موطا امام مالك رواية ابن القاسم
غسل کا بیان
دوران غسل بات چیت کرنا
حدیث نمبر: 45
421- وعن أبى النضر أن أبا مرة مولى أم هانئ ابنة أبى طالب أخبره أنه سمع أم هانئ ابنة أبى طالب تقول: ذهبت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم عام الفتح فوجدته يغتسل، وفاطمة ابنة رسول الله صلى الله عليه وسلم تستره بثوب، قالت: فسلمت فقال: ”من هذه؟“ فقلت: أنا أم هانئ ابنة أبى طالب، فقال: ”مرحبا بأم هانئ“ فلما فرغ من غسله قام فصلى ثمان ركعات ملتحفا فى ثوب واحد ثم انصرف، فقلت: يا رسول الله زعم ابن أمي أنه قاتل رجلا أجرته فلان بن هبيرة، فقال: ”قد أجرنا من أجرت يا أم هانئ“ قالت أم هانئ: وذلك ضحى.
سیدہ ام ہانی بنت ابی طالب رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں (مکہ کی) فتح والے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئی تو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غسل فرما رہے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کپڑے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پردہ کر رکھا تھا، تو میں نے سلام کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ کون ہے؟“ میں نے کہا: میں ابوطالب کی بیٹی ام ہانی ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ام ہانی کو خوش آمدید۔“ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے غسل سے فارغ ہوئے تو کھڑے ہو کر ایک کپڑے میں لپٹے ہوئے آپ نے آٹھ رکعات پڑھیں، پھر فارغ ہوئے، تو میں نے کہا: یا رسول اللہ! میری ماں کے بیٹے (سیدنا علی رضی اللہ عنہ) کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ اس آدمی فلاں بن ہبیرہ کو قتل کریں گے جسے میں نے پناہ دے رکھی ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے ام ہانی! جسے تم نے پناہ دی ہے ہم اسے پناہ دیتے ہیں۔“ ام ہانی نے فرمایا: اور یہ چاشت کا وقت تھا۔
تخریج الحدیث: «421- متفق عليه، الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 152/1 ح 356، ك 9 ب 8 ح 28) التمهيد 186/21، الاستذكار: 329 و أخرجه البخاري (357) ومسلم (336/82 بعد ح 819) من حديث مالك به.»
قال الشيخ زبير على زئي: سنده صحيح
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم کی حدیث نمبر 45 کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 45
تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 357، ومسلم 82/336 بعد ح819، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ چاشت کی نماز مسنون ہے۔
➋ نہانے کے دوران میں ضروری باتیں کرنا جائز ہے۔ وضو کرتے ہوئے بھی ضروری بات کی جاسکتی ہے جیسا کہ سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ حدیث سے ثابت ہے۔ دیکھئے [صحيح بخاري ح206]
➌ اگر کوئی مسلمان عورت کسی کافر کو حالت جنگ میں امان دے دے تو اسے تسلیم کیا جائے گا اور اس کافر کی حفاظت کی جائے گی بشرطیکہ مسلمانوں کا امیر اس امان کی تائید وتوثیق کر دے۔ جمہور علماء کے نزدیک عورت کی امان جائز ہے اور یہ مسلمانوں کے امیر کی تائید و توثیق سے مشروط نہیں ہے بلکہ اس کے بغیر بھی جائز ہے۔ واللہ اعلم
➍ لوگوں سے پردے میں غسل کرنا چاہئے۔
➎ آنے والے کو خوش آمدید کہنا مسنون ہے۔
➏ ابن ہسبیرہ کون تھا؟ اس میں اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ جعدہ بن ہسبیرہ تھا۔ واللہ اعلم
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 421