سنن ترمذي
كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: فضائل و مناقب
19. باب فِي مَنَاقِبِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رضى الله عنه
باب: عثمان بن عفان رضی الله عنہ کے مناقب کا بیان
حدیث نمبر: 3705
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا حُجَيْنُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَامِرٍ، عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " يَا عُثْمَانُ إِنَّهُ لَعَلَّ اللَّهَ يُقَمِّصُكَ قَمِيصًا , فَإِنْ أَرَادُوكَ عَلَى خَلْعِهِ فَلَا تَخْلَعْهُ لَهُمْ ". وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ طَوِيلَةٌ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”اے عثمان! شاید اللہ تمہیں کوئی کرتا
۱؎ پہنائے، اگر لوگ اسے اتارنا چاہیں تو تم اسے ان کے لیے نہ اتارنا
“، اس میں حدیث ایک طویل قصہ ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن غریب ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/المقدمة 11 (111) (تحفة الأشراف: 17675) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس کرتے سے مراد خلعت خلافت (خلافت کی چادر) ہے، مفہوم یہ ہے کہ اگر منافقین تمہیں خلافت سے دستبردار ہونے کو کہیں اور اس سے معزول کرنا چاہیں تو ایسا مت ہونے دینا کیونکہ اس وقت تم حق پر قائم رہو گے اور دستبرداری کا مطالبہ کرنے والے باطل پر ہوں گے، اللہ کے رسول کے اسی فرمان کے پیش نظر عثمان رضی الله عنہ نے شہادت کا جام پی لیا۔ لیکن دستبردار نہیں ہوئے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (112)
سنن ترمذی کی حدیث نمبر 3705 کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3705
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس کرتے سے مراد خلعت خلافت (خلافت کی چادر) ہے،
مفہوم یہ ہے کہ اگر منافقین تمہیں خلافت سے دستبردار ہونے کو کہیں اور اس سے معزول کرنا چاہیں تو ایسا مت ہونے دینا کیوں کہ اس وقت تم حق پر قائم رہو گے اور دستبرداری کا مطالبہ کرنے والے باطل پر ہوں گے،
اللہ کے رسولﷺ کے اسی فرمان کے پیش نظر عثمان رضی اللہ عنہ نے شہادت کا جام پی لیا۔
لیکن دستبردار نہیں ہوئے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3705
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث112
´عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے فضائل و مناقب۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے عثمان! اگر اللہ تعالیٰ کبھی تمہیں اس امر یعنی خلافت کا والی بنائے، اور منافقین تمہاری وہ قمیص اتارنا چاہیں جو اللہ تعالیٰ نے تمہیں پہنائی ہے، تو اسے مت اتارنا“، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات تین بار فرمائی۔ نعمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا: پھر آپ نے یہ بات لوگوں کو بتائی کیوں نہیں؟ تو وہ بولیں: میں اسے بھلا دی گئی تھی ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/باب فى فضائل اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 112]
اردو حاشہ:
(1)
اس میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو ابتللا پیش آنے کی خبر ہے۔
جو اسی طرح پیش آئی جیسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا۔
یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی دلیل ہے۔
(2)
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ خلیفہ برحق تھے۔
(3)
ملک کا حکمران جب نظم و نسق سنبھالے ہوئے ہو، تو معمولی حیلے بہانوں سے اس کے خلاف تحریک چلا کر فتنہ و فساد برپا کرنا درست نہیں۔
اِلَّا یہ کہ وہ کفر و شرک کو تقویت دینے اور اسلام کے ضعف جیسے جرائم کا مرتکب ہو۔
(4)
اس میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے مخالفین کے منافق ہونے کی صراحت ہے۔
(5)
راوی کا بعض احادیث میں غلطی کر جانا یا بھول جانا اسے ضعیف قرار دینے کے لیے کافی نہیں، خصوصاً جب کہ اسے بعد میں یاد آ جائے اور وہ اصلاح کر لے، البتہ جس شخص سے بکثرت غلطی ہوتی ہو، تو وہ حافظہ کی کمزوری کی وجہ سے ضعیف قرار پاتا ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 112