Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

موطا امام مالك رواية ابن القاسم
ایمان و عقائد کے مسائل
مشرک کے لئے معافی نہیں ہے
حدیث نمبر: 2
443- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ((تفتح أبواب ا لجنة يوم الاثنين ويوم الخميس، فيغفر لكل عبد لا يشرك بالله شيئا إلا رجلا كانت بينه وبين أخيه شحناء، فيقال: أنظروا هذين حتى يصطلحا)).
اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنت کے دروازے پیر اور جمعرات کو کھولے جاتے ہیں پھر ہر اس (مسلمان) بندے کی مغفرت کر دی جاتی ہے جو اللہ کے ساتھ کسی چیز میں شرک نہیں کرتا تھا سوائے اس آدمی کے جو اپنے اور اپنے بھائی کے درمیان دشمنی رکھتا ہے۔ پھر کہا جاتا ہے: ان دونوں کو پیچھے ہٹاؤ (مہلت دو) حتیٰ کہ یہ صلح کر لیں۔

تخریج الحدیث: «443- الموطأ (رواية يحيٰي بن يحيٰي 908/2 ح 1751، ك 47 ب 4 ح 17) التمهيد 262/21، الاستذكار: 1683 و أخرجه مسلم (2565) من حديث مالك به»

قال الشيخ زبير على زئي: سنده صحيح

موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم کی حدیث نمبر 2 کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 2  
تخریج الحدیث:
[وأخرجه مسلم 2565، من حديث ما لك به]

تفقه:
➊ کسی شرعی عذر کے بغیر مسلمانوں کا آپس میں بائیکاٹ کرنا حرام ہے۔
➋ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: لوگوں کے اعمال ہر جمعے (یعنی ہر ہفتے) میں دو دفعہ (اللہ تعالی کے سامنے) پیش ہوتے ہیں: سوموار اور جمعرات کو پھر ہر مومن بندے کی مغفرت کر دی جاتی ہے سوائے اس بندے کے جس کی اپنے بھائی سے دشمنی ہو اور کہا جاتا ہے کہ ان دونوں کو چھوڑ دو حتیٰ کہ صلح کریں۔ [الموطأ 909/2 ح 1752، وسنده صحيح ورواه مسلم: 6525 مرفوعاً]
➌ جنت پیدا شدہ موجود ہے اور اس کے (آٹھ) دروازے ہیں۔
➍ مشرک کی بخشش نہیں ہوتی بلکہ جنت اس کے لئے ہمیشہ حرام اور جہنم اس کا ٹھکانا ہے۔
➎ بندے اپنے باہمی حقوق کا آپس میں فیصلہ کر لیں تو الله تعالی بخش دیتا ہے۔
➏ سوموار اور جمعرات کی اہمیت بھی واضح ہو رہی ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان دو دنوں میں روزہ رکھا کرتے تھے۔ دیکھئے: [سنن الترمذي: 745 وسندہ صحیح، 747 وسندہ حسن وصحیح مسلم: 1162، دار السلام: 2750]
تنبیہ:
◄ پیر اور جمعرات کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لوگوں کے اعمال کا پیش کیا جانا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے۔
➐ نیز دیکھئے: [الموطأ حديث: 4، 79، البخاري 6076، 6077، ومسلم 2559، 2560]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 443