صحيح البخاري
كِتَاب الْحَيْضِ
کتاب: حیض کے احکام و مسائل
1. بَابُ كَيْفَ كَانَ بَدْءُ الْحَيْضِ:
باب: اس بیان میں کہ حیض کی ابتداء کس طرح ہوئی۔
وَقَوْلُ اللَّهِ تَعَالَى: وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ إِلَى قَوْلِهِ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ. [سورة البقرة آية 222] وَقَوْلُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذَا شَيْءٌ كَتَبَهُ اللَّهُ عَلَى بَنَاتِ آدَمَ. وَقَالَ بَعْضُهُمْ: كَانَ أَوَّلُ مَا أُرْسِلَ الْحَيْضُ عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: وَحَدِيثُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَكْثَرُ.
اور اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی تفسیر میں: ”اور تجھ سے پوچھتے ہیں حکم حیض کا، کہہ دے وہ گندگی ہے۔ سو تم عورتوں سے حیض کی حالت میں الگ رہو۔ اور نزدیک نہ ہو ان کے جب تک پاک نہ ہو جائیں۔ (یعنی ان کے ساتھ جماع نہ کرو) پھر جب خوب پاک ہو جائیں تو جاؤ ان کے پاس جہاں سے حکم دیا تم کو اللہ نے (یعنی قبل میں جماع کرو دبر میں نہیں) بیشک اللہ پسند کرتا ہے توبہ کرنے والوں کو اور پسند کرتا ہے پاکیزگی (صفائی و ستھرائی) حاصل کرنے والوں کو“ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ یہ ایک ایسی چیز ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے آدم کی بیٹیوں کی تقدیر میں لکھ دیا ہے۔ بعض اہل علم نے کہا ہے کہ سب سے پہلے حیض بنی اسرائیل میں آیا۔ ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث تمام عورتوں کو شامل ہے۔
صحیح بخاری کی حدیث نمبر Q294 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري Q294
� تشریح:
یعنی ”آدم کی بیٹیوں“ کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل سے پہلے بھی عورتوں کو حیض آتا تھا۔ اس لیے حیض کی ابتدا کے متعلق یہ کہنا کہ بنی اسرائیل سے اس کی ابتدا ہوئی صحیح نہیں، حضرت امام بخاری رحمہ اللہ قدس سرہ نے جو حدیث یہاں بیان کی ہے۔ اس کو خود انہوں نے اسی لفظ سے آگے ایک باب میں سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔ «وقال بعضهم» سے حضرت عبداللہ بن مسعود اور سیدہ عائشہ مراد ہیں۔ ان کے اثروں کو عبدالرزاق نے نکالا ہے، عجب نہیں کہ ان دونوں نے یہ حکایت بنی اسرائیل سے لے کر بیان کی ہو۔ قرآن شریف میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بیوی سارہ کے حال میں ہے کہ «فضحكت» جس سے مراد بعض نے لیا ہے کہ ان کو حیض آ گیا اور ظاہر ہے کہ سارہ بنی اسرائیل سے پہلے تھیں، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اسرائیل پر یہ بطور عذاب دائمی کے بھیجا گیا ہو۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 9999