موطا امام مالك رواية ابن القاسم
اوقات نماز کا بیان
نماز عصر کا وقت
حدیث نمبر: 82
5- وبه أنه قال: ”كنا نصلي العصر ثم يذهب الذاهب إلى قباء فيأتيهم والشمس مرتفعة.“
اور اسی سند کے ساتھ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم عصر کی نماز پڑھتے، پھر جانے والا قُباء (کے علاقے میں) جاتا پھر وہ وہاں پہنچتا اور (اس اثنا میں) سورج بلند ہوتا تھا۔
تخریج الحدیث: «5- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 9/1، ح 10، ك 1، ب 1، ح 11) التمهيد 177/6، الاستذكار: 9، أخرجه البخاري (551) ومسلم (621) من حديث مالك به.»
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم کی حدیث نمبر 82 کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 82
تخریج الحدیث:
[الموطأ رواية يحييٰ بن يحييٰ 9/1، ح 10، ك 1، ب 1، ح 11، التمهيد 177/6، الاستذكار: 9، أخرجه البخاري 551، ومسلم 621، من حديث مالك به]
تفقہ:
➊ عہد نبوی کے مدینہ منورہ سے دو (عربی) میلوں کی مسافت پر قبا ہے۔ دیکھئے: [معجم البلدان 302/4]
عربی ہاشمی میل چار ہزار ذراع یعنی 1609 میٹر کے برابر ہوتا تھا۔ دیکھئے: [القاموس الوحيد ص:1597]
اس حساب سے یہ فاصلہ تین کلومیٹر اور دو سو اٹھارہ (218) میٹر ہے۔ معلوم ہوا کہ عصر کی نماز (ایک مثل ہونے بعد) جلدی پڑھنی چاہئے۔
➋ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جبریل (علیہ السلام) نے مجے عصر کی نماز اس وقت پڑھائی جب ہر چیز کا سایہ اس کے برابر (مثل) ہو گیا۔“ [سنن الترمذي: 149، وسنده حسن و قال الترمذي: ”حديث حسن“ وصححه ابن خزيمه: 352، وابن حبان: 279، وابن جارود: 149، والحاكم 193/1 والنيموي فى آثار السنن: 194، وغيرهم]
➌ بغیر شرعی عذر کے دو مثل کے بعد نماز عصر پڑھنے کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔
نیموی تقلیدی لکھتے ہیں کہ:
«وإني لم أجد حديثاً صريحاً صحيحاً أو ضعيفاً يدل عليٰ أن وقت الظهر إلٰي أن يصير الظل مثليه»
”اور مجھے کوئی صریح، صحیح یا ضعیف حدیث نہیں ملی کہ ظہر کا وقت دو مثل تک رہتا ہے۔“ [آثار السنن: 199]
➍ جو لوگ بغیر شرعی عذر کے عصر کی نماز تاخیر سے پڑھتے ہیں انہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منافق قرار دیا ہے۔ دیکھئے: [صحيح مسلم 622 وترقيم دارالسلام: 1412]
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 5
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 551
´نماز عصر کے وقت کا بیان`
«. . . عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: " كُنَّا نُصَلِّي الْعَصْرَ، ثُمَّ يَذْهَبُ الذَّاهِبُ مِنَّا إِلَى قُبَاءٍ فَيَأْتِيهِمْ وَالشَّمْسُ مُرْتَفِعَةٌ . . .»
”. . . انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا ہم عصر کی نماز پڑھتے (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ) اس کے بعد کوئی شخص قباء جاتا اور جب وہاں پہنچ جاتا تو سورج ابھی بلند ہوتا تھا . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ/بَابُ وَقْتِ الْعَصْرِ:: 551]
� تشریح:
«عوالي» دیہات کو کہا گیا ہے جو مدینہ کے اطراف میں بلندی پر واقع تھے۔ ان میں بعض چار میل بعض چھ میل، بعض آٹھ آٹھ میل کے فاصلے پر تھے۔ اس حدیث سے بھی صاف ظاہر ہے کہ عصر کی نماز کا وقت ایک مثل سائے سے شروع ہو جاتا ہے۔ دو مثل سایہ ہو جانے کے بعد یہ ممکن نہیں کہ آدمی چار چھ میل دور جا سکے اور دھوپ ابھی تک خوب تیز باقی رہے۔ اس لیے عصر کے لیے اول وقت ایک مثل سے شروع ہو جاتا ہے۔ جو حضرات ایک مثل کا انکار کرتے ہیں وہ اگر بنظر انصاف ان جملہ احادیث پر غور کریں گے تو ضرور اپنے خیال کو غلطی تسلیم کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ مگر نظر انصاف درکار ہے۔
اس حدیث کے ذیل میں علامہ شوکانی فرماتے ہیں:
«وهودليل لمذهب مالك والشافعي واحمد والجمهور من العترة وغيرهم القائلين بان اول وقت العصر اذا صار ظل كل شيئي مثله وفيه رد لمذهب ابي حنيفة فانه قال ان اول وقت العصر لا يدخل حتي يصير ظل الشئي مثليه۔» [نيل]
یعنی اس حدیث میں دلیل ہے کہ عصر کا اوّل وقت ایک مثل سایہ ہونے پر ہو جاتا ہے اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ، احمد رحمۃ اللہ علیہ، شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور جمہور عترت کا یہی مذہب ہے اور اس حدیث میں حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے مذہب کی تردید ہے جو سایہ دو مثل سے قبل عصر کا وقت نہیں مانتے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 551
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 551
551. حضرت انس ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ہم (رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ) نماز عصر ادا کرتے، پھر ہم میں سے کوئی جانے والا قباء تک جاتا، جب اہل قباء کے پاس پہنچتا تو سورج ابھی بلند ہوتا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:551]
حدیث حاشیہ:
عوالی دیہات کو کہا گیا ہے جو مدینہ کے اطراف میں بلندی پرواقع تھے۔
ان میں بعض چار میل بعض چھ میل، بعض آٹھ آٹھ میل کے فاصلے پر تھے۔
اس حدیث سے بھی صاف ظاہر ہے کہ عصر کی نماز کا وقت ایک مثل سائے سے شروع ہو جاتا ہے۔
دومثل سایہ ہوجانے کے بعد یہ ممکن نہیں کہ آدمی چارچھ میل دور جا سکے اوردھوپ ابھی تک خوب تیز باقی رہے۔
اس لیے عصر کے لیے اول وقت ایک مثل سے شروع ہو جاتا ہے۔
جو حضرات ایک مثل کا انکار کرتے ہیں وہ اگربنظر انصاف ان جملہ احادیث پر غور کریں گے تو ضرور اپنے خیال کو غلطی تسلیم کرنے پر مجبورہوجائیں گے۔
مگر نظرانصاف درکار ہے۔
اس حدیث کے ذیل میں علامہ شوکانی ؒ فرماتے ہیں:
''وهو دلیل لمذهب مالك والشافعي وأحمد والجمهور من العترة وغیرهم القائلین بأن أول وقت العصر إذا صار ظل کل شیئ مثله وفیه رد لمذهب أبي حنیفة فإنه قال إن أول وقت العصر لا یدخل حتی یصیر ظل الشيئ مثلیه۔
'' (نیل)
”یعنی اس حدیث میں دلیل ہے کہ عصر کا اوّل وقت ایک مثل سایہ ہونے پر ہوجاتاہے اورامام مالک ؒ، احمد ؒ، شافعی ؒ اورجمہور عترت کا یہی مذہب ہے اوراس حدیث میں حضرت امام ابوحنیفہ ؒ کے مذہب کی تردید ہے جو سایہ دو مثل سے قبل عصر کا وقت نہیں مانتے۔
“
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 551
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:551
551. حضرت انس ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ہم (رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ) نماز عصر ادا کرتے، پھر ہم میں سے کوئی جانے والا قباء تک جاتا، جب اہل قباء کے پاس پہنچتا تو سورج ابھی بلند ہوتا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:551]
حدیث حاشیہ:
قباء کا علاقہ مدینے سے تین میل کے فاصلے پر عوالی میں سے تھا۔
اس سے پہلے روایت (548)
گزری ہے کہ ہم میں سے کوئی آدمی قبیلۂ بنو عمرو بن عوف کے ہاں جاتا۔
یہ قبیلہ قباء کے علاقے میں آباد تھا۔
علامہ کرمانی ؒ ان احادیث کے متعلق لکھتے ہیں:
ان احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ نماز عصر کو جلد از جلد ادا کرلینا چاہیے، کیونکہ نماز عصر پڑھنے کے بعد کئی میل کی مسافت طے کرنا، پھر سورج کی آب وتاب کا قائم رہنا تبھی ہو سکتا ہے، جب اس نماز کو ایک مثل سائے کے وقت پڑھ لیا جائے۔
ایسا صرف بڑے دنوں ہی میں ہوسکتا ہے۔
(شرح الکرماني: 196/4)
ایک حدیث میں ہے، رسول اللہ ﷺ نماز عصر ادا کرنے کے بعد خود عوالی تشریف لے جاتے تو سورج ابھی بلند ہوتا تھا اور عوالی کے بعض علاقے تین یا چار میل کی مسافت پر تھے۔
(صحیح البخاري، الاعتصام، حدیث: 7329)
اس روایت میں امام مالک ؒ کے حوالے سے لفظ '' قباء'' آیا ہے۔
اس کے متعلق بعض محدثین نے کہا ہے کہ یہ امام مالک کا وہم ہے، کیونکہ امام زہری ؒ سے امام مالک کے علاوہ کوئی راوی یہ لفظ بیان نہیں کرتا۔
لیکن درست بات یہ ہے کہ اس لفظ کے بیان کرنے میں امام مالک متفرد نہیں ہیں، پھر جب دیگر روایات میں لفظ عوالی آیا ہے اور قباء بھی عوالی کے علاقہ جات کا ایک حصہ ہے تو لفظ قباء کو وہم سے تعبیر کرنے کے بجائے اسے عوالی کے اجمال کی وضاحت قرار دینا زیادہ موزوں ہے۔
امام بخاری ؒ نے لفظ قباء والی روایت کو دیگر روایات کے بعد بیان کرکے اسی بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ امام مالک کی مذکورہ روایت دیگر روایات کی تفسیر ہے۔
(فتح الباري: 40/2)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 551