Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ
کتاب: جہاد کا بیان
121. بَابُ مَا قِيلَ فِي لِوَاءِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2974
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ، قَالَ: حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُقَيْلٌ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي ثَعْلَبَةُ بْنُ أَبِي مَالِكٍ الْقُرَظِيُّ،" أَنَّ قَيْسَ بْنَ سَعْدٍ الْأَنْصَارِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، وَكَانَ صَاحِبَ لِوَاءِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" أَرَادَ الْحَجَّ فَرَجَّلَ".
ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے لیث نے بیان کیا، کہا کہ مجھے عقیل نے خبر دی، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، انہیں ثعلبہ بن ابی مالک قرظی نے خبر دی کہ قیس بن سعد انصاری رضی اللہ عنہ نے، جو جہاد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علمبردار تھے، جب حج کا ارادہ کیا تو (احرام باندھنے سے پہلے) کنگھی کی۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2974 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2974  
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ جہاد میں علم نبوی اٹھایا جاتا تھا۔
اور اس کے اٹھانے والے قیس بن سعد انصاری ؓ ہوا کرتے۔
جنگ خیبر میں یہ جھنڈا اٹھانے والے حضرت علی ؓ تھے۔
جیسا کہ آگے ذکر ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2974   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2974  
حدیث حاشیہ:

(لواء،رايه اور علم)
تینوں جھنڈے کے نام ہیں۔
در اصل رئیس لشکر جھنڈے کو تھامتا تھا۔
اسے اس کے سر پر لہرایا جاتا تھا۔
امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ لڑائیوں میں جھنڈے رکھنا جائز ہیں۔
اور یہ کبھی امیر کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور کبھی اس کے قائم مقام کے ہاتھ میں، اس کی حفاظت کی جاتی ہے۔
اس کا سرنگوں ہونا گویا اسلام کے سرنگوں ہونے کی علامت ہے۔

یہ حدیث اگرچہ موقوف ہے تاہم محل استشہار حصہ مرفوع ہی کے حکم میں ہے کیونکہ حضرت قیس بن سعد ؓ کا جھنڈا پکڑنا یقیناًرسول اللہ ﷺ کے حکم اور آپ کی اجازت سے ہو گا۔
اور یہاں مقصود بھی جھنڈے کا اثبات ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2974