موطا امام مالك رواية ابن القاسم
ایمان و عقائد کے مسائل
اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے
حدیث نمبر: 9
485- مالك عن هلال بن أسامة عن عطاء بن يسار عن عمر بن الحكم أنه قال: أتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلت: يا رسول الله إن جارية لي كانت ترعى غنما لي فجئتها وقد فقدت شاة من الغنم، فسألتها عنها فقالت: أكلها الذئب فأسفت عليها، وكنت من بني آدم فلطمت وجهها، وعلي رقبة أفأعتقها؟ فقال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”أين الله؟“ فقالت: فى السماء، قال لها: ”من أنا؟“ قالت: أنت رسول الله، قال: ”أعتقها“.
سیدنا عمر بن الحکم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر عرض کیا: یا رسول اللہ! میری ایک لونڈی میری بکریاں چراتی تھی۔ جب میں اس کے پاس آیا تو ایک بکری گم تھی۔ میں نے اس کے بارے میں اس سے پوچھا: تو وہ بولی: اسے بھیڑیا کھا گیا ہے۔ مجھے اس پر غصہ آیا اور میں آدم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہوں۔ پس میں نے اس کے چہرے پر تھپڑ مارے۔ مجھ پر ایک غلام آزاد کرنا ضروری ہے، کیا میں اسے آزاد کر دوں؟ پھر (جب وہ اپنی لونڈی لائے تو) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لونڈی سے پوچھا: ”اللہ کہاں ہے؟“ اس نے کہا: آسمان پر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”میں کون ہوں؟“ اس نے کہا: ”آپ اللہ کے رسول ہیں۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے آزاد کر دو۔“
تخریج الحدیث: «485- الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 776/2، 777 ح 1550، ك 38 ب 6 ح 8) التمهيد 75/22، الاستذكار: 1479 و أخرجه النسائي فى الكبريٰ (418/4 ح 7756) من حديث مالك به ورواه مسلم (537) من حديث هلال به وقال: ”معاوية بن الحكم“ وهو الصواب.»
قال الشيخ زبير على زئي: سنده صحيح
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم کی حدیث نمبر 9 کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 9
تحقیق: سندہ صحیح
تخریج:
[الموطا رواية يحييٰ 777، 776/2ح 1550، ك 38 ب 6 ح 8، التمهيد 75/22، الاستدكار: 1479 * و أخرجه النسائي فى الكبريٰ 418/4 ح 7756، من حديث مالك به: ورواه مسلم 537، من حديث هلال به و قال: ”معاوية بن الحكم“ وهوالصواب]
تنبیہ:
روایت مذکورہ میں عمر کے بجائے معاویہ کا لفظ صحیح ہے یعنی اس حدیث کے راوی سیدنا معاویہ بن الحکم السلمی رضی اللہ عنہ ہیں جیسا کہ صحیح مسلم وغیرہ میں لکھا ہوا ہے۔
تفقه:
➊ یہ سوال کرنا کہ ”اللہ کہاں ہے؟“ بالکل صحیح اور سنت ہے بلکہ ایمان کی کسوٹی ہے۔ یاد رہے کہ اس سوال کے جواب میں یہ کہنا کہ ”اللہ ہر جگہ بذاتہ موجود ہے“ غلط ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ سات آسمانوں سے اوپر اپنے عرش پر مستوی ہے۔ «كما يليق بجلاله وشأنه»
➋ اسلام میں یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے کہ مسلمانوں پر چار اماموں (امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی، اور امام أحمد بن حنبل) میں سے صرف ایک امام کی تقلید شخصی واجب ہے اور باقی تینوں کی حرام ہے بلکہ اسلام تو اللہ اور رسول پر ایمان لانے کا نام ہے۔
➌ قرآن مجید اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ اللہ تعالی سات آسمانوں سے اوپر اپنے عرش پرمستوی ہے۔ «كما يليق بجلاله»
➍ اہل سنت والجماعتہ کے اکابر علماء نے اپنی تصانیف میں اللہ تعالی کا عرش پر مستوی ہونا مدلل لکھا ہے مثلا دیکھۓ: صحیح بخاری [كتاب التوحيد باب 22ح7418 تا 7428،] وغیرہ۔ بلکہ بعض علماء نے خاص اس مسئلے علوی باری تعالی پر کتابیں لکھی ہیں مثلا المحدث الصدوق محمد بن عثمان بن ابی شیبہ کی کتاب العرش، حافظ ذہبی رحمہ اللہ کی کتاب العلوللعلی الغفار اور حافظ ابن تیمیہ کا الرسالتہ العرشیہ [مجموع الفتاوٰيٰ 6/ 545۔ 583] وغیرہ۔ اس عقیدے کو امام ابن خزيمة اور اس جیسی دوسری کتابوں میں بھی تفصیلاََ بیان کیا گیا ہے۔
➎ سیدنا عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ایک آسمان سے دوسرے آسمان تک پانچ سو سال کا فاصلہ ہے، زمین اور آسمان کے درمیان پانچ سو سال کا فاصلہ ہے، ساتویں آسمان اور کرسی کے درمیان پانچ سو سال کا فاصلہ ہے، کرسی اور پانی کے درمیان پانچ سو سال کا فاصلہ ہے اور عرش پانی پر ہے اور اللہ عرش پر ہے اور تمھارے اعمال جانتا ہے۔ [كتاب التوحيد لابن خزيمه ص 105 ح 149، و سنده حسن لذاته، عاصم بن ابي النجو والقاري حسن الحديث و باقي السند صحيح]
معلوم ہوا کہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ اللہ تعالی کوبذاتہ ہر جگہ نہیں سمجھتے تھے بلکہ عرش پر مستوی مانتے تھے۔
➏ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے تو سیدنا ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جو شخص محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی عبادت کرتا تھا تو تو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) فوت ہوگئے ہیں اور جو اللہ کی عبادت کرتا تھا تو اللہ آسمان پر زندہ ہے اسے موت نہیں آئے گی۔ [التاريخ الكبير للبخاري 202/1 و سنده حسن، الرد على الجهميه للامام عثمان بن سعد الدارمي: 78]
➐ مشہور تابعی سعید بن جبیررحمہ اللہ کے شاگرد اور مفسر قرآن ضحاک بن مزاحم رحمہ اللہ [متوفي105ه] نے کہا: «هوا فوق العرش و علمه معهم اينما كانوا» وہ عرش پر ہے اور اس کا علم ان کے ساتھ ہے وہ جہاں بھی ہوں۔ [تفسير ابن جرير الطبري ج28ص10، و سنده لعبدلله بن أحمد بن حنبل: 592]
➑ امام عبد اللہ بن المبارک المزوری رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ ھم اپنے رب کو کس طرح پہچانیں؟ تو انہوں نے فرمایا: وہ ساتویں آسمان پر عرش پر ہے، (ذات کے لحاظ سے) جدا ہے۔ [كتاب الرد على الجهميه للامام عثمان بن سعيد الدارمي: 67و سنده صحيح]
امام ابن المبارک رحمہ اللہ نے فرمایا: «نعرف ربنا فوق سبع سموات على العرش استوي بائنا من خلقه ولا نقول كما قالت الجهمية: انه هاهنا۔ واًشار الي الارض۔» ہم جانتے ہیں کہ ہمارارب سات آسمانوں سے اوپرعرش پرمستوی ہے، اپنی مخلوق سے جدا ہے، ہم جہمیوں کی طرح یہ نہیں کہتے کہ وہ یہاں ہے اور انہوں نے زمین کی طرف اشارہ کیا۔ [عقيده السلف واصحاب الحديث للصابوني ص185، 186، سنده صحيح، دوسرا نسخه ص 20 ح28، السماءوالصفات للبيهقي ص427 دوسرا نسخه ص538، تيسرنسخه ص303، محمد بن عبدالرحمنٰ هوالسامي بالسين المهمله]
➒ امام مالک بن انس رحمہ اللہ (صاحب الموطا) نے فرمایا: «الله عز وجل فى السماءعلمه فى كل مكان، لا يخلو من علمه مكان» اللہ عز وجل آسمان پر ہے اور اس کا علم ہر مکان (محیط)، اس کے علم سے کوئی باہر نہیں۔ [الشريعه للاجري ص289ح652 وسنده حسن لذاته، مسائل ابي داودص263]
➓ اس عقیدے کے بارے میں سلف صالحین کے بے شمار اقوال ہیں۔ آخر میں صحیح ابن خزیمہ کے مؤلف امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ کا قول پیشِ خدمت ہے، انہوں نے فرمایا: جو شخص اس کا اقرار نہ کرے کہ اللہ تعالیٰ سات آسمانوں سے اور اپنے عرش پر مستوی ہے تو وہ اپنے رب کا کافر ہے، اسے توبہ کرائی جائے ورنہ اس کی گردن مار دی جائے اور گندگی کے کسی ڈھیر پر پھینک دیا جائے۔ الخ [معرفة علوم الحديث للحاكم ص 84 ح187، و سنده صحيح، دوسرا نسخه ص285]
تنبیہ:
◈ یاد رہے کہ گردن مارنا، قتل کرنا اور سزائیں دینا مسلمان حکمرانوں کا کام ہے۔
اللہ تعالی کے عرش پرمستوی ہونے کے مزید دلائل کیلۓ دیکھئے میری کتاب”علمی مقالات“ [ج1ص13]
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 485