سنن ترمذي
كتاب الدعوات عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: مسنون ادعیہ و اذکار
33. باب مَا يَقُولُ فِي سُجُودِ الْقُرْآنِ
باب: سجدہ تلاوت میں آدمی کیا پڑھے؟
حدیث نمبر: 3425
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ الْحَذَّاءُ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: " كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي سُجُودِ الْقُرْآنِ بِاللَّيْلِ: سَجَدَ وَجْهِي لِلَّذِي خَلَقَهُ وَشَقَّ سَمْعَهُ وَبَصَرَهُ بِحَوْلِهِ وَقُوَّتِهِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم رات کے وقت سجدہ تلاوت میں پڑھتے تھے:
«سجد وجهي للذي خلقه وشق سمعه وبصره بحوله وقوته» ”میرا چہرہ اس کے آگے سجدہ ریز ہوا جس نے اسے اپنی قدرت و قوت سے پیدا کیا، جس نے اسے سننے کے لیے کان اور دیکھنے کے لیے آنکھیں دیں
“۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 580 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (1035) ، صحيح أبي داود (1274)
قال الشيخ زبير على زئي: (3425) ضعيف / تقدم:580
سنن ترمذی کی حدیث نمبر 3425 کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3425
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
میرا چہرہ اس کے آگے سجدہ ریز ہوا جس نے اسے اپنی قدرت وقوت سے پیدا کیا،
جس نے اسے سننے کے لیے کان اور دیکھنے کے لیے آنکھیں دیں۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3425
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1130
´سجدے کی ایک اور دعا۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رات کو تلاوت قرآن کے سجدوں میں کہتے: «سجد وجهي للذي خلقه وشق سمعه وبصره بحوله وقوته» ”میرے چہرہ نے سجدہ کیا اس ذات کے لیے جس نے اسے پیدا کیا، اور اس کے کان اور اس کی آنکھیں اپنی قوت و طاقت سے بنائیں۔“ [سنن نسائي/كتاب التطبيق/حدیث: 1130]
1130۔ اردو حاشیہ: مذکورہ روایت کو محقق کتاب نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے اور مزید لکھا ہے اس حدیث کا شاہد صحیح مسلم وغیرہ میں ہے۔ بنابریں معلوم ہوا کہ مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود شواہد کی بنا پر صحیح اور قابل عمل ہے۔ واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1130
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1414
´سجدہ تلاوت میں کیا پڑھے؟`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات میں قرآن کے سجدوں میں کئی بار «سجد وجهي للذي خلقه وشق سمعه وبصره بحوله وقوته» یعنی ”میرے چہرے نے اس ذات کو سجدہ کیا جس نے اپنی قوت و طاقت سے اسے پیدا کیا اور اس کے کان اور آنکھ بنائے“ کہتے تھے۔ [سنن ابي داود/كتاب سجود القرآن /حدیث: 1414]
1414. اردو حاشیہ: یہ روایت سندا ضعیف ہے۔ تاہم شیخ البانی ؒ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ لیکن ہمارے محقق ؒ فرماتے ہیں۔ کہ اس میں ایک راوی مجہول ہے۔ جسے امام ابو دائود نے عن رجل کہا ہے۔ اس لئے یہ روایت ضعیف ہے۔ جبکہ یہی دعا صحیح مسلم میں بھی ہے۔ لیکن وہاں اسے سجدہ نماز میں پڑھنے کا ذکر ہے۔ نہ کہ سجدہ قرآن میں (دیکھئے صحیح مسلم صلاۃ المسافرین حدیث 771) نیز امام نسائی ؒ بھی اس دعا کو اپنی سنن میں لائے ہیں۔ لیکن انہوں نے بھی اسے سجدے کی دُعائوں میں مختلف الفاظ سے ذکر کیا ہے۔ (دیکھئے سنن نسائی۔ الدعا فی السجود) البتہ امام دائود ؒ امام ترمذیؒ امام ابن خزیمہ ؒ اور امام ابن ماجہ ؒ نے اسے سجدہ تلاوت کے باب میں ذکر کیا ہے۔ ابودائود کی روایت کی سند ضعیف ہے۔ کیونکہ اس میں ایک راوی ہے۔ جسے امام ابو دائود ؒ نے عن رجل کہا ہے۔ اسی علت کی بنا پر امام ابن خزیمہ ؒ نے بھی اسے ضعیف کہا ہے۔ (دیکھئے صحیح ابن خزیمہ: 283/1، 284) سنن ترمذی کی روایت بھی ضعیف ہے۔ کیونکہ خالد الحذاء کا ابو العالیہ سے سماع ثابت نہیں۔ (دیکھئے سنن ترمذی الصلاۃ حدیث 580) اور سنن ابن ماجہ ؒ کی روایت صحیح تو ہے۔ لیکن وہ بھی مطلق سجدے کی دعا ہے۔ حدیث میں صراحت نہیں ہے۔ کہ اسے سجدہ تلاوت میں پڑھا جائے۔ لیکن امام ابن ماجہ ؒ نے اسے سجدہ تلاوت کی دعا کے باب میں درج کیا ہے۔ علاوہ ازیں یہ روایت بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ اور صحیح مسلم کی روایت مطلق سجدے والی بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بھی مطلق سجدے کے بارے میں مروی ہے۔ (دیکھئے صحیح مسلم۔ صلاۃ المسافرین حدیث 771 اور سنن ابن ماجہ اقامۃ الصلوات حدیث 1054) سجدہ تلاوت کی صحیح دعا جو ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ اسے امام ترمذی ؒ امام نووی ؒ اور حافظ ابن حجر ؒ نے حسن کہا ہے۔ (فتوحات ربانیہ 276/2) امام ابن خزیمہ ؒ ابن حبان ؒ حاکمؒ ذہبی ؒ اور شیخ احمد شاکرؒ نے صحیح قرار دیا ہے۔ اور شیخ البانی ؒ نے بھی حسن کہا ہے۔ یہ دعا ابتداء میں سجدہ تلاوت کے احکام ومسائل میں درج ہے۔ ان دلائل کی روشنی میں دوسری دعا پڑھنا ہی بہتر ہے۔ ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1414