سنن ترمذي
كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: تفسیر قرآن کریم
21. باب وَمِنْ سُورَةِ طه
باب: سورۃ طہٰ سے بعض آیات کی تفسیر۔
حدیث نمبر: 3163
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ، أَخْبَرَنَا صَالِحُ بْنُ أَبِي الْأَخْضَرِ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: " لَمَّا قَفَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ خَيْبَرَ أَسْرَى لَيْلَةً حَتَّى أَدْرَكَهُ الْكَرَى أَنَاخَ فَعَرَّسَ، ثُمَّ قَالَ: يَا بِلَالُ، اكْلَأْ لَنَا اللَّيْلَةَ، قَالَ: فَصَلَّى بِلَالٌ ثُمَّ تَسَانَدَ إِلَى رَاحِلَتِهِ مُسْتَقْبِلَ الْفَجْرِ فَغَلَبَتْهُ عَيْنَاهُ فَنَامَ فَلَمْ يَسْتَيْقِظْ أَحَدٌ مِنْهُمْ، وَكَانَ أَوَّلَهُمُ اسْتِيقَاظًا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَيْ بِلَالُ، فَقَالَ بِلَالٌ: بِأَبِي أَنْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَخَذَ بِنَفْسِي الَّذِي أَخَذَ بِنَفْسِكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اقْتَادُوا ثُمَّ أَنَاخَ فَتَوَضَّأَ فَأَقَامَ الصَّلَاةَ ثُمَّ صَلَّى مِثْلَ صَلَاتِهِ لِلْوَقْتِ فِي تَمَكُّثٍ، ثُمَّ قَالَ: وَأَقِمِ الصَّلاةَ لِذِكْرِي سورة طه آية 14 "، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ غَيْرُ مَحْفُوظٍ رَوَاهُ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنَ الْحُفَّاظِ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ يَذْكُرُوا فِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَصَالِحُ بْنُ أَبِي الْأَخْضَرِ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ ضَعَّفَهُ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ، وَغَيْرُهُ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم خیبر سے لوٹے، رات کا سفر اختیار کیا، چلتے چلتے آپ کو نیند آنے لگی
(مجبور ہو کر) اونٹ بٹھایا اور قیام کیا، بلال رضی الله عنہ سے فرمایا:
”بلال! آج رات تم ہماری حفاظت و پہرہ داری کرو
“، ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں: بلال نے
(جاگنے کی صورت یہ کی کہ) نماز پڑھی، صبح ہونے کو تھی، طلوع فجر ہونے کا انتظار کرتے ہوئے انہوں نے اپنے کجاوے کی
(ذرا سی) ٹیک لے لی، تو ان کی آنکھ لگ گئی، اور وہ سو گئے، پھر تو کوئی اٹھ نہ سکا، ان سب میں سب سے پہلے نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے، آپ نے فرمایا:
”بلال!
(یہ کیا ہوا؟)“ بلال نے عرض کیا: میرے باپ آپ پر قربان، مجھے بھی اسی چیز نے اپنی گرفت میں لے لیا جس نے آپ کو لیا، آپ نے فرمایا:
”یہاں سے اونٹوں کو آگے کھینچ کر لے چلو، پھر آپ
( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے اونٹ بٹھائے، وضو کیا، نماز کھڑی کی اور ویسی ہی نماز پڑھی جیسی آپ اطمینان سے اپنے وقت پر پڑھی جانے والی نمازیں پڑھا کرتے تھے۔ پھر آپ نے آیت
«أقم الصلاة لذكري» ”مجھے یاد کرنے کے لیے نماز پڑھو
“ (طہٰ: ۱۴)، پڑھی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غیر محفوظ ہے، اسے کئی حافظان حدیث نے زہری سے، زہری نے سعید بن مسیب سے اور سعید بن مسیب نے نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے، ان لوگوں نے اپنی روایتوں میں ابوہریرہ کا ذکر نہیں کیا ہے،
۲- صالح بن ابی الاخضر حدیث میں ضعیف قرار دیئے جاتے ہیں۔ انہیں یحییٰ بن سعید قطان وغیرہ نے حفظ کے تعلق سے ضعیف کہا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 13174) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (461 - 463) ، الإرواء (263)
سنن ترمذی کی حدیث نمبر 3163 کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3163
اردو حاشہ: 1؎:
مجھے یاد کرنے کے لیے صلاۃ پڑھو (طہٰ: 14)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3163
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1155
´فجر سے پہلے کی دو رکعت سنت نہ پڑھی ہو تو اس سے کب پڑھے؟`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ سو گئے، اور فجر کی سنتیں نہ پڑھ سکے، تو ان کی قضاء سورج نکلنے کے بعد کی۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1155]
اردو حاشہ:
فائده:
اس سے معلوم ہوا کہ فجر کی سنتیں رہ جایئں تو سورج طلوع ہونے کے بعد بھی پڑھی جاسکتی ہیں۔
تاہم انھیں قضا قرار دیا گیا ہے۔
اس لئے طلوع آفتاب سے پہلے پڑھ لینا بہتر ہے کیونکہ وہ نماز فجر کا ہی ایک حصہ ہیں۔
جنھیں فجر کے وقت ہی میں پڑھ لیا گیا تو قضا نہیں ہوئیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1155
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1561
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رات کے آخری حصہ میں پڑاؤ کیا اور ہم سورج نکلنے تک بیدار نہ ہو سکے تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”ہر انسان اپنی سواری کا سر پکڑ لے یعنی لگا یا مہار پکڑ کر چل پڑے۔ کیونکہ یہ ایسی جگہ ہے جس میں ہمارے ساتھ شیطان آ گیا ہے۔“ ہم نے آپﷺ کے حکم پر عمل کیا۔ پھر آپﷺ نے پانی منگوایا۔ پھر آپﷺ نے وضو کر کے دو رکعتیں (سنت) پڑھیں۔ پھر جماعت کھڑی کی گئی (اقامت کہی گئی) اور... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:1561]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
1۔
اگرمشترکہ طور پر نماز فوت ہو جائے تو وقت ملتے ہی اس کے لیے اہتمام کیا جائے گا۔
اذان کہہ کر سنتیں پڑھی جائیں گی۔
پر اقامت کہہ کر جماعت کروائی جائے گی۔
اگرنمازیں ایک سے زائد فوت ہو جائیں تو پہلی نماز کے لیے اذان اور اقامت دونوں ہیں۔
بعد والی نمازوں کے لیے اختیار ہے ہر ایک کےلیے اذان اور اقامت کہہ لیں یا صرف اقامت پر اکتفا کر لیں۔
امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ۔
اورامام احمد رحمۃ اللہ علیہ ہر نماز کے لیے اذان کے قائل ہیں۔
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ آخری قول میں اذان کے قائل نہیں۔
2۔
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ۔
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ۔
اورامام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک سنتوں کی قضائی بہتر ہے۔
سنتیں نماز کےساتھ رہ گئی ہوں یا صرف سنتیں باقی ہوں اور احناف کے نزدیک اگرصرف سنتیں رہ گئی ہوں توان کی قضا نہیں ہے۔
فرضوں کےساتھ قضاء ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1561