Note: Copy Text and to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ
کتاب: جہاد کا بیان
160. بَابُ مَا يَجُوزُ مِنَ الاِحْتِيَالِ وَالْحَذَرِ مَعَ مَنْ يَخْشَى مَعَرَّتَهُ:
باب: اگر کسی سے فساد یا شرارت کا اندیشہ ہو تو اس سے مکر و فریب کر سکتے ہیں۔
حدیث نمبر: 3033
قَالَ اللَّيْثُ: حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّهُ، قَالَ: انْطَلَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَهُ أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ قِبَلَ ابْنِ صَيَّادٍ فَحُدِّثَ بِهِ فِي نَخْلٍ، فَلَمَّا دَخَلَ عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّخْلَ طَفِقَ يَتَّقِي بِجُذُوعِ النَّخْلِ وَابْنُ صَيَّادٍ فِي قَطِيفَةٍ لَهُ فِيهَا رَمْرَمَةٌ فَرَأَتْ أُمُّ ابْنِ صَيَّادٍ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا صَافِ هَذَا مُحَمَّدٌ فَوَثَبَ ابْنُ صَيَّادٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَوْ تَرَكَتْهُ بَيَّنَ".
لیث بن سعد نے بیان کیا ‘ ان سے عقیل نے بیان کیا ‘ ان سے ابن شہاب نے ‘ ان سے سالم بن عبداللہ اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابن صیاد (یہودی بچے) کی طرف جا رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ بھی تھے (ابن صیاد کے عجیب و غریب احوال کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود تحقیق کرنا چاہتے تھے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی گئی تھی کہ ابن صیاد اس وقت کھجوروں کی آڑ میں موجود ہے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں پہنچے تو شاخوں کی آڑ میں چلنے لگے۔ (تاکہ وہ آپ کو دیکھ نہ سکے) ابن صیاد اس وقت ایک چادر اوڑھے ہوئے چپکے چپکے کچھ گنگنا رہا تھا ‘ اس کی ماں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لیا اور پکار اٹھی کہ اے ابن صیاد! یہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) آ پہنچے ‘ وہ چونک اٹھا ‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر یہ اس کی خبر نہ کرتی تو وہ کھولتا (یعنی اس کی باتوں سے اس کا حال کھل جاتا)۔
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3033 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3033  
حدیث حاشیہ:
ابن صیاد مدینہ میں ایک یہودی بچہ تھا‘ جو کاہن اور نجومیوں کی طرح لوگوں کو بہکایا کرتا اور اپنے آپ کو کبھی نبی اور رسول بھی کہنے لگتا‘ وہ بھی ایک قسم کا دجال ہی تھا‘ کیونکہ دجل و فریب اس کا کام تھا۔
حضرت عمرؓ کی رائے اس کے ختم کردینے کی تھی‘ مگر آنحضرتﷺ جو رحمۃ اللعالمین بن کر تشریف لائے تھے آپ نے بہت سی ملکی وملی مصالح کی بنا پر اسے مناسب نہ سمجھا‘ سچ ہے ﴿لَا إِکرَاہَ في الدینِ﴾ (البقرة: 256)
دینی معاملات میں کسی پر زبردستی کرنا جائز نہیں ہے۔
راہ ہدایت دکھلا دینا اللہ و رسول ﷺ کا کام ہے اور اس پر چلانا صرف اللہ کا کام ہے۔
﴿اِنَّكَ لَا تَهدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ اللہَ يَهدِيْ مَنْ يَّشَاءُ﴾ (القصص: 56)
باب کا مطلب اس سے ثابت ہوا کہ آنحضرتﷺ شاخوں کی آڑ میں چل کر ابن صیاد تک پہنچے تاکہ وہ آپ کو دیکھ نہ سکے‘ ابن صیاد نے آپ کے امیوں کے رسول ہونے کی تصدیق کی‘ جس سے اس نے آپ کی رسالت عامہ سے انکار بھی کیا‘ امی کے معنی ان پڑھ کے ہیں۔
اہل عرب میں لکھنے پڑھنے کا رواج نہ تھا۔
اس کے باوجود وہ ہر فن کے ماہر تھے اور بے پناہ قوت حافظہ رکھتے تھے بلکہ ان کو اپنے امی ہونے پر فخر تھا۔
آنحضرتﷺ بھی ان ہی میں پیدا ہوئے اور اللہ پاک نے آپ کو امی ہونے کے باوجود علوم الأولین والآخرین سے مالا مال فرمایا۔
(ﷺ)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3033   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3033  
حدیث حاشیہ:

ابن صیاد مدینہ طیبہ میں ایک یہودی بچہ تھا جو کاہنوں اور نجومیوں کی طرح لوگوں کو بہکایا کرتاتھا۔
اپنے دجل وفریب کی بنا پروہ بھی ایک قسم کا دجال تھا۔
حضرت عمر ؓ کی رائے اسے قتل کردینی کی تھی لیکن رسول اللہ ﷺنے مصلحت کی بنا پر اسے قتل کرنا مناسب خیال نہ کیا، البتہ اس کے حالات کا جائزہ لینے کے لیے شاخوں کی آڑ میں چل کر اس تک پہنچے تاکہ وہ آپ کو دیکھ نہ سکے۔

یہ ایک حیلہ تھا جس کے باعث آپ ابن صیاد اور اس کی ماں کے شر سے بچنے کی کوشش کررہے تھے اگراس کی ماں رسول اللہ ﷺ کی آمد کا انکشاف نہ کرتی اور اسے اپنے حال پر چھوڑدیتی تو ابن صیاد سے متعلق کئی ایک امور کی وضاحت ہوجاتی لیکن:
(ما شاء الله كان و ما لم يشأ لم يكن وَكَانَ أَمْرُ اللَّهِ قَدَرًا مَّقْدُورًا)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3033