Note: Copy Text and Paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ
کتاب: جہاد کا بیان
172. بَابُ فِدَاءِ الْمُشْرِكِينَ:
باب: مشرکین سے فدیہ لینا۔
حدیث نمبر: 3049
وَقَالَ: إِبْرَاهِيمُ بْنُ طَهْمَانَ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ أُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَالٍ مِنْ الْبَحْرَيْنِ فَجَاءَهُ الْعَبَّاسُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَعْطِنِي فَإِنِّي فَادَيْتُ نَفْسِي وَفَادَيْتُ عَقِيلًا، فَقَالَ:" خُذْ فَأَعْطَاهُ فِي ثَوْبِهِ".
اور ابراہیم بن طہمان نے بیان کیا ‘ ان سے عبدالعزیز بن صہیب نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بحرین کا خراج آیا تو عباس رضی اللہ عنہ خدمت نبوی میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! اس مال سے مجھے بھی دیجئیے کیونکہ (بدر کے موقع پر) میں نے اپنا اور عقیل دونوں کا فدیہ ادا کیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر آپ لے لیں چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ان کے کپڑے میں نقدی کو بندھوا دیا۔
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3049 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3049  
حدیث حاشیہ:
والحق أن المال المذکور کان من الخراج أو الجزیة وهما من مال المصالح یعنی وہ مال خراج یا جزیہ کا تھا اس لئے حضرت عباس ؓ کو اس کا لینا جائز ہوا‘ تفصیلی بیان کتاب الجزیہ میں آئے گا۔
إن شاء اللہ تعالیٰ۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3049   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3049  
حدیث حاشیہ:

اس حدیث سے ابن بطال ؒنے یہ ثابت کیا ہے کہ مشرکین کو مال زکاۃ دینا جائز ہے حالانکہ یہ ثبوت محل نظر ہے کیونکہ بحرین سے آمدہ مال زکاۃ کا نہ تھا بلکہ وہ مال خراج یا جزیے کا تھا۔
اس لیے حضرت عباس ؓ کا لینا جائز ہوا۔
کیونکہ وہ مال زکاۃ کے قطعاً حق دار نہ تھے۔

بہر حال امام بخاری ؒ نے اس سے یہ ثابت کیا ہے کہ بوقت ضرورت مشرکین قیدیوں سے مال وغیرہ لے کر انھیں رہائی دی جاسکتی ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3049