سنن ترمذي
كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: تفسیر قرآن کریم
55. باب وَمِنْ سُورَةِ الرَّحْمَنِ
باب: سورۃ الرحمن سے بعض آیات کی تفسیر۔
حدیث نمبر: 3291
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ وَاقِدٍ أَبُو مُسْلِمٍ السَّعْدِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ زُهَيْرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أَصْحَابِهِ، فَقَرَأَ عَلَيْهِمْ سُورَةَ الرَّحْمَنِ مِنْ أَوَّلِهَا إِلَى آخِرِهَا، فَسَكَتُوا، فَقَالَ: " لَقَدْ قَرَأْتُهَا عَلَى الْجِنِّ لَيْلَةَ الْجِنِّ فَكَانُوا أَحْسَنَ مَرْدُودًا مِنْكُمْ، كُنْتُ كُلَّمَا أَتَيْتُ عَلَى قَوْلِهِ: فَبِأَيِّ آلاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ سورة الرحمن آية 13 قَالُوا: لَا بِشَيْءٍ مِنْ نِعَمِكَ رَبَّنَا نُكَذِّبُ فَلَكَ الْحَمْدُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ الْوَلِيدِ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ زُهَيْرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، قَالَ أَحْمَدُ ابْنُ حَنْبَلٍ: كَأَنَّ زُهَيْرَ بْنَ مُحَمَّدٍ الَّذِي وَقَعَ بِالشَّامِ لَيْسَ هُوَ الَّذِي يُرْوَى عَنْهُ بِالْعِرَاقِ كَأَنَّهُ رَجُلٌ آخَرُ قَلَبُوا اسْمَهُ، يَعْنِي لِمَا يَرْوُونَ عَنْهُ مِنَ الْمَنَاكِيرِ، وَسَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيل الْبُخَارِيَّ يَقُولُ: أَهْلُ الشَّامِ يَرْوُونَ عَنْ زُهَيْرِ بْنِ مُحَمَّدٍ مَنَاكِيرَ، وَأَهْلُ الْعِرَاقِ يَرْوُونَ عَنْهُ أَحَادِيثَ مُقَارِبَةً.
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے پاس آئے اور ان کے سامنے سورۃ الرحمن شروع سے آخر تک پڑھی، لوگ
(سن کر) چپ رہے، آپ نے کہا: میں نے یہ سورۃ اپنی جنوں سے ملاقات والی رات میں جنوں کو پڑھ کر سنائی تو انہوں نے مجھے تمہارے بالمقابل اچھا جواب دیا، جب بھی میں پڑھتا ہوا آیت
«فبأي آلاء ربكما تكذبان» پر پہنچتا تو وہ کہتے
«لا بشيء من نعمك ربنا نكذب فلك الحمد» ”اے ہمارے رب! ہم تیری نعمتوں میں سے کسی نعمت کا بھی انکار نہیں کرتے، تیرے ہی لیے ہیں ساری تعریفیں
“ ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے ولید بن مسلم کی روایت کے سوا جسے وہ زہیر بن محمد سے روایت کرتے ہیں، اور کسی سے نہیں جانتے،
۲- احمد بن حنبل کہتے ہیں: زہیر بن محمد جو شام میں ہیں، وہ زہیر نہیں جن سے اہل عراق روایت کرتے ہیں تو ان وہ دوسرے آدمی ہیں، لوگوں نے ان کا نام اس وجہ سے تبدیل کر دیا ہے
(تاکہ لوگ ان کا نام نہ جان سکیں) کیونکہ لوگ ان سے منکر احادیث بیان کرتے تھے،
۳- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ اہل شام زہیر بن محمد سے مناکیر
(منکر احادیث) روایت کرتے ہیں، اور اہل عراق ان سے صحیح احادیث روایت کرتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 3017) (حسن)»
وضاحت: ۱؎: «فبأي آلاء ربكما تكذبان» کا جملہ پوری سورت میں ۳۱ بار آیا ہے، تو کیا اس حدیث پر عمل کرتے ہوئے نماز میں مقتدی امام کے جواب میں ۳۱ بار ایسا کہیں گے؟ وہ بھی زور سے، ایسا سلف سے کوئی تعامل مروی نہیں ہے، اس لیے اس کا مطلب: یا تو یہ ہے کہ نماز سے باہر جب سنیں تو ایسا جواب دیں، یا نماز میں ایک بار جواب دیں کافی ہو گا، اس بارے میں امام احمد کا فتوی ہے کہ اپنے دل میں سرّاً کہہ لے (مغنی) اور زیادہ صرف نوافل اور سنن میں اس طرح کے جواب کے قائل ہیں۔
قال الشيخ الألباني: حسن، الصحيحة (2150)
قال الشيخ زبير على زئي: (3291) إسناده ضعيف
الوليد بن مسلم مدلس (د 415) وكان يدلس تدليس التسوية ولم يصرح بالسماع المسلسل وللحديث شاھد ضعيف عند البزار (كشف الأستار 74/3 ح 2269) و ابن جرير الطبري (72/27)
سنن ترمذی کی حدیث نمبر 3291 کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3291
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
﴿فَبِأَيِّ آلائِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ﴾ کا جملہ پوری سورت میں 31 بار آیا ہے،
تو کیا اس حدیث پرعمل کرتے ہوئے نماز میں مقتدی امام کے جواب میں31 بار ایسا کہیں گے؟ وہ بھی زور سے،
ایسا سلف سے کوئی تعامل مروی نہیں ہے،
اس لیے اس کا مطلب:
یا تو یہ ہے کہ نماز سے باہرجب سنیں تو ایسا جواب دیں،
یا نماز میں ایک بار جواب دیں کافی ہو گا،
اس بارے میں امام احمد کا فتوی ہے کہ اپنے دل میں سرّاً کہہ لے (مغنی) اور زیادہ ترعلماء صرف نوافل اور سنن میں اس طرح کے جواب کے قائل ہیں۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3291