سنن ترمذي
كتاب الدعوات عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: مسنون ادعیہ و اذکار
79. باب مِنْهُ
باب:۔۔۔
حدیث نمبر: 3499
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى الثَّقَفِيُّ الْمَرْوَزِيُّ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَابِطٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، قَالَ: قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّ الدُّعَاءِ أَسْمَعُ؟ قَالَ: " جَوْفَ اللَّيْلِ الْآخِرِ، وَدُبُرَ الصَّلَوَاتِ الْمَكْتُوبَاتِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي ذَرٍّ، وَابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " جَوْفُ اللَّيْلِ الْآخِرُ الدُّعَاءُ فِيهِ أَفْضَلُ أَوْ أَرْجَى أَوْ نَحْوَ هَذَا ".
ابوامامہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ پوچھا گیا: اے اللہ کے رسول! کون سی دعا زیادہ سنی جاتی ہے؟ آپ نے فرمایا:
”آدھی رات کے آخر کی دعا
(یعنی تہائی رات میں مانگی ہوئی دعا) اور فرض نمازوں کے اخیر میں
“ ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن ہے،
۲- ابوذر اور ابن عمر رضی الله عنہما نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:
”رات کے آخری حصہ میں دعا سب سے بہتر ہے، یا اس کے قبول ہونے کی امیدیں زیادہ ہیں یا اسی جیسی کوئی اور بات آپ نے فرمائی
“۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة 45 (108) (تحفة الأشراف: 4892) (حسن) (تراجع الالبانی 108)»
وضاحت: ۱؎: «دبر الصلوات» کے معنی نماز کے بعد یعنی سلام کے بعد بھی ہو سکتے ہیں اور ”نماز کے اخیر میں سلام سے پہلے“ بھی ہو سکتے ہیں، اور یہ دوسرا معنی زیادہ قرین صواب ہے، کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رضی الله عنہ کو اسی وقت دعا زیادہ قبول ہونے کے بارے میں بتایا تھا، نیز بندہ اللہ سے پہلے زیادہ قریب ہوتا ہے کیونکہ وہ نماز میں ہوتا ہے بنسبت سلام کے بعد کے۔
قال الشيخ الألباني: حسن، التعليق الرغيب (2 / 276) ، الكلم الطيب (113 / 70 / التحقيق الثاني)
قال الشيخ زبير على زئي: (3499) إسناده ضعيف
عبدالرحمن بن سابط لم يسمع من أبى أمامة رضى الله عنه (انظر جامع التحصيل للعلائي ص 222)
سنن ترمذی کی حدیث نمبر 3499 کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3499
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
”دُبرالصلاۃ“ کے معنی نماز کے بعد یعنی سلام کے بعد بھی ہو سکتے ہیں اور”نماز کے اخیر میں سلام سے پہلے“ بھی ہو سکتے ہیں،
اور یہ دوسرا معنی زیادہ قرین صواب ہے،
کیونکہ اللہ کے رسول ﷺ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اسی وقت دعاء زیادہ قبول ہونے کے بارے میں بتایا تھا،
نیز بندہ اللہ سے پہلے زیادہ قریب ہوتا ہے کیونکہ وہ نماز میں ہوتا ہے بنسبت سلام کے بعد کے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3499
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 573
´عصر کے بعد نماز کی ممانعت کا بیان۔`
ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے سنا کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا کوئی ایسی گھڑی ہے جس میں دوسری گھڑیوں کی بنسبت اللہ تعالیٰ کا قرب زیادہ ہوتا ہو، یا کوئی ایسا وقت ہے جس میں اللہ کا ذکر مطلوب ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں، اللہ عزوجل بندوں کے سب سے زیادہ قریب رات کے آخری حصہ میں ہوتا ہے، اگر تم اس وقت اللہ عزوجل کو یاد کرنے والوں میں ہو سکتے ہو تو ہو جاؤ، کیونکہ فجر میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں، اور سورج نکلنے تک رہتے ہیں، (پھر چلے جاتے ہیں) کیونکہ وہ شیطان کے دونوں سینگوں کے درمیان نکلتا ہے، اور یہ کافروں کی نماز کا وقت ہے، لہٰذا (اس وقت) تم نماز نہ پڑھو، یہاں تک کہ سورج نیزہ کے برابر بلند ہو جائے، اور اس کی شعاع جاتی رہے پھر نماز میں فرشتے حاضر ہوتے، اور موجود رہتے ہیں یہاں تک کہ ٹھیک دوپہر میں سورج نیزہ کی طرح سیدھا ہو جائے، تو اس وقت بھی نماز نہ پڑھو، یہ ایسا وقت ہے جس میں جہنم کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں، اور وہ بھڑکائی جاتی ہے، تو اس وقت بھی نماز نہ پڑھو یہاں تک کہ سایہ لوٹنے لگ جائے، پھر نماز میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں، اور موجود رہتے ہیں یہاں تک کہ سورج ڈوب جائے، کیونکہ وہ شیطان کی دو سینگوں کے درمیان ڈوبتا ہے، اور وہ کافروں کی نماز کا وقت ہے۔“ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 573]
573 ۔ اردو حاشیہ:
➊اگرچہ وقت ہونے کے لحاظ سے تمام اوقات برابر ہیں مگر اللہ تعالیٰ کی رحمت کے قرب اور بعد کے لحاظ سے ان میں فرق پڑجاتا ہے، جیسے آدھی رات کے بعد اللہ کی رحمت قریب آجاتی ہے حتیٰ کہ تہائی رات باقی رہ جائے تواللہ تعالیٰ خود آسمان دنیا پر تشریف لاتا ہے، اس لیے یہ وقت خصوصی قرب کا وقت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «علیکم بقیام اللیل فانه دأب الصالحین قبلکم» ”رات میں قیام کیا کرو، یہ تم سے پہلے بھی نیک لوگوں کی عادت رہی ہے۔“ [جامع الترمذي، الدعوات، حدیث: 3549، وصحیح الترغیب للألباني: 3؍399]
➋اس روایت سے نماز کے لیے تین اوقات مکروہ ثابت ہوتے ہیں: طلوع شمس، استواءِ شمس اور غروب شمس، جب کہ دیگر روایات میں بعد ازعصر جبکہ سورج زردی مائل ہو چکا ہو جیسا کہ اگلی حدیث میں اس کی تحقیق آرہی ہے اور بعد ازصبح بھی نماز سے روکا گیا ہے۔ سب روایات پر عمل ضروری ہے۔
➌عبادت میں کفار کی مشابہت اختیار کرنا منع ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 573
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1277
´ان لوگوں کی دلیل جنہوں نے سورج بلند ہو تو عصر کے بعد دو رکعت سنت پڑھنے کی اجازت دی ہے۔`
عمرو بن عبسہ سلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! رات کے کس حصے میں دعا زیادہ قبول ہوتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رات کے آخری حصے میں، اس وقت جتنی نماز چاہو پڑھو، اس لیے کہ ان میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور فجر پڑھنے تک (ثواب) لکھے جاتے ہیں، اس کے بعد سورج نکلنے تک رک جاؤ یہاں تک کہ وہ ایک یا دو نیزے کے برابر بلند ہو جائے، اس لیے کہ سورج شیطان کی دو سینگوں کے درمیان نکلتا ہے اور کافر (سورج کے پجاری) اس وقت اس کی پوجا کرتے ہیں، پھر تم جتنی نماز چاہو پڑھو، اس لیے کہ اس نماز میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور (ثواب) لکھے جاتے ہیں، یہاں تک کہ جب نیزے کا سایہ اس کے برابر ہو جائے تو ٹھہر جاؤ، اس لیے کہ اس وقت جہنم دہکائی جاتی ہے اور اس کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، پھر جب سورج ڈھل جائے تو تم جتنی نماز چاہو پڑھو، اس لیے کہ اس وقت بھی فرشتے حاضر ہوتے ہیں، یہاں تک کہ تم عصر پڑھ لو تو سورج ڈوبنے تک ٹھہر جاؤ، اس لیے کہ وہ شیطان کی دو سینگوں کے بیچ ڈوبتا ہے، اور کافر اس کی پوجا کرتے ہیں“، انہوں نے ایک لمبی حدیث بیان کی۔ عباس کہتے ہیں: ابوسلام نے اسی طرح مجھ سے ابوامامہ کے واسطہ سے بیان کیا ہے، البتہ نادانستہ مجھ سے جو بھول ہو گئی ہو تو اس کے لیے میں اللہ سے مغفرت طلب کرتا ہوں اور اس کی طرف رجوع ہوتا ہوں۔ [سنن ابي داود/كتاب التطوع /حدیث: 1277]
1277۔ اردو حاشیہ:
اس حدیث میں تین اوقات میں نماز پڑھنا ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ نماز فجر کے بعد، عین نصف النہار (زوال) کے وقت اور نماز عصر کے بعد۔ دیگر احادیث میں ہے کہ سورج کے طلوع اور غروب ہونے کے وقت بھی نماز ممنوع ہے۔ دیکھیے: [صحيح مسلم، صلاة المسافرين، حديث: 831]
ان میں سے عین نصف النہار (زوال) اور سورج کے طلوع و غروب ہونے کے اوقات خاص ممنوع اوقات ہیں جبکہ فجر اور عصر کے بعد سببی نمازیں پڑھی جا سکتی ہیں۔
بعض علماء اس بات کے قائل ہیں کہ جمعہ کے دن زوال کے وقت بھی نوافل پڑھے جا سکتے ہیں لیکن اس کی بابت جتنی بھی روایات آتی ہیں، وہ سب ضعیف ہیں۔ اس لیے جمعہ کا اختصاص صحیح نہیں۔
امام ابن تیمیہ اور امام ابن القیم نے بھی مذکورہ احادیث کی وجہ سے یہی موقف اختیار کیا ہے کہ جمعہ کے دن زوال کے وقت نوافل کی ادائیگی صحیح ہے۔ دیکھیے: [مجموعة فتاويٰ ابن تيمية: 12/120، بتحقيق عامر الجزار، انور الباز، زادالمعاد: 1/378، بتحقيق شعيب الأرناؤوط]
شیخ البانی رحمہ اللہ بھی اسی کے قائل ہیں۔ دیکھیے: [الأجو بة النافعة ‘ص: 34‘ 35]
لیکن ان حضرات کے موقف کی کوئی مضبوط بنیاد نہیں ہے، اس لیے جمعہ کے دن بھی زوال کے وقت نوافل پڑھنا صحیح نہیں ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1277