حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، أَخْبَرَنِي أَبِي، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: لَمَّا ذُكِرَ مِنْ شَأْنِي الَّذِي ذُكِرَ وَمَا عَلِمْتُ بِهِ، قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيَّ خَطِيبًا، فَتَشَهَّدَ وَحَمِدَ اللَّهَ، وَأَثْنَى عَلَيْهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ قَالَ: " أَمَّا بَعْدُ، أَشِيرُوا عَلَيَّ فِي أُنَاسٍ أَبَنُوا أَهْلِي وَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ عَلَى أَهْلِي مِنْ سُوءٍ قَطُّ، وَأَبَنُوا بِمَنْ وَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ عَلَيْهِ مِنْ سُوءٍ قَطُّ، وَلَا دَخَلَ بَيْتِي قَطُّ إِلَّا وَأَنَا حَاضِرٌ، وَلَا غِبْتُ فِي سَفَرٍ إِلَّا غَابَ مَعِي "، فَقَامَ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ: ائْذَنْ لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنْ أَضْرِبَ أَعْنَاقَهُمْ، وَقَامَ رَجُلٌ مِنَ بَنِي الْخَزْرَجِ وَكَانَتْ أُمُّ حَسَّانَ بْنِ ثَابِتٍ مِنْ رَهْطِ ذَلِكَ الرَّجُلِ، فَقَالَ: كَذَبْتَ أَمَا وَاللَّهِ أَنْ لَوْ كَانُوا مِنَ الْأَوْسِ مَا أَحْبَبْتَ أَنْ تُضْرَبَ أَعْنَاقُهُمْ، حَتَّى كَادَ أَنْ يَكُونَ بَيْنَ الْأَوْسِ وَالْخَزْرَجِ شَرٌّ فِي الْمَسْجِدِ وَمَا عَلِمْتُ بِهِ، فَلَمَّا كَانَ مَسَاءُ ذَلِكَ الْيَوْمِ خَرَجْتُ لِبَعْضِ حَاجَتِي وَمَعِي أُمُّ مِسْطَحٍ، فَعَثَرَتْ، فَقَالَتْ: تَعِسَ مِسْطَحٌ، فَقُلْتُ لَهَا: أَيْ أُمُّ تَسُبِّينَ ابْنَكِ، فَسَكَتَتْ، ثُمَّ عَثَرَتِ الثَّانِيَةَ، فَقَالَتْ: تَعِسَ مِسْطَحٌ، فَانْتَهَرْتُهَا، فَقُلْتُ لَهَا: أَيْ أُمُّ تَسُبِّينَ ابْنَكِ؟ فَسَكَتَتْ، ثُمَّ عَثَرَتِ الثَّالِثَةَ، فَقَالَتْ: تَعِسَ مِسْطَحٌ، فَانْتَهَرْتُهَا، فَقُلْتُ لَهَا: أَيْ أُمُّ تَسُبِّينَ ابْنَكِ؟ فَقَالَتْ: وَاللَّهِ مَا أَسُبُّهُ إِلَّا فِيكِ، فَقُلْتُ: فِي أَيِّ شَيْءٍ، قَالَتْ: فَبَقَرَتْ لِي الْحَدِيثَ، قُلْتُ: وَقَدْ كَانَ هَذَا؟ قَالَتْ: نَعَمْ، وَاللَّهِ لَقَدْ رَجَعْتُ إِلَى بَيْتِي وَكَأَنَّ الَّذِي خَرَجْتُ لَهُ لَمْ أَخْرُجْ لَا أَجِدُ مِنْهُ قَلِيلًا وَلَا كَثِيرًا، وَوُعِكْتُ، فَقُلْتُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَرْسِلْنِي إِلَى بَيْتِ أَبِي فَأَرْسَلَ مَعِي الْغُلَامَ، فَدَخَلْتُ الدَّارَ فَوَجَدْتُ أُمَّ رُومَانَ فِي السُّفْلِ وَأَبُو بَكْرٍ فَوْقَ الْبَيْتِ يَقْرَأُ، فَقَالَتْ أُمِّي: مَا جَاءَ بِكِ يَا بُنَيَّةُ؟ قَالَتْ: فَأَخْبَرْتُهَا وَذَكَرْتُ لَهَا الْحَدِيثَ، فَإِذَا هُوَ لَمْ يَبْلُغْ مِنْهَا مَا بَلَغَ مِنِّي، قَالَتْ: يَا بُنَيَّةُ خَفِّفِي عَلَيْكِ الشَّأْنَ فَإِنَّهُ وَاللَّهِ لَقَلَّمَا كَانَتِ امْرَأَةٌ حَسْنَاءُ عِنْدَ رَجُلٍ يُحِبُّهَا لَهَا ضَرَائِرُ إِلَّا حَسَدْنَهَا وَقِيلَ فِيهَا فَإِذَا هِيَ لَمْ يَبْلُغْ مِنْهَا مَا بَلَغَ مِنِّي، قَالَتْ: قُلْتُ: وَقَدْ عَلِمَ بِهِ أَبِي؟ قَالَتْ: نَعَمْ، قُلْتُ: وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: نَعَمْ، وَاسْتَعْبَرْتُ وَبَكَيْتُ فَسَمِعَ أَبُو بَكْرٍ صَوْتِي وَهُوَ فَوْقَ الْبَيْتِ يَقْرَأُ فَنَزَلَ، فَقَالَ لِأُمِّي: مَا شَأْنُهَا؟ قَالَتْ: بَلَغَهَا الَّذِي ذُكِرَ مِنْ شَأْنِهَا فَفَاضَتْ عَيْنَاهُ، فَقَالَ: أَقَسَمْتُ عَلَيْكِ يَا بُنَيَّةُ إِلَّا رَجَعْتِ إِلَى بَيْتِكِ فَرَجَعْتُ، وَلَقَدْ جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْتِي، فَسَأَلَ عَنِّي خَادِمَتِي، فَقَالَتْ: لَا وَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ عَلَيْهَا عَيْبًا إِلَّا أَنَّهَا كَانَتْ تَرْقُدُ حَتَّى تَدْخُلَ الشَّاةُ فَتَأْكُلَ خَمِيرَتَهَا أَوْ عَجِينَتَهَا، وَانْتَهَرَهَا بَعْضُ أَصْحَابِهِ، فَقَالَ: أَصْدِقِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَسْقَطُوا لَهَا بِهِ، فَقَالَتْ: سُبْحَانَ اللَّهِ، وَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ عَلَيْهَا إِلَّا مَا يَعْلَمُ الصَّائِغُ عَلَى تِبْرِ الذَّهَبِ الْأَحْمَرِ، فَبَلَغَ الْأَمْرُ ذَلِكَ الرَّجُلَ الَّذِي قِيلَ لَهُ فَقَالَ: سُبْحَانَ اللَّهِ، وَاللَّهِ مَا كَشَفْتُ كَنَفَ أُنْثَى قَطُّ، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَقُتِلَ شَهِيدًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، قَالَتْ: وَأَصْبَحَ أَبَوَايَ عِنْدِي فَلَمْ يَزَالَا حَتَّى دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ صَلَّى الْعَصْرَ، ثُمَّ دَخَلَ وَقَدِ اكْتَنَفَنِي أَبَوَايَ عَنْ يَمِينِي وَعَنْ شِمَالِي، فَتَشَهَّدَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ قَالَ: " أَمَّا بَعْدُ يَا عَائِشَةُ إِنْ كُنْتِ قَارَفْتِ سُوءًا أَوْ ظَلَمْتِ فَتُوبِي إِلَى اللَّهِ، فَإِنَّ اللَّهَ يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ "، قَالَتْ: وَقَدْ جَاءَتِ امْرَأَةٌ مِنْ الْأَنْصَارِ وَهِيَ جَالِسَةٌ بِالْبَابِ، فَقُلْتُ: أَلَا تَسْتَحْيِي مِنْ هَذِهِ الْمَرْأَةِ أَنْ تَذْكُرَ شَيْئًا، فَوَعَظَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَالْتَفَتُّ إِلَى أَبِي، فَقُلْتُ: أَجِبْهُ، قَالَ: فَمَاذَا أَقُولُ؟ فَالْتَفَتُّ إِلَى أُمِّي فَقُلْتُ: أَجِيبِيهِ، قَالَتْ: أَقُولُ مَاذَا؟ قَالَتْ: فَلَمَّا لَمْ يُجِيبَا تَشَهَّدْتُ فَحَمِدْتُ اللَّهَ وَأَثْنَيْتُ عَلَيْهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ قُلْتُ: أَمَا وَاللَّهِ لَئِنْ قُلْتُ لَكُمْ إِنِّي لَمْ أَفْعَلْ وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنِّي لَصَادِقَةٌ مَا ذَاكَ بِنَافِعِي عِنْدَكُمْ لِي لَقَدْ تَكَلَّمْتُمْ وَأُشْرِبَتْ قُلُوبُكُمْ، وَلَئِنْ قُلْتُ: إِنِّي قَدْ فَعَلْتُ وَاللَّهُ يَعْلَمُ أَنِّي لَمْ أَفْعَلْ لَتَقُولُنَّ إِنَّهَا قَدْ بَاءَتْ بِهِ عَلَى نَفْسِهَا وَإِنِّي وَاللَّهِ مَا أَجِدُ لِي وَلَكُمْ مَثَلًا، قَالَتْ: وَالْتَمَسْتُ اسْمَ يَعْقُوبَ فَلَمْ أَقْدِرْ عَلَيْهِ إِلَّا أَبَا يُوسُفَ حِينَ قَالَ: فَصَبْرٌ جَمِيلٌ وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَى مَا تَصِفُونَ سورة يوسف آية 18 قَالَتْ: وَأُنْزِلَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ سَاعَتِهِ، فَسَكَتْنَا فَرُفِعَ عَنْهُ وَإِنِّي لَأَتَبَيَّنُ السُّرُورَ فِي وَجْهِهِ وَهُوَ يَمْسَحُ جَبِينَهُ وَيَقُولُ: " الْبُشْرَى يَا عَائِشَةُ، فَقَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ بَرَاءَتَكِ "، قَالَتْ: فَكُنْتُ أَشَدَّ مَا كُنْتُ غَضَبًا، فَقَالَ لِي أَبَوَايَ: قُومِي إِلَيْهِ، فَقُلْتُ: لَا وَاللَّهِ لَا أَقُومُ إِلَيْهِ وَلَا أَحْمَدُهُ وَلَا أَحْمَدُكُمَا وَلَكِنْ أَحْمَدُ اللَّهَ الَّذِي أَنْزَلَ بَرَاءَتِي، لَقَدْ سَمِعْتُمُوهُ فَمَا أَنْكَرْتُمُوهُ وَلَا غَيَّرْتُمُوهُ، وَكَانَتْ عَائِشَةُ، تَقُولُ: أَمَّا زَيْنَبُ بِنْتُ جَحْشٍ فَعَصَمَهَا اللَّهُ بِدِينِهَا فَلَمْ تَقُلْ إِلَّا خَيْرًا، وَأَمَّا أُخْتُهَا حَمْنَةُ فَهَلَكَتْ فِيمَنْ هَلَكَ، وَكَانَ الَّذِي يَتَكَلَّمُ فِيهِ مِسْطَحٌ، وَحَسَّانُ بْنُ ثَابِتٍ، وَالْمُنَافِقُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ ابْنُ سَلُولَ وَهُوَ الَّذِي كَانَ يَسُوسُهُ وَيَجْمَعُهُ، وَهُوَ الَّذِي تَوَلَّى كِبْرَهُ مِنْهُمْ هُوَ وَحَمْنَةُ، قَالَتْ: فَحَلَفَ أَبُو بَكْرٍ أَنْ لَا يَنْفَعَ مِسْطَحًا بِنَافِعَةٍ أَبَدًا، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى هَذِهِ الْآيَةَ: وَلا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَالسَّعَةِ سورة النور آية 22 إِلَى آخِرِ الْآيَةِ، يَعْنِي: أَبَا بَكْرٍ أَنْ يُؤْتُوا أُولِي الْقُرْبَى وَالْمَسَاكِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يَعْنِي: مِسْطَحًا، إِلَى قَوْلِهِ أَلا تُحِبُّونَ أَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ سورة النور آية 22، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: بَلَى، وَاللَّهِ يَا رَبَّنَا إِنَّا لَنُحِبُّ أَنْ تَغْفِرَ لَنَا، وَعَادَ لَهُ بِمَا كَانَ يَصْنَعُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، وَقَدْ رَوَاهُ يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ، وَمَعْمَرٌ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، وَسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، وَعَلْقَمَةَ بْنِ وَقَّاصٍ اللَّيْثِيِّ، وعبيد الله بن عبد الله، عَنْ عَائِشَةَ هَذَا الْحَدِيثَ أَطْوَلَ مِنْ حَدِيثِ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ وَأَتَمَّ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ جب میرے بارے میں افواہیں پھیلائی جانے لگیں جو پھیلائی گئیں، میں ان سے بےخبر تھی، رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور میرے تعلق سے ایک خطبہ دیا، آپ نے شہادتین پڑھیں، اللہ کے شایان شان تعریف و ثنا کی، اور حمد و صلاۃ کے بعد فرمایا:
”لوگو! ہمیں ان لوگوں کے بارے میں مشورہ دو جنہوں نے میری گھر والی پر تہمت لگائی ہے، قسم اللہ کی! میں نے اپنی بیوی میں کبھی کوئی برائی نہیں دیکھی، انہوں نے میری بیوی کو اس شخص کے ساتھ متہم کیا ہے جس کے بارے میں اللہ کی قسم! میں نے کبھی کوئی برائی نہیں جانی، وہ میرے گھر میں کبھی بھی میری غیر موجودگی میں داخل نہیں ہوا، وہ جب بھی میرے گھر میں آیا ہے میں موجود رہا ہوں، اور جب بھی میں گھر سے غائب ہوا، سفر میں رہا وہ بھی میرے ساتھ گھر سے دور سفر میں رہا ہے
“،
(یہ سن کر) سعد بن معاذ رضی الله عنہ نے کھڑے ہو کر، عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیجئیے میں ان کی گردنیں اڑا دوں،
(یہ سن کر) خزرج قبیلے کا ایک اور شخص جس کے قبیلے سے حسان بن ثابت کی ماں تھیں کھڑا ہوا اس نے
(سعد بن معاذ سے مخاطب ہو کر) کہا: آپ جھوٹ اور غلط بات کہہ رہے ہیں، سنئیے، اللہ کی قسم! اگر یہ
(تہمت لگانے والے آپ کے قبیلے) اوس کے ہوتے تو یہ پسند نہ کرتے کہ آپ ان کی گردنیں اڑا دیں، یہ بحث و تکرار اتنی بڑھی کہ اوس و خزرج کے درمیان مسجد ہی میں فساد عظیم برپا ہو جانے کا خطرہ پیدا ہو گیا،
(عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں) مجھے اس کی بھی خبر نہ ہوئی، جب اس دن کی شام ہوئی تو میں اپنی
(قضائے حاجت کی) ضرورت سے گھر سے باہر نکلی، میرے ساتھ مسطح کی ماں بھی تھیں، وہ
(راستہ میں) ٹھوکر کھائی تو کہہ اٹھیں: مسطح تباہ برباد ہو! میں نے ان سے کہا: آپ کیسی ماں ہیں بیٹے کو گالی دیتی ہیں؟ تو وہ چپ رہیں، پھر دوبارہ ٹھوکر کھائی تو پھر وہی لفظ دہرایا، مسطح ہلاک ہو، میں نے پھر
(ٹوکا) میں نے کہا: آپ کیسی ماں ہیں؟ اپنے بیٹے کو گالی
(بد دعا) دیتی ہیں؟ وہ پھر خاموش رہیں، پھر جب تیسری بار ٹھوکر کھائی تو پھر یہی لفظ دہرایا تو میں نے ڈانٹا
(اور جھڑک دیا) کیسی
(خراب) ماں ہیں آپ؟ اپنے ہی بیٹے کو برا بھلا کہہ رہی ہیں، وہ بولیں:
(بیٹی) قسم اللہ کی میں اسے صرف تیرے معاملے میں برا بھلا کہہ رہی ہوں، میں نے پوچھا: میرے کس معاملے میں؟ تب انہوں نے مجھے ساری باتیں کھول کھول کر بتائیں، میں نے ان سے پوچھا: کیا ایسا ہوا؟
(یہ ساری باتیں پھیل گئیں؟) انہوں نے کہا: ہاں، قسم اللہ کی! یہ سن کر میں گھر لوٹ آئی، تو ان میں جس کام کے لیے نکلی تھی، نکلی ہی نہیں، مجھے اس قضائے حاجت کی تھوڑی یا زیادہ کچھ بھی ضرورت محسوس نہ ہوئی،
(بلکہ) مجھے تیز بخار چڑھ آیا، میں نے رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: مجھے میرے ابا کے گھر بھیج دیجئیے، رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ساتھ ایک لڑکا کر دیا،
(اور میں اپنے ابا کے گھر آ گئی) میں گھر میں داخل ہوئی تو
(اپنی ماں) ام رومان کو نیچے پایا اور
(اپنے ابا) ابوبکر کو گھر کے اوپر پڑھتے ہوئے پایا، میری ماں نے کہا: بیٹی! کیسے آئیں؟ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں نے انہیں بتا دیا اور انہیں ساری باتیں
(اور سارا قصہ) سنا دیا، مگر انہیں یہ باتیں سن کر وہ اذیت نہ پہنچی جو مجھے پہنچی، انہوں نے کہا: بیٹی! اپنے آپ کو سنبھالو، کیونکہ اللہ کی قسم! بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ کسی مرد کی کوئی حسین و جمیل عورت ہو جس سے وہ مرد
(بے انتہا) محبت کرتا ہو، اس سے اس کی سوکنیں حسد نہ کرتی
(اور جلن نہ رکھتی) ہوں اور اس کے بارے میں لگائی بجھائی نہ کرتی ہوں، غرضیکہ انہیں اتنا صدمہ نہ پہنچا جتنا مجھے پہنچا، میں نے پوچھا: کیا میرے ابو جان کو بھی یہ بات معلوم ہو چکی ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں، میں نے
(پھر) پوچھا کیا رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان باتوں سے واقف ہو چکے ہیں؟ انہوں نے کہا: ہاں،
(یہ سن کر) میں غم سے نڈھال ہو گئی اور رو پڑی، ابوبکر رضی الله عنہ چھت پر قرآن پڑھ رہے تھے، میرے رونے کی آواز سن کر نیچے اتر آئے، میری ماں سے پوچھا، اسے کیا ہوا؟
(یہ کیوں رو رہی ہے؟) انہوں نے کہا: اس کے متعلق جو باتیں کہی گئیں
(اور افواہیں پھیلائی گئی ہیں) وہ اسے بھی معلوم ہو گئی ہیں،
(یہ سن کر) ان کی بھی آنکھیں بہہ پڑیں،
(مگر) انہوں نے کہا: اے میری
(لاڈلی) بیٹی! میں تمہیں قسم دلا کر کہتا ہوں تو اپنے گھر لوٹ جا، میں اپنے گھر واپس ہو گئی، رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر تشریف لائے اور میری لونڈی
(بریرہ) سے میرے متعلق پوچھ تاچھ کی، اس نے کہا: نہیں، قسم اللہ کی! میں ان میں کوئی عیب نہیں جانتی، ہاں، بس یہ بات ہے کہ
(کام کرتے کرتے تھک کر) سو جاتی ہیں اور بکری آ کر گندھا ہوا آٹا کھا جاتی ہے، بعض صحابہ نے اسے ڈانٹا،
(باتیں نہ بنا) رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کو سچ سچ بتا
(اس سے اس پوچھ تاچھ میں) وہ
(اپنے مقام و مرتبہ سے) نیچے اتر آئے، اس نے کہا: سبحان اللہ! پاک و برتر ہے اللہ کی ذات، قسم اللہ کی! میں انہیں بس ایسی ہی جانتی ہوں جیسے سنار سرخ سونے کے ڈلے کو جانتا پہچانتا ہے، پھر اس معاملے کی خبر اس شخص کو بھی ہو گئی جس پر تہمت لگائی گئی تھی۔ اس نے کہا: سبحان اللہ! قسم اللہ کی، میں نے اپنی پوری زندگی میں کبھی کسی کا سینہ اور پہلو نہیں کھولا ہے
۱؎، عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: وہ اللہ کی راہ میں شہید ہو کر مرے، میرے ماں باپ صبح ہی میرے پاس آ گئے اور ہمارے ہی پاس رہے۔ عصر پڑھ کر رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے یہاں تشریف لے آئے، اور ہمارے پاس پہنچے، میرے ماں باپ ہمارے دائیں اور بائیں بیٹھے ہوئے تھے، رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے شہادتین پڑھی، اللہ کی شایان شان حمد و ثنا بیان کی، پھر فرمایا:
”حمد و صلاۃ کے بعد:
”عائشہ! اگر تو برائی کی مرتکب ہو گئی یا اپنے نفس پر ظلم کر بیٹھی ہے تو اللہ سے توبہ کر، اللہ اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے
“، اسی دوران انصار کی ایک عورت آ کر دروازے میں بیٹھ گئی تھی، میں نے عرض کیا: اس عورت کے سامنے
(اس طرح کی) کوئی بات کرتے ہوئے کیا آپ کو شرم محسوس نہیں ہوئی؟ بہرحال رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نصیحت فرمائی، میں اپنے باپ کی طرف متوجہ ہوئی، ان سے کہا: آپ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کا جواب دیں، انہوں نے کہا: میں کیا جواب دوں؟ میں اپنی ماں کی طرف پلٹی، میں نے ان سے کہا: رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بات کہی ہے اس بارے میں
(میری طرف سے) صفائی دیجئیے، انہوں نے کہا: کیا کہوں میں؟ جب میرے ماں باپ نے کچھ جواب نہ دیا، تو میں نے کلمہ شہادت ادا کیا، اللہ کے شایان شان اس کی حمد و ثنا بیان کی، پھر میں نے کہا: سنئیے، قسم اللہ کی! اگر میں آپ لوگوں سے کہتی ہوں کہ میں نے ایسا کچھ نہیں کیا اور اللہ گواہ ہے کہ میں سچی
(بےگناہ) ہوں تب بھی مجھے آپ کے سامنے اس سے فائدہ حاصل نہیں ہو سکتا کیونکہ آپ ہی یہ بات کہنے والے ہیں اور آپ کے دلوں میں یہ بات بیٹھ گئی ہے اور اگر میں یہ کہہ دوں کہ میں نے ایسا کیا ہے اور اللہ خوب جانتا ہے کہ میں نے نہیں کیا، تو آپ ضرور کہیں گے کہ اس نے تو اعتراف جرم کر لیا ہے، اور میں قسم اللہ کی! اپنے اور آپ کے لیے اس سے زیادہ مناسب حال کوئی مثال نہیں پاتی
(میں نے مثال دینے کے لیے) یعقوب علیہ السلام کا نام ڈھونڈا اور یاد کیا، مگر میں اس پر قادر نہ ہو سکی،
(مجھے ان کا نام یاد نہ آ سکا تو میں نے ابویوسف کہہ دیا) مگر یوسف علیہ السلام کے باپ کی مثال جب کہ انہوں نے
«فصبر جميل والله المستعان على ما تصفون» کہا
۲؎۔ اسی وقت رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہونے لگی تو ہم سب خاموش ہو گئے، پھر آپ پر سے وحی کے آثار ختم ہوئے تو میں نے آپ کے چہرے سے خوشی پھوٹتی ہوئی دیکھی، آپ اپنی پیشانی سے پسینہ پونچھتے ہوئے فرمانے لگے:
”اے عائشہ! خوش ہو جاؤ اللہ نے تمہاری براۃ میں آیت نازل فرما دی ہے
“، مجھے اس وقت سخت غصہ آیا جب میرے ماں باپ نے مجھ سے کہا: کھڑی ہو کر آپ کا شکریہ ادا کر، میں نے کہا: نہیں، قسم اللہ کی! میں آپ کا شکریہ ادا کرنے کے لیے کھڑی نہ ہوں گی، نہ میں ان کی تعریف کروں گی اور نہ آپ دونوں کی، نہ میں ان کی احسان مند ہوں گی اور نہ آپ دونوں کا بلکہ میں اس اللہ کا احسان مند اور شکر گزار ہوں گی جس نے میری براۃ میں آیت نازل فرمائی، آپ لوگوں نے تو میری غیبت و تہمت سنی، لیکن اس پر تردید و انکار نہ کیا، اور نہ اسے روک دینے اور بدل دینے کی کوشش کی، عائشہ رضی اللہ عنہا کہا کرتی تھیں: رہی زینب بن حجش تو اللہ نے انہیں ان کی نیکی و دینداری کی وجہ سے بچا لیا، انہوں نے اس قضیہ میں جب بھی کہا، اچھی و بھلی بات ہی کہی، البتہ ان کی بہن حمنہ
(شریک بہتان ہو کر) ہلاک ہونے والوں کے ساتھ ہلاک ہو گئی، اور جو لوگ اس بہتان بازی اور پروپیگنڈے میں لگے ہوئے تھے وہ مسطح، حسان بن ثابت اور منافق عبداللہ بن ابی بن سلول تھے، اور یہی منافق
(فتنہ پردازوں کا سردار و سرغنہ) ہی اس معاملہ میں اپنی سیاست چلاتا اور اپنے ہم خیال لوگوں کو یکجا رکھتا تھا، یہی وہ شخص تھا اور اس کے ساتھ حمنہ بھی تھی، جو اس فتنہ انگیزی میں پیش پیش تھی، ابوبکر رضی الله عنہ نے قسم کھا لی کہ اب وہ
(اس احسان فراموش و بدگو) مسطح کو کبھی کوئی فائدہ نہ پہنچائیں گے، اس پر آیت
«ولا يأتل أولوا الفضل منكم والسعة» ۳؎ نازل ہوئی، اس سے یہاں مراد ابوبکر ہیں،
«أن يؤتوا أولي القربى والمساكين والمهاجرين في سبيل الله» ۴؎ اس سے اشارہ مسطح کی طرف ہے۔
«ألا تحبون أن يغفر الله لكم والله غفور رحيم» ۵؎ (یہ آیت سن کر) ابوبکر رضی الله عنہ نے کہا: کیوں نہیں، قسم اللہ کی! ہمارے رب! ہم پسند کرتے ہیں کہ تو ہمیں بخش دے، پھر مسطح کو دینے لگے جو پہلے دیتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث ہشام بن عروہ کی روایت سے حسن صحیح غریب ہے،
۲- اس حدیث کو یونس بن یزید، معمر اور کئی دوسرے لوگوں نے عروہ بن زبیر، سعید بن مسیب، علقمہ بن وقاص لیثی اور عبیداللہ بن عبداللہ سے اور ان سبھوں نے عائشہ سے روایت کی ہے، یہ حدیث ہشام بن عروہ کی حدیث سے لمبی بھی ہے اور مکمل بھی ہے۔
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2879
2879. حضرت عائشہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ جب کہیں سفر کے لیے روانہ ہوتے تو اپنی بیویوں کے درمیان قرعہ اندازی کرتے۔ جس بیوی کے نام قرعہ نکل آتا اسے نبی کریم ﷺ ہمراہ لے جاتے، چنانچہ آپ نے ایک غزوے میں جانے کے لیے ہم اس قرعہ اندازی کی تو اس میں میرے نام قرعہ نکل آیا۔ میں اس غزوے میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ گئی جبکہ حجاب کاحکم نازل ہوچکا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2879]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ پردے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ عورت گھر کے باہر نہ نکلے جیسے بعض جاہلوں نے سمجھ رکھا ہے بلکہ شرعی پردے کے ساتھ عورت ضروریات کے لئے گھر سے باہر بھی نکل سکتی ہے‘ خاص طور پر جہادوں میں شرکت کرسکتی ہے جیسا کہ متعدد روایات میں اس کا ذکر موجود ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2879
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4025
4025. نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ میں اور ام مسطح ؓ جا رہی تھیں کہ اچانک ام مسطح اپنی چادر میں پھسل پڑیں۔ ان کی زبان سے نکلا: مسطح کا برا ہو۔ میں نے کہا: تو نے اچھی بات نہیں کہی۔ ایک ایسے شخص کو برا کہتی ہو جو بدر کی جنگ میں شریک ہو چکا ہے؟ پھر انہوں نے تہمت کا واقعہ بیان کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4025]
حدیث حاشیہ:
مسطح ؓ جنگ بدر میں شریک تھے اس سے ترجمہ باب نکلا حضرت عائشہ ؓ پر منافقین نے جو تہمت لگائی تھی اس کی طرف اشارہ ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4025
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4750
4750. حضرت ابن شہاب سے روایت ہے، انہوں نے کہا: مجھ سے عروہ بن زبیر، سعید بن مسیب، علقمہ بن وقاص اور عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود نے نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کا واقعہ بیان کیا جبکہ تہمت لگانے والوں نے ان کے متعلق افواہ اڑائی تھی اور اللہ تعالٰی نے آپ کو اس تہمت سے پاک قرار دیا تھا۔ ان تمام حضرات نے حدیث کا ایک ایک ٹکڑا مجھ سے بیان کیا اور ان حضرات میں سے ایک کا بیان دوسرے کے بیان کی تصدیق کرتا ہے۔ اگرچہ ان میں سے کچھ حضرات کو دوسروں کے مقابلے میں حدیث زیادہ بہتر طریقےسے یاد تھی۔ حضرت عروہ بن زبیر نے مجھے حضرت عائشہ ؓ کے حوالے سے اس طرح بیان کیا کہ نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: جب رسول اللہ ﷺ کسی سفر کا ارادہ کرتے تو اپنی ازواج مطہرات میں سے کسی کو اپنے ساتھ لے جانے کے لیے قرعہ اندازی کرتے۔ جس کا نام نکل آتا رسول اللہ ﷺ اسے اپنے ساتھ لے جاتے، چنانچہ آپ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4750]
حدیث حاشیہ:
یہ طویل حدیث ہی واقعہ افک سے متعلق ہے۔
منافقین کے بہکانے میں آنے پر حضرت حسان بھی شروع میں الزام بازوں میں شریک ہوگئے تھے۔
بعد میں انہوں نے توبہ کی اور حضرت عائشہ کی پاکیزگی کی شہادت دی جیسا کہ شعر مذکور حصان رزان میں مذکور ہے۔
ان کی والدہ فریعہ بنت خالد بن خنیس بن لوذان بن عبدود بن ثعلبہ بن خزرج تھیں۔
ام رومان حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی والدہ ہیں انہوں نے جب یہ واقعہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی زبان سے سنا تو ان کو اتنا رنج نہیں ہوا جتنا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو ہو رہا تھا اس لئے وہ سنجیدہ خاتون ایسی ہفوات سے متاثر ہونے والی نہیں تھی۔
ہاں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ضرور اپنی پیاری بیٹی کا یہ دکھ سن کر رونے لگ گئے، ان کو فخر خاندان بیٹی کا رنج دیکھ کر صبر نہ ہوسکا۔
آیات براءت نازل ہونے پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اللہ پاک کا شکریہ ادا کیا اور جوش ایمانی سے وہ باتیں کہہ ڈالیں جو روایت کے آخر میں مذکور ہیں کہ میں خالص اللہ ہی کا شکر ادا کروں گی جس نے مجھ کو منہ دکھانے کے قابل بنا دیا ورنہ لوگ تو عام و خاص سب میری طرف سے اس خبر میں گرفتار ہو چکے تھے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی کمال توحید اور صدق و اخلاص اور توکل کا کیا کہنا، سچ ہے ﴿وَالطَّيِّبَاتُ لِلطَّيِّبِينَ وَالطَّيِّبُونَ لِلطَّيِّبَاتِ﴾ (النور: 26)
قیامت تک کے لئے ان کی پاک دامنی ہر مومن کی زبان اور دل اور صفحات کتاب اللہ پر نقش ہوگئی۔
وذلك فضل اللہ یؤتیه من یشاء۔
رضي اللہ عنھم أجمعین وخذل اللہ الکافرین والمنافقین إلی یوم الدین آمین۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر تہمت کا واقعہ عبد اللہ بن ابی جیسے منا فق کا گھڑا ہوا تھا جو ہر وقت اسلام کی بیخ کنی کے لئے دل میں ناپاک باتیں سوچتا رہتا تھا۔
اس منافق کی اس بکواس کا کچھ اور لوگوں نے بھی اثر لے لیا مگر بعد میں وہ تائب ہوئے جیسے حضرت حسان اور مسطح وغیرہ، اللہ پاک نے اس بارے میں سورۃ نور میں مسلسل دس آیات کو نازل فرمایا اور قیامت تک کے لئے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی پاک دامنی کی آیات کو قرآن مجید میں تلاوت کیا جاتا رہے گا۔
اسی سے حضرت صدیقہ کی بہت بڑی فضیلت ثابت ہوئی۔
اس واقعہ کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم غیب داں نہیں تھے ورنہ اتنے دنوں تک آپ کیوں فکر اور تردد میں رہتے جو لوگ آپ کے لئے غیب دانی کا عقیدہ رکھتے ہیں وہ بڑی غلطی پر ہیں۔
فقہائے احناف نے صاف کہہ دیا ہے کہ انبیاءاولیاء کے لئے غیب جاننے کا عقیدہ رکھنا کفر ہے۔
رہا یہ معاملہ کہ ان کو بہت سے غائب امور معلوم ہو جاتے ہیں، سو یہ اللہ پاک کی وحی والہام پر موقوف ہے۔
اللہ پاک اپنے نیک بندوں کو بطور معجزہ یا کرامت جب چاہتا ہے کچھ امور معلوم کرا دیتا ہے اس کو غیب نہیں کہا جا سکتا۔
یہ اللہ کا عطیہ ہے۔
غیب دانی یہ ہے کہ بغیر کسی کے معلوم کرائے کسی کو کچھ خود بخود معلوم ہو جائے ایسا غیب بندوں میں سے کسی کو حاصل نہیں ہے۔
قرآن مجید میں زبان رسالت سے صاف اعلان کرا دیا گیا ﴿وَلَوْ كُنْتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ﴾ (الاعراف: 188)
اگر میں غیب داں ہوتا تو میں بھی بہت سی بھلائیاں جمع کرلیتا اور مجھ کو کوئی تکلیف نہیں ہو سکتی۔
ان تفصیلات کے باوجود جو مولوی ملا عام مسلمانوں کو ایسے مباحث میں الجھا کرفتنہ فساد برپا کراتے ہیں وہ اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے اپنے مریدوں کو الو بناتے ہیں۔
یہی وہ علماء سوء ہیں جن کی وجہ سے اسلام کو بیشتر زمانوں میں بڑے بڑے نقصانات سے دوچار ہونا پڑا ہے۔
ایسے علماء کا بائیکاٹ کرنا ان کی زبانوں کا لگام لگانا وقت کا بہت بڑا جہاد ہے جو آج کے تعلیم یافتہ روشن خیال صاحبان فہم و فراست نوجوانوں کو انجام دینا ہے۔
اللہ پاک امت مرحومہ پر رحم کرے کہ وہ اسلام کے نام نہاد نام لیواؤں کو پہچان کر ان کے فتنوں سے نجات پا سکے۔
آمین۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4750
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5211
5211. سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی ﷺ جب سفر میں جانے کا ارادہ کرتے تو اپنی بیویوں میں قرعہ اندازی کرتے چنانچہ ایک دفعہ ام المومنین سیدہ عائشہ اور ام المومنین سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کا قرعہ نکلا۔ نبی ﷺ رات کو دوران سفر میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے گفتگو فرمایا کرتے تھے ایک مرتبہ سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ آج تم میرے اونٹ پر سوار ہو جاؤ اور میں آپ کے اونٹ پر سواری کرتی ہوں میں بھی نئے مناظر کا مشاہدہ کروں؟ انہوں نے یہ تجویز قبول کرلی اور وہ اونٹ پر سوار ہو گئیں۔ اس کے بعد نبی ﷺ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے اونٹ کے پاس تشریف لائے اور اس پر سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا سوار تھیں۔ آپ ﷺ نے انہیں سلام کیا پھر (وہاں سے) روانہ ہوئے حتیٰ کہ جب ایک مقام پر پڑاؤ کیا تو ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے پاؤں اذخر گھاس میں ڈال لیے اور کہنے لگیں: اے اللہ!۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5211]
حدیث حاشیہ:
یہ اس لئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو تشریف لائے مگر حضرت عائشہ اپنے قصور سے خود محروم رہ گئیں۔
نہ دوسرے کے اونٹ پر سوار ہوتیں نہ آپ کی شرف ہم کلامی سے محروم رہتیں۔
حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کا بھی اس میں کچھ قصور نہ تھا۔
اسی رنج کے مارے اپنے کو کوسنے لگیں۔
اور اپنے پاؤں گھاس میں ڈال لئے جس میں زہریلے کیڑے بکثرت رہتے تھے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5211
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6679
6679. امام زہری سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے عروہ بن زبیر، سعید بن مسیب، علقمہ بن وقاص اور عبید اللہ بن عتبہ سے نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ سیدہ عائشہ ؓ کے متعلق ایک حدیث سنی جب ان پر بہتان تراشوں نے طوفان باندھا اور اللہ تعالٰی نے انہیں اس بہتان سے پاک قرار دیا اور ان کی باتوں سے بری کیا۔ ان میں سے ہر ایک نے مجھے حدیث کا کچھ حصہ بتایا کہ سیدہ عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ اللہ تعالٰی نے ﴿إِنَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ مِّنكُمْ﴾ سے دس آیات حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے کہا: ”اللہ کی قسم! میں مسطح پر خرچ نہیں کروں گا جبکہ وہ مسطح پر قرابت داری کی وجہ سے خرچ کیا کرتے تھے۔ یہ اس لیے کیا کہ انہوں نے سیدہ عائشہ ؓ پر بہتان لگانے میں حصہ لیا تھا۔ اللہ تعالٰی نے یہ آیات نازل فرمائیں: ”تم میں سے اہل فضل ووسعت قسمیں نہ کھائیں کہ وہ اپنے اقارب پر خرچ نہیں کریں گے۔“ نزول آیات کے بعد حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے کہا: اللہ کی قسم!۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6679]
حدیث حاشیہ:
حضرت ابوبکر نے اپنی قسم کو کفارہ ادا کر کے توڑ دیا باب سے یہی مطابقت ہے۔
حضرت مسطح بن اثاثہ قریشی مطلبی ہیں۔
34ھ میں بعمر 56سال وفات پائی۔
سبحان اللہ ایمانداری اور خدا ترسی حضرت ابوبکر صدیق پر ختم تھی باوجودیکہ مسطح نےایسا بڑا قصور کیا تھا کہ ان کی پیاری بیٹی پر جو خود مسطح کی بھی بھتیجی ہوتی تھیں اس قسم کا طوفان جوڑا اور قطع نظر اس سلو ک کے جو حضرت ابوبکر صدیق ان سے کیا کرتے تھے اور قطع نظر احسان فراموشی کے انہوں نے قرابت کا بھی کچھ لحاظ نہ کیا۔
حضرت عائشہ ؓ کی بدنامی خود مسطح کی بھی ذلت اورخواری تھی مگر وہ شیطان کے چکمہ میں آگئے۔
شیطان اسی طرح آدمی کو ذلیل کرتا ہے، اس کی عقل اور فہم بھی سلب ہو جاتی ہے۔
اگر کوئی دوسرا آدمی ہوتا تو مسطح نے یہ حرکت ایسی کی تھی کہ ساری عمر سلوک کرنا تو کجا ان کی صورت بھی دیکھنا گوارہ نہ کرتا مگر آخر میں حضرت ابوبکر کی خداترسی اور مہربانی اور شفقت پر قربان کہ انہوں نے مسطح کا معمول بدستور جاری کر دیا اور ان کےقصور سےچشم پوشی کی۔
ترجمہ باب یہیں سےنکلتا ہے کیونکہ حضرت ابوبکر صدیق نےایک نیکی کی بات یعنی عزیزوں سے سلوک ترک کرنے پر قسم کھائی تھی تو اس قسم کو توڑ ڈالنے کا حکم ہوا پھر کوئی گناہ کرنے پر قسم کھائے اس کو تو بطریق اولیٰ یہ قسم توڑ ڈالنا ضرور ی ہوگا۔
یہ غصہ میں قسم کھانے کی بھی مثال ہو سکتی ہے کیونکہ حضرت ابوبکر صدیق نے پہلے غصہ ہی میں قسم کھالی تھی کہ میں مسطح سے سلوک نہ کروں گا۔
(تقریرمولانا وحیدالزمان مرحوم)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6679
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2593
2593. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ جب کسی سفر کا ا رادہ فرماتے تو اپنی بیویوں کے درمیان قرعہ اندازی کرتے، جس بیوی کانام نکل آتا، اسے سفر میں اپنے ہمراہ لے جاتے۔ آپ ﷺ نے سیدہ سودہ بن زمعہ ؓ کے علاوہ باقی ہر بیوی کے ہاں فروکش ہونے (ٹھہرنے)کے لیے دن رات کی باری مقرر کر رکھی تھی۔ سیدہ سودہ ؓ نے اپنے دن رات کی باری رسول اللہ ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ ؓ کو ہبہ کردی تھی جس سے ان کامقصد رسول اللہ ﷺ کی خوشنودی تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2593]
حدیث حاشیہ:
حضرت سودہ ؓ کی عمر بھی کافی تھی، اور ان کو رسول کریم ﷺ کی خوشنودی بھی مقصود تھی، اس لیے انہوں نے اپنی باری حضرت عائشہ ؓ کو دے دی، مقصد باب یہ کہ اس قسم کا ہبہ جو باہمی رضامندی سے ہو جائز و درست ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2593
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2637
2637. حضرت ابن شہاب زہری سے روایت ہے، انھوں نے کہا: مجھے عروہ بن زبیر ؒ، سعید بن مسیب ؒ، علقمہ بن وقاص اور عبید اللہ بن عبد اللہ ؒ نے حضرت عائشہ ؓ کے واقعے کے متعلق بتایا۔ ان کی کچھ باتیں دوسری بیان کردہ باتوں کی تصدیق کرتی ہیں واقعہ یہ ہے کہ جب بہتان طرازوں نے حضرت عائشہ ؓ پر تہمت لگائی تو رسول اللہ ﷺ پر وحی آنے میں کچھ دیر ہو گئی۔ چنانچہ آپ نے حضرت علی ؓ اور حضرت اسامہ ؓ کو اپنی اہلیہ (حضرت عائشہ ؓ) کو چھوڑنے کے متعلق مشورے کے لیے بلایا تو حضرت اسامہ ؓ نے کہا: ہم تو ان کے متعلق خیرو بھلائی کے علاوہ کچھ نہیں جانتے، بہر حال وہ آپ کی بیوی ہیں حضرت بریرہ ؓ نے کہا: میں نے تو ان میں کوئی ایسی بات نہیں دیکھی جو ان کی شان کے خلاف ہو، (زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ) وہ ایک نوخیز (اور بھولی بھالی) لڑکی ہیں، اہل خانہ کا آٹا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2637]
حدیث حاشیہ:
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ پر تہمت کا واقعہ اسلامی تاریخ کا ایک مشہور ترین حادثہ ہے۔
جس میں آنحضرتﷺ اور حضرت عائشہ صدیقہ ؓ اور بہت سے اکابر صحابہ کو بہت تکالیف کا سامنا کرنا پڑا۔
آخر اس بارے مبں سورۃ نور نازل ہوئی اور اللہ پاک نے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی پاک دامنی ظاہر کرنے کے سلسلے میں کئی شاندار بیانات دئیے۔
امام بخاری ؒ نے مطلب باب اس سے نکالا کہ حضرت اسامہ نے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی تعدیل ان لفظوں میں بیان کی جو مقصد باب ہیں۔
اس الزام کا بانی عبد اللہ بن ابی منافق مردود تھا جو اسلام سے دل میں سخت کینہ رکھتا تھا۔
الزام ایک نہابت ہی پاک دامن صحابی صفوان بن معطل ؓکے ساتھ لگایا تھا جو نہایت نیک صالح اور مرد عفیف تھا۔
یہ اللہ کی راہ میں شہید ہوا۔
حدیث افک کی اور تفصیل اپنے مقام پر آئے گی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2637
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4690
4690. حضرت زہری سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے عروہ بن زبیر، سعید بن مسیب، علقمہ بن وقاص اور عبیداللہ بن عبداللہ سے نبی ﷺ کی زوجہ محترم ام المومنین حضرت عائشہ ؓ کی حدیث کے متعلق سنا، جبکہ ان کے بارے میں بہتان لگانے والوں نے جو کہنا تھا کہا اور اللہ تعالٰی نے صدیقہ کائنات کو مبرا اور پاک صاف قرار دیا، ہر ایک نے مجھ سے حدیث کا کچھ حصہ بیان کیا۔ (حضرت عائشہ ؓ سے) نبی ﷺ نے فرمایا: ”(اے عائشہ!) اگر تم بہتان سے مبرا اور پاک صاف ہو تو عنقریب اللہ تعالٰی تمہیں مبرا اور پاک صاف قرار دے گا اور اگر تم نے گناہ کیا ہے تو اللہ تعالٰی سے مغفرت طلب کرو اور اس کے حضور اپنی توبہ کا نذرانہ پیش کرو۔“ (حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ) میں نے کہا: اللہ کی قسم! میں تو ابو یوسف (حضرت یعقوب ؑ) کے علاہ اور کوئی مثال نہیں پاتی۔ ”اب صبر ہی بہتر ہے اور جو کچھ تم بیان کرتے ہو، اس کے متعلق اللہ تعالٰی سے مدد چاہتی ہوں۔“ پھر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4690]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کو حضرت امام بخاری اس باب میں اس لئے لائے کہ اس میں حضرت یوسف ؑ کے والد کا قصہ مذکور ہے۔
حضرت عائشہ ؓ کو رنج اور صدمے میں حضرت یعقوب ؑ کا نام یاد نہ رہا توانہوں نے یوں کہہ دیا کہ حضرت یوسف ؑ کے والد۔
حدیث اور باب میں یہی مطابقت ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4690
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7370
7370. سیدہ عائشہ ؓ س روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے لوگوں سے خطاب کیا اور اللہ کی حمد وثنا کے بعد فرمایا: ”تم مجھے ان لوگوں کے بارے میں کیا مشورہ دیتے ہو جو میرے اہل خانہ کو بدنام کرتے ہیں۔ حالانکہ مجھے ان کے متعلق کبھی کوئی بری بات معلوم نہیں ہوئی۔“ سیدنا عروہ سے روایت ہے انہوں نے کہا: جب سیدہ عائشہ ؓ کو اس واقعے کا علم ہوا تو انہوں نے عرض کی: اللہ کے رسول! کیا آپ مجھے اجازت دیتے ہیں کہ میں اپنے میکے چلی جاؤں؟ تو آپ نے انہیں اجازت دے دی اور انکے ہمراہ ایک غلام بھیجا۔ انصار میں سے ایک صاحب نے کہا: ”اے اللہ تیری ذات پاک ہے ہمارے لیے زیبا نہیں کہ ہم ایسی باتیں زبان پر لائیں۔ تیری ذات پاک ہے یہ تو بہت بڑا بہتان ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7370]
حدیث حاشیہ:
یہ واقعہ پچھلے تفصیل سے بیان ہو چکا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7370
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7500
7500. نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ عائشہ سے روایت ہے، انہوں نے منافقین کی طرف سے لگائے گئے بہتان کے متعلق فرمایا: ”اللہ کی قسم! مجھے یہ گمان نہ تھا کہ اللہ تعالیٰ میرے حق میں وحی نازل فرمائے گا جس کی قیامت تک تلاوت کی جائے گی۔ میرے نزدیک میرا درجہ اس سے بہت کم تھا کہ اللہ تعالیٰ میرے متعلق کوئی ایسا کلام کرے جس کی تلاوت کی جائے البتہ مجھے یہ امید ضرور تھی کہ رسول اللہﷺ بحالت نیند کوئی خواب دیکھ لیں گے جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ میری براءت کردے گا لیکن اللہ تعالیٰ نے مندرجہ ذیل دس آیات نازل فرمائیں: بے شک جن لوگوں نے بہتان گھڑا۔۔۔۔۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7500]
حدیث حاشیہ:
دس آیتیں جوسورۂ نور میں ہیں۔
مقصد اللہ کاکلام ثابت کرنا ہے جو بخوبی ظاہر ہے۔
آیات مذکورہ حضرت عائشہ ؓ کی برأت سے متعلق نازل ہوئیں۔
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ حضرت ابوبکر کی صاحبزادی اور رسول کریم ﷺ کی بہت ہی محبوبہ بیوی ہیں جن کےمناقب بہت ہیں۔
سنہ 85ھ بماہ رمضان 18 کی شب میں وفات ہوئی۔
رات میں دفن کیا گیا۔
ان دنوں حضرت ابوہریرہ عامل مدینہ تھے۔
انہوں نے نماز جنازہ پڑھائی۔
رضي اللہ عنا و أرضاھا
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7500
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2593
2593. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ جب کسی سفر کا ا رادہ فرماتے تو اپنی بیویوں کے درمیان قرعہ اندازی کرتے، جس بیوی کانام نکل آتا، اسے سفر میں اپنے ہمراہ لے جاتے۔ آپ ﷺ نے سیدہ سودہ بن زمعہ ؓ کے علاوہ باقی ہر بیوی کے ہاں فروکش ہونے (ٹھہرنے)کے لیے دن رات کی باری مقرر کر رکھی تھی۔ سیدہ سودہ ؓ نے اپنے دن رات کی باری رسول اللہ ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ ؓ کو ہبہ کردی تھی جس سے ان کامقصد رسول اللہ ﷺ کی خوشنودی تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2593]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت سودہ ؓ کافی عمر رسیدہ تھیں۔
انہیں رسول اللہ ﷺ کی رفاقت اور خوشنودی مقصود تھی۔
اس بنا پر انہوں نے اپنی باری ہبہ کر دی۔
اس قسم کا ہبہ جو آپس کی رضا مندی سے ہو جائز اور درست ہے۔
(2)
اس میں اختلاف ہے کہ انہوں نے اپنا ہبہ رسول اللہ ﷺ کو دیا تھا یا کسی ضرورت کی بنا پر تھا۔
استدلال اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب انہوں نے باری کا ہبہ حضرت عائشہ ؓ کو رسول اللہ ﷺ کی خوشنودی کے پیش نظر کیا ہو۔
حدیث سے یہی بات ثابت ہوتی ہے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2593
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2637
2637. حضرت ابن شہاب زہری سے روایت ہے، انھوں نے کہا: مجھے عروہ بن زبیر ؒ، سعید بن مسیب ؒ، علقمہ بن وقاص اور عبید اللہ بن عبد اللہ ؒ نے حضرت عائشہ ؓ کے واقعے کے متعلق بتایا۔ ان کی کچھ باتیں دوسری بیان کردہ باتوں کی تصدیق کرتی ہیں واقعہ یہ ہے کہ جب بہتان طرازوں نے حضرت عائشہ ؓ پر تہمت لگائی تو رسول اللہ ﷺ پر وحی آنے میں کچھ دیر ہو گئی۔ چنانچہ آپ نے حضرت علی ؓ اور حضرت اسامہ ؓ کو اپنی اہلیہ (حضرت عائشہ ؓ) کو چھوڑنے کے متعلق مشورے کے لیے بلایا تو حضرت اسامہ ؓ نے کہا: ہم تو ان کے متعلق خیرو بھلائی کے علاوہ کچھ نہیں جانتے، بہر حال وہ آپ کی بیوی ہیں حضرت بریرہ ؓ نے کہا: میں نے تو ان میں کوئی ایسی بات نہیں دیکھی جو ان کی شان کے خلاف ہو، (زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ) وہ ایک نوخیز (اور بھولی بھالی) لڑکی ہیں، اہل خانہ کا آٹا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2637]
حدیث حاشیہ:
(1)
تعديل کے معنی ہیں کہ کسی شخص کے متعلق صفائی دی جائے، یعنی وہ عادل ہے اور گواہی دینے کے قابل ہے۔
یہ شخص کسی معاملے میں مہتم نہیں اور نہ پہلے کسی جرم میں پکڑا گیا ہے۔
اس کی صفائی دینے کے متعلق اختلاف ہے کہ کس قسم کے الفاظ ادا کیے جائیں، کیا اتنا ہی کافی ہے کہ اسے ہم بھلا آدمی خیال کرتے ہیں؟ امام بخاری ؒ کا رجحان ہے کہ نیک چلن بیان کرنے کے لیے اتنے الفاظ ہی کافی ہیں جبکہ بعض حضرات کا خیال ہے کہ تعدیل بیان کرتے ہوئے اس بات کی وضاحت کی جائے کہ یہ عادل شخص ہے اور اس کی گواہی قبول ہے۔
اسلام نے مقدمات کا فیصلہ کرتے وقت گواہوں کے عادل اور نیک چلن ہونے پر بہت زور دیا ہے کیونکہ فیصلے کی بنیاد گواہ ہوتے ہیں۔
ان کی صفائی کا یہی طریقہ ہے کہ عدالت میں کوئی قابل اعتماد آدمی ان گواہوں کی نیک سیرتی بیان کر دے۔
دوسرا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ حکومت خود گواہ کے متعلق اپنے ذرائع استعمال کرے کہ وہ کیسا آدمی ہے، پھر عدالت کو اس کے متعلق مطلع کیا جائے۔
(2)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی کو نیک چلن بتانے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ عمومی طور پر اس کی نیک سیرتی سے مطلع کر دیا جائے جیسا کہ حضرت اسامہ ؓ نے حضرت عائشہ ؓ کے متعلق بیان کیا تھا ویسے بھی انسان کسی کے متعلق اپنے علم کے مطابق ہی خبر دے سکتا ہے۔
حقیقت حال سے کسی کو کون مطلع کر سکتا ہے کیونکہ باطنی امور کا علم تو اللہ کے پاس ہے، اس کے سوا اور کوئی نہیں جان سکتا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2637
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2688
2688. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا: جب رسول اللہ ﷺ سفر کا ارادہ کرتے تو اپنی بیویوں کے درمیان قرعہ اندازی کرتے، جس کے نام قرعہ نکلتا اسے اپنے ساتھ سفر میں لے جاتے۔ آپ ﷺ نے اپنی ہر بیوی کے لیے ایک دن اور ایک رات کی باری مقرر کررکھی تھی لیکن حضرت سودہ بنت زمعہ ؓ نے اپنی باری ام المومنین حضرت عائشہ ؓ کو ہبہ کردی تھی، اس سے وہ رسول اللہ ﷺ کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتی تھیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2688]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے بھی قرعہ اندازی کا ثبوت ملتا ہے کہ جب حقوق میں سب برابر ہوں اور فیصلہ نہ ہو سکتا ہو تو حقوق کو متعین کرنے کے لیے قرعہ اندازی کا سہارا لیا جا سکتا ہے۔
کچھ حضرات اس کے شرعی طور پر جائز ہونے کا بلا وجہ انکار کرتے ہیں۔
انہیں اپنے موقف پر نظرثانی کرنی چاہیے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2688
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2879
2879. حضرت عائشہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ جب کہیں سفر کے لیے روانہ ہوتے تو اپنی بیویوں کے درمیان قرعہ اندازی کرتے۔ جس بیوی کے نام قرعہ نکل آتا اسے نبی کریم ﷺ ہمراہ لے جاتے، چنانچہ آپ نے ایک غزوے میں جانے کے لیے ہم اس قرعہ اندازی کی تو اس میں میرے نام قرعہ نکل آیا۔ میں اس غزوے میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ گئی جبکہ حجاب کاحکم نازل ہوچکا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2879]
حدیث حاشیہ:
1۔
اس حدیث میں صراحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنی بیویو ں میں سے کسی ایک بیوی کا انتخاب بذریعہ قرعہ اندازی کرتے تاکہ جہادی سفر میں اسے اپنے ہمراہ لے جائیں۔
2۔
مذکورہ حدیث "حدیث افک" کے نام سے مشہور ہے اس میں حضرت عائشہ ؓ پر تہمت کا واقعہ بیان ہوا ہے جس کی تفصیل آئندہ آئے گی۔
بہر حال پردے کا مطلب یہ نہیں کہ عورت اپنی کسی ضرورت کے لیے بھی باہر نہ نکلے بلکہ شرعی پردے میں رہتے ہوئے عورت اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے گھر سے باہر نکل سکتی ہے۔
چنانچہ عہد نبوی میں متعدد خواتین اسلام نے جہادی سفر کیے۔
خود رسول اللہ ﷺ اپنی ازواج کو اس مقدس مشن کی تکمیل کے لیے گھر سے باہر لے جاتے۔
خواتین اسلام زخمی مجاہدین کی مرہم پٹی کرتیں اور ان کے لیے پانی کا اہتمام کرتیں۔
اس کی تفصیل بھی آئندہ احادیث میں آئے گی۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2879
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4025
4025. نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ میں اور ام مسطح ؓ جا رہی تھیں کہ اچانک ام مسطح اپنی چادر میں پھسل پڑیں۔ ان کی زبان سے نکلا: مسطح کا برا ہو۔ میں نے کہا: تو نے اچھی بات نہیں کہی۔ ایک ایسے شخص کو برا کہتی ہو جو بدر کی جنگ میں شریک ہو چکا ہے؟ پھر انہوں نے تہمت کا واقعہ بیان کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4025]
حدیث حاشیہ:
1۔
یہ حدث افک کا ایک حصہ ہے جس کی وضاحت سورہ نور کی تفسیر میں بیان ہو گی۔
2۔
حضرت ام مسطح ؓ حضرت ابو بکر ؓ کی ہمشیر اور سیدہ عائشہ ؓ کی پھوپھی تھیں، بیمار ہوگئیں تو کمزوری کی وجہ سے چلتے ہوئے اپنی چادر میں پھسل پڑیں۔
3۔
اس حدیث سے مقصود حضرت مسطح ؓ کے متعلق بیان کرنا ہے کہ وہ بدر میں شریک ہوئے تھے۔
رسول اللہ ﷺ نے ان پر حد قذف لگائی کیونکہ وہ عائشہ ؓ پر تہمت لگانے والوں میں شامل تھے حضرت مسطح کے والد کا نام اثاثہ اور ان کی والدہ کا نام سلمیٰ ہے۔
(عمدة القاري: 63/12)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4025
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4141
4141. حضرت ابن شہاب سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ مجھ سے عروہ بن زبیر، سعید بن مسیب، علقمہ بن وقاص اور عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود ؓ نے نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ ؓ سے بیان کیا کہ جب تہمت لگنے والوں نے ان کے متعلق وہ سب کچھ کہا جو انہیں کہنا تھا، ان تمام حضرات نے مجھ سے حضرت عائشہ ؓ کی حدیث کا ایک ایک حصہ بیان کیا۔ ان میں سے بعض کو یہ قصہ زیادہ بہتر طریقے سے یاد تھا اور وہ اچھے اسلوب میں اسے بیان کرتا تھا۔ میں نے ان میں سے ہر ایک کی روایت یاد رکھی جو اس نے حضرت عائشہ ؓ سے لی تھی اگرچہ کچھ لوگوں کو دوسروں کے مقابلے میں یہ روایت زیادہ بہتر طریقے سے یاد تھی، تاہم ان میں سے ایک کی روایت دوسرے کی بیان کردہ روایت کی تصدیق کرتی تھی۔ ان لوگوں نے بیان کیا کہ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کی عادت مبارکہ تھی کہ جب آپ سفر کا ارادہ کرتے تو اپنی ازواج مطہرات۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4141]
حدیث حاشیہ: 1۔
غزوہ بنو مصطلق کی مہم میں رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی ملعون کی سرکردگی میں منافقین کی ایک بھاری جمعیت کو لشکر اسلام کے ساتھ جانے کا موقع مل گیا۔
یہ لوگ رذیلانہ حملوں اور داخلی فتنہ انگیزیوں کے ذریعے سے مسلمانوں کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے، چنانچہ مریسیع کے مقام پر مسلمانوں کے معمولی سے جھگڑے کو بنیاد بنا کر مہاجرین اور سالار مہاجرین ﷺ کے متعلق انتہائی گھٹیا اور توہین آمیز الفاظ استعمال کر کے اپنے خبث باطن کا اظہارکیا۔
سورہ منافقون میں بھی ان کی دسیسہ کاریوں کا تفصیلی تذکرہ ہے۔
یہ شوشہ ابھی تازہ ہی تھا کہ اس مہم سے واپسی کے وقت انھوں نے نے ایک اور طوفان بدتمیزی اٹھایا اور یہ صد یقہ کائنات حضرت عائشہ ؓ پر تہمت کا فتنہ تھا جو واقعہ افک کے نام سے مشہور ہے اور مذکورہ حدیث میں اس کا تفصیلی تذکرہ ہے سورہ نورکا ابتدائی حصہ اسی خطرناک حادثے کے پس منظر میں نازل ہوا۔
منافقین الٹےخود ہی رسوا ہو کر رہ گئے۔
2۔
واقعہ یہ تھا کہ لشکر سے پیچھے رہ جانے والی کوئی عام عورت نہ تھی بلکہ تمام مسلمانوں کی ماں ہے اور پیچھے سے آنے والا بھی پکا مسلمان ہے جو انھیں فی الواقع اپنی ماں ہی سمجھتا ہے۔
ماں اس سے پردہ بھی کر لیتی ہے اور وہ آپس میں اس وقت بلکہ پورے سفر کے دوران میں ہم کلام نہیں ہوتے اور یہ سفر بھی صبح سے لے کر دوپہر تک دن دیہاڑے ہو رہا ہے۔
عورت اونٹ پر سوار ہے اور مرد خاموشی کے ساتھ آگے آگے چل رہا ہے اور سفر بھی مدینے کے آس پاس قریبی علاقے میں ہےحتی کہ مسلمانوں کے لشکر سے جا ملتا ہے ایسے حالات میں بد گمانی کی محرک صرف دو ہی باتیں ہو سکتی ہیں ایک یہ کہ بد گمانی کرنے والا خود بد باطن اور خبیث انسان ہو جو ایسے حالات میں خود یہی کچھ سوچتا ہو یا یہی کچھ کرتا اور دوسرے لوگوں کو بھی اپنی ہی طرح سمجھتا ہو اور دوسری یہ کہ وہ ایسے موقع کو غنیمت جان کر ازراہ دشمنی ایسی بکواس کرنے لگے اور منافقین میں یہ دونوں باتیں پائی جاتی تھیں۔
ایسے حالات میں اللہ کا فضل یہ ہوا کہ اس نے مسلمانوں کو بالعموم اور اپنے پیغمبر ﷺ کو بالخصوص صبرو استقامت کی توفیق بخشی ورنہ منافقین نے جس طرح مسلمانوں پر کاری وار کیا تھا، اگر مسلمان بھی جوابی کاروائی پر اٹھ کھڑے ہوتے تو حالات کوئی سنگین صورت اختیار کر سکتے تھے۔
بہر حال عام مسلمانوں کی اخلاقی اور ایمانی حالت اتنی مضبوط تھی کہ منافقین کے زبردست پروپیگنڈےکے باوجود تین افراد کے سوا کوئی ان سے متاثر نہ ہوا۔
ان میں سے بھی حمنہ بنت حجش اپنی بہن حضرت زینب حجش ؓ کی خاطر اور حضرت عائشہ ؓ کو نیچا دیکھانے کے لیے اس بہتان میں شامل ہو گئی تھیں۔
3۔
اس واقعے سے مسلمانوں کے ایمان کا امتحان بھی ہوگیا اور منافقین کا نفاق بھی کھل کر سامنے آگیا۔
منافقین یہ چاہتے تھے کہ مسلمانوں میں پھوٹ ڈال کر انھیں کمزور کردیا جائے لیکن نتیجہ اس کے برعکس نکلا اور مسلمان کا اخلاقی پہلو پہلے سے بھی زیادہ نمایاں ہوگیا مسلمانوں کو اس دوران میں ایسے احکام دیے گئے جن پر عمل پیرا ہونے سے وہ ایسے فتنہ خیز اور فتنہ پرورطوفان کا بخیر و خوبی مقابلہ کر سکیں۔
اس جانکاہ حادثے سے جو افراد جس قدر متاثر تھے اسی قدر وحی الٰہی ان کی خوشی کا باعث ثابت ہوئی۔
خود رسول اللہ ﷺ وحی کے اختتام پر مسکرارہے تھے۔
حضرت ابو بکر ؓ اور حضرت ام رومان ؓ کی خوشی کا یہ عالم تھا کہ انھوں نے اپنی بیٹی کو رسول اللہ ﷺ کا شکریہ ادا کرنے کا کہا۔
سیدہ عائشہ ؓ کی خوشی کی تو کچھ انتہا ہی نہ تھی جن کی براءت میں دس آیات نازل ہوئیں جو قیامت تک پڑھی جاتی رہیں گی۔
4۔
اس تفصیلی واقعے کے تناظر میں مسلمانوں کی مضبوط اخلاقی حالت کو درج ذیل امور سے پتہ چلتا ہے۔
(ا) خود رسول اللہ ﷺ اس واقعے کو بہتان ہی سمجھتے تھے وہ صرف اپنی زوجہ محترمہ ہی کو نہیں بلکہ حضرت صفوان بن معطل ؓ کو بھی ایک پاکباز انسان خیال کرتے تھے۔
(ب) اس واقعے کا براہ راست صدمہ رسول اللہ ﷺ کو پہنچا تھا۔
آپ کے ادنی سے اشارے سے بہتان تراشوں کاصفایا کیا جا سکتا تھا مگر جب قومی اور قبائلی عصبیت کی بنا پر جھگڑا شروع ہوا تو آپ نے یہ صدمہ اپنی جان پر برداشت کر لیا مگر مسلمانوں کے اتحاد کو پارہ پارہ نہ ہونے دیا۔
(ج) رسول اللہ ﷺ اس سلسلے میں پورا ایک ماہ انتہائی تکلیف اور بے چینی میں مبتلا رہے کیونکہ یقینی علم یا علم غیب آپ کو حاصل نہ تھا بصورت دیگر دوسروں سے اس سلسلے میں پوچھنے کی ضرورت ہی نہ تھی اور شاید اس تاخیر میں یہ مصلحت بھی پوشیدہ ہو کہ بعد میں آنے والے آپ کو عالم غیب سمجھنے یا ثابت کرنے نہ لگیں۔
(د) یقین کامل کے باوجود آپ نے اس واقعے کی حتمی تردید اس لیے نہ فرمائی کہ ایک شوہر کی اپنی بیوی کے لیے تردید کی مخالفین کی نظروں میں کوئی حیثیت نہیں تھی۔
(و) سیدہ عائشہ ؓ کے والدین بھی ذاتی طور پر انھیں پاکباز سمجھتے تھے تاہم وہ بھی حتمی طور پر تردید اس لیے نہ کر سکتے تھے کہ والدین کا اپنی بیٹی کے حق میں پاکیزگی کا بیان مخالفین کا منہ بند نہیں کر سکتا تھا۔
5۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ اپنی مایہ ناز کتاب:
الفوز الکبیرمیں لکھتے ہیں مفسر کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان واقعات کو اختصار کے ساتھ بیان کردے جن کی طرف آیات میں کوئی اشارہ کیا گیا ہے جیسا کہ سورہ نور میں واقعہ افک ہے، اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان آیات پر سر سری نظر ڈال لی جائے جو حارثہ افک کے پس منظر میں نازل ہوئی ہیں۔
اور جن میں واقعہ افک کی طرف کھلے اشارات ہیں۔
”جن لوگوں نے تہمت کی باتیں کیں وہ تم میں سے ایک گروہ ہیں۔
“(النور: 11/24) حضرت عائشہ ؓ فرماتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے جب میری براءت اتاری تو رسول اللہ ﷺ نے منبر پر اس کا تذکرہ کیا اور ان آیات کی تلاوت کی، پھر نیچے اتر کردو آدمیوں
(حضرت حسان اور حضرت مسطح ؓ) اور ایک عورت
(حضرت حمنہ ؓ) کو حد قذف لگانے کا حکم دیا۔
(جامع الترمذی، التفسیر، حدیث: 3181۔
)
”ان میں سے جو شخص اس تہمت کے بڑے حصے کا ذمہ دار بنا اس کے لیے عذاب عظیم ہے۔
“ (النور24۔
11) ترجمان القرآن حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ عروہ بن زبیر ہشام بن عروہ ابن زید ؓ اور امام مجاہد کے نزدیک اس سے مراد صدیقہ کائنات پربہتان لگانے والوں میں سرگرم رکن رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی ہے۔
(تفسیر الطبیري: 89/8) سیدہ عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ اس سے مراد عبد اللہ بن ابی منافق ہے۔
(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4749) اسے حد قذف نہیں لگائی گئی تاکہ قیامت تک اس پر لعنتیں برستی رہیں اور یہ حد اس کے لیے کفارہ نہ بن سکے۔
واللہ اعلم۔
”جب تم نے یہ سنا تھا تو مومن مردوں اور مومن عورتوں نے اپنے دل میں اچھی بات کیوں نہ سوچی اور یوں کیوں نہ کہہ دیا کہ یہ تو صریح بہتان ہے۔
“ (النور: 24۔
12) اس آیت کریمہ میں مسلمانوں کی اخلاقی تربیت کی گئی ہے کہ جس طرح پر مسلمان خود کو پاک دامن خیال کرتا ہے اسے دوسرے بھائیوں کے متعلق بھی ایسا ہی گمان رکھنا چاہیے اور اگر کوئی بدطینت منافق ان میں سے کسی پر کوئی تہمت لگاتا ہے تو اس کی تصدیق نہیں کرنی چاہیے اور اسی وقت کہہ دینا چاہیے کہ یہ بہتان تراشی ہے۔
خاص طور پر جوتہمت رسول اللہ ﷺ کی زوجہ محترمہ کے متعلق ہو اس مسلمانوں کے دل ودماغ میں کوئی جگہ ہی نہیں ہونی چاہیے
”پھر تہمت لگانے والے اس پر چار گواہ کیوں نہ لا سکے؟ پھر جب یہ گواہ نہیں لا سکے تو اللہ کے ہاں یہی جھوٹے ہیں۔
“ واقعہ افک کا قانونی پہلو یہ ہے کہ ایسی جو بدکاری پر دلالت کرتی ہوں وہ کبھی میسرآبھی نہ سکتیں تھیں کیونکہ قرائن سب اس کے خلاف تھے۔
یہ سفر جو حضرت صفوان بن معطل ؓ کی معیت میں ہوا صبح سے لے کر دوپہر تک دن دہاڑے ہوا اور مدینے کے قریب آبادی میں ہوا۔
منافقین کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی تھا کہ وہ اس پر چار گواہ پیش نہ کر سکے۔
”جب تم اپنی زبانوں سے اس کا ایک دوسرے سے ذکر کرتے تھے اور تم اپنے منہ سے وہ کچھ کہہ رہے تھے جس کے متعلق تمھیں کچھ علم نہیں تھا اور تم اسے معمولی بات سمجھ رہے تھے حالانکہ وہ اللہ کے ہاں بہت بڑی تھی۔
“(النور: 12/24) انسان کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہےکہ وہ سنی سنائی بات آگے دھکیل دے۔
کسی تحقیق کے بغیر اس طرح کی بات کو آگے بیان کرنا کبیرہ گناہ ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”کسی انسان کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی بات کو آگے منتقل کردے۔
“ (النور: 15۔
2624۔
)
”جب تم نے یہ سنا تھا تو یوں کیوں نہ کہہ دیا ہمیں یہ مناسب نہیں کہ ایسی بات کریں سبحان اللہ! یہ تو بہت بڑا بہتان ہے۔
“ (صحیح مسلم، مقدمة الإمام مسلم: 7/ (5)
یہ ایک اخلاقی ضابطہ ہے کہ ہر شخص کو دوسرے کے متعلق حسن ظن ہی رکھنا چاہیے حتی کہ اس کے خلاف بدظنی کی کوئی یقینی وجہ اس کے علم میں نہ آئے۔
یہ اصول قطعاً غلط ہے کہ ہر ایک کو شکوک و شبہات کی نگاہ سے دیکھا جائے۔
یہاں تو معاملہ اور بھی زیادہ سخت تھا کہ رسول اللہ ﷺ کی زوجہ محترمہ پر محض بدظنی کی وجہ سے بہتان لگایا جائے چنانچہ متعدد روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابو ایوب انصاری ؓ زید بن حارثہ ؓ، سعد بن معاذ ؓ، قتادہ بن نعمان ؓ، ابی بن کعب ؓ، اور حضرت اسامہ ؓ نے یہ ماجرا سنتے ہیں:
﴿سُبْحَانَكَ هَٰذَا بُهْتَانٌ عَظِيمٌ ﴾ کہہ دیا تھا(النور: 16۔
24)
”اللہ تمھیں نصیحت کرتا ہے کہ اگر تم مامون ہو تو آئندہ کبھی ایسی حرکت نہ کرنا۔
“ (فتح الباری: 420/13)
یعنی آئندہ تمھیں منافقین کی ایسی مخالفانہ چالوں سے ہوشیار اور چوکس رہنا چاہیے نیز رسول اللہ ﷺ اور آپ کے اہل خانہ کی عظمت شان کو بھی ملحوظ رکھنا چاہیے۔
”جو لوگ اس طرح مسلم معاشرے میں بے حیائی کی اشاعت چاہتے ہیں ان کے لیے دنیا میں بھی دردناک عذاب ہے اور آخرت میں بھی۔
اس کے نتائج کو اللہ ہی جانتا ہے تم نہیں جانتے ہو۔
“ (النور:
۔
19۔
24)
فاحشہ سے مراد ہر وہ کام جو انسان کی شہوانی خواہش میں تحریک پیدا کرنے کا سبب ہو۔
اشاعت فحاشی کی بہت سی صورتیں ہمارے معاشرے میں رائج ہیں مثلاً:
تھیڑ، سینما، تصویریں، ناچ گانے کی محفلیں، انٹر نیٹ اور سی ڈیز وغیرہ الغرض فحاشی کی اشاعت کا دائرہ آج بہت وسیع ہو چکا ہے ان سب باتوں کے لیےوہی وعید ہے جس کا ذکر آیت کریمہ میں ہوا ہے۔
”جو لوگ پاکدامن اور بھولی بھالی ایمان دار عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں ان پر دنیا میں بھی لعنت ہے اور آخرت میں بھی اور انھیں بہت بڑا عذاب ہوگا۔
“ (النور: 23/24)
وہ سیدھی سادی اور بھولی بھالی عورت جسے بد چلن عورتوں کی باتوں سے واقفیت نہ ہو، اس پر تہمت نہ ہو، اس پر تہمت لگانا کبیرہ گناہ ہے۔
ایک روایت میں ایسی عورتوں پر تہمت لگانا ان سات تباہ کن گناہوں میں سے ہے جو سابقہ نیکیوں کو برباد کر دیتے ہیں۔
(صحیح البخاري، الحدود، حدیث: 6857)
لیکن یہاں معاملہ تو اور بھی سنگین تھا کہ جس پر بہتان باندھا گیا وہ عام عورت نہ تھی بلکہ رسول اللہ ﷺ کی زوجہ محترمہ اور عام اہل ایمان کی ماں تھیں ان پر تہمت لگانے والے تو کسی صورت میں اللہ کی لعنت اور اس کی سزا سے نہیں بچ سکیں گے۔
”ان کا دامن ان باتوں سے پاک ہے جو وہ تہمت لگانے والے بکتے ہیں۔
ان کے لیے بخشش بھی ہے اور عزت کی روزی بھی۔
“ (النور: 24۔
26)
امام رازی لکھتے ہیں۔
مسلمانوں کا اس امر پر اجماع ہے کہ آیت کریمہ میں"افك" سے مراد وہ بہتان ہے جو صدیقہ کائنات حضرت عائشہ ؓ پر لگایا گیا تھا۔
(تفسیر کبیر: 32/172)
یہ وہ آیات ہیں جو سورۃ نور کے نازل ہونے کا سبب بنیں ابتدا میں تہمت قذف زنا کے احکام اور اس کی سزا بتانے کے بعد اس واقعے کا آغاز اور اس پر تبصرہ ہےاس کا آغاز ہی اس طرح کیا گیا کہ جو کچھ افواہیں پھيلیں اور قصے گھڑے گئے سر اسر جھوٹ، بہتان اور بدنیتی پر مبنی تھے۔
جن میں حقیقت کا شائبہ تک نہیں۔
تمام مفسرین نے ان آیات کا پس منظر یہی واقعہ افک بیان کیا ہے لیکن دور حاضر کے منکرین حدیث کہتے ہیں کہ یہ واقعہ خود ساختہ اور بناوٹی ہے ضد اور ہٹ دھرمی کا کوئی علاج نہیں۔
6۔
امام بخاری ؒ نے اپنی صحیح میں تقریباً ستائیس مقامات پر اس روایت کو بیان کیا ہے۔
ان میں چار جگہ پر یہ حدیث تفصیل سے بیان کی ہے اور باقی مقامات میں ضرورت کے مطابق اس روایت کا کچھ حصہ لائے ہیں اسی طرح سات مقامات پر واقعہ افک کا ذکر ضمنی طور پر ہوا جس کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔
ان تمام روایات سے زیادہ مشہور حضرت عائشہ ؓ سے مروی وہ روایات ہے جو بطریق امام زہری ؒ مختلف کتب حدیث میں بیان ہوئی ہے۔
امام زہری نے اپنے چار اساتذہ علقمہ بن وقاص ؓ سعید بن مسیب ؓ عروہ بن زبیر ؓ اور عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ ؓ سے واقعہ افک کے چیدہ چیدہ اجزا سنے پھر واقعے کے تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے ان بکھرے ہوئے اجزا کو یکجا کر کے مرتب صورت میں اپنے تلامذہ سے بیان کیا اگرچہ بعض آئمہ حدیث نے امام زہری ؒ کے اس انداز کو پسند نہیں کیا، تاہم ایسا کرنا روایت بالمعنی ہی کا ایک طریقہ ہے جسے اکثر محدثین نے پسند فرمایا اور اس روایت کو اپنی تالیفات میں بیان کرنے کا اہتمام کیا، چنانچہ سرخیل محدثین امام بخاری ؒ نے اپنی صحیح میں تقریباً سترہ مقامات پر اس کی روایت کو متعدد طرق سے بیان کیا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4141
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4750
4750. حضرت ابن شہاب سے روایت ہے، انہوں نے کہا: مجھ سے عروہ بن زبیر، سعید بن مسیب، علقمہ بن وقاص اور عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود نے نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کا واقعہ بیان کیا جبکہ تہمت لگانے والوں نے ان کے متعلق افواہ اڑائی تھی اور اللہ تعالٰی نے آپ کو اس تہمت سے پاک قرار دیا تھا۔ ان تمام حضرات نے حدیث کا ایک ایک ٹکڑا مجھ سے بیان کیا اور ان حضرات میں سے ایک کا بیان دوسرے کے بیان کی تصدیق کرتا ہے۔ اگرچہ ان میں سے کچھ حضرات کو دوسروں کے مقابلے میں حدیث زیادہ بہتر طریقےسے یاد تھی۔ حضرت عروہ بن زبیر نے مجھے حضرت عائشہ ؓ کے حوالے سے اس طرح بیان کیا کہ نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: جب رسول اللہ ﷺ کسی سفر کا ارادہ کرتے تو اپنی ازواج مطہرات میں سے کسی کو اپنے ساتھ لے جانے کے لیے قرعہ اندازی کرتے۔ جس کا نام نکل آتا رسول اللہ ﷺ اسے اپنے ساتھ لے جاتے، چنانچہ آپ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4750]
حدیث حاشیہ: 1۔
اس مفصل حدیث کے مطابق مسلمانوں کی مضبوط اخلاقی حالت کا درج ذیل امور سے پتا چلتا ہے۔
۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود اس واقعے کو ایک بہتان ہی خیال کرتے تھے وہ صرف اپنی زوجہ محترمہ ہی کو نہیں بلکہ حضرت صفوان بن معطل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی ایک پاکباز انسان سمجھتے تھے۔
۔
اپنے یقین کامل کے باوجود آپ نے اس واقعے کی حتمی تردید اس لیے نہ فرمائی کہ ایک شوہر کی اپنی بیوی کے لیے تردید مخالفین کی نظروں میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔
۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے والدین بھی ذاتی طور پرانھیں پاکبازسمجھتے تھے جیسا کہ ان کی والدہ ام رومان رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے جواب سے ظاہر ہوتا ہے تاہم وہ بھی حتمی تردید اس لیے نہ کر سکتے تھے یا پاکباز کا بیان اس لیے نہ دے سکتے تھے کہ والدین کا اپنی بیٹی کے حق میں پاکبازی کا بیان مخالفین کا منہ بند نہیں کر سکتا تھا۔
۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سلسلے میں سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور سیدہ زینب بن حجش رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے پوچھا۔
یہ سب آپ کے گھر کے افراد تھے۔
سب نے پر زور الفاظ میں سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی پاکبازی کا بیان دیا۔
سیدہ زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا جو سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی سوکن اور ان کے مقابلے کی چوٹ تھیں انھوں نے بھی آپ کے متعلق ذکر خیر ہی کیا۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ گھر کے فرد تھے جن سے آپ پوچھا انھوں نے اس الزام کی تردید یا سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی پاکبازی بیان کرنے کے بجائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پریشانی اور خوشنودی کا لحاظ رکھ کر جواب دیا لیکن ان کی زبان سے بھی کوئی ایسا لفظ نہیں نکلا جس سے اس الزام کی تائید ہوتی ہو یا سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ذات یا ان کی پاکبازی پر کوئی حرف آتا ہو۔
2۔
اس واقعے کا براہ راست صدمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو پہنچا تھا اور آپ کے ایک ادنی اشارے سے بہتان باندھنے والوں کا صفایا ہو سکتا تھا مگر جب قومی اور قبائلی عصبیت کی بنا پر جھگڑا شروع ہوا تو آپ نے یہ انتہائی تکلیف دہ صدمہ خود اپنی ذات پر برداشت کر لیا مگر مسلمانوں میں جھگڑا نہ ہونے دیا۔
3۔
آپ اس سلسلے میں پورا مہینہ بے چین و بے تاب رہے اس لیے کہ یقینی علم یا علم غیب آپ کو حاصل نہ تھا ورنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دوسروں سے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے متعلق نہ پوچھتے اور شاید اس تاخیر میں یہ مصلحت تھی کہ بعد میں آنے والے لوگ آپ کو عالم الغیب نہ سمجھنے لگیں یا اسے ثابت کرنے کے لیے کوشش نہ کریں۔
4۔
اس واقعے کا قانونی پہلو یہ ہے کہ ایسی شہادتیں جو بد کاری پر دلالت کرتی ہوں وہ کبھی میسر بھی نہ آسکتی تھیں کیونکہ سب قرآئن اس کے خلاف تھے واقعہ یہ تھا کہ پیچھے رہ جانے والی کوئی عام عورت نہ تھی۔
بلکہ تمام مسلمانوں کی ماں تھی اور پیچھے سے آنے والا آدمی بھی پکا مسلمان ہی تھا جو انھیں واقعی اپنی ماں ہی سمجھتا تھا وہ دونوں اس وقت یا دوران سفر میں ہم کلام نہیں ہوئےاور یہ سفر صبح سے دوپہر تک دن دیہاڑے ہوا۔
عورت اونٹ پر سوار ہے اور مرد خاموشی سے آگے چل رہا ہے یہاں تک کہ وہ مسلمانوں کے لشکر سے جا ملتا ہے۔
ایسے حالات میں بدگمانی کے محرک دوہی ہو سکتے ہیں۔
ایک یہ کہ بدگمانی کرنے والا خود بد باطن اور خبیث الفطرت انسان ہو جو ایسے حالات میں خود یہی کچھ سوچتا یا کرتا ہو اور اسی طرح دوسروں کو اپنی ہی طرح سمجھتا ہواوردوسرا یہ کہ وہ ایسے موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے اس طرح کی بکواس کرنے لگے۔
اس وقت کے منافقین میں یہ دونوں باتیں پائی جاتی تھیں۔
واللہ المستعان،
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4750
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5211
5211. سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی ﷺ جب سفر میں جانے کا ارادہ کرتے تو اپنی بیویوں میں قرعہ اندازی کرتے چنانچہ ایک دفعہ ام المومنین سیدہ عائشہ اور ام المومنین سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کا قرعہ نکلا۔ نبی ﷺ رات کو دوران سفر میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے گفتگو فرمایا کرتے تھے ایک مرتبہ سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ آج تم میرے اونٹ پر سوار ہو جاؤ اور میں آپ کے اونٹ پر سواری کرتی ہوں میں بھی نئے مناظر کا مشاہدہ کروں؟ انہوں نے یہ تجویز قبول کرلی اور وہ اونٹ پر سوار ہو گئیں۔ اس کے بعد نبی ﷺ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے اونٹ کے پاس تشریف لائے اور اس پر سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا سوار تھیں۔ آپ ﷺ نے انہیں سلام کیا پھر (وہاں سے) روانہ ہوئے حتیٰ کہ جب ایک مقام پر پڑاؤ کیا تو ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے پاؤں اذخر گھاس میں ڈال لیے اور کہنے لگیں: اے اللہ!۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5211]
حدیث حاشیہ:
(1)
بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ کچھ بیویوں کا گھر میں موجود رہنا زیادہ بہتر ہوتا ہے اور کچھ عورتیں سفر میں معاون و مدد گار ثابت ہوتی ہیں، ایسے حالات میں قرعہ اندازی ضروری نہیں ہاں، جب تمام بیویوں کے حالات ایک جیسے ہوں تو قرعہ اندازی کے ذریعے سے فیصلہ کیا جائے تاکہ دوسری بیویوں کو شکوہ و شکایت کا موقع نہ ملے۔
اس حدیث سے امام بخاری رحمہ اللہ نے اس امر کو ثابت کیا ہے۔
(فتح الباري: 386/9) (2)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فراق اورآپ کی جدائی کی وجہ سے چاہتی تھیں کہ کوئی زہریلا جانور مجھےڈس لے تاکہ موت کی بنا پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائی کے دکھ اور تکلیف سے نجات مل جائے یا میری مصیبت کا سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئیں جس سے فراق اور جدائی کا غم دور ہو جائے۔
لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو پہلے تشریف لائے تھے مگر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اپنی کوتاہی کی وجہ سے خود محروم رہ گئیں۔
حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کا بھی اس میں کوئی قصور نہیں تھا، اس لیے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا مارے رنج کے خود کو کوسنے لگیں اور اپنے پاؤں گھاس میں ڈال لیے جس میں زہریلے کیڑے بکثرت رہتے تھے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5211
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6662
6662. نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ ام المومنین سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ جب بہتان تراشوں نے ان پر طوفان باندھا پھر اللہ تعالٰی نے ان کی پاک دامنی واضح کر دی تو نبی ﷺ کھڑے ہوئے اور عبداللہ بن ابی (رئیس المنافقین) سے انتقام کے متعلق فرمایا تو سیدبا اسید بن حضیر ؓ کھڑے ہوئے اور حضرت سعد بن عبادہ ؓ سے کہا: حیات الہٰی (اللہ کی بقا) کی قسم! ہم اس کو ضرور قتل کریں گے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6662]
حدیث حاشیہ:
(1)
بعض حضرات کا خیال ہے عمر الله سے مراد اللہ تعالیٰ کا ہمیشہ باقی رہنا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی ذاتی صفت ہے، لہذا لعمر الله کہنے سے قسم واقع ہو جاتی ہے لیکن امام شافعی رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ قسم کا واقع ہونا کہنے والے کی نیت پر موقوف ہے کیونکہ لعمر الله سے مراد علم اور حق بھی ہے، اس بنا پر ضروری نہیں کہ صرف ان الفاظ کے کہنے سے قسم واقع ہو جائے۔
(فتح الباري: 666/11) (2)
ہمارے رجحان کے مطابق امام شافعی رحمہ اللہ کا موقف ہی درست معلوم ہوتا ہے۔
مذکورہ روایت میں حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے حیات الٰہی کی قسم اٹھائی تھی، اس لیے یہ الفاظ قسم کے لیے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔
واللہ أعلم۔
حضرت لقیط بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ''لعمر الله'' کے الفاظ کئی دفعہ استعمال فرمائے ہیں۔
(مسند أحمد: 13/4)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6662
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6679
6679. امام زہری سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے عروہ بن زبیر، سعید بن مسیب، علقمہ بن وقاص اور عبید اللہ بن عتبہ سے نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ سیدہ عائشہ ؓ کے متعلق ایک حدیث سنی جب ان پر بہتان تراشوں نے طوفان باندھا اور اللہ تعالٰی نے انہیں اس بہتان سے پاک قرار دیا اور ان کی باتوں سے بری کیا۔ ان میں سے ہر ایک نے مجھے حدیث کا کچھ حصہ بتایا کہ سیدہ عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ اللہ تعالٰی نے ﴿إِنَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ مِّنكُمْ﴾ سے دس آیات حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے کہا: ”اللہ کی قسم! میں مسطح پر خرچ نہیں کروں گا جبکہ وہ مسطح پر قرابت داری کی وجہ سے خرچ کیا کرتے تھے۔ یہ اس لیے کیا کہ انہوں نے سیدہ عائشہ ؓ پر بہتان لگانے میں حصہ لیا تھا۔ اللہ تعالٰی نے یہ آیات نازل فرمائیں: ”تم میں سے اہل فضل ووسعت قسمیں نہ کھائیں کہ وہ اپنے اقارب پر خرچ نہیں کریں گے۔“ نزول آیات کے بعد حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے کہا: اللہ کی قسم!۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6679]
حدیث حاشیہ:
(1)
جن لوگوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر بہتان لگایا تھا ان میں حضرت مسطح بھی شامل تھے، حالانکہ وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی کفالت میں تھے۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے غصے میں آ کر قسم کھائی کہ وہ آئندہ ان پر خرچ نہیں کریں گے۔
ان کی یہ قسم ترک طاعت (نیکی نہ کرنے)
پر تھی، جس پر انہیں قائم نہیں رہنے دیا گیا۔
معصیت کی قسم پر تو بالاولیٰ قائم رہنے کی اجازت نہیں ہے۔
(2)
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یہ قسم بحالت غصہ کھائی تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی غصے کی حالت میں قسم کھائی تھی لیکن ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب قسم کھائی تو آپ اس وقت کسی چیز کے مالک نہ تھے اور نہ اسے پورا ہی کر سکتے تھے جبکہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ قسم اٹھاتے وقت مال و وسعت والے تھے اور خرچ کرنے کی ہمت بھی رکھتے تھے۔
بہرحال ایسے حالات میں قسم اٹھانے سے وہ منعقد ہو جاتی ہے اور اس کے خلاف کرنے میں کفارہ بھی دینا ہو گا۔
(فتح الباري: 690/11)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6679
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7370
7370. سیدہ عائشہ ؓ س روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے لوگوں سے خطاب کیا اور اللہ کی حمد وثنا کے بعد فرمایا: ”تم مجھے ان لوگوں کے بارے میں کیا مشورہ دیتے ہو جو میرے اہل خانہ کو بدنام کرتے ہیں۔ حالانکہ مجھے ان کے متعلق کبھی کوئی بری بات معلوم نہیں ہوئی۔“ سیدنا عروہ سے روایت ہے انہوں نے کہا: جب سیدہ عائشہ ؓ کو اس واقعے کا علم ہوا تو انہوں نے عرض کی: اللہ کے رسول! کیا آپ مجھے اجازت دیتے ہیں کہ میں اپنے میکے چلی جاؤں؟ تو آپ نے انہیں اجازت دے دی اور انکے ہمراہ ایک غلام بھیجا۔ انصار میں سے ایک صاحب نے کہا: ”اے اللہ تیری ذات پاک ہے ہمارے لیے زیبا نہیں کہ ہم ایسی باتیں زبان پر لائیں۔ تیری ذات پاک ہے یہ تو بہت بڑا بہتان ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7370]
حدیث حاشیہ:
1۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مقام پر حدیث افک کو دو طریق سے بیان کیا ہے اور صرف اتنا حصہ بیان فرمایا جس سے مشورہ کی اہمیت پرروشنی پڑتی کیونکہ یہاں واقعے کی تفصیلات بیان کرنا نہیں بلکہ صرف مشورے کی افادیت بتانا مقصود ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے متعلق حضرت اسامہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا انتخاب کیا۔
ان میں ایک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لاڈلے محبوب اور دوسرے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دختر کے شوہر نامدار تھے۔
حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا:
ہم تو خیر کے علاوہ کچھ نہیں جانتے۔
انھوں نے بھی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرح علیحدگی کا مشورہ نہیں دیا، البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پریشانی دیکھ کر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ پر تنگی نہیں کی۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے علاوہ عورتیں بہت ہیں۔
انھوں نے مزید یہ کہا کہ سیدہ بریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے پوچھ لیں وہ زیادہ بہتر بتا سکیں گی۔
مقصود یہ تھا کہ علیحدگی اختیار نہ کریں، مزید تحقیق کر لیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس بات پر عمل کیا لیکن علیحدگی کے اشارے پر توجہ نہ دی کیونکہ حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اشارہ بھی عدم مفارقت کی طرف تھا، البتہ حالات کی سازگاری تک کے لیے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو میکےجانے کی اجازت دے دی، پھر جب وحی کے ذریعے سے اصل راز کھلا تو اس سلسلے میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے مشورہ لیا کہ اب تہمت لگانے والوں کے ساتھ کیا برتاؤ کرنا چاہیے؟ تو سعد بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور اسید بن حضیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اشارہ دیا کہ آپ اس سلسلے میں جو مناسب سمجھیں کر گزریں، ہم آپ کے قول وفعل میں پورے پورے ہم نوا ہیں، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسطح بن اثاثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ، اور حمنہ بنت حجش رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر حد قذف جاری فرمائی۔
2۔
بہرحال ان روایات سے مشورے کی اہمیت کا پتا چلتا ہے۔
حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق میمون بن مہران بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جب کوئی اہم معاملہ پیش آتا تواس کا حل اللہ تعالیٰ کی کتاب میں تلاش کرتے۔
اگر اس میں کوئی آیت مل جاتی تو اس کے مطابق فیصلہ کرتے بصورت دیگر سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نظر کرتے اور اس کے مطابق فیصلہ کرتے۔
اگررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت نہ ملتی تو باہر نکل کر دوسرے مسلمانوں سے سنت کے متعلق سوال کرتے۔
اگر کہیں سے کوئی سراغ نہ ملتا تو اہل اسلام کو دعوت دیتے۔
برسرعام اہل علم سے مشورہ کرتے۔
مشورہ کے بعد کوئی فیصلہ کرتے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے۔
ان کی مجلس مشاورت کا ذکر پہلے ہو چکا ہے، چنانچہ انھوں نے شراب کی حد کے متعلق مشورہ لیا جیسا کہ کتاب الحدود میں بیان ہوا ہے۔
عورت کا حمل ضائع ہو جائے تو اس جنین کی دیت کے متعلق صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے رائے لی جیسا کہ کتاب الدیات میں اس کی صراحت ہے، اسی طرح اہل فارس سے جنگ کرنے کے متعلق صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے ان کا مشورہ کتاب الجہاد میں بیان ہوا ہے۔
جب آپ شام کے علاقے میں گئے تو وہاں پہنچنے سے پہلے پتا چلا کہ طاعون کی وبا پھیلی ہے تو آپ نے مہاجرین وانصار اور سرکردہ قریش سے وہاں جانے کے متعلق مشورہ لیا، جس کی تفصیل کتاب الطب میں بیان ہو چکی ہے۔
حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب خلیفہ بنے تو ان کے پاس پہلا مقدمہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا پیش ہوا کیونکہ انھوں نے جذبات میں آکر ہرمزان کو قتل کر دیا تھا۔
انھیں گمان تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت میں ہرمزان کا پورا پورا ہاتھ ہے۔
حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کے متعلق تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے مشورہ لیا کہ اب کیا کرنا چاہیے؟ اس کی تفصیل طبقات ابن سعد میں دیکھی جا سکتی ہے۔
اسی طرح انھوں نے مصاحف لکھنے میں بھی صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو اعتماد میں لیا، چنانچہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مصاحف لکھوانے میں ہم سے بھر پور مشاورت کی۔
(فتح الباري: 418/13)
الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے متعدد روایات سے مشورے کی افادیت اور اہمیت بیان کی ہے جو دراصل کتاب الاعتصام ہی کا ایک حصہ ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اس کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق دے۔
آمین یا رب العالمین۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7370
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7500
7500. نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ عائشہ سے روایت ہے، انہوں نے منافقین کی طرف سے لگائے گئے بہتان کے متعلق فرمایا: ”اللہ کی قسم! مجھے یہ گمان نہ تھا کہ اللہ تعالیٰ میرے حق میں وحی نازل فرمائے گا جس کی قیامت تک تلاوت کی جائے گی۔ میرے نزدیک میرا درجہ اس سے بہت کم تھا کہ اللہ تعالیٰ میرے متعلق کوئی ایسا کلام کرے جس کی تلاوت کی جائے البتہ مجھے یہ امید ضرور تھی کہ رسول اللہﷺ بحالت نیند کوئی خواب دیکھ لیں گے جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ میری براءت کردے گا لیکن اللہ تعالیٰ نے مندرجہ ذیل دس آیات نازل فرمائیں: بے شک جن لوگوں نے بہتان گھڑا۔۔۔۔۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7500]
حدیث حاشیہ:
غزہ بنومصطلق سے واپسی پر منافقین نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر تہمت لگائی جس کی تفصیل کتاب التفسیر میں بیان ہوئی ہے۔
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نےحضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو اس بہتان سے بری قراردیا۔
اس حدیث میں صراحت ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے کلام کے ذریعے سے اپنے احکام بھیجتا ہے، لیکن اس کا کلام صرف قرآن مجید کے ساتھ ہی خاص نہیں بلکہ وہ جب چاہتا ہے اس کلام کے ذریعے سے اپنے بندوں کی اصلاح کرتا ہے۔
اس کا کلام غیرمخلوق ہےاور اس کی نازل کی ہوئی کتابوں میں محصور نہیں ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے اللہ تعالیٰ کاکلام کرنا ثابت کیا ہے جس کا معتزلہ اور جہمیہ انکار کرتے ہیں۔
واللہ المستعان۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7500