سنن ترمذي
كتاب الدعوات عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: مسنون ادعیہ و اذکار
7. باب مَا جَاءَ فِي الْقَوْمِ يَجْلِسُونَ فَيَذْكُرُونَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ مَا لَهُمْ مِنَ الْفَضْلِ
باب: ایک جگہ بیٹھ کر ذکر الٰہی کرنے والوں کی فضیلت کا بیان۔
حدیث نمبر: 3379
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مَرْحُومُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ الْعَطَّارُ، حَدَّثَنَا أَبُو نَعَامَةَ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: خَرَجَ مُعَاوِيَةُ إِلَى الْمَسْجِدِ، فَقَالَ: مَا يُجْلِسُكُمْ؟ قَالُوا: جَلَسْنَا نَذْكُرُ اللَّهَ، قَالَ: آللَّهِ مَا أَجْلَسَكُمْ إِلَّا ذَاكَ، قَالُوا: وَاللَّهِ مَا أَجْلَسَنَا إِلَّا ذَاكَ، قَالَ: أَمَا إِنِّي لَمْ أَسْتَحْلِفْكُمْ تُهْمَةً لَكُمْ، وَمَا كَانَ أَحَدٌ بِمَنْزِلَتِي مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقَلَّ حَدِيثًا عَنْهُ مِنِّي، إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ عَلَى حَلْقَةٍ مِنْ أَصْحَابِهِ، فَقَالَ: " مَا يُجْلِسُكُمْ؟ " قَالُوا: جَلَسْنَا نَذْكُرُ اللَّهَ وَنَحْمَدُهُ لِمَا هَدَانَا لِلْإِسْلَامِ وَمَنَّ عَلَيْنَا بِهِ، فَقَالَ: " آللَّهِ مَا أَجْلَسَكُمْ إِلَّا ذَاكَ؟ " قَالُوا: آللَّهِ مَا أَجْلَسَنَا إِلَّا ذَاكَ، قَالَ: " أَمَا إِنِّي لَمْ أَسْتَحْلِفْكُمْ لِتُهْمَةٍ لَكُمْ، إِنَّهُ أَتَانِي جِبْرِيلُ فَأَخْبَرَنِي أَنَّ اللَّهَ يُبَاهِي بِكُمُ الْمَلَائِكَةَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَأَبُو نَعَامَةَ السَّعْدِيُّ اسْمُهُ عَمْرُو بْنُ عِيسَى، وَأَبُو عُثْمَانَ النَّهْدِيُّ اسْمُهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُلٍّ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ معاویہ رضی الله عنہ مسجد گئے
(وہاں بیٹھے ہوئے لوگوں سے) پوچھا: تم لوگ کس لیے بیٹھے ہو؟ ان لوگوں نے کہا: ہم یہاں بیٹھ کر اللہ کو یاد کرتے ہیں، معاویہ رضی الله عنہ نے کہا: کیا! قسم اللہ کی! تم کو اسی چیز نے یہاں بٹھا رکھا ہے؟ انہوں نے کہا: قسم اللہ کی، ہم اسی مقصد سے یہاں بیٹھے ہیں، معاویہ رضی الله عنہ نے کہا: میں نے تم لوگوں پر کسی تہمت کی بنا پر قسم نہیں کھلائی ہے
۱؎، رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس میرے جیسا مقام و منزلت رکھنے والا کوئی شخص مجھ سے کم
(ادب و احتیاط کے سبب) آپ سے حدیثیں بیان کرنے والا نہیں ہے۔
(پھر بھی میں تمہیں یہ حدیث سنا رہا ہوں) رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے پاس گئے وہ سب دائرہ لگا کر بیٹھے ہوئے تھے، ان سے کہا: کس لیے بیٹھے ہو؟ انہوں نے کہا: ہم یہاں بیٹھ کر اللہ کا ذکر کرتے ہیں، اللہ نے ہمیں اسلام کی طرف جو ہدایت دی ہے، اور مسلمان بنا کر ہم پر جو احسان فرمایا ہے ہم اس پر اس کا شکریہ ادا کرتے ہیں، اور اس کی حمد بیان کرتے ہیں، آپ
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”کیا واقعی؟! قسم ہے تمہیں اسی چیز نے یہاں بٹھا رکھا ہے؟
“ انہوں نے کہا: قسم اللہ کی، ہمیں اسی مقصد نے یہاں بٹھایا ہے، آپ نے فرمایا:
”میں نے تمہیں قسم اس لیے نہیں دلائی ہے، میں نے تم لوگوں پر کسی تہمت کی بنا پر قسم نہیں کھلائی ہے، بات یہ ہے کہ جبرائیل علیہ السلام میرے پاس آئے اور انہوں نے مجھے بتایا اور خبر دی کہ اللہ تعالیٰ تمہارے ذریعہ فرشتوں پر فخر کرتا ہے
“۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الذکر والدعاء 11 (2701)، سنن النسائی/القضاة 37 (5428) (تحفة الأشراف: 11416)، و مسند احمد (4/92) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی: بات یہ نہیں ہے کہ میں آپ لوگوں کی ثقاہت کے بارے میں مطمئن نہیں ہوں اس لیے قسم کھلائی ہے، بلکہ خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح صحابہ سے قسم لے کر یہ حدیث بیان فرمائی تھی، اسی اتباع میں، میں نے بھی آپ لوگوں کو قسم کھلائی ہے، حدیثوں کی روایت کا یہ بھی ایک انداز ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس کیفیت کے ساتھ حدیث بیان کی ہوتی ہے، صحابہ سے لے کر اخیر سند تک کے ساری راوی اسی طرح روایت کرتے ہیں، اس سے حدیث کی صحت پر اور زیادہ یقین بڑھ جاتا ہے (اور خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کسی شک و شبہ کی بنا پر ان سے قسم نہیں لی تھی، بلکہ بیان کی جانے والی بات کی اہمیت جتانے کے لیے ایک اسلوب اختیار کیا تھا)۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
سنن ترمذی کی حدیث نمبر 3379 کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3379
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی:
بات یہ نہیں ہے کہ میں آپ لوگوں کی ثقاہت کے بارے میں مطمئن نہیں ہوں اس لیے قسم کھلائی ہے،
بلکہ خود آپﷺنے اسی طرح صحابہ سے قسم لیکر یہ حدیث بیان فرمائی تھی،
اسی اتباع میں،
میں نے بھی آپ لوگوں کو قسم کھلائی ہے،
حدیثوں کی روایت کا یہ بھی ایک انداز ہے کہ نبی اکرمﷺ نے جس کیفیت کے ساتھ حدیث بیان کی ہوتی ہے،
صحابہ سے لے کر اخیر سند تک کے سارے راوی اسی طرح روایت کرتے ہیں،
اس سے حدیث کی صحت پر اور زیادہ یقین بڑھ جاتا ہے (اور خود آپﷺنے بھی کسی شک وشبہ کی بنا پران سے قسم نہیں لی تھی،
بلکہ بیان کی جانے والی بات کی اہمیت جتانے کے لیے ایک اسلوب اختیارکیا تھا)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3379
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5428
´حاکم قسم (حلف) کیسے لے؟`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے حلقے کی طرف نکل کر آئے اور فرمایا: ”کیوں بیٹھے ہو؟“ وہ بولے: ہم بیٹھے ہیں، اللہ سے دعا کر رہے ہیں، اس کا شکر ادا کر رہے ہیں کہ اس نے ہمیں اپنے دین کی ہدایت بخشی اور آپ کے ذریعے ہم پر احسان فرمایا، آپ نے فرمایا: ”اللہ کی قسم! ۲؎ تم اسی لیے بیٹھے ہو؟“ وہ بولے: اللہ کی قسم! ہم اسی لیے بیٹھے ہیں، آپ نے فرمایا: ”سنو، میں نے تم سے قسم اس لیے نہی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب آداب القضاة/حدیث: 5428]
اردو حاشہ:
(1) امام نسائی ؒ نے جو باب قائم کیا ہے اس کا مقصد قسم اٹھوانے کی کیفیت بیان کرنا ہے کہ قسم کن الفاظ سے اٹھوائی جائے گی۔
(2) اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا اور عظمت و بزرگی بیان کرنے کے لیے مسجد انتہائی موزوں ومناسب جگہ ہوتی ہے۔ وہاں نہ تو خرید و فروخت جائز ہے اور نہ دیگر عام گپ شپ لگانا ہی درست ہے بلکہ وہاں اللہ کا ذکر اور اس کی تسبیح و تحمید ہی کی جانی مشروع ہے۔ انسان کو وہاں بیٹھ کر اللہ تعالیٰ کے انعامات و احسانات یاد کر کے اس کا شکر ادا کرنا چاہیے۔
(3) مومن کی شان یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بن کر رہے‘ ایک تو اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اسلام کی ہدایت عطا فرمائی اور دوسرا اس لیے کہ اسے محمد رسول اللہ ﷺ کا امتی بنایا۔ اہل ایمان کے لیے اس سے بڑی عظمت اور اس سے بڑھ کر فخر کی اور کیا بات ہو سکتی ہے کہ وہ ﴿كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ﴾ (اٰل عمران: 3:110) اور ﴿جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا﴾ (البقرة: 2:143) کا مصداق قرار پائے۔
(4) درس و تدریس اور وعظ وذکر کی مجالس یقینًا نہایت پسندیدہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں پر فخر کرتا ہے بدعی اور شرکیہ مجالس اس کے برعکس اللہ کی ناراضی کا باعث ہوں گی۔
(5) آپ کا مقصود یہ ہے کہ میں نے تمھارے فعل کی اہمیت کے پیش نظر تم سے قسم لی ہے‘ نہ کہ شک و شبہ کی بنا پر۔
(6) حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے نام کی قسم لینی چاہیے اور صرف اتنا کافی ہے۔ بعض لوگ قسم کے الفاظ میں تغلیظ کے قائل ہیں‘ یعنی کہ ساتھ اللہ تعالیٰ کے اوصاف بھی ملائے جائیں تا کہ قسم کی عظمت جاگزین ہو جائے اور قسم کھانے والا جھوٹی قسم نہ کھائے۔ ظاہر ہے اس میں کوئی حرج نہیں بلکہ یہ بھی وعظ کے قائم مقام ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5428
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6857
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسجد میں قائم ایک حلقہ میں پہنچے اورپوچھا،تم لوگ یہاں کیوں یا کس لیے بیٹھے ہو؟ وہ بولے کہ ہم اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے بیٹھے ہیں۔ سیدنا معاویہ ؓ نے کہا اللہ کی قسم! کیا تم اسی لئے بیٹھے ہو؟ انہوں نے کہا کہ اللہ کی قسم! صرف اللہ کے ذکر کے لئے بیٹھے ہیں۔ سیدنا معاویہ ؓ نے کہا کہ میں نے تمہیں اس لئے قسم نہیں دی کہ تمہیں جھوٹا سمجھا اور میرا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:6857]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
يباهي لكم:
تمہاری تعریف و توصیف کر رہا ہے،
تمہارے اعمال حسنہ فرشتوں کو بتا کر فخر و مباہات کا اظہار فرما رہا ہے۔
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے معلوم ہوا،
کسی کو اسلام و ہدایت کا نصیب ہو جانا،
اللہ تعالیٰ کی توفیق و عنایت پر موقوف ہے اور یہ اس کا احسان و انعام ہے اور اس کے اس انعام کو یاد کر کے اللہ کی حمدوثناء بیان کرنا یہ بھی اللہ کے ذکر میں داخل ہے اور اللہ کے کچھ بندوں کا کہیں اکٹھے بیٹھ کر اخلاص کے ساتھ اس کو یاد کرنا،
اس کی باتیں کرنا،
اس کی حمدوثناء کرنا،
اللہ تعالیٰ کو بےحد پسند ہے اور اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کی اپنے مقرب فرشتوں کے سامنے تعریف و توصیف بیان کرتا ہے اور اپنی رضا مندی کا اظہار فرماتا ہے،
اللہ تعالیٰ اپنی توفیق و عنایت سے ہمیں بھی اپنے ان مخلص بندوں میں داخل فرمائے اور اپنی مغفرت،
رحمت،
سکینت اور رضا مندی سے نوازے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6857