سنن ترمذي
كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: تفسیر قرآن کریم
49. باب وَمِنْ سُورَةِ الْحُجُرَاتِ
باب: سورۃ الحجرات سے بعض آیات کی تفسیر۔
حدیث نمبر: 3268
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِسْحَاق الْجَوْهَرِيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو زَيْدٍ صَاحِبُ الْهَرَوِيِّ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، قَال: سَمِعْتُ الشَّعْبِيَّ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي جَبِيرَةَ بْنِ الضَّحَّاكِ، قَالَ: كَانَ الرَّجُلُ مِنَّا يَكُونَ لَهُ الِاسْمَيْنِ وَالثَّلَاثَةُ فَيُدْعَى بِبَعْضِهَا، فَعَسَى أَنْ يَكْرَهَ، قَالَ: فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةَ: وَلا تَنَابَزُوا بِالأَلْقَابِ سورة الحجرات آية 11 ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، أَبُو جَبِيرَةَ هُوَ أَخُو ثَابِتِ بْنِ الضَّحَّاكِ بْنِ خَلِيفَةَ أَنْصَارِيٌّ، وَأَبُو زَيْدٍ سَعِيدُ بْنُ الرَّبِيعِ صَاحِبُ الْهَرَوِيِّ بَصْرِيٌّ ثِقَةٌ.
ابوجبیرہ بن ضحاک کہتے ہیں کہ ہم میں سے بہت سے لوگوں کے دو دو تین تین نام ہوا کرتے تھے، ان میں سے بعض کو بعض نام سے پکارا جاتا تھا، اور بعض نام سے پکارنا اسے برا لگتا تھا، اس پر یہ آیت
«ولا تنابزوا بالألقاب» ”لوگوں کو برے القاب
(برے ناموں) سے نہ پکارو
“ (الحجرات: ۱۱)، نازل ہوئی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- ابوجبیرہ، یہ ثابت بن ضحاک بن خلیفہ انصاری کے بھائی ہیں، اور ابوزید سعید بن الربیع صاحب الہروی بصرہ کے رہنے والے ثقہ
(معتبر) شخص ہیں۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الأدب 71 (4962) (تحفة الأشراف: 11882) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3741)
سنن ترمذی کی حدیث نمبر 3268 کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3268
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
لوگوں کو برے القاب (برے ناموں) سے نہ پکارو (الحجرات: 11)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3268
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4962
´القاب کا بیان۔`
ابوجبیرہ بن ضحاک کہتے ہیں کہ ہمارے یعنی بنو سلمہ کے سلسلے میں یہ آیت نازل ہوئی «ولا تنابزوا بالألقاب بئس الاسم الفسوق بعد الإيمان» ”ایک دوسرے کو برے ناموں سے نہ پکارو، ایمان کے بعد برے نام سے پکارنا برا ہے“ (الحجرات: ۱۱) ہمارے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے اور ہم میں کوئی شخص ایسا نہیں تھا جس کے دو یا تین نام نہ ہوں، تو آپ نے پکارنا شروع کیا:“ اے فلاں، تو لوگ کہتے: اللہ کے رسول! اس نام سے نہ پکاریئے، وہ اس نام سے چڑھتا ہے، تو یہ آیت نازل ہوئی «ولا تنابزوا بالألقاب» ۔ [سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 4962]
فوائد ومسائل:
معلوم ہوا ہے کہ برے برے لقب یا نام رکھنا حرام اور ناجائز ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4962
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3741
´القاب کا بیان۔`
ابوجبیرہ بن ضحاک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ «ولا تنابزوا بالألقاب» ہم انصار کے بارے میں نازل ہوئی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ہمارے پاس (مدینہ) تشریف لائے تو ہم میں سے ہر ایک کے دو دو، تین تین نام تھے، بسا اوقات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں ان کا کوئی ایک نام لے کر پکارتے، تو آپ سے عرض کیا جاتا: اللہ کے رسول! فلاں شخص فلاں نام سے غصہ ہوتا ہے، تو اس وقت یہ آیت کریمہ نازل ہوئی: «ولا تنابزوا بالألقاب» ”کسی کو برے القاب سے نہ پکارو“ ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأدب/حدیث: 3741]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
کسی کو ایسے نام یا لقب سے نہیں پکارنا چاہیے جو اسے نا گوار ہو۔
(2)
مسلمان کو دوسرے مسلمان کے جذبات کا خیال رکھنا چاہیے اور بلا وجہ ایسی بات نہیں کرنی چاہیے جس سے اس کے جذبات مجروح ہوں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3741