موطا امام مالك رواية ابن القاسم
نماز کے مسائل
موذن کی فضیلت
حدیث نمبر: 71
392- وبه: عن أبيه أنه أخبره أن أبا سعيد الخدري قال له: إني أراك تحب الغنم والبادية، فإذا كنت فى غنمك أو باديتكم فأذنت بالصلاة فارفع صوتك، فإنه لا يسمع مدى صوت المؤذن جن ولا إنس ولا شيء إلا شهد له يوم القيامة. قال أبو سعيد الخدري: سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم.
عبداللہ بن عبدالرحمٰن بن ابی صعصعہ الانصاری المازنی رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: میں دیکھتا ہوں کہ تم بکریوں اور جنگل کو پسند کرتے ہو، پس اگر تم اپنی بکریوں یا جنگل میں ہو پھر تم نماز کے لئے اذان کہو تو آواز بلند کرنا کیونکہ مؤذن کی آواز جہان تک پہنچتی ہے اسے جن، انسان یا جو چیز بھی سنے تو وہ قیامت کے دن اس کے لئے گواہی دے گی۔ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔
تخریج الحدیث: «392- الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 69/1، ح 148، ك 3 ب 1 ح 5) التمهيد 223/19، الاستذكار: 127، و أخرجه البخاري (609) من حديث مالك به.»
قال الشيخ زبير على زئي: سنده صحيح
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم کی حدیث نمبر 71 کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 71
تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 609، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ مؤذن کے لئے یہ بڑی فضیلت ہے کہ قیامت کے دن اُس کی آواز سننے والی ہر چیز اس کے حق میں گواہی دے گی۔
➋ اگر ایک ہی حدیث صحیح و حسن سندوں کے ساتھ کسی صحابی سے مرفوعاً اور موقوفاً مروی ہو تو دونوں سندیں صحیح وحسن ہوتی ہیں۔
➌ اکیلے آدمی کے لئے بھی بہتر یہی ہے کہ اذان دے کر نماز پڑھے۔
➍ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «المؤذنون أطول الناس أعناقًا يوم القيامة۔» قیامت کے دن اذان دینے والوں کی گردنیں سب سے لمبی ہوں گی یعنی ان کی بہت زیادہ عزت ہو گی۔ [ديكهئے صحيح مسلم: 387، دارالسلام: 852]
➎ مؤذن کی آواز جتنی بلند ہو گی اتنا ثواب زیادہ ہو گا۔
➏ مسجد میں بہترین قسم کا لاؤڈ سپیکر نصب کر کے اول وقت اذان دینی چاہئے۔
➐ سیدنا سہل بن سعد الساعدی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: دو وقتوں میں آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں اور بہت کم دعا رد ہوتی ہے: نماز کے لئے اذان کے وقت اور اللہ کے راستے میں صف بندی کے وقت۔ [الموطأ 1/70 ح150، وسنده صحيح]
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 392