النَّاسِ " . . . .»
. . . عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری زیادہ ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی (دوسری) بیویوں سے اس بات کی اجازت لے لی کہ آپ کی تیمارداری میرے ہی گھر کی جائے۔ انہوں نے آپ کو اجازت دے دی، (ایک روز) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو آدمیوں کے درمیان (سہارا لے کر) گھر سے نکلے۔ آپ کے پاؤں (کمزوری کی وجہ سے) زمین پر گھسٹتے جاتے تھے، عباس رضی اللہ عنہ اور ایک آدمی کے درمیان (آپ باہر) نکلے تھے۔ عبیداللہ (راوی حدیث) کہتے ہیں کہ میں نے یہ حدیث عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو سنائی، تو وہ بولے، تم جانتے ہو دوسرا آدمی کون تھا، میں نے عرض کیا کہ نہیں۔ کہنے لگے وہ علی رضی اللہ عنہ تھے۔ پھر عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی تھیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں داخل ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مرض بڑھ گیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے اوپر ایسی سات مشکوں کا پانی ڈالو، جن کے سربند نہ کھولے گئے ہوں۔ تاکہ میں (سکون کے بعد) لوگوں کو کچھ وصیت کروں۔ (چنانچہ) آپ کو حفصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی (دوسری) بیوی کے لگن میں (جو تانبے کا تھا) بیٹھا دیا گیا اور ہم نے آپ پر ان مشکوں سے پانی بہانا شروع کیا۔ جب آپ ہم کو اشارہ فرمانے لگے کہ بس اب تم نے اپنا کام پورا کر دیا تو اس کے بعد آپ لوگوں کے پاس باہر تشریف لے گئے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ الْغُسْلِ وَالْوُضُوءِ فِي الْمِخْضَبِ وَالْقَدَحِ وَالْخَشَبِ وَالْحِجَارَةِ:: 198]
تشریح:
بعض تیز بخاروں میں ٹھنڈے پانی سے مریض کو غسل دلانا بےحد مفید ثابت ہوتا ہے۔ آج کل برف بھی ایسے مواقع پر سر اور جسم پر رکھی جاتی ہے۔ باب میں جن جن برتنوں کا ذکر تھا احادیث مذکورہ میں ان سب سے وضو کرنا ثابت ہوا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 198   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 679  
679. حضرت ام المومنین عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے اپنے ایام علالت میں فرمایا: ابوبکر ؓ سے کہو، وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ حضرت عائشہ‬ ؓ ف‬رماتی ہیں: میں نے عرض کیا: ابوبکر ؓ آپ کی جگہ کھڑے ہو کر (فرطِ غم سے) رونے لگیں گے، اس وجہ سے لوگوں کو ان کی آواز سنائی نہیں دے گی، لہذا آپ حضرت عمر ؓ کو حکم دیں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں، حضرت عائشہ‬ ؓ ف‬رماتی ہیں کہ میں نے حضرت حفصہ‬ ؓ س‬ے کہا کہ تم بھی رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم سے کہو کہ ابوبکر ؓ جب آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو گریے کے باعث لوگوں کو اپنی آواز نہیں سنا سکیں گے، اس لیے آپ حضرت عمر ؓ کو حکم دیں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں، چنانچہ حضرت حفصہ‬ ؓ ن‬ے عرض کیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: خاموش رہو، یقینا تم یوسف ؑ کے ساتھ والی عورتوں کی طرح ہو۔ ابوبکر ؓ سے کہو، وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ اس پر حضرت حفصہ‬ ؓ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:679]
حدیث حاشیہ:
اس واقعہ سے متعلق احادیث میں ''صواحب یوسف'' کا لفظ آتا ہے۔
صواحب صاحبة کی جمع ہے، لیکن یہاں مراد صرف زلیخا سے ہے۔
اسی طرح حدیث میں ''أنتم'' کی ضمیر جمع کے لیے استعمال ہوتی ہے، لیکن یہاں بھی صرف ایک ذات عائشہ ؓ کی مراد ہے۔
یعنی زلیخا نے عورتوں کے اعتراض کے سلسلے کو بند کرنے کے لیے انہیں بظاہر دعوت دی اور اعزاز و اکرام کیا، لیکن مقصد صرف یوسف ؑ کو دکھانا تھا کہ تم مجھے کیا ملامت کرتی ہو بات ہی کچھ ایسی ہے کہ میں مجبور ہوں۔
جس طرح اس موقع پر زلیخا نے اپنے دل کی بات چھپائے رکھی تھی۔
حضرت عائشہ ؓ بھی جن کی دلی تمنا یہی تھی کہ ابوبکر ؓ نماز پڑھائیں۔
لیکن آنحضرت ﷺ سے مزید توثیق کے لیے ایک دوسرے عنوان سے بار بار پچھواتی تھیں۔
حضرت حفصہ ؓ نے ابتداء میں غالباً بات نہیں سمجھی ہوگی۔
اور بعد میں جب آنحضور ﷺ نے زور دیا۔
تو وہ بھی حضرت عائشہ ؓ کا مقصد سمجھ گئیں اور فرمایا کہ میں بھلا تم سے کبھی بھلائی کیوں دیکھنے لگی۔
(تفہیم البخاری، ص: 82پ: 3)
حضرت حفصہ ؓ کا مطلب یہ تھا کہ آخر تم سوکن ہو، تو کیسی ہی سہی تم نے ایسی صلاح دی کہ آنحضرت ﷺ کو مجھ پر خفا کرا دیا۔
اس حدیث سے اہل دانش سمجھ سکتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کو قطعی طور پر یہ منظور نہ تھا کہ ابوبکر ؓ کے سوا اور کوئی امامت کرے اور باوجودیکہ حضرت عائشہ ؓ جیسی پیاری بیوی نے تین بار معروضہ پیش کیا۔
مگر آپ نے ایک نہ سنی۔
پس اگر حدیث القرطاس میں بھی آپ کا منشاء یہی ہوتا کہ خواہ مخواہ کتاب لکھی جائے تو آپ ضرور لکھوا دیتے اور حضرت عمر ؓ کے جھگڑے کے بعد آپ کئی دن زندہ رہے مگر دوبارہ کتاب لکھوانے کا حکم نہیں فرمایا۔
(وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 679   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 683  
683. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے دوران علالت میں حکم دیا کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ لوگوں کو نماز پڑھائیں، چنانچہ وہ اس دوران میں نماز پڑھاتے رہے۔ حضرت عروہ کہتے ہیں: ایک دن رسول اللہ ﷺ نے کچھ افاقہ محسوس کیا، چنانچہ آپ باہر تشریف لائے تو دیکھا کہ حضرت ابوبکر ؓ لوگوں کو نماز پڑھا رہے ہیں۔ جب ابوبکر صدیق ؓ کی نگاہ آپ ﷺ پر پڑی تو انہوں نے پیچھے ہٹنا چاہا لیکن آپ نے اشارہ فرمایا کہ اپنی جگہ پر رہو۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے پہلو میں ان کے برابر بیٹھ گئے۔ اندریں حالات حضرت ابوبکر صدیق ؓ رسول اللہ ﷺ کی اقتدا میں نماز ادا کر رہے تھے اور دیگر لوگ حضرت ابوبکر ؓ کی اقتدا میں نماز پڑھ رہے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:683]
حدیث حاشیہ:
گو باب میں امام کے بازو میں کھڑا ہونا مذکور ہے اور حدیث میں آنحضرت ﷺ کا ابوبکر ؓ کے بازو میں بیٹھنا بیان ہو رہا ہے۔
مگر شاید آپ پہلے بازو میں کھڑے ہو کر پھر بیٹھ گئے ہوں گے یا کھڑے ہونے کو بیٹھنے پر قیاس کر لیا گیا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 683   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 712  
712. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ جب نبی ﷺ مرض فات میں مبتلا ہوئے تو آپ کے پاس حضرت بلال ؓ نماز کی اطلاع دینے کے لیے آئے۔ آپ نے فرمایا: ابوبکر سے کہو وہ لوگوں کو نماز پڑھا دیں۔ میں نے عرض کیا کہ ابوبکر ایک نرم دل آدمی ہیں، اگر آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو رونے لگیں گے اور قراءت پر قادر نہیں ہوں گے۔ آپ نے فرمایا: ابوبکر ؓ سے کہو کہ وہ نماز پڑھائیں۔ میں نے پھر وہی عرض کیا تو آپ نے تیسری یا چوتھی مرتبہ فرمایا: تم تو یوسف ؑ والی عورتوں کی مثل ہو۔ ابوبکر سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ چنانچہ حضرت ابوبکر ؓ نے نماز پڑھانا شروع کی تو نبی ﷺ دو آدمیوں کے سہارے باہر تشریف لائے، گویا میں اس وقت بھی آپ کی طرف دیکھ رہی ہوں کہ آپ کے دونوں پاؤں زمین پر گھسٹتے جاتے تھے۔ جب حضرت ابوبکر ؓ نے آپ کو دیکھا تو پیچھے ہٹنے لگے مگر آپ ﷺ نے اشارے سے فرمایا کہ نماز پڑھاتے رہو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:712]
حدیث حاشیہ:
جب مقتدی زیادہ ہوں تو دوسرا شخص تکبیر زور سے پکارے تاکہ سب کو آواز پہنچ جائے۔
آج کل اس مقصد کے لیے ایک آلہ وجود میں آگیا ہے جسے آواز پہچانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور یہ اکثر علماء کے نزدیک جائز قرار دیا گیا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 712   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3774  
3774. حضرت عروہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ جب مرض وفات میں تھے تو ہر روز اپنی ازواج مطہرات ؓاجمعین کے گھروں میں تشریف لے جاتے اور فرماتے: میں کل کہاں ہوں گا؟ میں کل کہاں ہوں گا؟ آپ کو حضرت عائشہ ؓ کے گھرآنے کی خواہش تھی۔ حضرت اُم المومنین حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ جب میری باری آئی تو آپ کو سکون ہوا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3774]
حدیث حاشیہ:
اب آپ نے یہ پوچھنا چھوڑدیا کہ کل میں کہاں رہوں گا، حافظ نے سبکی سے نقل کیا کہ ہمارے نزدیک پہلے حضرت فاطمہ افضل ہیں، پھر خدیجہ، پھر عائشہ ؓ۔
امام ابن تیمیہ ؒ نے خدیجہ ؓ اور عائشہ ؓ میں توقف کیا ہے، امام ابن قیم نے کہا:
اگر فضیلت سے مراد کثرت ثواب ہے تب تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے، اگر علم مراد ہے تو حضرت عائشہ ؓ افضل ہیں، اگر خاندانی شرافت مراد ہے تو حضرت فاطمہ ؓ افضل ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3774   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5217  
5217. سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ کی جس بیماری میں وفات ہوئی اس میں پوچھا کرتے تھے: کل میری باری کس کے پاس ہے؟ میں کل کہاں ہوں گا؟ آپ کو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی باری کا انتطار تھا، چنانچہ آپ کو تمام ازواج نے اجازت دے دی کہ آپ جہاں چاہیں آرام فرمائیں۔ آپ ﷺ نے سیدہ عائشہ‬ ؓ ک‬ے گھر کا انتخاب کیا حتیٰ کہ ان کے ہاں آپ کی وفات ہوئی۔ سیدہ عائشہ‬ ؓ ن‬ے بیان کیا کہ آپ ﷺ نے اسی دن وفات پائی جس دن میرے گھر میں آپ کے آنے کی باری تھی۔ یہ (حسن اتفاق تھا کہ) اللہ تعالٰی نے جب آپ کو وفات دی تو آپ کا سر مبارک میرے سینے اور گردن کے درمیان تھا اور آپ کا لعاب دہن میرے لعاب دہن سے مل گیا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5217]
حدیث حاشیہ:
حدیث کے آخری جملہ میں اس تازہ مسواک کی طرف اشارہ ہے جو عائشہ رضی اللہ عنہا نے دانتوں سے نرم کر کے آپ کو دی تھی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5217   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7217  
7217. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے ایک مرتبہ کہا: ہائے سر پھٹا جا رہا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر تم مرجاؤ اور میں زندہ رہا تو میں تمہارے لیے مغفرت مانگوں گا اور دعائے خیر کروں گا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: افسوس! آپ تو میری موت کے طالب ہیں اور اگر ایسا ہوگیا تو آپ دن کی آخری حصےمیں ضرور کسی دوسری عورت سے شادی کرلیں گے۔ نبی ﷺنے فرمایا: ایس نہیں بلکہ میں تو اپنے سر درد کا اظہار کرتا ہوں۔ میرا ارادہ ہوا تھا کہ میں ابو بکر اور اس کے بیٹے کو بلاؤں اور انہیں خلیفہ بنا دوں تاکہ کسی دعویٰ کرنے والے یا س کی خواہش رکھنے والے کے لیے گنجائش باقی نہ رہے لیکن پھر میں نے سوچا کہ اللہ خود کسی دوسرے کی خلافت کا انکار کرے گا اور مسلمان بھی اسے دفع کریں گے۔۔۔۔۔یا فرمایا۔۔۔۔ اللہ دفع کرے گا اورمسلمان کسی اور کو خلیفہ نہیں بننے دین گے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7217]
حدیث حاشیہ:
دوسری روایت میں یوں ہے کہ آپ نے مرض موت میں فرمایا عائشہ! اپنے باپ اور بھائی کو بلا لو تاکہ میں ابو بکر رضی اللہ عنہ کے لیے خلافت لکھ جاؤں۔
اس کے آخر میں بھی یہ ہے کہ اللہ پاک اور مسلمان لوگ ابو بکر رضی اللہ عنہ کے سوا اور کسی کی خلافت نہیں مانیں گے۔
اس حدیث سے صاف معلوم ہوا کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی خلافت ارادہ الٰہی اور مرضی نبوی کے موافق تھی۔
اب جو لوگ ایسے پاک نفس خلیفہ کو غاصب اور ظالم جانتے ہیں وہ خود ناپاک اور پلید ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7217   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1389  
1389. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے،انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ اپنی مرض وفات میں بار بار اظہار خیال فرماتے:میں آج کہاں ہوں؟کل کہاں ہوں گا؟ ایساعائشہ کی باری کو بہت دور خیال کرنے کیوجہ سے کرتے تھے۔ بالآخر جب میرا دن آیاتو اللہ تعالیٰ نے آپ کو میرے پہلو اورسینے کے درمیان قبض کیا اور آپ میرے گھر ہی میں دفن ہوئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1389]
حدیث حاشیہ:
29 صفر 11 ھ کا دن تھا کہ رسول پاک ﷺ کو تکلیف شروع ہوئی اور ابوسعید خدری ؓ کہتے ہیں کہ جو رومال حضور کے سر مبارک پر تھا اور بخار کی وجہ سے ایسا گرم تھا کہ میرے ہاتھ کو برداشت نہ ہوسکی۔
آپ 13 دن یا 14 دن بیمار رہے۔
آخری ہفتہ آپ نے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے گھر پر ہی پورا فرمایا۔
ان ایام میں بیشتر آپ مسجد میں جاکر نماز بھی پڑھاتے رہے، مگر چار روز قبل حالت بہت دگر گوں ہوگئی۔
آخر 12 ربیع الاول 11 ھ یوم دو شنبہ بوقت چاشت آپ دنیائے فانی سے منہ موڑ کر ملاء اعلیٰ سے جاملے۔
عمر مبارک 63 سال قمری پر چار دن تھی اللهم صل علی محمد وعلی آل محمد۔
وفات پر صحابہ کرام نے آپ کے دفن کے متعلق سوچا تو آخری رائے یہی قرار پائی کہ حجرہ مبارکہ میں آپ کو دفن کیا جائے، کیونکہ انبیاءجہاں انتقال کرتے ہیں اس جگہ دفن کئے جاتے ہیں۔
یہی حجرہ مبارکہ ہے جو آج گنبد خضراء کے نام سے دنیا کے کروڑہا انسانوں کا مرجع عقیدت ہے۔
حضرت امام بخاری ؓ نے حضور ﷺ کی قبر شریف کی نشان دہی کرتے ہوئے یہ ثابت فرمایا کہ مرنے والے کو اگر اس کے گھر ہی میں دفن کردیا جائے تو شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔
آپ کے اخلاق حسنہ میں سے ہے کہ آپ ایام بیماری میں دوسری بیویوں سے حضرت عائشہ ؓ کے گھر میں جانے کے لیے معذرت فرماتے رہے۔
یہاں تک کہ جملہ ازواج مطہرات نے آپ کو حجرہ عائشہ صدیقہ ؓ کے لیے اجازت دے دی اور آخری ایام آپ نے وہیں بسر کئے۔
اس سے حضرت عائشہ ؓ کی بھی کمال فضیلت ثابت ہوتی ہے۔
تف ہے ان نام نہاد مسلمانوں پر جو حضرت عائشہ صدیقہ ؓ جیسی مایہ ناز اسلامی خاتون کی فضیلت کا انکار کریں۔
اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت عطا فرمائے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1389   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2588  
2588. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے انھو نے فرمایا: جب نبی کریم ﷺ کی بیماری شدت اختیار کرگئی اور تکلیف سخت ہوگئی تو آپ نے اپنی ازواج مطہرات سے اپنی بیماری کے ایام میرے گھر بسر کرنے کی اجازت طلب کی تو تمام ازواج نے بخوشی اجازت دے دی۔ آپ دو آدمیوں کے درمیان اس طرح نکلے کہ آپ کے پاؤں زمین پر نشان کھینچتے تھے۔ آپ جن آدمیوں کے درمیان تھے ان میں سے ایک حضرت عباس ؓ اور دوسرے کوئی اور شخص تھے(راوی حدیث) عبیداللہ کہتے ہیں: میں نے جو بات حضرت عائشہ ؓ سے سنی تھی جب حضرت ابن عباس ؓ سے بیان کی تو انھوں نے مجھ سے پوچھا: تم اس شخص کو جانتے ہو جس کا حضرت عائشہ نے نام نہیں لیا؟میں نے کہا: نہیں (جانتا۔) ابن عباس ؓ نے فرمایا: وہ حضرت علی ؓ تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2588]
حدیث حاشیہ:
رسول کریم ﷺ کا یہ مرض الوفات تھا۔
آپ حضرت میمونہ ؓ کے گھر تھے۔
اس موقع پر جملہ ازواج مطہرات نے اپنی اپنی باری حضرت عائشہ ؓ کو ہبہ کردی، اسی سے مقصد باب ثابت ہوا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2588   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5666  
5666. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے ایک مرتبہ کہا: میرا سر درد! اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر تو فوت ہو گئی اور میں زندہ رہا تو میں تمہارے لیے اللہ تعالٰی سے مغفرت طلب کروں گا اور دعا مانگوں گا۔ سیدہ عائشہ‬ ؓ ن‬ے کہا: ہائے افسوس! اللہ کی قسم! میرے گمان کے مطابق اپ میرا مرنا پسند کرتے ہیں۔ اگر ایسا ہو گیا تو اسی دن رات کسی بیوی کے ہاں بسر کریں گے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: بلکہ میں تو خود درد سر میں مبتلا ہوں۔ میں نے ارادہ کیا تھا کہ مٰیں ابو بکر اور ان کے بیٹے کو پیغام بھیجوں اور وصیت کروں کہیں ایسا نہ ہو کہ میرے بعد کہنے والے کچھ اور کہیں اور تمنا کرنے والے کسی اور بات کی خواہش کریں پھر میں نے (اپنے جی میں) کہا کہ اللہ تعالٰی حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے علاوہ کسی اور کو خلیفہ نہ ہونے دے گا اور نہ مسلمان ہی کسی دوسرے کی خلافت کو قبول کریں گے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5666]
حدیث حاشیہ:
جیسا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا ویسا ہی ہوا انہوں نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی کو خلیفہ کیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف و صریح سب لوگوں کے سامنے ان کو اپنا جانشین نہیں کیا تھا مگر منشائے خدا وندی بھی یہی تھا کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوں ان کے بعد عمر رضی اللہ عنہ ان کے بعد عثمان رضی اللہ عنہ ان کے بعد علی رضی اللہ عنہ، منشائے ایزدی پورا ہوا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5666   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 713  
713. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب رسول اللہ ﷺ بیمار ہوئے تو حضرت بلال ؓ آپ کے پاس نماز کی اطلاع دینے کے لیے حاضر ہوئے، آپ نے فرمایا: ابوبکر سے کہو وہ لوگوں کو نماز پڑھا دیں۔ میں نے کہا: اللہ کے رسول! حضرت ابوبکر ؓ ایک نرم دل انسان ہیں، اس لیے جب وہ آپ کی جگہ پر کھڑے ہوں گے تو لوگوں کو اپنی آواز نہ سنا سکیں گے۔ اگر آپ حضرت عمر ؓ کو حکم دیں (تو بہتر ہے)۔ آپ نے فرمایا: ابوبکر سے کہو وہ لوگوں کو نماز پڑھا دیں۔ میں نے حضرت حفصہ‬ ؓ س‬ے کہا کہ آپ عرض کریں کہ حضرت ابوبکر ؓ ایک نرم دل انسان ہیں، اس لیے جب وہ آپ کی جگہ پر کھڑے ہوں گے تو لوگوں کو اپنی آواز نہ سنا سکیں گے، لہذا اگر آپ حضرت عمر ؓ کو حکم دیں (تو بہتر ہے)۔ آپ نے فرمایا: تم تو یوسف ؑ کے ساتھ والی عورتیں معلوم ہتی ہو۔ ابوبکر سے کہو وہ لوگوں کو نماز پڑھا دیں۔ جب حضرت ابوبکر ؓ نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:713]
حدیث حاشیہ:
اسی جملہ سے ترجمہ باب نکلتا ہے کیوں کہ حضرت ابوبکر ؓ خود مقتدی تھے، لیکن دوسرے مقتدیوں نے ان کی اقتدا کی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 713   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 716  
716. ام المومنین حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی مرض (وفات) میں فرمایا: ابوبکر سے کہو وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ حضرت عائشہ‬ ؓ ک‬ہتی ہیں: میں نے آپ سے عرض کیا کہ ابوبکر ؓ جب آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو رونے کی وجہ سے لوگوں کو اپنی آواز نہیں سنا سکیں گے، اس لیے آپ حضرت عمر ؓ کو حکم دیجیے کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ آپ نے فرمایا: ابوبکر سے کہو وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ حضرت عائشہ‬ ؓ ک‬ہتی ہیں: میں نے حضرت حفصہ سے کہا کہ تم نبی ﷺ سے عرض کرو کہ جب ابوبکر ؓ آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو رونے کی وجہ سے لوگوں کو اپنی قراءت نہیں سنا سکیں گے، لہذا آپ حضرت عمر ؓ کو حکم دیجیے کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں، چنانچہ حضرت حفصہ‬ ؓ ن‬ے ایسے ہی کیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: چپ رہو! تم تو یوسف ؑ والی عورتوں کی طرح معلوم ہوتی ہو۔ ابوبکر سے کہو وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ اس پر حضرت۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:716]
حدیث حاشیہ:
مقصد باب یہ ہے کہ رونے سے نماز میں کوئی خرابی نہیں آتی۔
جنت یا دوزخ کے ذکر پر رونا تو عین مطلوب ہے، کئی احادیث سے آنحضور ﷺ کا نماز میں رونا ثابت ہے۔
یہ حدیث پہلے کئی جگہ گزر چکی ہے اور امام المحدثین ؒ نے اس سے بہت سے مسائل اخذ کئے ہیں۔
آنحضرت ﷺ نے صدیق اکبر ؓ کے رونے کا ذکر سنا پھر بھی آپ نے ان کو نماز کے لیے حکم فرمایا۔
پس دعویٰ ثابت ہوا کہ رونے سے نماز نہیں ٹوٹ سکتی۔
صواحب یوسف کی تفسیر پہلے گزر چکی ہے۔
زلیخا اور اس کے ساتھ والی عورتیں مراد ہیں۔
جن کی زبان پر کچھ تھا اور دل میں کچھ اور۔
حضرت حفصہ ؓ اپنے کہنے پر پچھتائی اور اسی لیے حضرت عائشہ ؓ پر اظہار خفگی فرمایا۔
(رضي اللہ عنهن أجمعین)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 716   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7303  
7303. ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے اپنی بیماری میں فرمایا: ابو بکرسے کہو وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ سیدہ عائشہ‬ ؓ ن‬ے کہا: میں نے جواب دیا: ابو بکر آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو رونے کی وجہ سے لوگوں کو (قراءت) نہیں سنا سکیں گے لہذا آپ سیدنا عمر بن خطاب ؓ کو حکم دیں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ آپ ﷺ نےدوبارہ فرمایا: ابوبکر سے کہو وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ سیدنا عائشہ‬ ؓ ن‬ے کہا: میں نے سیدہ حفصہ سے کہا: تم کہو کہ اگر ابو بکر ؓ آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو رونے کی وجہ سے لوگوں کو (قراءت) نہیں سنا سکیں گے، اس لیے آپ سیدنا عمر بن خطاب ؓ کو حکم دیں وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ سیدہ حفصہ‬ ؓ ن‬ے یہ بات کی تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: بلاشبہ تم سیدنا یوسف ؑ کو پھانسنے والی عورتیں معلوم ہوتی ہو۔ سیدنا ابوبکر صدیق ؓ سے کہیں وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ بعد میں سیدنا حفصہ‬ ؓ ن‬ے سیدہ عائشہ‬۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7303]
حدیث حاشیہ:
تم نے بھڑ کر مجھ سے ایک بات کہلوائی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مجھ پر غصہ کرایا۔
یہ حدیث اس باب میں اس لیے آئے اس سے اختلاف کرنے کی یا باربار ایک ہی مقدمہ میں عرض کرنے کے جھگڑا کرنے کی برائی نکلتی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7303   

  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3099  
´نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کے گھروں اور ان گھروں کا انہی کی طرف منسوب کرنے کا بیان`
«. . . وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ} وَ {لاَ تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلاَّ أَنْ يُؤْذَنَ لَكُمْ} . . . .»
. . . ‏‏‏‏ اور اللہ پاک نے (سورۃ الاحزاب میں) فرمایا «وقرن في بيوتكن‏» تم لوگ (ازواج مطہرات) اپنے گھروں ہی میں عزت سے رہا کرو۔ اور (اسی سورۃ میں فرمایا کہ) «لا تدخلوا بيوت النبي إلا أن يؤذن لكم‏» نبی کے گھر میں اس وقت تک نہ داخل ہو ‘ جب تک تمہیں اجازت نہ مل جائے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب فَرْضِ الْخُمُسِ: Q3099] «. . . أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ:" لَمَّا ثَقُلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَأْذَنَ أَزْوَاجَهُ أَنْ يُمَرَّضَ فِي بَيْتِي فَأَذِنَّ لَهُ . . .»
. . . ‏‏‏‏ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ (مرض الوفات میں) جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مرض بہت بڑھ گیا ‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب بیویوں سے اس کی اجازت چاہی کہ مرض کے دن آپ میرے گھر میں گزاریں۔ لہٰذا اس کی اجازت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مل گئی تھی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب فَرْضِ الْخُمُسِ: 3099]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 3099 باب: «بَابُ مَا جَاءَ فِي بُيُوتِ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَا نُسِبَ مِنَ الْبُيُوتِ إِلَيْهِنَّ:»

باب اور حدیث میں مناسبت:
امام عالی مقام امام بخاری رحمہ اللہ باب میں یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی مبارک میں جس طور پر اور جن جن ازواج کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابیات و حجرات عطا کئے وہ آپ کی وفات کے بعد بھی اسی حالت میں رہے اور ان میں کسی قسم کا کوئی ورثہ تقسیم نہ ہوا۔
ابن المنیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«وجه دخول الترجمة فى الفقه، أن سكناتهن فى بيوت النبى صلى الله عليه وسلم من الخصائص كما استحققن النفقة، و السر فى ذالك حبسهن عليه أبدا.» [المتواري، ص: 186]
یعنی ترجمۃ الباب سے یہ بات ثابت کرنی مقصود ہے کہ امہات المومنین رضی اللہ عنہن اپنے گھروں میں رہنے کی مستحق ہیں جیسے کہ آپ کے نفقہ وغیرہ، اور یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص میں داخل ہے (کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد امہات المومنین رضی اللہ عنہن اپنی اپنی رہائش گاہ میں رہیں)۔
التاودی بن سودۃ فرماتے ہیں:
«وقال الطبري: قيل كان النبى صلى الله عليه وسلم ملك كل من أزواجه البيت الذى كانت فيه فسكن بعده ذالك التمليك، و قيل: أنما لم ينازعن فيهن» [حاشية التاودي بن سودة، ج 3، ص 271]
یعنی یہ کہا گیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تمام ازواج کی ملکیت میں وہ مسکن دیئے تھے جس میں وہ رہائش پذیر تھیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی اسی ملکیت کے ساتھ انہوں نے رہائش رکھی، تاکہ ان میں کسی قسم کا کوئی تنازعہ نہ ہو۔
ترجمۃ الباب اور قرآن مجید کی آیات میں مناسبت ظاہر ہے۔ پہلی آیت میں گھروں کی نسبت امہات المومنین رضی اللہ عنہن کی طرف کی گئی اور دوسری آیت میں گھروں کی نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کی گئی ہے۔ یعنی امام بخاری رحمہ اللہ یہ ثابت فرمارہے ہیں کہ ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نفقہ کا خرچ تھا بعین اسی طرح سے آپ کی وفات کے بعد امہات المومنین رضی اللہ عنہن کا اپنے گھروں پر بھی حق تھا، اس کی وجہ یہ ہوئی کہ امہات المومنین رضی اللہ عنہن کو مسلمانوں کی مائیں قرار دیا گیا ہے اور کسی اور سے ان کا نکاح قیامت تک کے لئے حرام کر دیا گیا ہے۔
ترجمۃ الباب کے بعد آیات اور اس کے بعد امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی احادیث کا ذکر فرمایا جن سے آپ یہ استدلال فرما رہے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں کو ان کی ازواج کے ساتھ منسلک فرمایا گیا ہے۔
پہلی حدیث امی عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے جس میں امی عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ تمام بیویوں سے اجازت لی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں دن گزار دیں، یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کے وقت کا واقعہ ہے اس حدیث میں امی عائشہ رضی اللہ عنہا نے گھر کی نسبت اپنی طرف کی ہے۔
امام قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«مطابقة لما ترجم له هنا فى قولها: فى بيتي . . . . .» [ارشاد الساري، ج 5، ص: 467]
باب اور حدیث میں مطابقت یہ ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ میرے گھر میں . . . . .۔
دوسری حدیث ذکر فرمائی وہ بھی امی عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے گھر میں وفات پائی۔ امام قسطلانی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں کہ:
امی عائشہ رضی اللہ عنہا کا فرمانا: «توفي النبى صلى الله عليه وسلم فى بيتي» کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے گھر میں وفات پائی۔ یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہے۔ [ارشاد الساري، ج 5، ص: 478]
تیسری حدیث جو کہ امی صفیہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے اس میں یہ الفاظ وارد ہوئے ہیں کہ «عند باب ام سلمة زوج النبى صلى الله عليه وسلم» کہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے دروازے کے قریب پہنچے، امام بخاری رحمہ اللہ نے باب کا مطلب یوں واضح کیا کہ دروازے کو ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا دروازہ کہا۔
چوتھی حدیث سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، اس میں الفاظ یوں ہیں: «ارتقيت فوق بيت حفصة» کہ میں ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا کے گھر کے اوپر چڑھا۔
پانچویں حدیث ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے جس میں یہ الفاظ موجود ہیں: «لم تخرج من حجرتها» دھوپ ابھی ان کے حجرے میں باقی رہتی، یہاں بھی امی عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے (گھر) کا ذکر آیا، یہیں سے ترجمۃ الباب کے ساتھ مناسبت قائم ہے۔
چھٹی حدیث سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جس میں ہے: «فأشار نحو مسكن عائشة» کے الفاظ ہیں جس میں مسکن کا لفظ ہے جس سے بایں طور پر ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت قائم ہو رہی ہے۔
ان تمام احادیث میں «مسكن، بيت/حجر» کے الفاظ وارد ہوئے ہیں جو کہ باب کے ساتھ واضح مناسبت رکھتے ہیں۔
فائدہ:
بعض لا علم حضرات انہی بے علمی اور نا سمجھی کی وجہ سے احادیث صحیحہ پر طعن کرتے نظر آتے ہیں، حدیث کے پس منظر سے ناواقفیت اور غلط زاویے میں اس کا مطالعہ کئی اعتراضات کے جنم کا ذریعہ بنتا ہے۔ بعین اسی طرح سے مذکورہ بالا حدیث جس کے راوی سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے مسکن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ فتنے یہاں سے برپا ہوں گے۔
لہذا بعض لا علم اور انکار حدیث کی طرف میلان رکھنے والے حضرات نے اس پر اعتراض کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم امی عائشہ رضی اللہ عنہا کے مسکن کو بھی فتنہ قرار نہیں دے سکتے؟ لہذا یہ ام المومنین رضی اللہ عنہا پر کسی نے طعن کے غرض سے یہ جھوٹی حدیث گھڑ دی ہے۔
مندرجہ بالا حدیث کو امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی مقامات پر ذکر فرمایا:
① کتاب بدء الخلق، باب صفت ابلیس و جنودہ، ر قم: 3279۔
② کتاب المناقب، رقم: 3511۔
③ کتاب الطلاق، باب الاشارۃ فی الطلاق، رقم: 5296۔
④ کتاب الفتن، باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم الفتنۃ من قبل المشرق، رقم: 7092۔
ان ابواب میں امام بخاری رحمہ اللہ نے مندرجہ بالا حدیث کو کہیں مختصر تو کہیں طویل ذکر فرمایا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے مسکن کی طرف اشارہ اس بات پر دلالت نہیں کرتا کہ (نعوذ باللہ) فتنہ کا ممبر و سرچشمہ مسکن عائشہ رضی اللہ عنہا ہے بلکہ یہ اشارہ اس لئے تھا کہ جس جگہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے تھے اس کے مشرق کی طرف عراق کا رخ تھا اور مسکن عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف اشارہ مشرق کی جانب تھا، یہی مطلب ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کا جس میں مسکن عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف اشارے کا ذکر ہے، بلکہ ایک واضح حدیث جس کو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ذکر فرمائی، آپ لکھتے ہیں: سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نقل فرماتے ہیں کہ جب آپ نے اہل عراق والوں کو مخاطب فرمایا تو کہا:
«سمعت أبى يقول سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يشير بيده نحو المشرق ويقول: ان الفتنة تجئ من وهنا و أوما بيده نحو المشرق من حيث يطلع قرنا الشيطان» [فتح الباري، ج 14، ص: 40]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اشارہ فرماتے تھے مشرق کی جانب اور فرما رہے تھے: یہیں سے شیطان کے سینگ نمودار ہوں گے۔
مذکورہ حدیث میں امام مسلم رحمہ اللہ نے عراق والوں کو مخاطب فرما کر واضح اس حدیث کا مصداق عراق کو ٹھہرایا نہ کہ مسکن عاشہ رضی اللہ عنہا کو۔ علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«هنا الفتنه إلى جانب المشرق و هو العراق و هذا مثار الفتنة» [عمدة القاري، ج 15، ص: 47]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانا: فتنہ یہاں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اشارہ فرمانا (امی عائشہ رضی اللہ عنہا کے مسکن کے لئے نہیں بلکہ) مشرق کی جانب ہے جو کہ عراق ہی ہے اور یہی مثار ہے فتنہ کا۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ عراق کے فتنہ پر گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
«كان اهل المشرق يومئذ أهل كفر فأخبره صلى الله عليه وسلم أن الفتنة تكون من تلك ناحية فكان كما أخبرو أول الفتن كان من قبل المشرق و كان ذالك سببا للفرقة بين المسلمين، و ذالك مما يحبه الشيطان و يفرح به، وكذالك البدع نشأت من تلك الجهة.» [فتح الباري، ج 14، ص: 41]
یعنی (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں) اہل مشرق (عراق) اہل کفر تھے جس کی خبر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی کہ فتنہ اس طرف سے ہو گا، پس اسی طرح ہوا جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی تھی، سب سے پہلا فتنہ مشرق کی جانب سے ہوا جس کی پاداش میں دو مسلمانوں کے فرقے وجود میں آئے اور اس سبب پر شیطان بہت خوش ہوا اور اس کو پسند کیا، اسی طرح سے بدعت کی ابتداء بھی اسی جگہ سے ہوئی۔
حافظ صاحب کے اقتباسات سے واضح ہوتا ہے کہ آپ بدعت اور کفر کا سرچشمہ عراق کی سر زمین کو ٹھہرا رہے ہیں، حقیقتا اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ ذی شعور پر عیاں ہو گا کہ کوفہ (عراق) کی سرزمین پر کئی ایک فتنے نمودار ہوئے جنہوں نے اسلام دشمنی میں کسی قسم کی کوئی کسر نہ چھوڑی، مثلا:
① عبداللہ بن سبا یہودی کا فتنہ جس نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں سر اٹھایا، اس کے بعد سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے دور میں ناپاک عزائم اور شرک کی غلاظت کے ساتھ اپنی دعوت کو لوگوں تک پہنچایا۔
② اسی غلیظ عقائد کی پاداش میں رافضی فرقہ وجود میں آیا۔ ان عقائد کی بنیاد عبد اللہ بن سبا نے کوفہ میں رکھی۔
③ خوارجی فرقہ نے بھی اپنا سر کوفہ سے اٹھایا۔
④ معتزلہ فرقہ بھی کوفہ سے اٹھا۔
⑤ مرجئہ فرقہ بھی کوفہ سے اٹھا۔
⑥ قدریہ فرقہ بھی کوفہ سے اٹھا۔
⑦ جبریہ فرقہ بھی کوفہ سے ہی اٹھا۔
⑧ اباحیہ فرقہ بھی کوفہ ہی سے اٹھا۔
⑨ اور اہل رائے بھی اسی جگہ سے اٹھے۔
⑩ کوفہ میں 276ھ میں ایک ایسا فتنہ نمودار ہوا کہ شراب اور زنا کو جائز قرار دیا، یہاں تک نہیں بلکہ ستم یہ ہوا کہ محرمات کے ساتھ بھی زنا کو جائز قرار دیا گیا۔ عراق کی سر زمین پر زنا، قتل عام، لوٹ مار یہ تمام جرائم کی فہرست طویل ہے، یہاں تک کہ بیت اللہ سے حجر اسود کو بھی نکال دیا گیا، جو کہ ایک طویل عرصے تک حجر اسود کو بیت اللہ سے محروم رکھا گیا، اس کی مدت تقریبا بیس سال کے لگ بھگ ہے، اس کے بعد بھی یہ فتنہ بڑھتا گیا حتی کہ حجاج کا قتل ہوا، کوفہ اور عراق سے شیعیت کا فتنہ اتنا عروج پر پہنچا کہ خلافت اسلامیہ کو شدید نقصان ہوا، مزید یہ فتنہ آگے چلا کہ بغداد میں قیامت کبری قائم ہو گئی کہ ساٹھ ملین کے قریب لوگوں کو ذبح کر دیا گیا، یہ فتنہ بڑھتا گیا یہاں تک کہ ہمارے زمانے میں آن پہنچا، آپ دیکھ سکتے ہیں ایران اور خلیج کی لڑائی میں کئی جانیں ضائع ہوئیں جس کا شمار اللہ کے سوا کسی کے پاس نہیں ہے، اور آج یہ خوارج کا فتنہ دوبارہ کوفہ اور عراق سے نمودار ہوا ہے جس کی وجہ سے سینکڑوں نہیں ہزاروں ایمان والوں کے عقائد برباد ہو گئے۔
لہذا اس گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ فتنے کی جگہ مشرقی جانب عراق کو کہا گیا ہے نہ کہ مسکن سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو۔
امام خطابی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«نجد من جهة المشرق، و من كان بالمدينة كان نجده بادية العراق و نواحيها. وهى مشرق أهل المدينة.» [فتح الباري، ج 6، ص: 162]
لہذا امام خطابی رحمہ اللہ نے بھی واضح کیا کہ نجد سے مراد عراق ہے جو مدینہ کے مشرق میں ہے۔
تنبیہ: لغت کے اعتبار سے نجد زمین کے اس حصے کو کہا جاتا ہے جو اوپر ہو اور اس کا مقابل غدر ہے جو پست زمین ہے۔
«أصل النجد ما ارتفع من الأرض و هو خلاف الغد رفانه ما انخفض منها»
لہذا یہ معلوم ہونا چاہے کہ ایک نجد یمامہ ہے اور دو سرا نجد عراق ہے، حدیث میں جو الفاظ نجد کے لئے وارد ہوئے ہیں وہ نجد عراق ہے نہ کہ نجد یمامہ، بعض مفسدین اور حاسدین اپنے مذموم عقائد کے دفاع کے لئے شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کو نجدی کہہ کر انہیں فتنہ کا موجب قرار دیتے ہیں حالانکہ یہ بات صرف بہتان ہے کیونکہ آپ کا تعلق نجد عراق سے ہرگز نہیں ہے۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 451   

  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 443  
´خاوند کا اپنی بیوی کو غسل دینا`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا کہ اگر تو مجھ سے پہلے فوت ہو جائے تو میں تمہیں غسل دوں گا۔ [بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 443]
فائدہ: مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے اور سنن ابن ماجہ کی تحقیق و تخریج میں اس کی بابت مزید لکھا ہے کہ مذکورہ حدیث کے بعض حصوں کے شواہد صحیح بخاری میں ہیں۔ دیکھیے: سنن ابن ماجہ، تحقیق و تخریج، حدیث: 1465۔
علاوہ ازیں دیگر محققین نے مذکورہ روایت کو حسن قرار دیا ہے، ان کی تحقیقی بحث سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ حدیث حسن درجے کی ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے [الموسوعة الديثية مسند الامام احمد: 82،81/43۔ وارواء الغليل، حديث: 700]
بنابریں خاوند اپنی بیوی کو غسل دے سکتا ہے اور کفن بھی پہنا سکتا ہے۔ بعض علماء نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص قرار دیا ہے لیکن تخصیص کی کوئی دلیل نہیں، بلکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عمل سے اس کی عمومیت ثابت ہے جیساکہ موطا امام مالک اور سنن کبریٰ بیھقی میں مروی ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی وفات پر ان کی بیوی حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا نے انھیں غسل دیا۔ [الموطا للامام مالك، الجنائز،باب غسل الميت، والسنن الكبريٰ للبيهقي: 397/3]
اسی طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ کی کی بابت بھی مروی ہے کہ انھوں نے بھی اپنی زوجہ محترمہ فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی وفات پر غسل دیا تھا۔ [سنن الدارقطني، الجنائز والسنن الكبريٰ للبيهقي: 392/3]
اس لیے باقی امت کے لیے بھی یہی حکم ہے، اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ خاص قرار دینا صحیح نہیں ہے۔ واللہ اعلم
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 443   

  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 324  
´نماز باجماعت اور امامت کے مسائل کا بیان`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس نماز کے ضمن میں فرماتی ہیں جو انہوں نے لوگوں کو اس حالت میں پڑھائی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بائیں جانب بیٹھ گئے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو بیٹھے بیٹھے نماز پڑھا رہے تھے۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کر رہے تھے اور لوگ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی اقتداء کر رہے تھے۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 324»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الأذان، باب الرجل يأتم با لإمام، حديث:713، ومسلم، الصلاة، باب استخلاف الإمام إذا عرض له عذرٌ....، حديث:418.»
تشریح:
1. یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض الموت کے موقع پر نماز پڑھانے کے بارے میں ہے۔
واقعہ کی مختصر صورت یہ تھی کہ آپ بیمار ہوگئے۔
بیماری نے شدت اختیار کی۔
اس اثنا میں آپ ہی کے ارشاد کے بموجب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ لوگوں کو نماز پڑھانے پر مامور ہوگئے۔
ایک دن آپ کو قدرے افاقہ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو آدمیوں کے سہارے مسجد میں تشریف لائے۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ امامت کے فرائض انجام دے رہے تھے۔
آپ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بائیں جانب بیٹھ گئے اور نماز پڑھانا شروع کی۔
آپ امام تھے اس لیے بائیں طرف بیٹھے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ مقتدی تھے‘ اس لیے دائیں جانب رہے۔
بیماری کی وجہ سے کمزوری زیادہ ہوگئی تھی‘ اس لیے تکبیروں کے لیے آواز بلند نہیں نکلتی تھی۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ مکبر کا کام دے رہے تھے اور آپ کی تکبیروں کو بلند آواز سے لوگوں تک پہنچاتے تھے تو وہ ارکان نماز ادا کرتے تھے۔
2.اس حدیث سے شوافع نے استدلال کیا ہے کہ مقرر اور افضل امام کے آنے پر دوسرے امام کو اپنی جگہ دے دینی چاہیے۔
مگر ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا خاصہ قرار دیا ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 324   

  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 911  
´بیویوں میں باری کی تقسیم کا بیان`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس مرض میں وفات پائی اس میں دریافت فرماتے تھے کہ کل میری باری کس کے ہاں ہے؟ ان کے پیش نظر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا دن ہوتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات نے اس کی اجازت دے دی کہ جہاں چاہیں رہیں۔ پس بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ہاں ہی رہے۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 911»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الجنائز، باب ما جاء في قبر النبي صلي الله عليه وسلم....، حديث:1389، والنكاح، باب إذا استأذن الرجل نساءه...، حديث:5217، ومسلم، فضائل الصحابة، باب في فضائل عائشة أم المؤمنين رضي الله عنها، حديث:2443.»
تشریح:
1. ایک روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض الموت کا آغاز حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر سے ہوا تھا۔
2. آخر کار بیماری نے اتنا کمزور اور ضعیف کر دیا کہ سب بیویوں کے گھر میں جانا دشوار ہوگیا تو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے سب ازواج مطہرات سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ہاں مستقل قیام کی اجازت لے لی۔
انھوں نے برضا و رغبت آپ کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ہاں ٹھہرنے کی اجازت دے دی۔
3. یہ اجازت اس لیے طلب کی گئی کہ کسی کے ذہن میں کوئی نامناسب خیال پیدا نہ ہو۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 911   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 798  
´امام کی اقتداء کرنے والے کی اقتداء کرنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکر رضی اللہ عنہ کے آگے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹھ کر نماز پڑھائی، اور ابوبکر رضی اللہ عنہ لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے، اور لوگ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پیچھے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب الإمامة/حدیث: 798]
798 ۔ اردو حاشیہ:
➊زیادہ صحیح روایات کے مطابق حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دائیں جانب برابر کھڑے تھے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا رجحان اسی طرف ہے۔ ترجمۃ الباب میں فرماتے ہیں: «باب یقوم عن یمین الإمام بحدائه سواء إذا کانا اثنین» مقتدی امام کے بالکل برابر دائیں جانب کھڑا ہو گا جبکہ (نماز پڑھتے وقت) صرف دو ہوں۔ [صحیح البخاري الأذان باب: 57]
اس کی دلیل ابن عباس رضی اللہ عنہما کی طویل حدیث ہے۔ مسند احمد میں صحیح سند کے ساتھ یہ اضافہ بھی موجود ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «ما شأني أَجعلُك حِذائي فتخْنِسُ» کیا وجہ ہے میں تجھے اپنے برابر کھڑا کرتا ہوں اور تو پیچھے ہٹتا ہے۔ [مسند أحمد: 330/1]
اس کی مزید تائید اس اثر سے ہوتی ہے کہ ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پیچھے ایک آدمی کھڑا ہوا انہوں نے اسے قریب کیا اور اپنی دائیں طرف بالکل برابر کر لیا۔ موطا امام مالک میں صحیح سند کے ساتھ یہ اثر موجود ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: «مختصر صحیح البخاري للألباني: 226/1]
ان دلائل سے ان لوگوں کی تردید ہوتی ہے جو مقتدی کے امام کے عین برابر کھڑے ہونے کے قائل نہیں بلکہ ان کے ہاں مستحب یہ ہے کہ جب صرف دو نمازی ہوں تو مقتدی امام سے کچھ ہٹ کر کھڑا ہو لیکن یہ موقف مرجوح ہے۔ عین برابر کھڑا ہونے کا موقف حنابلہ اور احناف میں سے امام محمد رحمہ اللہ کا ہے جیسا کہ موطا میں ان کے کلام سے ظاہر ہوتا ہے۔ مزید دیکھیے: [سلسلة الأحادیث الصحیحة حدیث: 606]
➋ لوگ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اقتدا کرتے تھے البتہ اس بات میں اختلاف ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم امام تھے یا ابوبکر رضی اللہ عنہ؟ امام نسائی رحمہ اللہ کے انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک نبی صلی اللہ علیہ وسلم امام تھے ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ کے مقتدی اور لوگ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مقتدی۔ لیکن ابوبکر رضی اللہ عنہ کی حیثیت مکبر و مبلغ کی تھی جیسا کہ بعد میں آنے والی حدیث جابر اس پر دلالت کرتی ہے۔ مزید ملاحظہ ہو: [ذخيرة العقبيٰ شرح سنن النسائي: 119/10]
➌ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ فرمانا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکر سے آگے تھے مفصل اور واضح روایات کے منافی نہیں کیونکہ اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹھ کر امامت کروائی تھی اور بیٹھا آدمی کھڑے کی نسبت آگے ہی لگتا ہے۔ واللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 798   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 834  
´امام بیٹھ کر نماز پڑھتا ہو تو مقتدی بھی بیٹھ کر نماز پڑھیں۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری بڑھ گئی، بلال رضی اللہ عنہ آپ کو نماز کی خبر دینے آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابوبکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ابوبکر نرم دل آدمی ہیں، وہ جب آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو لوگوں کو (قرآن) نہیں سنا سکیں گے ۱؎ اگر آپ عمر کو حکم دیتے تو زیادہ بہتر ہوتا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابوبکر کو حکم دو کہ لوگوں کو صلاۃ پڑھائیں، تو میں نے ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا سے کہا تم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہو، تو حفصہ نے (بھی) آپ سے کہا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم یوسف علیہ السلام کی ساتھ والیاں ہو ۲؎، ابوبکر کو حکم دو کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں، (بالآخر) لوگوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا، تو جب انہوں نے نماز شروع کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طبیعت میں کچھ ہلکا پن محسوس کیا، تو آپ اٹھے اور دو آدمیوں کے سہارے چل کر نماز میں آئے، آپ کے دونوں پاؤں زمین سے گھسٹ رہے تھے، جب آپ مسجد میں داخل ہوئے تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ کے آنے کی آہٹ محسوس کی، اور وہ پیچھے ہٹنے لگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اشارہ کیا کہ جس طرح ہو اسی طرح کھڑے رہو، ام المؤمنین کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آ کر ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بائیں بیٹھ گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو بیٹھ کر نماز پڑھا رہے تھے، اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کھڑے تھے، ابوبکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کر رہے تھے، اور لوگ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی نماز کی اقتداء کر رہے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب الإمامة/حدیث: 834]
834 ۔ اردو حاشیہ:
«صَوَاحِبَاتُ يُوسُفَ» یعنی تم بھی ان عورتوں کی طرح اصل مقصد چھپائے ہوئے ظاہر کچھ اور کر رہی ہو۔ «صَوَاحِبَاتُ» سے مراد وہ عورتیں ہیں جنھوں نے مکر کے ساتھ ہاتھ کاٹے تھے۔ ہاتھ کاٹنے والی عورتیں یوسف علیہ السلام کو رجھانے (مائل کرنے) کا مقصد رکھتی تھیں مگر بظاہر امرأۃ العزیز (عزیز مصر کی بیوی) کو شرافت کا درس دے رہی تھیں۔
➋ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے افاقہ محسوس فرمایا۔ ظاہر الفاظ سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ شاید جس نماز میں ابوبکر کو نماز پڑھانے کا حکم دیا گیا تھا اسی نماز کے دوران میں آپ نے افاقہ محسوس فرمایا اور مسجد کو تشریف لے گئے مگر حقیقتاً ایسا نہیں ہے بلکہ یہ کئی دن بعد کی بات ہے۔ گویا آپ کے حکم کے تحت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جماعت کراتے رہے۔ ایک دن جماعت شروع کی تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو افاقہ محسوس ہوا اور آپ تشریف لے گئے۔ یاد رہے کہ یہ جماعت جو آپ نے اس طرح ادا فرمائی ظہر کی نماز تھی۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: [صحیح البخاري الأذان حدیث: 687]
➌ بیٹھ کر نماز پڑھانے والے امام کے پیچھے مقتدی کس طرح نماز پڑھیں؟ اس کی تفصیلی بحث پچھلی روایت میں گزر چکی ہے۔ دیکھیے حدیث: 833۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 834   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 835  
´امام بیٹھ کر نماز پڑھتا ہو تو مقتدی بھی بیٹھ کر نماز پڑھیں۔`
عبیداللہ بن عبداللہ کہتے ہیں کہ میں ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گیا، اور میں نے ان سے کہا: کیا آپ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض الموت کا حال نہیں بتائیں گی؟ انہوں نے کہا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کی شدت بڑھ گئی، تو آپ نے پوچھا: کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی؟ تو ہم نے عرض کیا: نہیں، اللہ کے رسول! وہ آپ کا انتظار کر رہے ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے لیے ٹب میں پانی رکھو؛ چنانچہ ہم نے رکھا، تو آپ نے غسل کیا، پھر اٹھنے چلے تو آپ پر بے ہوشی طاری ہو گئی، پھر افاقہ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی؟ تو ہم نے عرض کیا: نہیں، اللہ کے رسول! وہ آپ کا انتظار کر رہے ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے لیے ٹب میں پانی رکھو؛ چنانچہ ہم نے رکھا، تو آپ نے غسل کیا، پھر آپ اٹھنے چلے تو پھر بیہوش ہو گئے، پھر تیسری بار بھی آپ نے ایسا ہی فرمایا، لوگ مسجد میں جمع تھے، اور عشاء کی نماز کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کر رہے تھے، بالآخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو کہلوا بھیجا کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں، تو قاصد ان کے پاس آیا، اور اس نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو حکم دے رہے ہیں کہ آپ لوگوں کو نماز پڑھائیں، ابوبکر رضی اللہ عنہ نرم دل آدمی تھے، تو انہوں نے (عمر رضی اللہ عنہ سے) کہا: عمر! تم لوگوں کو نماز پڑھا دو، تو انہوں نے کہا: آپ اس کے زیادہ حقدار ہیں؛ چنانچہ ان ایام میں ابوبکر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو نماز پڑھائی، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اندر ہلکا پن محسوس کیا، تو دو آدمیوں کے سہارے (ان دونوں میں سے ایک عباس رضی اللہ عنہ تھے) نماز ظہر کے لیے آئے، تو جب ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ کو دیکھا تو وہ پیچھے ہٹنے لگے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اشارہ کیا کہ وہ پیچھے نہ ہٹیں، اور ان دونوں کو حکم دیا کہ وہ آپ کو ان کے بغل میں بٹھا دیں، ابوبکر رضی اللہ عنہ کھڑے ہو کر نماز پڑھا رہے تھے، لوگ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی صلاۃ کی اقتداء کر رہے تھے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کر نماز پڑھا رہے تھے۔ (عبیداللہ کہتے ہیں) میں ابن عباس رضی اللہ عنہم کے پاس آیا، اور میں نے ان سے کہا: کیا میں آپ سے وہ چیزیں بیان نہ کر دوں جو مجھ سے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کے متعلق بیان کیا ہے؟ تو انہوں نے کہا: ہاں! ضرور بیان کرو، تو میں نے ان سے سارا واقعہ بیان کیا، تو انہوں نے اس میں سے کسی بھی چیز کا انکار نہیں کیا، البتہ اتنا پوچھا: کیا انہوں نے اس شخص کا نام لیا جو عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے؟ میں نے کہا: نہیں، تو انہوں نے کہا: وہ علی (کرم اللہ وجہہ) تھے۔ [سنن نسائي/كتاب الإمامة/حدیث: 835]
835 ۔ اردو حاشیہ:
➊ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تپ محرقہ تھی اور شدید تھی اس لیے باوجود تین مرتبہ غسل فرمانے کے بخار کم نہ ہوا اور آپ اٹھ نہ سکے بلکہ بار بار بے ہوش ہوتے رہے۔
➋ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو نماز پڑھانے کے لیے اس لیے کہا کہ ان کا خیال تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد جماعت قائم کروانا ہے نہ کہ مجھے مقرر فرمانا لہٰذا کوئی جماعت کروا دے۔ انہیں اس مکالمے کا علم نہ تھا جو آپ کے اور آپ کی ازواج مطہرات کے درمیان ہوا تھا۔
➌ وہ حضرت علی تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان کا نام نہیں لیا کیونکہ وہ متعین نہیں تھے بلکہ ایک طرف تو حضرت عباس رضی اللہ عنہ ہی رہے دوسری طرف بدلتے رہے کبھی حضرت علی کبھی حضرت بلال اور کبھی حضرت اسامہ رضی اللہ عنھم جیسا کہ مختلف روایات سے پتہ چلتا ہے۔ (مزید فوائد کے لیے دیکھیے حدیث: 833 834)
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 835   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1232  
´مرض الموت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مرض الموت میں مبتلا ہوئے (ابومعاویہ نے کہا: جب آپ مرض کی گرانی میں مبتلا ہوئے) تو بلال رضی اللہ عنہ آپ کو نماز کی اطلاع دینے کے لیے آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابوبکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں، ہم نے کہا: اللہ کے رسول! ابوبکر رضی اللہ عنہ نرم دل آدمی ہیں، جب آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو رونے لگیں گے، اور نماز نہ پڑھا سکیں گے، لہٰذا اگر آپ عمر رضی اللہ عنہ کو حکم دیں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں، (تو بہتر ہو) تو آپ صلی ا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1232]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
رسول اللہ ﷺکی نظر میں نماز باجماعت اس قدر اہمیت کی حامل تھی کہ شدید مرض میں بھی آپﷺ نے باجماعت نماز ادا فرمائی۔

(2)
رسول اللہﷺ کو گھر سے مسجد تک سہارا دے کر لانے والے حضرات علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ او ر عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔ (صحیح البخاري، الأذان، باب حد المریض ان یشھد الجماعة، حدیث: 665)

(3)
بڑے عالم کے احترام میں اس کی موجودگی میں نماز نہ پڑھانا درست ہے۔

(4)
مذکورہ بالا نماز میں رسول اللہ ﷺ ہی امام تھے۔
حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مکبر کی حیثیت سے نبی ﷺ کی تکبیر نمازیوں تک پہنچانے کےلئے بلند آواز سے تکبیر کہتے تھے۔
اس لئے عام صحابہ کرام رضوان للہ عنہم اجمعین کا رکوع اور سجود حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تکبیرات کے مطابق تھا۔

(5)
اگر امام بیٹھ کر نماز پڑھائے۔
تو مقتدیوں کو کھڑے ہو کر نماز پڑھنی چاہیے۔
علمائے کرام نے اس حدیث کو ان ارشادات نبوی کا ناسخ قرار دیا ہے۔
جن میں یہ عذر ہے کہ امام عذر کی وجہ سے بیٹھ کر نماز پڑھائے تو مقتدیوں کو اگرچہ وہ عذر نہ ہو تاہم وہ امام کی اقتداء میں بیٹھ کر نماز ادا کریں۔ (صحیح مسلم، الصلاۃ، باب النھی عن مبادرۃ الإمام بالتکبیر وغیرہ، حدیث: 417 وسنن ابن ماجة، حدیث: 1237)

(6)
نبی اکرمﷺنے امہات المومنین سے فرمایا۔
تم یوسف کی ساتھ والیاں ہو یہ تشبیہ اس لئے دی کہ مصر کی عورتوں نے حضرت یوسف علیہ السلام سے ایسے کام کا مطالبہ کیا جو مناسب نہیں تھا۔
اسی طرح امہات المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے رسول اللہ ﷺ سے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بجائے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی امامت کا مطالبہ کیا جو درست نہیں تھا۔
یہ تشبیہ نا مناسب مطالبہ پر اصرار کرنے کے لحاظ سے ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1232   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1233  
´مرض الموت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض الموت میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں، وہ لوگوں کو نماز پڑھایا کرتے تھے (ایک مرتبہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طبیعت میں کچھ ہلکا پن محسوس کیا تو باہر نکلے، اس وقت ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز پڑھا رہے تھے، جب ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو پیچھے ہٹنے لگے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ کیا: اپنی جگہ رہو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکر کے برابر ان کے پہلو میں بیٹھ گئے، ابوبکر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1233]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں ان آخری ایام میں سترہ نمازیں پڑھایئں۔

(2)
اس حدیث میں مذکورہ واقعہ وفات سے ایک یا دو دن پہلے یعنی ہفتہ یا اتوار کو پیش آیا۔
دیکھئے: (الرحیق المختوم، مولانا صفی الرحمٰن مبارک پوری: 627)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1233   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1465  
´شوہر بیوی کو اور بیوی شوہر کو غسل دے اس کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بقیع سے لوٹے تو مجھے اس حال میں پایا کہ میرے سر میں درد ہو رہا تھا، اور میں کہہ رہی تھی: ہائے سر!، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلکہ اے عائشہ! میں ہائے سر کہتا ہوں ۱؎، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارا کیا نقصان ہو گا اگر تم مجھ سے پہلے مرو گی تو تمہارے سارے کام میں انجام دوں گا، تمہیں غسل دلاؤں گا، تمہاری تکفین کروں گا، تمہاری نماز جنازہ پڑھاؤں گا، اور تمہیں دفن کروں گا۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1465]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قراردیا ہے اور مذید لکھا ہے کہ مذکورہ حدیث کے بعض حصے کے شواہد صحیح بخاری میں ہیں۔
جبکہ دیگر محققین نے مذکورہ روایت کوحسن قراردیا ہے۔
تفصیل کے لئے دیکھئے: (الموسوعة الحدیثیة مسند الإمام أحمد: 8182/43،   والإ رواء، حدیث: 700)
 لہٰذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود قابل عمل اور قابل حجت ہے۔

(2)
یہ واقعہ 29 صفر 11ھ بروز پیر کا ہے دیکھئے: (الرحیق المختوم، ص: 624)
 یہ اس مرض کی ابتداء تھی۔
جس میں رسول اللہ ﷺکی وفات ہوئی۔

(3)
جسمانی تکلیف کا اظہار توکل اور رضا بالقضا کے منافی نہیں۔

(4)
خاوند اپنی بیوی کو غسل دے سکتا ہے۔
اور کفن پہنا سکتا ہے۔
بعض علماء نے اس حکم کو رسول اللہﷺ کے ساتھ خاص قرار دیا ہے۔
لیکن تخصیص کی کوئی دلیل نہیں۔
بلکہ صحابہ کرام رضوان للہ عنہم اجمعین کے عمل سے اس کی عمومیت ثابت ہے۔
جیسا کہ موطأ اوربیہقی کی روایات میں ہے۔ (أَنَّ أَسْمَاءَ بِنْتَ عُمَیْسٍ غَسَّلَتْ اَبَا بَکْرِ حِیْنَ تُوَفِّیَ)
ابو بکر کی وفات پر اسماء بنت عمیس نے انھیں غسل دیا (موطأ إمام مالك، الجنائز، باب غسل المیت، والسنن الکبریٰ للبيہقي: 397/3)
 ایسے ہی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق وارد ہے کہ انھوں نے اپنی زوجہ محترمہ فاطمہ بنت رسولﷺ کو انکی وفات پر غسل دیا تھا۔
دیکھئے: (سنن دارقطني، الجنائز، باب الصلاۃ علی القبر، والسنن الکبریٰ للبيہیقی: 396/3)
اس لئے باقی اُمت کے لئے بھی یہی حکم ہے۔
اور اسے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ خاص قرار دینا صحیح نہیں ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1465   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1618  
´رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کا بیان۔`
عبیداللہ بن عبداللہ کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: اماں جان! مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کا حال بیان کیجئے تو انہوں نے بیان کیا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے تو (اپنے بدن پر) پھونکنا شروع کیا، ہم نے آپ کے پھونکنے کو انگور کھانے والے کے پھونکنے سے تشبیہ دی ۱؎، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں کا باری باری چکر لگایا کرتے تھے، لیکن جب آپ سخت بیمار ہوئے تو بیویوں سے عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں رہنے کی اجازت مانگی، اور یہ کہ بقیہ بیویاں آپ کے پاس آتی جاتی رہیں گی۔ ام المؤمنین عائش۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1618]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
منقیٰ کھانے والے کی پھونک کا مطلب یہ ہے کہ منقیٰ یا ایسی کوئی اور چیز کھانے والا آدمی بیجوں کو منہ سے نکالتا ہے تو اس انداز سے پھینکتا ہے کہ ہاتھ سے مدد لئے بغیر بیج دور چلے جاتے ہیں۔
اس پھونک کا مطلب یا تو دعایئں اور سورتیں پڑھ کر بدن پر دم کرنا ہے جیسے کہ پہلے بھی آپ طبعیت کی ناسازی کے موقع پر اپنے آپ کودم کرلیا کرتے تھے۔
یا سوتے وقت قرآن مجید کی آخری تین سورتیں پڑھ کر ہاتھوں پر پھونک مار کر پورے جسم پر ہاتھ پیراکرتے تھے۔
یا یہ مطلب ہے کہ منقیٰ یا انگور زمین پر گر کر اسے غبار لگ جائے۔
تو ہلکی سی پھونک مار کر اسے صاف کرلیاجاتا ہے۔
بخار کی شدت کی وجہ سے آپ کو سانس زور سے آ رہا تھا۔
جیسے کسی چیز پر پھونک ماری جائے۔
اس صورت میں ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا مقصد مرض کی شدت کا اظہار ہوگا۔

(2)
رسول اللہ ﷺ نے مرض کی شدت میں ازواج مطہرات کے درمیان عدل وانصاف اور مساوات کا اعلیٰ معیار پیش نظر رکھا تاکہ تمام خواتین مطمئن رہیں۔
اور کسی کو یہ احساس نہ ہو کہ اس کے حق کی ادایئگی میں معمولی سی بھی کمی رہ گئی ہے حالانکہ رسول اللہﷺ کےلئے اللہ تعالیٰ نے خصوصی حکم نازل فرما دیا تھا۔
چنانچہ نبی کریمﷺ پر ازواج مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے درمیان باری کا اہتمام فرض نہیں تھا۔
دیکھئے: (الأحزاب: 51)
 اس میں ہمارے لئے سبق ہے کہ بیویوں میں یا اولاد میں انصاف کا زیادہ سے زیادہ ممکن حد تک خیال رکھا جائے۔

(3)
مساوات ہی کا ایک مظہر یہ بھی ہے کہ جب شدت مرض کی وجہ سے نبی کریمﷺ کا روزانہ گھر تبدیل کرنا مشکل ہوگیا۔
تو سب کی اجازت سے ایک گھر میں قیام فرمایا۔
اس دوران میں ازواج مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو برابر خدمت کاموقع دیا۔

(4)
اس حدیث میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی فضیلت کا اظہار ہے۔
کہ ان کے حجرہ شریف کو نبی کریمﷺ کی آرام گاہ بننے کا شرف حاصل ہوا اور وفات کے بعد آپﷺ وہیں دفن ہوئے۔

(5)
رسول اللہ ﷺ اللہ کے افضل ترین بندے ہونے کے باوجود ایک انسان ہی تھے۔
اس لئے دوسرے انسانوں کی طرح آپ کا جسم اطہر بھی بیماری سے متاثر ہوا اور جسمانی طور پر اس قدر ضعف لاحق ہوا کہ بغیر سہارے کے قدم اٹھانا بھی مشکل ہوگیا۔

(6)
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ نبی اکرمﷺ کو سہارا دین ےوالے دوسرے آدمی کا نام نہیں لیا۔
بعض لوگوں نے اس کو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ناراضی پر محمول کیا۔
یہ ان حضرات کی غلط فہمی ہے کیونکہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے درمیان ہونے والی جنگ (جنگ جمل)
میں ان دونوں مقدس ہستیوں کا کوئی قصور نہیں تھا بلکہ یہ منافقین کی سازش تھی۔
جنگ کے دوران میں جونہی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے جنگ بند ہوگئی۔
بعد میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اس جنگ میں شرکت کو نہ صرف اپنی غلطی تسلیم کیا بلکہ اس کے کفارہ کے طور پر بار بار غلام آزاد کرتی رہیں۔
اس صورت میں یہ تصور کرنا ممکن نہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اس لئے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام لینا پسند نہیں کیا۔
کہ جنگ جمل میں یہ ان کے مقابل کیوں ہوئے۔
اصل بات یہ ہے کہ مذکورہ واقعہ کے دوران میں ایک طرف تو حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سہارا دیا تھا۔
دوسری طرف تھوڑی دور تک حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور تھوڑی دور تک حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سہارا دیا تھا۔

(7)
حضرات تابعین رحمۃ اللہ علیہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کا انتہائی احترام کرتے تھے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضرت عباسرضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ دوسرے آدمی کا نام نہیں لیا۔
تو حضرت عبیداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھنے کی جراءت نہیں کی۔
کہ اگر ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کسی وجہ سے ان کا ذکر نہیں کرنا چاہتیں تو کوئی بات نہیں کسی اور صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس چیز کا علم ہوجائے۔
اس لئے طالب علم کو چاہیے کہ استاد کے جذبات کا زیادہ سے زیادہ احترام کرے۔
اگر استاد کسی وقت کسی وجہ سے ایک مسئلہ کی وضاحت نہیں کرنا چاہتا تو اسے مجبور نہ کرے۔
پھر کبھی اس کی وضاحت ہوجائےگی۔
یا کوئی دوسرا عالم یہ بات بتا دے گا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1618   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3672  
´ابوبکر و عمر رضی الله عنہما کے مناقب و فضائل کا بیان`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم نے فرمایا: ابوبکر سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں، اس پر عائشہ رضی الله عنہا نے کہا: اللہ کے رسول! ابوبکر جب آپ کی جگہ (نماز پڑھانے) کھڑے ہوں گے تو رونے کی وجہ سے لوگوں کو قرأت نہیں سنا سکیں گے ۱؎، اس لیے آپ عمر کو حکم دیجئیے کہ وہ نماز پڑھائیں، پھر آپ نے فرمایا: ابوبکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔‏‏‏‏ عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں: تو میں نے حفصہ سے کہا: تم ان سے کہو کہ ابوبکر جب آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو لوگوں کو رونے کے سبب قرأت نہیں سنا سکیں گے، اس۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3672]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
کیوں کہ ابوبکر پر رقت طاری ہو جائے گی ا ورہ رونے لگیں گے پھر رونے کی وجہ سے اپنی قرأت لوگوں کو نہیں سنا سکیں گے،
اور بعض روایات کے مطابق اس کا سبب عائشہ نے یہ بیان کیا،
اور بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ آپﷺ کی موجود گی میں آپﷺ کی جگہ پر کھڑے ہو نے پر ابوبکر اپنے غم ضبط نہیں کر پائیں گے اس طرح لوگوں کو نماز نہیں پڑھا پائیں گے،
واللہ اعلم۔

2؎:
صواحبات یوسف سے تشبیہ دینے کی وضاحت یہ ہے کہ جس طرح زلیخا کی عورتوں کی ضیافت حقیقت میں مقصود نہیں تھی،
بلکہ مقصود یہ بات تھی کہ وہ عورتیں یوسف کا حسن مشاہدہ کرنے کے بعد مجھ پر لعن طعن نہیں کریں گی،
اس طرح عائشہ رضی اللہ عنہا کا حقیقی مقصد کچھ اور تھا،
اور ظاہرمیں کچھ اور کر رہی تھی حقیقی مقصدیہ تھا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی امامت کے بعد اگر نبی اکرمﷺ کی وفات ہو جاتی ہے،
تو لوگ ان کو منحوس سمجھیں گے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3672   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:235  
فائدہ:
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وفات کے قریب سخت بیمار ہونے کا ذکر ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ شدت مرض کے دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی چادر مبارک کھینچ کر بار بار اپنے رخ انور پر ڈالتے، پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گھبراہٹ ہوتی تو اسی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اہل یہود کو اپنی رحمت سے دور کرے، جنھوں نے اپنے انبیائے کرام علیہم السلام کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا تھا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ (دراصل) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی مشابہت سے ڈرا رہے تھے۔ (صحيح البخاري: 3453)
بیماری کے دنوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف ارشادات فرمائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات سے پانچ دن پہلے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے اس بات سے بری کر دیا گیا ہے کہ تم میں سے میرا کوئی خلیل ہو، میرے رب نے مجھے اپنا خلیل بنا لیا ہے، جس طرح سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو خلیل بنا لیا تھا۔ اگر میں اپنی امت میں سے کسی کو اپنا خلیل بناتا تو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اپنا خلیل بناتا خبردار! بے شک تم سے پہلے لوگوں نے اپنے انبیاء کرام اور صالحین کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا تھا، پس تم قبروں کو سجدہ گاہ نہ بنانا، میں تمھیں اس سے منع کرتا ہوں۔ (صحیح مسلم: 532)
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 235   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 936  
عبیداللہ بن عبداللہ سے روایت ہے کہ میں عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا کیا آپ مجھے رسول اللہ ﷺ کی بیماری کے بارے میں نہیں بتائیں گی؟ انہوں نے جواب دیا، کیوں نہیں! نبی اکرم ﷺ بیمار ہو گئے تو آپﷺ نے پوچھا: کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی ہے؟ ہم نے عرض کیا نہیں، اے اللہ کے رسول ﷺ! وہ آپ کا انتظار کر رہے ہیں، آپﷺ نے فرمایا: میرے لیے لگن (ٹب) میں پانی رکھو۔ ہم نے پانی رکھا تو آپﷺ نے غسل فرما لیا، پھر اٹھنے لگے تو آپﷺ پر... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:936]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
مِخْضَب:
لگن،
ٹب۔
(2)
لِيَنُوْء:
تاکہ اٹھیں،
کھڑے ہوں۔
(3)
اُغْمِيَ عَلَيْهِ:
آپﷺ پر غشی طاری ہو گئی۔
(4)
عُكُوف:
عَاكِف کی جمع ہے،
ٹھہرے ہوئے،
رکے ہوئے یعنی بیٹھے ہوئے تھے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 936   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 938  
حضرت عائشہ ؓ نبی اکرم ﷺ کی بیوی سے روایت ہے کہ جب نبی اکرم ﷺ بیمار ہوگئے اور آپ کی بیماری شدت اختیار کر گئی تو آپ نے اپنی بیویوں سے میرے گھر میں ایام عدت گزارنے کی اجازت طلب کی انہوں نے اجازت دے دی تو آپ دو آدمیوں کے سہارے اس حال میں نکلے آپ کے دونوں پیر زمین سے رگڑ کھارہے تھے، آپﷺ اور ایک دوسرے آدمی کے درمیان تھے، حدیث کے راوی عبیداللہ کہتے ہیں، عائشہ ؓ نے جو کچھ بتایا تھا، میں نے اس کا تذکرہ ابن عباس ؓ سے کیا تو انہوں... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:938]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:

حدیث میں آپﷺ کے پے درپے بے ہوش ہو جانے کا تذکرہ ہے جس کا سبب درود مرض کی شدت تھا،
جیسا کہ حدیث 92 میں ہے کہ (اشتَدَّ بِهِ وَجعُهُ)
آپ کا درد شدید ہو گیا،
اور بیماری نبوت کے منافی نہیں ہے،
ہاں انبیاء علیہ السلام کو ایسے مرض لاحق نہیں ہوتے جو ان کی شان کی منافی ہوں،
جیسے جنون ودیوانگی،
آپﷺ اخیرعمر میں درد سر اور بے ہوشی کے مرض میں مبتلا ہوئے اور اسی بیماری کے دوران اپنے خالق ومالک سے جا ملے،
جس کا مقصد آپﷺ کے اجروثواب اور درجہ مرتبہ کو بڑھانا تھا،
اور یہ بتانا تھا کہ صحت وتندرستی اور شفایابی اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے،
رسول کے قبضہ میں نہیں ہے جس کی دعا اور لعاب دہن سے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زہر آلود ایڑی کو شفا ملی،
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا آشوب چشم ٹھیک ہوا،
حضرت قتادہ بن نعمان کی آنکھ کا ڈیلا روشن ہوا،
اللہ تعالیٰ کی رضا اور مشیت کے بغیر اپنا مرض دور نہ کر سکا،
کیونکہ شفا آپﷺ کے اختیار میں نہ تھی۔

صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے بیماری کی شدت کے باوجود آپﷺ کا انتظار کیا،
اور آپﷺ نے بار بار غسل کر کے مسجد میں جانے کی خواہش کا اظہار فرمایا جس سے ثابت ہوا اگر مریض مسجد میں آ سکتا ہو تو اسے جماعت میں شریک ہونا چاہیے اور امام کے آنے کی اُمید ہو تو اس کا انتظار کرنا چاہیے،
اور عذر کی صورت میں کسی دوسرے کو امام بنایا جا سکتا ہے۔

حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رقیق القلب ہونے کی بنا پر حضرت عمر کو امامت کے لیے کہا،
لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا،
آپ ہی امامت کے زیادہ حقدار ہیں،
آپ کی فضیلت وبرتری کی بنا پر ہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا انتخاب فرمایا تھا،
جس سے معلوم ہوا آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تمام صحابہ سے افضل ہیں،
عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس وجہ سے امامت نہیں کرائی،
اور اس بنا پر ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلیفہ چن لیے گئے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد پر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپﷺ کی تعظیم وتوقیر کی خاطر پیچھے ہٹنے لگے تو آپﷺ نے اشارہ سے روک دیا،
جس سے معلوم ہوا اگر اصل امام آ جائے تو تکبیر تحریمہ سے پہلے،
دوسرا امام مصلیٰ سے پیچھے ہٹ سکتا ہے،
لیکن اس حدیث سے یہ استدلال درست نہیں ہے کہ نماز میں آپﷺ کے خیال میں مستغرق ہو جانا درست ہے،
امامت کے لیے آپ کو آگے کرنا اور چیز ہے اور آپ کا تصور وخیال نماز میں باندھنا الگ چیز ہے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضرت علی کا نام اس لیے نہیں لیا،
کہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ والا آدمی بدلتا رہا ہے کبھی فضل بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سہارا دیا،
کبھی اسامہ بن زید نے اور کبھی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے،
یہ کہنا درست نہیں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام لینا نہیں چاہتی تھی یا ان کا ذکر خیر کرنے سے گریزاں تھیں،
پیچھے یہ بات گزر چکی ہے کہ ایک سائل کو مسئلہ پوچھنے کے لیے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس علی کا نام لے کر بھیجا تھا کہ وہ یہ مسئلہ بہتر بتا سکتے ہیں،
مسئلہ بتانے کی اہلیت رکھنا خیر نہیں ہے؟6۔
آپﷺ کے لیے باری کے مطابق ہر بیوی کے پاس رہنا لازم نہیں تھا اس کے باوجود آپﷺ نے باری کا خیال رکھا اور اس کی پابندی کی حتیٰ کہ بیماری کی حالت میں بھی ایک جگہ رہنے کے لیے ان سے اجازت چاہی۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 938   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 941  
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ کی طبیعت بوجھل ہو گئی، (آپﷺ بیمار ہو گئے) تو بلال رضی اللہ تعالی عنہ آپﷺ کو نماز کی اطلاع دینے کے لیے حاضر ہوئے تو آپﷺ نے فرمایا: ابوبکر کو کہو وہ نماز پڑھائیں۔ تو میں نے کہا، اے اللہ کے رسول ﷺ! ابوبکر غمگین انسان ہیں اور وہ جب آپﷺ کی جگہ پر کھڑے ہوں گے، لوگوں کو قراءت نہیں سنا سکیں گے، اے کاش! آپﷺ عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو حکم دیں تو آپﷺ نے فرمایا: ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:941]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:

ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپﷺ کی بیماری کے ایام میں سترہ (17)
نمازوں میں امامت کی ہے،
اور بقول علامہ عینی،
آپﷺ نے تین دفعہ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اقتدا میں نماز پڑھی ہے،
اور سنن ومسانید کی روایت کے مطابق آپﷺ نے آخری نماز (سوموار کی فجر)
ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اقتدا میں ادا کی،
آپﷺ دوسری رکعت میں شریک ہوئے اور ایک رکعت بعد میں ادا کی،
لیکن یہ روایات متفق علیہ روایت کے منافی ہیں۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت جو آگے آ رہی ہے،
وہ اس بات کی صریح دلیل ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری نماز ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اقتدا میں ادا نہیں کی۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بائیں جانب بیٹھنا اس بات کی دلیل ہے کہ آپﷺ امام تھے،
یہ ہفتہ یا اتوار کی ظہر کی نماز تھی،
اس سے معلوم ہوتا ہے نماز میں مکبر بنانا جائز ہے۔

اَنتُنَّ صَوَاحِبُ یُوسُف:
اَنتُنَّ سے اگر صرف عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا مراد ہوں تو پھر صواحب سے مراد مشہور قول کے مطابق زلیخا ہو گی،
اور مقصد یہ ہو گا،
جس طرح زلیخا نے بظاہر عورتوں کی دعوت،
ان کے اکرام وتوقیر کے لیے کی تھی اور اصل مقصد یہ تھا کہ وہ یوسف علیہ السلام کا نظارہ کر لیں اور عشق ومحبت میں اسے معذور سمجھیں،
اسی طرح عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اظہار تو اس بات کا کیا کہ ابوبکر رنجیدہ وغمگین اور نرم دل ہیں،
کثرت بکاء کی بنا پر مقتدیوں کو قرات نہیں سنا سکیں گے اور اصل مقصد یہ تھا کہ وہ آپﷺ کی جگہ کھڑے ہو کر بدشگونی اور نحوست کا نشانہ بن کر لوگوں کی نظروں سے گر نہ جائیں۔
اور اگر اَنتُنَّ سے مراد حفصہ اور عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما ہوں تو صواحب سے مراد وہ عورتیں ہوں گی،
جن کو زلیخا نے دعوت پر بلایا تھا جن کے بارے میں حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا تھا:
﴿وَإِلَّا تَصْرِفْ عَنِّي كَيْدَهُنَّ أَصْبُ إِلَيْهِنَّ﴾ اگر تو ان کےچرتر کو مجھ سے دفع نہ کردے گا تو میں ان کی بات کی طرف مائل ہو جاؤں گا۔
کہ بقول ابن عبدالسلام،
عورتیں بظاہر امراۃ العزیز کو زجروتوبیخ کر رہی تھیں اور درحقیقت وہ خود ان پر فریفتہ ہو چکی تھی اور ان کو اپنی طرف مائل کرنا چاہتی تھیں،
گویا ظاہر وباطن میں فرق تھا۔
کیونکہ حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بھی بظاہر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے الفاظ دہرائے تھے لیکن ان کا اصلی مقصد یہ تھا کہ اسی طرح میرے باپ کو آپﷺ کی جانشینی کا شرف وامتیاز حاصل ہو گا اور وہ اس تقدم وفضیلت کی بنا پر،
امامت کبرٰی کے بھی حقدار ٹھہریں گے،
جو آپﷺ کا امامت نماز میں جانشین ہو گا،
وہی امامت حکمرانی میں بھی آپﷺ کی جگہ لے گا،
اور یہ مقصد ہو سکتا ہے کہ تم ان عورتوں کی طرح اصرار کر رہی ہو اور مجھے میرے اس ارادہ سے ہٹانا چاہتی ہو کہ امام ابوبکر بنیں-
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 941   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6292  
حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (میری باری کی)جستجو کرتے تھے،فرماتے،"میں آج کہاں ہوں گا؟میں کل کہاں ٹھہروں گا؟"حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے دن میں تاخیر محسوس کرتے ہوئے وہ بیان کرتی ہیں تو جب میرا دن آگیا،اللہ نے آپ کو میرے پھیپڑوں اورحلق کے درمیان اپنے باس بلالیا۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:6292]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
سحر:
پھیپڑا۔
بين سحري و نحري:
آپ کا سر میرے سینہ اور حلق کے درمیان تھا کہ آپ کو بلاوا آ گیا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6292   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:198  
198. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: جب نبی ﷺ بیمار ہوئے اور آپ کی بیماری شدت اختیار کر گئی تو آپ نے دیگر ازواج مطہرات سے تیمارداری کے لیے میرے گھر میں قیام کی اجازت چاہی، چنانچہ سب نے بخوشی اجازت دے دی۔ پھر نبی ﷺ (حضرت عائشہ کے گھر جانے کے لیے) دو آدمیوں کے سہارے اپنے پاؤں گھسیٹتے ہوئے نکلے۔ وہ دو آدمی حضرت عباس ؓ اور ایک دوسرے شخص تھے۔ راوی حدیث عبیداللہ کہتے ہیں: جب میں نے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کو یہ حدیث سنائی تو انھوں نے کہا: تم جانتے ہو کہ وہ دوسرے شخص کون تھے؟ میں نے کہا: نہیں! تو انھوں نے فرمایا: وہ حضرت علی ؓ تھے۔ حضرت عائشہ‬ ؓ ب‬یان کرتی ہیں کہ نبی ﷺ نے اپنے گھر داخل ہونے کے بعد، جب بیماری شدت اختیار کر گئی، تو فرمایا: میرے اوپر سات مشک پانی ڈالو جن کے بند نہ کھولے گئے ہوں۔ شاید میں (تندرست ہو کر) لوگوں کو وصیت کر سکوں۔ پھر آپ کو ایک بڑے ٹب میں بٹھا دیا گیا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:198]
حدیث حاشیہ:

مخضب (ٹب یا لگن)
ایک کھلے برتن کو کہتے ہیں جس میں کپڑے وغیرہ دھوئے جاتے ہیں۔
امام بخاری ؒ کامقصود یہ ہے کہ اس قسم کے کھلے برتنوں میں بیٹھ کر غسل کرنے میں کوئی قباحت نہیں، اگرچہ اس میں استعمال شدہ پانی کے قطرے گرتے رہتے ہیں۔
امام بخاری ؒ کے نزدیک وضو اور غسل کے لیے پانی کا پاک ہونا ضروری ہے۔
برتنوں کے متعلق کوئی پابندی نہیں، تمام برتن قابل استعمال ہیں۔

رسول اللہ ﷺ کو سہارا دے کر لانے کے متعدد واقعات ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ سہارا دینے والوں کے مختلف نام احادیث میں ذکر ہوئے ہیں، مثلاً:
ام ایمن، بریرہ، نوبہ (حبشی غلام)
، فضل بن عباس ؓ، اسامہ، علی بن ابی طالب اورحضرت عباس ؓ لیکن ان میں حضرت علی ؓ اورحضرت عباس ؓ پیش پیش تھے، چنانچہ جب رسول اللہ ﷺ کی بیماری شدت اختیار کرگئی تو آپ کی خواہش کے پیش نظر حضرت عباس ؓ اور حضرت علی ؓ کے سہارے آپ کو حضرت عائشہ ؓ کے گھر لایا گیا۔
(صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 665)
اس وقت ام ایمن ؓ، حضرت اسامہ ؓ اور حضرت فضل بن عباس نے بھی آپ کو سہارا دینے کی خدمات سرانجام دیں۔
پھر حضرت عائشہ ؓ کے گھر آنے کے بعد بیماری میں کچھ افاقہ ہوا تو نمازظہر کی ادائیگی کے لیے حضرت علی ؓ اور حضرت عباس ؓ کے سہارے مسجد میں تشریف لے گئے اور نماز حضرت ابوبکر ؓ کے پہلو میں بائیں جانب بیٹھ کر اد اکی۔
(صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 687)
بعض روایات میں ہے کہ حضرت بریرہ اور نوبہ (حبشی غلام)
کے سہارے برآمد ہوئے۔
غالباً انھوں نے گھر سے مسجد تک آپ کو سہارا دیا۔
پھر مسجد سے جائے نماز تک حضرت علی ؓ اور حضرت عباس ؓ نے سہارا دینے کی خدمات سرانجام دیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ واقعہ افک میں حضرت علی ؓ کے جو تاثرات تھے۔
اس کی وجہ سے صدیقہ کائنات ؓ کے دل میں بشری تقاضے کے مطابق شکر رنجی ضرورتھی۔
اس کا اظہار اس صورت میں ہوا کہ آپ نے حضرت علی ؓ کا نام نہیں لیا، جیسا کہ روایت میں وضاحت ہے۔
اس کے متعلق جو تاویلات کی جاتی ہیں، ان پر دل مطمئن نہیں۔
حافظ ابن حجر ؒ نے بھی اسی قسم کے خیالات کا اظہار کیا ہے۔
(فتح الباري: 203/2)

دوران مرض میں رسول الله ﷺ کے غسل کرنے کے بھی متعدد واقعات ہیں۔
جب رسول اللہ ﷺ حضرت عائشہ ؓ کے گھر تشریف لے آئے تو عشاء کے وقت آپ نے دریافت فرمایا کہ آیا لوگوں نے نماز پڑھ لی ہے؟ عرض کیا گیا کہ وہ آپ کا انتظار کررہے ہیں۔
پھر حسب ارشاد ٹب میں پانی بھرا گیا، آپ نے غسل فرمایا۔
جب مسجد میں جانے لگے تو آپ بے ہوش ہو گئے، تین دفعہ ایسا ہوا۔
پھر آپ نے حضرت بلال ؓ کو بھیجا کہ ابوبکر ؓ نماز پڑھائیں۔
(صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 687)
پھر آپ نے ہفتہ یا اتوار کو سات مشکیں پانی کی لانے کے متعلق فرمایا، جیسا کہ حدیث الباب (198)
میں ہے۔
آپ نے غسل فرمایا، پھر نماز کے لیے مسجد میں تشریف لے گئے اور نماز ادا کی اورلوگوں کو وعظ ونصیحت فرمائی، جیسا کہ دیگر احادیث میں اس کی وضاحت ہے۔
(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4442)
انہی دنوں جمعرات کےدن واقعہ قرطاس پیش آیا۔
(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4431)
اس کی وضاحت ہم حدیث نمبر۔
114 کے تحت کر آئے ہیں۔

احادیث بخاری کے متعلق تشکیک پیدا کرنے کے لیے اصلاحی صاحب نے اس موقع پر بھی زہر اگلا ہے۔
امام زہریؒ کے متعلق ان کے خیالات ملاحظہ فرمائیں:
میرے نزدیک حدیث قرطاس زہری کا پھیلایا ہوا فتنہ ہے۔
یہ روایت (198)
بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے جس میں پورا زہر موجود ہے۔
حدیث قرطاس میں زہری کا ہدف حضرت عمر ؓ ہیں۔
یہاں سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ کے خلاف زہر اگلا گیا ہے۔
اس روایت میں مشکوں کا پانی مریض پر بہانے کا ٹونا بیان ہوا ہے، یہ بھی زہری کی حاشیہ آرائی ہے۔
یہ واقعہ ہے کہ عوامی خرافات کو دین بنا کر پیش کرنے میں بھی زہری کا بڑاحصہ ہے۔
(تدبرحدیث: 297/1)
امام زہری ؒ حضرت امام مالک ؒ کے استاد اورامام بخاری ؒ کے نزدیک انتہائی قابل اعتماد شخصیت ہیں۔
محدثین عظام نے ان کے متعلق بہت اچھے تاثرات کا اظہار کیا ہے۔
علمی بنیادوں پر کسی شخصیت سے اختلاف ہوسکتا ہے لیکن بھونڈے انداز سے کسی پر کیچڑ اچھالنا بھلے مانس لوگوں کا کام نہیں۔
حضرت اصلاحی تو اللہ کے پاس اپنے کیے ہوئے کا پھل پا رہے ہوں گے، ہمارا ان کے متبعین سے سوال ہے کہ اسلاف کے متعلق اظہار خیالات کا یہی انداز ہونا چاہیے جو اصلاحی صاحب نے اختیار کیا ہے؟ حافط ابن حجر ؒ نے امام زہری ؒ کے متعلق پورے چار صفحات پر مشتمل ان کی ثقاہت کو بیان فرمایا ہے۔
فرماتےہیں:
امام زہری ؒ بڑے بڑے ائمہ کرام میں سے ایک اور شام اورحجاز کے عالم حدیث ہیں۔
آپ نے پندرہ سے زیادہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے علم حدیث روایت کیا ہے۔
حضرت لیث کہتے ہیں:
میں نےامام زہری ؒ سے زیادہ علم حدیث رکھنے والا کوئی نہیں دیکھا۔
عمر بن عبدالعزیز ؒ فرماتے ہیں:
امام زہری ؒ کی صحبت اختیار کرو، کیونکہ سنت کا علم ان سے زیادہ جاننے والا کوئی باقی نہیں رہا۔
(تهذیب التهذیب: 397/1)
لیکن اصلاحی صاحب نے ان سےمروی احادیث کو عوامی خرافات کا نام دیا ہے۔
مزید لکھا ہے:
زہری ؒ کے متعلق بدگمانی ان کے زمانے میں بھی پائی جاتی تھی۔
آخر لوگ اتنے نابالغ تو نہ تھے کہ وہ کسی کی شرارت پر متنبہ نہ ہوتے۔
یہی وجہ ہے کہ امام مالک ؒ جیسے بڑے آدمی کو بھی کئی روایات میں زہری کا نام حذف کرکے یہ کہنا پڑا کہ یہ روایت اس شخص کی ہے جس پر مجھے اعتماد ہے۔
(تدبرحدیث: 297/1)
امام مالک ؒ جیسے بڑے شخص کو تو اپنے شیخ پر پورا پورا اعتماد تھا، لیکن آپ حضرات ان پر بداعتمادی کا اظہار کر کے احادیث کے متعلق شکوک وشبہات پیدا کر رہے ہیں۔
احادیث کے متعلق جو خطرناک راستہ اصلاحی صاحب نے اختیار کیا ہے وہ یقیناً ان کی باقیات سئیات میں اضافے کا باعث ہوگا۔
اصلاحی صاحب کو سات مشکیزے پانی لانے اورانھیں رسول اللہ ﷺ پر بہانے کے متعلق اعتراض ہے جسے انھوں نے عوامی خرافات کا نام دیا ہے۔
حالانکہ انھیں علم ہے کہ شریعت میں سات کی تعداد کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے، مثلاً: 1۔
آسمانوں کی تعداد سات ہے۔

ہفتہ کے دن بھی سات ہیں۔

اعضائے سجدہ بھی سات ہیں۔

ایک طواف بیت اللہ کے اردگرد سات چکر لگانے سے پورا ہوتا ہے۔

رمی جمرات کے لیے بھی سات کنکریاں استعمال ہوتی ہیں۔

سعی کے لیے بھی صفا اورمرہ کے درمیان سات دفعہ آنا جانا پڑتاہے۔

صبح صبح سات عجوہ کھجوریں کھانے سے انسان جادو اور زہر سے محفوظ رہتاہے۔
(صحیح البخاري، الطب، حدیث: 5769)
حضرت اصلاحی نے صحیح بخاری کی احادیث کو عوامی خرافات کا نام دیا ہے تاکہ لوگوں کے د لوں میں ان کے متعلق نفرت پیدا ہو، خاص طور پر امام زہری پر بد اعتمادی کا اظہار بایں الفاظ کیا ہے:
اس کی مثالیں موطأ میں العین حق والی روایت اور سانپ نکالنے کی روایت میں موجود ہیں۔
(تدبرحدیث: 297/1)
جن روایات کی طرف اصلاحی صاحب نے اشارہ کیا ہے اور انھیں عوامی خرافات سے تعبیر کیا ہے، ان میں پہلی روایت مسند احمد، سنن نسائی اور صحیح ابن حبان میں ہے کہ سہل بن حنیف ؓ کو عامر بن ربیعہ کی نظر لگ گئی تو رسول اللہ ﷺ نے عامر بن ربیعہ ؓ کو ہاتھ، چہرہ، کہنیاں اور پاؤں کے اطراف، نیز داخلۃ الازار، یعنی تہ بند کے اندر کا بدن، ایک پیالے میں دھونے کا حکم دیا اور اسے سہل بن حنیف کے بدن پر بہا دیا گیا، اس طرح نظر بد کے اثرات ختم ہوگئے، موطأ امام مالک ؒ (الموطأ لإمام مالك: 116/2، طبع مؤسسة الرسالة)
میں اس کی سند یوں ہے:
(قال مالك عن محمد بن أبي أمامة ابن سهل)
اس میں زہری ؒ کا نام نہیں۔
اسی طرح دوسری روایت (جو صحیح مسلم اور موطا وغیرہ میں ہے)
جس میں ایک نوجوان کا ذکر ہے کہ غزوہ خندق کے موقع پر رسول اللہ ﷺ سے اجازت لے کر اپنے گھر آیا اور گھر میں سانپ دیکھ کر اسے نیزہ مارا، اس کی بیوی کا بیان ہے کہ مجھے پتہ نہیں چلا کہ پہلے میرا خاوند فوت ہوا یا سانپ پہلے مرا؟ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
جب گھرمیں سانپ نظر آئے تو اسے تین مرتبہ گھر سے نکل جانے کا حکم دو۔
اگرچلا جائے تو ٹھیک، بصورت دیگر اسے قتل کردو۔
(صحیح مسلم، السلام، حدیث: 5839(2236)
والموطأ للإمام مالك: 155، 156/2، طبع مؤسسة الرسالة)

موطا امام مالک ؒ میں جو روایت ہے اسکی سند میں بھی زہری کا نام نہیں۔
لیکن جو انسان کسی کی مخالفت میں اندھا بہرہ ہوجاتا ہے، اسے ہر جگہ مخالف ہی نظر آتا ہے۔
اصلاحی صاحب نے امام زہری ؒ کی عوامی خرافات کے سلسلے میں ان دو روایات کا حوالہ دیا ہے، لیکن ان میں دور دورتک زہری کانشان تک نہیں ملتا۔
دراصل ان کےنزدیک کسی حدیث کے صحیح وضعیف ہونے کا مدار ان کی عقل پر ہے۔
اگران کی عقل فیصلہ کردے تو صحیح بصورت دیگر وہ ناقابل اعتبار ہے، خواہ بیان کرنے والے کتنے بڑے امام اور ثقات ہی کیوں نہ ہوں۔
اسی وجہ سے ہم نے انھیں دورحاضر کے معتزلہ اورخوارج کا نام دیا ہے، کیونکہ ان کے ہاں بھی حدیث جانچنے کا یہی میعار تھا۔
نوٹ:
۔
رسول اللہ ﷺ بیماری کی شدت کے بعد پانچ دن تک مسجد میں تشریف نہیں لے گئے، صرف نماز ظہر پڑھنا صحیح احادیث سے ثابت ہے۔
حضرت ام فضل ؓ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ شاید مغرب کی نماز بھی آپ نے مسجد میں ادا کی ہے، لیکن سنن نسائی میں وضاحت ہے کہ آپ نے یہ نماز گھر میں ادا کی تھی اور اس میں سورہ مرسلات کی تلاوت فرمائی تھی۔
(سنن النسائي، الصلاة، حدیث: 986)
شدت بیماری کے پہلے دن نماز عشاء کے وقت مسجد میں جانے کے لیے غسل فرمایا، لیکن بے ہوشی کی وجہ سے نہ جا سکے، حضرت ابوبکرصدیق ؓ کو نماز پڑھانے کا حکم دیا۔
جمعرات کے دن واقعہ قرطاس پیش آیا۔
اس کے بعد ہفتہ یا اتوار نماز ظہر مسجد میں ادا کی۔
پیر کے دن پردہ اٹھا کر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو نماز باجماعت ادا کرتے ہوئے دیکھا تو خوش ہوئے اور مسکرائے، پھر پردہ ڈال دیا اور ظہر سے پہلے پہلے جان، جان آفرین کے حوالے کردی۔
إنا للہ وإنا إلیه راجعون۔
جمعے کے سلسلے میں تلاش بسیار کے باوجود کوئی روایت نہیں مل سکی کہ شدت بیماری کے دوران میں جمعہ کس نے پڑھایا؟ اگر کوئی صاحب علم اس کےمتعلق آگاہ ہو تو ہمیں مطلع فرماکر عند اللہ ماجور ہو۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 198   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:664  
664. حضرت اسود ؓ فرماتے ہیں کہ ہم حضرت عائشہ‬ ؓ ک‬ے پاس بیٹھے ہوئے تھے، اس دوران میں ہم نے نماز کی پابندی اور اس کی عظمت کا ذکر کیا تو حضرت عائشہ‬ ؓ ن‬ے فرمایا: جب رسول اللہ ﷺ مرض وفات میں مبتلا ہوئے اور نماز کے لیے اذان ہوئی تو آپ نے فرمایا: "ابوبکر سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔" اس وقت آپ سے عرض کیا گیا: ابوبکر بڑے نرم دل انسان ہیں۔ جب وہ آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو (شدت غم سے) لوگوں کو نماز نہیں پڑھا سکیں گے۔ آپ نے دوبارہ وہی حکم دیا تو پھر وہی عرض کیا گیا، آپ نے تیسری مرتبہ پھر وہی کہا اور فرمایا: "تم حضرت یوسف ؑ کے ساتھ والی عورتوں کی طرح ہو۔ ابوبکر سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔" چنانچہ حضرت ابوبکر ؓ نماز پڑھانے کے لیے تشریف لے گئے۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیماری میں کچھ کمی محسوس کی تو آپ دو آدمیوں کے درمیان سہارا لے کر نکلے، گویا میں اب بھی آپ کے دونوں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:664]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں بیماری کی اس حد کو بیان کیا گیا ہے جس کی موجودگی میں نمازی کو جماعت میں شریک ہونا چاہیے۔
اگر مرض اس سے بڑھ جائے تو گھر میں نماز ادا کر نے کی اجازت ہے، چنانچہ اگر بیماری بڑھ جائے کہ بغیر سہارے کے چلنا دشوار ہوتو گھر میں نماز پڑھ لینی چاہیے، ہاں اگر سہارا موجود ہوتو جماعت میں حاضر ہوجانا چاہیے، لیکن اس سے پہلے ایک حدیث میں ہے:
اگر انھیں معلوم ہوجائے کہ ان نمازوں میں کس قدر اجرو ثواب ہے تو ان میں ضرور حاضر ہوں، خواہ انھیں گھٹنوں کے بل چل کر آنا پڑے۔
(صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 657)
اس فرمان نبوی کے پیش نظر اسے مبالغے پر محمول کیا جائے گا، یا پھر ایسی صورت ہو کہ جب سہارا بھی موجود نہ ہو اور انسان خود بھی نہ چل سکتا ہوتو ایسے حالات میں گھر پر نماز پڑھنے کی رخصت ہے، تاہم جماعت میں حاضری عزیمت ضرور ہے۔
(فتح الباري: 198/2) (2)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی ازواج مطہرات کو حضرت یوسف علیہ السلام کے ساتھ والی عورتیں قرار دینے سے مراد یہ تھا کہ جس طرح انھوں نے خلاف باطن کا اظہار کیا اسی تمھارے دل میں بات کچھ اور ہے اور ظاہر کچھ اور کررہی ہو۔
دراصل یوسف علیہ السلام کے ساتھ والی عورتوں سے مراد عزیز مصر کی بیوی ہے۔
اسی طرح آپ نے اگرچہ جمع کا صیغہ استعمال کرکے سب ازواج کو مخاطب کیا لیکن مراد صرف حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما تھیں۔
اس مشابہت کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ عزیز مصر کی بیوی نے خواتین مصر کی دعوت کا اہتمام کیا، بظاہر وہ ان کی مہمان نوازی کررہی تھی لیکن مقصود یہ تھا کہ وہ بھی ذرا حسن یوسف کا نظارہ کرلیں تاکہ مجھے ایک زر خرید غلام سے محبت کرنے میں معذور خیال کریں، اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما بظاہر یہ کہہ رہی تھیں کہ ان کہ والد رقت قلبی کی وجہ سے جماعت نہیں کرواسکیں گے، لہٰذا یہ ذمے داری کسی اور کے سپرد کی جائے لیکن ان کا مقصود یہ تھا کہ ایسے حالات میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مصلائے نبوت پر کھڑے ہونے سے لوگ بد شگونی لیں گے، اس لیے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے متعلق عذر خواہی کر رہی تھیں، جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما نے خود ایک حدیث میں اس کی وضاحت فرمائی ہے۔
(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4445)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 664   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:679  
679. حضرت ام المومنین عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے اپنے ایام علالت میں فرمایا: ابوبکر ؓ سے کہو، وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ حضرت عائشہ‬ ؓ ف‬رماتی ہیں: میں نے عرض کیا: ابوبکر ؓ آپ کی جگہ کھڑے ہو کر (فرطِ غم سے) رونے لگیں گے، اس وجہ سے لوگوں کو ان کی آواز سنائی نہیں دے گی، لہذا آپ حضرت عمر ؓ کو حکم دیں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں، حضرت عائشہ‬ ؓ ف‬رماتی ہیں کہ میں نے حضرت حفصہ‬ ؓ س‬ے کہا کہ تم بھی رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم سے کہو کہ ابوبکر ؓ جب آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو گریے کے باعث لوگوں کو اپنی آواز نہیں سنا سکیں گے، اس لیے آپ حضرت عمر ؓ کو حکم دیں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں، چنانچہ حضرت حفصہ‬ ؓ ن‬ے عرض کیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: خاموش رہو، یقینا تم یوسف ؑ کے ساتھ والی عورتوں کی طرح ہو۔ ابوبکر ؓ سے کہو، وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ اس پر حضرت حفصہ‬ ؓ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:679]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ کا مقصود اس حدیث کے ذریعے سے اپنے موقف کو مضبوط کرنا ہے کہ منصب امامت اہل علم و فضل کے لائق ہے۔
یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ باربار حضرت ابوبکر ؓ کے متعلق اصرار کررہے ہیں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔
بعض حضرات نے ایک حدیث کی بنا پر جس میں سب سے زیادہ قاری کو مقدم کرنے کا ذکر ہے، یہ موقف اختیار کیا ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں جو سب سے بڑا قاری ہوتا تھا وہ سب سے بڑا عالم بھی ہوتا تھا، اس لیے آپ نے فرمایا کہ قرآن کا زیادہ قاری امامت کرائے۔
یہ موقف صحیح نہیں کیونکہ اس کا تقاضا تو یہ تھا کہ حضرت ابی بن کعب ؓ کو منصب امامت پر فائز کیا جاتا کہ وہ بڑے قاری ہونے کی وجہ سے بڑے عالم بھی تھے جیسا کہ ان کا أَقرَأ (بڑاقاری)
ہونا حدیث سے ثابت ہے۔
(سنن ابن ماجة، المقدمة، حدیث: 154)
پھر وہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں اس وصف کے ساتھ مشہور تھے جیسا کہ حضرت عمر ؓ نے ان کے متعلق فرمایاتھا کہ حضرت ابی ؓ قرآن کے بڑے قاری ہیں۔
(صحیح البخاري، فضائل القرآن، حدیث: 5005)
الغرض امامت کے لیے اہل علم وتقویٰ حضرات کا انتخاب کرنا چاہیے۔
(حاشیة السندي: 124/1) (2)
صحیح بخاری کی ایک روایت میں خود حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ جو چیز مجھے بار بار رسول اللہ ﷺ سے تکرار پرابھاررہی تھی وہ یہ تھی کہ لوگ کبھی بھی اس شخص سے محبت نہیں رکھیں گے جو آپ ﷺ کی جگہ پر کھڑا ہوگا۔
میرے خیال کے مطابق ایسے حالات میں جو بھی آپ کے مقام پر کھڑا ہوگا۔
لوگ اس کے متعلق برا شگون رکھیں گے، چنانچہ میں چاہتی تھی کہ رسول اللہ ﷺ خود ہی حضرت ابو بکر ؓ کو اس "خرابی" سے بچا لیں۔
(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4445)
اسی وجہ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ظاہر وباطن کے تضاد میں تم یوسف علیہ السلام کے ساتھ والی عورتوں کی طرح معلوم ہوتی ہو اور حضرت حفصہ ؓ چونکہ اس سے پہلے بھی شہد والے واقعے میں حضرت عائشہ ؓ کی بات ماننے کی وجہ سے زیر عتاب آچکی تھیں، اس لیے فرمایا کہ میرا تم سے کسی بھلائی کی توقع رکھنا عبث ہے۔
والله أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 679   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:683  
683. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے دوران علالت میں حکم دیا کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ لوگوں کو نماز پڑھائیں، چنانچہ وہ اس دوران میں نماز پڑھاتے رہے۔ حضرت عروہ کہتے ہیں: ایک دن رسول اللہ ﷺ نے کچھ افاقہ محسوس کیا، چنانچہ آپ باہر تشریف لائے تو دیکھا کہ حضرت ابوبکر ؓ لوگوں کو نماز پڑھا رہے ہیں۔ جب ابوبکر صدیق ؓ کی نگاہ آپ ﷺ پر پڑی تو انہوں نے پیچھے ہٹنا چاہا لیکن آپ نے اشارہ فرمایا کہ اپنی جگہ پر رہو۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے پہلو میں ان کے برابر بیٹھ گئے۔ اندریں حالات حضرت ابوبکر صدیق ؓ رسول اللہ ﷺ کی اقتدا میں نماز ادا کر رہے تھے اور دیگر لوگ حضرت ابوبکر ؓ کی اقتدا میں نماز پڑھ رہے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:683]
حدیث حاشیہ:
(1)
جس وقت مقتدی زیادہ ہوں تو امام آگے اور مقتدی پیچھے کھڑے ہوتے ہیں اور اگر مقتدی ایک ہو تو اسے امام کی دائیں جانب کھڑا ہونا چاہیے۔
امام بخاری ؒ کا مقصود یہ ہے کہ اگر مقتدی زیادہ ہوں تو کسی ضرورت کے پیش نظر اگر کوئی مقتدی امام کے پہلو میں کھڑا ہوجائے تو ایسا کرنا بھی جائز ہے۔
اسے بیان کرنے کے لیے یہ عنوان قائم کیا گیا ہے، لیکن عنوان میں مقتدی کا امام کے پہلو میں کھڑا ہونا مذکور ہے جبکہ حدیث میں رسول اللہ ﷺ کا حضرت ابو بکر ؓ کے پہلو میں بیٹھنا بیان ہوا ہے۔
دراصل مذکورہ حدیث میں حضرت ابو بکر ؓ امام نہ تھے بلکہ رسول اللہ ﷺ امامت کا فریضہ سر انجام دے رہے تھے اور حضرت ابو بکر ؓ مقتدی تھے جو امام کے پہلو میں کھڑے تھے۔
امام بخاری ؒ نے اس صورت کا جواز بیان کیا ہے۔
(2)
دو صورتوں کے علاوہ ایک صف میں مقتدی کا امام کے ساتھ کھڑا ہونا درست نہیں:
٭جگہ تنگ ہو اور امام آگے کھڑا نہ ہوسکتا ہو۔
٭ امام کے ساتھ صرف ایک ہی مقتدی جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابن عباس ؓ کو اپنی دائیں جانب کھڑا کیا تھا۔
رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابو بکر صدیق ؓ کو اپنے پہلو میں اس لیے کھڑا رکھا تھا تاکہ وہ آپ کی تکبیرات انتقال لوگوں کو سنا سکیں۔
(شرح الکرماني: 25/2)
حافظ ابن حجر ؒ نے مقتدی کو امام کے ساتھ ایک ہی صف میں کھڑا ہونے کی ایک مزید صورت بیان کی ہے جب نمازی عریاں ہو تو بھی امام اور مقتدی ایک ہی صف میں کھڑے ہوں گے۔
ان کے نزدیک بلا عذر ایک ہی صف میں کھڑے ہونا جائز ہے لیکن افضل نہیں۔
(فتح الباري: 216/2)
نیز عورتوں کی امام اگر عورت ہو تو بھی آگے نہیں بلکہ عورتوں کی پہلی صف کے درمیان میں کھڑی ہوگی۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 683   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:712  
712. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ جب نبی ﷺ مرض فات میں مبتلا ہوئے تو آپ کے پاس حضرت بلال ؓ نماز کی اطلاع دینے کے لیے آئے۔ آپ نے فرمایا: ابوبکر سے کہو وہ لوگوں کو نماز پڑھا دیں۔ میں نے عرض کیا کہ ابوبکر ایک نرم دل آدمی ہیں، اگر آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو رونے لگیں گے اور قراءت پر قادر نہیں ہوں گے۔ آپ نے فرمایا: ابوبکر ؓ سے کہو کہ وہ نماز پڑھائیں۔ میں نے پھر وہی عرض کیا تو آپ نے تیسری یا چوتھی مرتبہ فرمایا: تم تو یوسف ؑ والی عورتوں کی مثل ہو۔ ابوبکر سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ چنانچہ حضرت ابوبکر ؓ نے نماز پڑھانا شروع کی تو نبی ﷺ دو آدمیوں کے سہارے باہر تشریف لائے، گویا میں اس وقت بھی آپ کی طرف دیکھ رہی ہوں کہ آپ کے دونوں پاؤں زمین پر گھسٹتے جاتے تھے۔ جب حضرت ابوبکر ؓ نے آپ کو دیکھا تو پیچھے ہٹنے لگے مگر آپ ﷺ نے اشارے سے فرمایا کہ نماز پڑھاتے رہو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:712]
حدیث حاشیہ:
صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابو بکر ؓ رسول اللہ ﷺ کی اقتدا کررہے تھے اور دوسرے مقتدی حضرت ابوبکر ؓ کی اقتدا میں تھے۔
(صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 713)
اس روایت نے وضاحت کردی کہ حضرت ابوبکر ؓ صرف رسول اللہ ﷺ کی تکبیرات لوگوں کو سنا رہے تھے۔
آپ لوگوں کے امام نہیں تھے۔
امامت کے فرائض رسول اللہ ﷺ ہی ادا کررہے تھے۔
(فتح الباري: 264/2)
اس حدیث کی تشریح پہلے گزرچکی ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 712   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:713  
713. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب رسول اللہ ﷺ بیمار ہوئے تو حضرت بلال ؓ آپ کے پاس نماز کی اطلاع دینے کے لیے حاضر ہوئے، آپ نے فرمایا: ابوبکر سے کہو وہ لوگوں کو نماز پڑھا دیں۔ میں نے کہا: اللہ کے رسول! حضرت ابوبکر ؓ ایک نرم دل انسان ہیں، اس لیے جب وہ آپ کی جگہ پر کھڑے ہوں گے تو لوگوں کو اپنی آواز نہ سنا سکیں گے۔ اگر آپ حضرت عمر ؓ کو حکم دیں (تو بہتر ہے)۔ آپ نے فرمایا: ابوبکر سے کہو وہ لوگوں کو نماز پڑھا دیں۔ میں نے حضرت حفصہ‬ ؓ س‬ے کہا کہ آپ عرض کریں کہ حضرت ابوبکر ؓ ایک نرم دل انسان ہیں، اس لیے جب وہ آپ کی جگہ پر کھڑے ہوں گے تو لوگوں کو اپنی آواز نہ سنا سکیں گے، لہذا اگر آپ حضرت عمر ؓ کو حکم دیں (تو بہتر ہے)۔ آپ نے فرمایا: تم تو یوسف ؑ کے ساتھ والی عورتیں معلوم ہتی ہو۔ ابوبکر سے کہو وہ لوگوں کو نماز پڑھا دیں۔ جب حضرت ابوبکر ؓ نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:713]
حدیث حاشیہ:
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ فرماتے ہیں کے رسول اللہ ﷺ کی مرض وفات کے وقت والی امامت کے متعلق درج ذیل تین احتمالات ہو سکتے ہیں:
٭ رسول اللہ ﷺ امام تھے اور حضرت ابو بکر ؓ ایک مبلغ کی حیثیت سے رسول اللہ ﷺ کی تکبیرات لوگوں تک پہنچاتے تھے، جیسا کہ حدیث:
(712)
میں ہے۔
٭ حضرت ابو بکر ؓ رسول اللہ ﷺ کی اقتدا کررہے تھے اور دیگر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم حضرت ابوبکر کی اقتدا کررہے تھے۔
اس صورت میں دو امام ہوں گے:
ایک رسول اللہ ﷺ اور دوسرے ابوبکر ؓ۔
٭ حضرت ابوبکر ؓ امام تھے اور رسول اللہ ﷺ مقتدی کی حیثیت سے معذوری کی بنا پر بائیں جانب بیٹھے تھے، لیکن یہ آخری احتمال بہت بعید ہے کیونکہ مقتدی امام کی دائیں جانب ہوتا ہے۔
یہ عذر کہ معذوری کی وجہ سے بائیں جانب بیٹھے تھے، یہ اتنا وزنی نہیں، کیونکہ جب بیٹھنا ہے تو پھر دائیں یا بائیں بیٹھنے سے کیا فرق پڑتا ہے؟ اس لیے ہماری رائے کے مطابق یہ آخری احتمال مردوداور ناقابل اعتبار ہے۔
دوسرے احتمال کی حیثیت بھی انتہائی مخدوش ہے، کیونکہ کسی جماعت میں بیک وقت دو امام ہوں اس کا ثبوت سرے سے موجود نہیں۔
ظاہری الفاظ سے شریعت سے اس قدر ہٹا ہوا مسئلہ کشید نہیں کیا جاسکتا۔
بعض حضرات نے امام بخاری ؒ کے متعلق لکھا ہے کہ ان کا رجحان دوسرے احتمال کی طرف ہے۔
امام بخاری ؒ کی جلالت شان اس قسم کے احتمالات سے بالاتر ہے۔
اس قسم کے احتمالات سخن سازی کے علاوہ کچھ نہیں۔
سیدھی اور صاف بات یہی ہے کہ رسول اللہ ﷺ امام تھے اور حضرت ابوبکر ؓ رسول اللہ ﷺ کے افعال و اعمال کی اقتدا کر رہے تھے اور ان کی تکبیرات کو لوگوں تک پہنچانے والے تھے۔
والله أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 713   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:716  
716. ام المومنین حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی مرض (وفات) میں فرمایا: ابوبکر سے کہو وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ حضرت عائشہ‬ ؓ ک‬ہتی ہیں: میں نے آپ سے عرض کیا کہ ابوبکر ؓ جب آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو رونے کی وجہ سے لوگوں کو اپنی آواز نہیں سنا سکیں گے، اس لیے آپ حضرت عمر ؓ کو حکم دیجیے کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ آپ نے فرمایا: ابوبکر سے کہو وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ حضرت عائشہ‬ ؓ ک‬ہتی ہیں: میں نے حضرت حفصہ سے کہا کہ تم نبی ﷺ سے عرض کرو کہ جب ابوبکر ؓ آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو رونے کی وجہ سے لوگوں کو اپنی قراءت نہیں سنا سکیں گے، لہذا آپ حضرت عمر ؓ کو حکم دیجیے کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں، چنانچہ حضرت حفصہ‬ ؓ ن‬ے ایسے ہی کیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: چپ رہو! تم تو یوسف ؑ والی عورتوں کی طرح معلوم ہوتی ہو۔ ابوبکر سے کہو وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ اس پر حضرت۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:716]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے پتا چلتا ہے کہ امام رسول اللہ ﷺ تھے لیکن اس میں آپ کے رونے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
چونکہ رسول اللہ ﷺ کی تشریف آوری سے قبل ابوبکر ؓ ہی امام تھے اور ان کے متعلق صدیقۂ کائنات ؓ کا مشاہدہ تھا کہ وہ نماز میں تلاوت کرتے وقت ضرور رویا کرتے تھے، لہٰذا امام کا نماز میں رونا ثابت ہوا۔
اگرچہ اس خاص واقعے میں آپ کے رونے کا ذکر نہیں ہے، تاہم اس کے بغیر حدیث کی عنوان سے کوئی مطابقت نہیں ہوسکتی۔
حافظ ابن حجر ؒ نے مطابقت کے متعلق کچھ نہیں لکھا، البتہ آپ نے عنوان کو ثابت کرنے کے لیے حضرت عبداللہ بن شخیر ؓ کی ایک روایت کا حوالہ دیا ہے۔
فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو نماز پڑھاتے ہوئے دیکھا کہ آپ کے سینۂ مبارک سے اس طرح رونے کی آواز آ رہی تھی جس طرح ہنڈیا ابلتی ہے۔
(سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 904)
(2)
واضح رہے کہ اگر نماز میں رونا کسی تکلیف یا درد کی وجہ سے ہوتو نماز درست نہیں رہے گی، اگر جنت اور جہنم یا امور آخرت کی وجہ سے ہو تو باعث ثواب ہے اور ایسا کرنا رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے جیسا کہ حدیث بالا سے معلوم ہوتا ہے۔
والله أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 716   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2588  
2588. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے انھو نے فرمایا: جب نبی کریم ﷺ کی بیماری شدت اختیار کرگئی اور تکلیف سخت ہوگئی تو آپ نے اپنی ازواج مطہرات سے اپنی بیماری کے ایام میرے گھر بسر کرنے کی اجازت طلب کی تو تمام ازواج نے بخوشی اجازت دے دی۔ آپ دو آدمیوں کے درمیان اس طرح نکلے کہ آپ کے پاؤں زمین پر نشان کھینچتے تھے۔ آپ جن آدمیوں کے درمیان تھے ان میں سے ایک حضرت عباس ؓ اور دوسرے کوئی اور شخص تھے(راوی حدیث) عبیداللہ کہتے ہیں: میں نے جو بات حضرت عائشہ ؓ سے سنی تھی جب حضرت ابن عباس ؓ سے بیان کی تو انھوں نے مجھ سے پوچھا: تم اس شخص کو جانتے ہو جس کا حضرت عائشہ نے نام نہیں لیا؟میں نے کہا: نہیں (جانتا۔) ابن عباس ؓ نے فرمایا: وہ حضرت علی ؓ تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2588]
حدیث حاشیہ:
(1)
حدیث میں مذکورہ واقعہ رسول اللہ ﷺ کی مرض وفات سے متعلق ہے۔
آپ اس وقت حضرت میمونہ ؓ کے گھر میں تھے جب آپ نے بیماری کے ایام حضرت عائشہ ؓ کے گھر گزارنے کی اجازت طلب کی۔
اس موقع پر تمام ازواج نے اپنی اپنی باری ہبہ کر دی تھی۔
اجازت دینا شوہر کے لیے ازواج کا ہبہ تھا، پھر ازواج نے جن حقوق کو معاف فرمایا انہوں نے پھر اس سے رجوع بھی نہیں کیا۔
اس صورت میں ہبہ کے لغوی معنی مراد ہوں گے۔
(2)
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ صدیقۂ کائنات نے حضرت علی ؓ کا نام عداوت کی وجہ سے نہیں لیا تھا، حالانکہ یہ بات غلط ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے ایک طرف حضرت عباس ؓ تھے جو آخر تک رہے دوسری طرف حضرت بریرہ، پھر حضرت علی، حضرت فضل بن عباس ؓ اور حضرت اسامہ بن زید ؓ تھے۔
چونکہ ان میں سے کوئی ایک معین نہیں تھا، اس لیے حضرت عائشہ ؓ نے اس کا تعین کرنے کے بجائے کہہ دیا کہ دوسری طرف ایک اور شخص تھا۔
اس تعبیر کو عداوت پر محمول کرنا صدیقۂ کائنات کے متعلق بدگمانی ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2588   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3774  
3774. حضرت عروہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ جب مرض وفات میں تھے تو ہر روز اپنی ازواج مطہرات ؓاجمعین کے گھروں میں تشریف لے جاتے اور فرماتے: میں کل کہاں ہوں گا؟ میں کل کہاں ہوں گا؟ آپ کو حضرت عائشہ ؓ کے گھرآنے کی خواہش تھی۔ حضرت اُم المومنین حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ جب میری باری آئی تو آپ کو سکون ہوا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3774]
حدیث حاشیہ:

سکون کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺنے پوچھنا چھوڑدیا کہ میں کل کہاں ہوں گا؟ البتہ علامہ کرمانی نے (سَكَنَ)
کے معنی (مَاتَ)
کیے ہیں، یعنی آپ وفات پاگئے جیسا کہ ایک روایت میں ہے کہ جب میری باری آئی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو فوت کرلیا۔
(عمدة القاري: 493/11)

حافظ ابن حجر ؒنے لکھا ہے کہ امام ابن تیمیہ ؒہے سیدہ خدیجہ ؓ اور سیدہ عائشہ ؓ کے متعلق خاموشی اختیار کی ہے کہ ان میں سے کون افضل ہے؟ البتہ امام ابن قیم ؒ کہتے ہیں کہ اگرفضیلت سے مراد کثرت ثواب ہے تو اس کے متعلق تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
اگر اس سے مراد علم ہے تو حضرت عائشہ ؓ کو برتری حاصل ہے اور اگرخاندانی شرافت مرادہے تو وہ حضرت فاطمہ ؓ کوحاصل ہے۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3774   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5217  
5217. سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ کی جس بیماری میں وفات ہوئی اس میں پوچھا کرتے تھے: کل میری باری کس کے پاس ہے؟ میں کل کہاں ہوں گا؟ آپ کو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی باری کا انتطار تھا، چنانچہ آپ کو تمام ازواج نے اجازت دے دی کہ آپ جہاں چاہیں آرام فرمائیں۔ آپ ﷺ نے سیدہ عائشہ‬ ؓ ک‬ے گھر کا انتخاب کیا حتیٰ کہ ان کے ہاں آپ کی وفات ہوئی۔ سیدہ عائشہ‬ ؓ ن‬ے بیان کیا کہ آپ ﷺ نے اسی دن وفات پائی جس دن میرے گھر میں آپ کے آنے کی باری تھی۔ یہ (حسن اتفاق تھا کہ) اللہ تعالٰی نے جب آپ کو وفات دی تو آپ کا سر مبارک میرے سینے اور گردن کے درمیان تھا اور آپ کا لعاب دہن میرے لعاب دہن سے مل گیا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5217]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں کی حوصلہ افزائی کرنے کے لیے بطور مہربانی ان سے اجازت حاصل کرتے تھے، آپ تقسیم کے پابند نہیں تھے جیسا کہ قرآن کریم میں ہے:
آپ کو یہ بھی اختیار ہے کہ جس بیوی کو چاہو علیحدہ رکھواور جسے چاہو اپنے پاس بلالو۔
(الأحزاب: 51) (2)
لعاب دہن ملنے کا سبب یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری لمحات میں تازہ مسواک طلب فرمائی تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے دانتوں سے مسواک نرم کر کے آپ کو دی تھی۔
آپ کی نرم کی ہوئی مسواک سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دندان مبارک اور منہ میں مسواک کی، اسی طرح دونوں لعاب مل گئے۔
(صحیح البخاري، فرض الخمس، حدیث: 3100)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5217   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5666  
5666. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے ایک مرتبہ کہا: میرا سر درد! اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر تو فوت ہو گئی اور میں زندہ رہا تو میں تمہارے لیے اللہ تعالٰی سے مغفرت طلب کروں گا اور دعا مانگوں گا۔ سیدہ عائشہ‬ ؓ ن‬ے کہا: ہائے افسوس! اللہ کی قسم! میرے گمان کے مطابق اپ میرا مرنا پسند کرتے ہیں۔ اگر ایسا ہو گیا تو اسی دن رات کسی بیوی کے ہاں بسر کریں گے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: بلکہ میں تو خود درد سر میں مبتلا ہوں۔ میں نے ارادہ کیا تھا کہ مٰیں ابو بکر اور ان کے بیٹے کو پیغام بھیجوں اور وصیت کروں کہیں ایسا نہ ہو کہ میرے بعد کہنے والے کچھ اور کہیں اور تمنا کرنے والے کسی اور بات کی خواہش کریں پھر میں نے (اپنے جی میں) کہا کہ اللہ تعالٰی حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے علاوہ کسی اور کو خلیفہ نہ ہونے دے گا اور نہ مسلمان ہی کسی دوسرے کی خلافت کو قبول کریں گے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5666]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بقیع الغرقد میں ایک نماز جنازہ پڑھ کر واپس آئے تو میرے سر میں شدید درد تھا۔
میں مارے درد کے کہہ رہی تھی:
ہائے میرا سر درد۔
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اگر تو فوت ہو گئی اور میں زندہ رہا تو میں تجھے غسل دوں گا، کفن پہناؤں گا، نماز جنازہ پڑھوں گا، پھر تجھے دفن کروں گا۔
اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ تکلیف شروع ہوئی جس میں آپ نے وفات پائی۔
(مسند أحمد: 228/6، و فتح الباري: 154/10) (2)
بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ثابت کیا ہے کہ بوقت ضرورت کسی مخلوق کے سامنے اپنے دکھ درد یا بیماری کا اظہار کیا جا سکتا ہے اور ایسا کرنا تسلیم و رضا کے منافی نہیں۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5666   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7217  
7217. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے ایک مرتبہ کہا: ہائے سر پھٹا جا رہا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر تم مرجاؤ اور میں زندہ رہا تو میں تمہارے لیے مغفرت مانگوں گا اور دعائے خیر کروں گا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: افسوس! آپ تو میری موت کے طالب ہیں اور اگر ایسا ہوگیا تو آپ دن کی آخری حصےمیں ضرور کسی دوسری عورت سے شادی کرلیں گے۔ نبی ﷺنے فرمایا: ایس نہیں بلکہ میں تو اپنے سر درد کا اظہار کرتا ہوں۔ میرا ارادہ ہوا تھا کہ میں ابو بکر اور اس کے بیٹے کو بلاؤں اور انہیں خلیفہ بنا دوں تاکہ کسی دعویٰ کرنے والے یا س کی خواہش رکھنے والے کے لیے گنجائش باقی نہ رہے لیکن پھر میں نے سوچا کہ اللہ خود کسی دوسرے کی خلافت کا انکار کرے گا اور مسلمان بھی اسے دفع کریں گے۔۔۔۔۔یا فرمایا۔۔۔۔ اللہ دفع کرے گا اورمسلمان کسی اور کو خلیفہ نہیں بننے دین گے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7217]
حدیث حاشیہ:
ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مرض وفات میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فرمایا:
تم اپنے والد اور اپنے بھائی کو بلالو تاکہ میں خلافت کے متعلق تحریر لکھ دوں۔
اس حدیث کے آخر میں ہے:
اللہ تعالیٰ اور اہل ایمان کو ابوبکر (رضی اللہ تعالیٰ عنہ)
کے علاوہ کوئی دوسرا خلیفہ منظور نہیں ہوگا۔
(صحیح مسلم، فضائل الصحابة، حدیث: 6181(2387)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت ارادہ الٰہی اور چاہت نبوی کے عین مطابق تھی، اب جو لوگ ایسے پاکباز خلیفہ کو غاصب اور ظالم خیال کرتے ہوں وہ انتہائی خطرناک مقام پر کھڑے ہیں، نیز خلافت کے لیے نامزدگی میں کوئی حرج نہیں، حالات اگراجازت دیں تو ایسا کیا جا سکتا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7217   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7303  
7303. ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے اپنی بیماری میں فرمایا: ابو بکرسے کہو وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ سیدہ عائشہ‬ ؓ ن‬ے کہا: میں نے جواب دیا: ابو بکر آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو رونے کی وجہ سے لوگوں کو (قراءت) نہیں سنا سکیں گے لہذا آپ سیدنا عمر بن خطاب ؓ کو حکم دیں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ آپ ﷺ نےدوبارہ فرمایا: ابوبکر سے کہو وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ سیدنا عائشہ‬ ؓ ن‬ے کہا: میں نے سیدہ حفصہ سے کہا: تم کہو کہ اگر ابو بکر ؓ آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو رونے کی وجہ سے لوگوں کو (قراءت) نہیں سنا سکیں گے، اس لیے آپ سیدنا عمر بن خطاب ؓ کو حکم دیں وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ سیدہ حفصہ‬ ؓ ن‬ے یہ بات کی تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: بلاشبہ تم سیدنا یوسف ؑ کو پھانسنے والی عورتیں معلوم ہوتی ہو۔ سیدنا ابوبکر صدیق ؓ سے کہیں وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ بعد میں سیدنا حفصہ‬ ؓ ن‬ے سیدہ عائشہ‬۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7303]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے تنازع کی کراہت ثابت کی ہے کیونک اُم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سے اختلاف کر کے بار بار ایک ہی بات کو دہراتی رہیں۔
آخر کارحضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے وہی بات کہلوائی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مداخلت کی ضرورت پڑی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تمھارا کردار حضرت یوسف علیہ السلام کو پھانسنے والی عورتوں سے مختلف نہیں۔
وہ بھی بظاہر عزیز مصر کی بیوی کو حضرت یوسف علیہ السلام سے دلی تعلق پر ملامت کرتی تھیں لیکن وہ خود ان سے تعلق قائم کرنے کے لیے بے قرار تھیں اسی طرح تم بظاہر حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی گریہ وزاری کا بہانہ پیش کر کے انھیں امامت سے دور رکھنا چاہتی ہو لیکن تمھاری خواہش کچھ اور ہے۔

دراصل حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا چاہتی تھیں کہ اگر حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مصلے پر کھڑے ہوئے تو لوگ اسے بدشگونی سے تعبیر کریں گے۔
اس بات کا اظہار بھی انھوں نے کیا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زندگی میں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی کو مصلے پر کھڑا دیکھنا چاہتے تھے۔
بہر حال اس حدیث میں باہمی اختلاف اور آپس میں لڑنے جھگڑنے کی کراہت کو ثابت کیا گیا ہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7303