Note: Copy Text and Paste to word file

سنن ترمذي
كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: تفسیر قرآن کریم
75. باب وَمِنْ سُورَةِ إِذَا السَّمَاءُ انْشَقَّتْ
باب: سورۃ «إذا السماء انشقت» سے بعض آیات کی تفسیر۔
حدیث نمبر: 3337
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الْأَسْوَدِ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَنْ نُوقِشَ الْحِسَابَ هَلَكَ "، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ اللَّهَ يَقُولُ: فَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتَابَهُ بِيَمِينِهِ إِلَى قَوْلِهِ يَسِيرًا سورة الانشقاق آية 7 ـ 8 قَالَ: " ذَلِكِ الْعَرْضُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الْأَسْوَدِ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، نَحْوَهُ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبَانَ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، نَحْوَهُ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: جس سے حساب کی جانچ پڑتال کر لی گئی وہ ہلاک (برباد) ہو گیا، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اللہ تو فرماتا ہے «فأما من أوتي كتابه بيمينه» سے «يسيرا» جس کو کتاب دائیں ہاتھ میں ملی اس کا حساب آسانی سے ہو گا (الانشقاق: ۷-۸)، تک آپ نے فرمایا: وہ حساب و کتاب نہیں ہے، وہ تو صرف نیکیوں کو پیش کر دینا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- ہم سے بیان کیا سوید بن نصر نے وہ کہتے ہیں: ہمیں خبر دی عبداللہ بن مبارک نے، اور وہ روایت کرتے ہیں عثمان بن اسود سے اسی سند کے ساتھ اسی طرح،
۳- ہم سے بیان کیا محمد بن ابان اور کچھ دیگر لوگوں نے انہوں نے کہا کہ ہم سے بیان کیا عبدالوہاب ثقفی نے اور انہوں نے ایوب سے، ایوب نے ابن ابوملیکہ سے اور ابن ابی ملیکہ نے عائشہ کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح روایت کی۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 2426 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح وقد مضى برقم (2556)
سنن ترمذی کی حدیث نمبر 3337 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3337  
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
جس کو کتاب دائیں ہاتھ میں ملی اس کا حساب آسانی سے ہو گا (الانشقاق: 7-8)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3337   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 103  
´ کوئی بات سمجھ میں نہ آئے تو شاگرد استاد سے دوبارہ سہ بارہ پوچھ لے`
«. . . أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَتْ لَا تَسْمَعُ شَيْئًا لَا تَعْرِفُهُ إِلَّا رَاجَعَتْ فِيهِ حَتَّى تَعْرِفَهُ . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی عائشہ رضی اللہ عنہا جب کوئی ایسی باتیں سنتیں جس کو سمجھ نہ پاتیں تو دوبارہ اس کو معلوم کرتیں تاکہ سمجھ لیں . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ: 103]
تشریح:
یہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے شوق علم اور سمجھ داری کا ذکر ہے کہ جس مسئلہ میں انہیں الجھن ہوتی، اس کے بارے میں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بے تکلف دوبارہ دریافت کر لیا کرتی تھیں۔ اللہ کے یہاں پیشی تو سب کی ہو گی، مگر حساب فہمی جس کی شروع ہو گئی وہ ضرور گرفت میں آ جائے گا۔ حدیث سے ظاہر ہوا کہ کوئی بات سمجھ میں نہ آئے تو شاگرد استاد سے دوبارہ سہ بارہ پوچھ لے، مگر کٹ حجتی کے لیے بار بار غلط سوالات کرنے سے ممانعت آئی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 103   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6536  
6536. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتی ہیں کہ آپ نے فرمایا: جس کا حساب کے وقت مناقشہ ہوا تو اس کوضرور عذاب ہوگا۔ سیدہ عائشہ‬ ؓ ک‬ہتی ہیں کہ میں نے کہا: کیا اللہ تعالٰی یہ نہیں فرماتا: عنقریب ان سے ہلکا حساب لیاجائے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اس سے مراد تو صرف پیشی ہے۔ مجھ سے عمرو بن علی نے بیان کیا ان سے یحییٰ نے، ان سے عثمان بن اسود نے انہوں نے کہا: میں نے ابن ابی ملکیہ سے سنا، انہوں نے کہا: میں نے سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے سنا انہوں نے فرمایا: میں نے نبی ﷺ سے ایسا ہی سنا۔ اس روایت کی متابعت ابن جریج محمد بن سلیم، ایوب اور صالح بن رستم نے کی، انہوں نے ابن ابی ملکیہ سے، انہوں نے سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے انہوں نے نبی ﷺ سے بیان کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6536]
حدیث حاشیہ:
عثمان بن اسود کے ساتھ اس حدیث کو ابن جریج اور محمد بن سلیم اور ایوب سختیانی بن رستم نے بھی ابن ابی ملیکہ سے اور انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے۔
ابن جریج اور محمد بن سلیم کی روایتوں کو ابو عوانہ نے اپنی صحیح میں اور ایوب سختیانی کی روایت کو امام بخاری نے تفسیر میں اور صالح کی روایت کو اسحاق بن راہویہ نے اپنی مسند میں وصل کیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6536   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3093  
´عورتوں کی عیادت (بیمار پرسی) کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں قرآن مجید کی سب سے سخت آیت کو جانتی ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ کون سی آیت ہے اے عائشہ!، انہوں نے کہا: اللہ کا یہ فرمان «من يعمل سوءا يجز به» جو شخص کوئی بھی برائی کرے گا اسے اس کا بدلہ دیا جائے گا (سورۃ النساء: ۱۲۳)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عائشہ تمہیں معلوم نہیں جب کسی مومن کو کوئی مصیبت یا تکلیف پہنچتی ہے تو وہ اس کے برے عمل کا بدلہ ہو جاتی ہے، البتہ جس سے محاسبہ ہو اس کو عذاب ہو گا۔‏‏‏‏ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الجنائز /حدیث: 3093]
فوائد ومسائل:

اس حدیث کے علاوہ دیگر احادیث سے ثابت ہے۔
کہ دنیا کی بیماریاں اور تمام طرح کے دکھ اور تکالیف حتیٰ کہ نزع روح کی اذیت عذاب قبر اور میدان حشر کے المناک احوال سبھی کچھ مومنین کےلئے گناہوں کا کفارہ اور بلندی درجات کا باعث ہوں گے۔
اور اہل ایمان کا ایک طبقہ ان تکالیف کے باعث پاک صاف ہوکر جنت میں داخل کیا جائے گا۔


تھوڑے لوگ ہوں گے۔
جن سے اللہ تعالیٰ میدان حشر میں ہم کلام ہوگا۔
پھر یا تو انہیں خصوصی مغفرت سے بہرہ ور فرمائے گا۔
یا معاندین قسم کے لوگوں کو سخت ترین عذاب سے دو چار کرے گا۔
جب کہ باقی لوگوں کا حساب اور وزن وغیرہ عمومی انداز میں ہوگا۔
اور یہ کوئی آسان مرحلہ نہ ہوگا۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3093   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7229  
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں:میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی وفات سے تین دن پہلے یہ فرماتے ہوئے سنا:"تم میں سے ہر شخص کو اسی حالت میں موت آئے کہ وہ اللہ کے متعلق حسن ظن رکھتا ہو۔" [صحيح مسلم، حديث نمبر:7229]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
زندگی میں انسان پر رجا اور امید کی بجائے خوف وخشیت کا غلبہ ہونا چاہیے تاکہ وہ گناہوں اور بد اعمالیوں سے پرہیز کر سکے اور زیادہ سے زیادہ اچھے عمل کر سکے،
لیکن جب موت کا وقت آئے اور انسان سمجھے کہ اب میرا بچنا مشکل ہے تو پھر اپنے اعمال کی بجائے،
اللہ کی رحمت ومغفرت کا امید وار ہو اور خوف وخشیت پر امید ورجا کا غلبہ ہو،
کیونکہ انسان اللہ کی رحمت کا محتاج ہے اور اس کی رحمت کے سبب ہی عمل قبول ہوں گے(اور گناہوں سے بخشش ملے گی،
)

   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7229   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:103  
103. ابن ابی ملیکہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ سیدہ عائشہ‬ ؓ ج‬ب کوئی ایسی بات سنتیں جسے سمجھ نہ پاتیں تو دوبارہ پوچھتیں تاکہ سمجھ لیں۔ نبی ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن جس سے محاسبہ ہوا، اسے عذاب دیا جائے گا۔ تو اس پر حضرت عائشہ‬ ؓ ن‬ے عرض کیا: اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے:اس کا حساب آسانی سے لیا جائے گا۔ آپ نے فرمایا: (یہ حساب نہیں ہے) بلکہ اس سے مراداعمال کی پیشی ہے، لیکن جس سے حساب میں جانچ پڑتال کی گئی وہ یقینا ہلاک ہو جائے گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:103]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ تعلیم دین کی افادیت ایک اور پہلو سے اجاگر فرماتے ہیں کہ اگر شاگرد اپنے استاد کی بات اچھی طرح نہ سمجھ سکا ہو تو اسے چاہیے کہ اپنی تسلی کے لیے دوبارہ پوچھ لے، مقاصد کے پیش نظر ایسا کرنا قابل تحسین ہے۔
اس میں استاد کے متعلق سوء ادبی کا پہلو نہیں نکلتا اور نہ اس سے کوئی ناگواری ہونی چاہیے نیز اس میں شاگرد کی تحقیر بھی نہیں اس لیے دوبارہ پوچھنے سے حیا کرنا مناسب نہیں۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی عادت تھی کہ اگر کوئی بات سمجھ میں نہ آتی تو اسے دوبارہ پوچھ لیا کرتی تھیں اور جب تک سمجھ نہیں لیتی تھیں پوچھتی رہتیں۔
اس سے دوبارہ سوال کرنے کا مقصد بھی واضح ہوجاتا ہے کہ اس قسم کا استفسار صرف اطمینان حاصل کرنے کے لیے ہے۔
تعنت کے طور پر (بال کی کھال اتارنے کے لیے)
سوال کرنے کی اجازت کسی صورت میں نہیں ہے۔

صدیقہ کائنات کے سوال اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب سے معلوم ہوتا ہے کہ حساب کی دو اقسام ہیں ہیں:
ایک حساب مناقشہ جس کا دوسرا نام حساب عرفی ہے۔
اس کی صورت یہ ہوگی کہ بندے کی کوتاہیوں کو پیش کرنے کے بعد اسے یہ بھی کہا جائے گا کہ تونے ایسا کیوں کیا؟ یہ باز پرسں خود اتنا بڑا عذاب اور اس قدر سخت مرحلہ ہوگا کہ رب کائنات کے مناقشے کے بعد انسان کے دل و دماغ کی تمام قوتیں معطل ہو جائیں گی، یہی اس کی تباہی و بربادی اور حشر سامانی ہوگی، اس کے لیے عذاب نار ضروری نہیں ہے۔
حساب کی دوسری قسم حساب یسیر ہے جس کا دوسرا نام حساب لغوی ہے۔
اس میں بندے کے گناہوں کو صرف پیش کیا جائے گا۔
اور ساتھ ہی اسے معافی کا پروانہ دے دیا جائے گا۔
جس کی وجہ سے بندہ اپنے اہل خانہ کی طرف خوش و خرم لوٹے گا۔
(الإنشقاق: 84: 9)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کا عموم صدیقہ کائنات رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے سوال کا باعث ہوا۔
اسی طرح کا ایک اشکال حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو بھی پیش آیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا کہ اہل بدر اور اہل حدیبیہ میں سے کوئی بھی جہنم میں نہیں جائے گا۔
حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے دریافت فرمایا کہ قرآن کریم سے تو معلوم ہوتا ہے کہ جہنم سے ہر ایک کو واسطہ پڑے گا؟ پھر قرآن کریم کی یہ آیت تلاوت کی تم میں سے کوئی نہیں جس کا اس (جہنم)
پر سے گزر نہ ہو۔
(مریم19: 71)
اس کے جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کا اگلا حصہ پڑھ کر سنا دیا:
پھر ہم ان لوگوں کو نجات دیں گے جو ڈرگئے اور ظالموں کو گھٹنوں کے بل اس میں گرا رہنے دیں گے۔
(مسند احمد: 6/ 258،362)
اس سے معلوم ہوا کہ رشد و ہدایت کے لیے عربی دانی یا صاحب قرآن سے بالا قرآن فہمی کافی نہیں بلکہ یہ انداز سراسر ضلالت پر مبنی ہے۔
(فتح الباري: 260/1)
مزید برآں یہ کہ اگر دینی مسئلے میں کسی کو اشکال ہو تو سوال کے ذریعے سے اس کاحل تلاش کرنا چاہیے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 103   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6537  
6537. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: جس شخص سے بھی قیامت کے دن حساب لیا گیا تو وہ ہلاک ہوا۔ میں نے کہا: اللہ کے رسول! کیا اللہ تعالٰی نے خود نہیں فرمایا: جس شخص کا نامہ اعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دیا گیا تو عنقریب اس سے آسان حساب لیا جائے گا؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اس سے مراد تو اعمال کا پیش کیا جانا ہے قیامت کے دن جس کا باریک بینی سے محاسبہ ہوا تو اسے یقیناً عذاب سے دو چار ہونا پڑے گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6537]
حدیث حاشیہ:
(1)
حساب کتاب کے وقت جس انسان پر جرح و قدح کی گئی کہ تو نے یہ کام کیوں کیا اور یہ کام کیوں چھوڑا تو ایسے انسان کی تباہی یقینی ہے، البتہ حساب يسير خوش بختی کی علامت ہے جیسا کہ ایک حدیث میں اس کی وضاحت ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے بعض نمازوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ دعا کرتے سنا:
اے اللہ! میرا حساب آسان فرما۔
میں نے عرض کی:
اللہ کے رسول! آسان حساب کا مطلب کیا ہے؟ آپ نے فرمایا:
اے عائشہ! آسان حساب یہ ہے کہ بندے کے نامۂ اعمال پر سرسری نظر ڈالی جائے اور اس سے درگزر کی جائے۔
عائشہ! جس کے حساب میں باریک بینی سے کام لیا گیا اور اس دن جرح و قدح کی گئی تو وہ ہلاک ہو جائے گا۔
(مسند أحمد: 48/6) (2)
حدیث نجوی میں بھی یہی مضمون بیان ہوا ہے، چنانچہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تم میں سے کوئی شخص اپنے رب کے قریب ہو گا اللہ تعالیٰ اس پر اپنا پردہ ڈال کر فرمائے گا:
تو نے فلاں، فلاں عمل کیا تھا؟ بندہ ہاں میں جواب دے کر ان کا اقرار کرے گا، پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا:
میں نے دنیا میں تجھ پر پردہ ڈالا تھا اور آج بھی تجھے معاف کرتا ہوں۔
(صحیح البخاري، التوحید، حدیث: 7514)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6537