Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ
کتاب: جہاد کا بیان
146. بَابُ أَهْلِ الدَّارِ يُبَيَّتُونَ فَيُصَابُ الْوِلْدَانُ وَالذَّرَارِيُّ:
باب: اگر (لڑنے والے) کافروں پر رات کو چھاپہ ماریں اور بغیر ارادہ کے عورتیں، بچے بھی زخمی ہو جائیں تو پھر کچھ قباحت نہیں ہے۔
حدیث نمبر: 3013
وَعَنْ الزُّهْرِيِّ أَنَّه سمِعَ عُبَيْدَ اللَّهِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، حَدَّثَنَا الصَّعْبُ فِي الذَّرَارِيِّ كَانَ عَمْرٌو يُحَدِّثُنَا عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَمِعْنَاهُ مِنَ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ الصَّعْبِ، قَالَ:" هُمْ مِنْهُمْ وَلَمْ يَقُلْ كَمَا، قَالَ: عَمْرٌو هُمْ مِنْ آبَائِهِمْ".
(سابقہ سند کے ساتھ) زہری سے روایت ہے کہ انہوں نے عبیداللہ سے سنا بواسطہ ابن عباس رضی اللہ عنہما اور ان سے صعب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ‘ اور صرف «ذراري» (بچوں) کا ذکر کیا ‘ سفیان نے کہا کہ عمرو ہم سے حدیث بیان کرتے تھے۔ ان سے ابن شہاب ‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے، (سفیان نے) بیان کیا کہ پھر ہم نے حدیث خود زہری (ابن شہاب) سے سنی۔ انہوں نے بیان کیا کہ مجھے عبیداللہ نے خبر دی، انہیں ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اور انہیں صعب رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (مشرکین کی عورتوں اور بچوں کے متعلق کہ) وہ بھی انہیں میں سے ہیں۔ (زہری کے واسطہ سے) جس طرح عمرو نے بیان کیا تھا کہ «هم من آبائهم» وہ بھی انہیں کے باپ دادوں کی نسل ہیں۔ زہری نے خود ہم سے ان الفاظ کے ساتھ بیان نہیں کیا یعنی «هم من آبائهم» نہیں کہا بلکہ «هم منهم» کہا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3013 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3013  
حدیث حاشیہ:
اسلام کا حکم یہ ہے کہ لڑائی میں عورتوں بچوں یا بوڑھوں کو کوئی تکلیف نہ پہنچائی جائے۔
حضرت امام بخاری ؒیہاں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اگر رات کے وقت مسلمان ان پر حملہ آور ہوں تو ظاہر ہے کہ اندھیرے میں عورتوں بچوں کی تمیز مشکل ہو جائے گی۔
اب اگر یہ قتل ہو جاتے ہیں تو یہ کوئی گناہ نہیں ہوگا۔
شریعت کا مقصد صرف یہ ہے کہ قصداً اور ارادہ کرکے عورتوں‘ بچوں یا لڑائی وغیرہ سے عاجز بوڑھوں کو لڑائی میں کوئی تکلیف نہ پہنچائی جائے اور نہ انہیں قتل کیا جائے لیکن اگر حالت مجبوری ہو تو ظاہر ہے کہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہیں۔
چراگاہ سے متعلق عربوں کا قاعدہ تھا‘ کہیں آباد اور سرسبز جنگل میں پہنچتے تو کتے کو اشارہ کرتے وہ بھونکتا جہاں تک اس کے بھونکنے کی آواز جاتی وہ جنگل بطور چراگاہ اپنے لئے محفوظ کرلیتے‘ کوئی دوسرا اپنا جانور اس میں نہ چرا سکتا۔
آنحضرتﷺ نے یہ طریق جو سراسر ظلم ہے موقوف کیا اور فرمایا کہ محفوظ چراگاہ اللہ یا اس کے رسولﷺ کا ہوسکتا ہے۔
اور امام یا حاکم بھی رسول ﷺ کا قائم مقام ہے‘ دوسرے لوگ کوئی چراگاہ محفوظ نہیں کرسکتے‘ یہ اسلامی عہد کی بات ہے۔
آج کل حکومتیں چراگاہوں کے لئے خود قطعات چھوڑ دیتی ہیں جو عام پبلک کے لئے ہوتی ہیں کہ وہ ان میں مقررہ ٹیکس ادا کرکے اپنے جانوروں کو چراتے ہیں۔
اسلام کی یہ اہم خوبی ہے کہ اس نے تمدنی‘ معاشرتی‘ اقتصادی‘ سیاسی زندگی کا ایک مکمل ترین ضابطہ حیات پیش کیا ہے۔
دین کامل کی یہی شان تھی۔
سچ ہے ﴿وَمَنْ يَّبْتَـغِ غَيْرَ الْاِسْلَامِ دِيْنًا فَلَنْ يُّقْبَلَ مِنْہُ وَھُوَفِي الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ﴾ (آل عمران: 85)
صدق اللہ تبارك وتعالیٰ قال النووي أطفالھم فیما یتعلق بالآخرة فبھم ثلاث مذاهب قال الأکثرون ھم في النار تبع لآبائھم وتوقف طائفة والثالث وھو الصحیح أنھم من أھل الجنة قاله الکرماني۔
(نووی)
یعنی مشرکین کے بچوں کے بارے میں اکثر علماء کا خیال ہے کہ اپنے والدین کے تابع ہونے کی وجہ سے دوزخی ہیں۔
ایک جماعت اس میں توقف کرتی ہے اور تیسرا مذہب یہ ہے کہ وہ جنتی ہیں اور یہی صحیح ہے۔
واللہ أعلم۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3013   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3013  
حدیث حاشیہ:

اسلام کا یہ ضابطہ ہے کہ دوران جنگ میں عورتوں،بچوں اور بوڑھوں کو کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچائی جائے لیکن اگر رات کے وقت مسلمان،مشرکین پر حملہ آور ہوں تو اندھیرے میں بچوں اورعورتوں کی تمیز مشکل ہوجاتی ہے،ایسے حالات میں اگربچے اور عورتیں مارے جائیں تو اس میں کوئی حرج نہیں،البتہ جان بوجھ کر بچوں،عورتوں اور بوڑھوں کو قتل کرنا درست نہیں۔

مذکورہ حکم شب خون کی صورت میں ہے کیونکہ رات کے اندھیرے میں مردوں کا بچوں اور عورتوں سے امتیاز نہیں ہوسکتا۔
اگربچے اورعورتیں جنگ میں شریک ہوں یا مشرکین انھیں بطور ڈھال استعمال کریں تو پھر انھیں قتل کردینے میں کوئی حرج نہیں۔
اس پر تمام امت کااتفاق ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3013