سنن ترمذي
كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: فضائل و مناقب
18. باب فِي مَنَاقِبِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضى الله عنه
باب: عمر بن خطاب رضی الله عنہ کے مناقب کا بیان
حدیث نمبر: 3690
حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ، قَال: سَمِعْتُ بُرَيْدَةَ، يَقُولُ: خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَعْضِ مَغَازِيهِ فَلَمَّا انْصَرَفَ جَاءَتْ جَارِيَةٌ سَوْدَاءُ , فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي كُنْتُ نَذَرْتُ إِنْ رَدَّكَ اللَّهُ سَالِمًا أَنْ أَضْرِبَ بَيْنَ يَدَيْكَ بِالدُّفِّ وَأَتَغَنَّى، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنْ كُنْتِ نَذَرْتِ فَاضْرِبِي وَإِلَّا فَلَا "، فَجَعَلَتْ تَضْرِبُ، فَدَخَلَ أَبُو بَكْرٍ وَهِيَ تَضْرِبُ، ثُمَّ دَخَلَ عَلِيٌّ وَهِيَ تَضْرِبُ، ثُمَّ دَخَلَ عُثْمَانُ وَهِيَ تَضْرِبُ، ثُمَّ دَخَلَ عُمَرُ , فَأَلْقَتِ الدُّفَّ تَحْتَ اسْتِهَا , ثُمَّ قَعَدَتْ عَلَيْهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ الشَّيْطَانَ لَيَخَافُ مِنْكَ يَا عُمَرُ، إِنِّي كُنْتُ جَالِسًا وَهِيَ تَضْرِبُ فَدَخَلَ أَبُو بَكْرٍ وَهِيَ تَضْرِبُ , ثُمَّ دَخَلَ عَلِيٌّ وَهِيَ تَضْرِبُ , ثُمَّ دَخَلَ عُثْمَانُ وَهِيَ تَضْرِبُ , فَلَمَّا دَخَلْتَ أَنْتَ يَا عُمَرُ أَلْقَتِ الدُّفَّ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ حَدِيثِ بُرَيْدَةَ، وَفِي الْبَابِ عَنْ عُمَرَ , وَسَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ , وَعَائِشَةَ.
بریدہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کسی غزوہ میں نکلے، پھر جب واپس آئے تو ایک سیاہ رنگ کی
(حبشی) لونڈی نے آ کر کہا: اللہ کے رسول! میں نے نذر مانی تھی کہ اگر اللہ نے آپ کو بخیر و عافیت لوٹایا تو میں آپ کے سامنے دف بجاؤں گی اور گانا گاؤں گی، تو رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا:
”اگر تو نے نذر مانی تھی تو بجا لے ورنہ نہیں
“ ۱؎، چنانچہ وہ بجانے لگی، اسی دوران ابوبکر رضی الله عنہ اندر داخل ہوئے اور وہ بجاتی رہی، پھر علی رضی الله عنہ داخل ہوئے اور وہ بجاتی رہی، پھر عثمان رضی الله عنہ داخل ہوئے اور وہ بجاتی رہی، پھر عمر رضی الله عنہ داخل ہوئے تو انہیں دیکھ کر اس نے دف اپنی سرین کے نیچے ڈال لی اور اسی پر بیٹھ گئی، یہ دیکھ کر رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”عمر! تم سے شیطان بھی ڈرتا ہے
۲؎، میں بیٹھا ہوا تھا اور وہ بجا رہی تھی، اتنے میں ابوبکر اندر آئے تو بھی وہ بجاتی رہی، پھر علی اندر آئے تو بھی وہ بجاتی رہی، پھر عثمان اندر آئے تو بھی وہ بجاتی رہی، پھر جب تم داخل ہوئے اے عمر! تو اس نے دف پھینک ڈالی
“ ۳؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- بریدہ کی روایت سے یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،
۲- اس باب میں عمر، سعد بن ابی وقاص اور عائشہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 1967)، و مسند احمد (5/353) (صحیح)»
وضاحت:
۱؎: اگر منکر (حرام) کی نذر نہ مانی ہو تو نذر پوری کرنی واجب ہے، اس لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اپنی نذر پوری کرنے کی اجازت دے دی کیونکہ اس کام میں کوئی ممنوع بات نہیں تھی۔
۲؎: اس حدیث سے عمر فاروق رضی الله عنہ کی بڑی فضیلت کے ساتھ ساتھ ان کے لیے ”عصمت“ (شیطان اور گناہوں سے بچاؤ) بھی ثابت ہو رہی ہے، حالانکہ ”عصمت“ انبیاء کی خصوصیت ہے، اس سلسلے میں بقول حافظ ابن حجر: عصمت انبیاء کے لیے واجب ہے، جبکہ کسی امتی کے لیے بطور امکان کے ہے جو عمر رضی الله عنہ کو حاصل ہوئی۔
۳؎: مطلب یہ ہے کہ ایک گانے والی لونڈی تو کیا، شیطان بھی عمر رضی الله عنہ سے بھاگ کھڑا ہوتا ہے، حتیٰ کہ اس راستے سے شیطان بھاگ کھڑا ہوتا، جس راستے سے عمر رضی الله عنہ گزرے رہے ہوتے ہیں۔قال الشيخ الألباني: صحيح نقد الكتانى (47 - 48)
سنن ترمذی کی حدیث نمبر 3690 کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3690
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اگر منکر (حرام) کی نذر نہ مانی ہو تو نذر پوری کرنی واجب ہے،
اس لیے نبی اکرمﷺنے اس کو اپنی نذر پوری کرنے کی اجازت دے دی کیونکہ اس کام میں کوئی ممنوع بات نہیں تھی۔
2؎:
اس حدیث سے عمرفاروق رضی اللہ عنہ کی بڑی فضیلت کے ساتھ ساتھ ان کے لیے ”عصمت“ (شیطان اورگناہوں سے بچاؤ) بھی ثابت ہو رہی ہے،
حالانکہ ”عصمت “ انبیاء کی خصوصیت ہے،
اس سلسلے میں بقول حافظ ابن حجر: عصمت انبیاء کے لیے واجب ہے،
جبکہ کسی امتی کے لیے بطورامکان کے ہے جو عمر رضی اللہ عنہ کو حاصل ہوئی۔
3؎:
مطلب یہ ہے کہ ایک گانے والی لونڈی تو کیا شیطان بھی عمر رضی اللہ عنہ سے بھاگ کھڑا ہوتا ہے،
حتی کہ اس راستے سے شیطان بھاگ کھڑا ہوتا،
جس راستے سے عمر گزرے رہے ہوتے ہیں۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3690