صحيح البخاري
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ
کتاب: جہاد کا بیان
111. بَابُ عَزْمِ الإِمَامِ عَلَى النَّاسِ فِيمَا يُطِيقُونَ:
باب: بادشاہ اسلامی کی اطاعت لوگوں پر واجب ہے جہاں تک وہ طاقت رکھیں۔
حدیث نمبر: 2964
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، لَقَدْ أَتَانِي الْيَوْمَ رَجُلٌ فَسَأَلَنِي عَنْ أَمْرٍ مَا دَرَيْتُ مَا أَرُدُّ عَلَيْهِ، فَقَالَ: أَرَأَيْتَ رَجُلًا مُؤْدِيًا نَشِيطًا يَخْرُجُ مَعَ أُمَرَائِنَا فِي الْمَغَازِي، فَيَعْزِمُ عَلَيْنَا فِي أَشْيَاءَ لَا نُحْصِيهَا، فَقُلْتُ لَهُ: وَاللَّهِ مَا أَدْرِي مَا أَقُولُ لَكَ إِلَّا أَنَّا كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَسَى أَنْ لَا يَعْزِمَ عَلَيْنَا فِي أَمْرٍ إِلَّا مَرَّةً حَتَّى نَفْعَلَهُ، وَإِنَّ أَحَدَكُمْ لَنْ يَزَالَ بِخَيْرٍ مَا اتَّقَى اللَّهَ، وَإِذَا شَكَّ فِي نَفْسِهِ شَيْءٌ سَأَلَ رَجُلًا فَشَفَاهُ مِنْهُ، وَأَوْشَكَ أَنْ لَا تَجِدُوهُ وَالَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ مَا أَذْكُرُ مَا غَبَرَ مِنَ الدُّنْيَا، إِلَّا كَالثَّغْبِ شُرِبَ صَفْوُهُ وَبَقِيَ كَدَرُهُ.
ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے منصور نے، ان سے ابووائل نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میرے پاس ایک شخص آیا، اور ایسی بات پوچھی کہ میری کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ اس کا جواب کیا دوں۔ اس نے پوچھا، مجھے یہ مسئلہ بتائیے کہ ایک شخص بہت ہی خوش اور ہتھیار بند ہو کر ہمارے امیروں کے ساتھ جہاد کے لیے جاتا ہے۔ پھر وہ امیر ہمیں ایسی چیزوں کا مکلف قرار دیتے ہیں کہ ہم ان کی طاقت نہیں رکھتے۔ میں نے کہا، اللہ کی قسم! میری کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ تمہاری بات کا جواب کیا دوں، البتہ جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں) تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی بھی معاملہ میں صرف ایک مرتبہ حکم کی ضرورت پیش آتی تھی اور ہم فوراً ہی اسے بجا لاتے تھے، یہ یاد رکھنے کی بات ہے کہ تم لوگوں میں اس وقت تک خیر رہے گی جب تک تم اللہ سے ڈرتے رہو گے، اور اگر تمہارے دل میں کسی معاملہ میں شبہ پیدا ہو جائے (کہ کیا چاہئے یا نہیں) تو کسی عالم سے اس کے متعلق پوچھ لو تاکہ تشفی ہو جائے، وہ دور بھی آنے والا ہے کہ کوئی ایسا آدمی بھی (جو صحیح صحیح مسئلے بتا دے) تمہیں نہیں ملے گا۔ اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں! جتنی دنیا باقی رہ گئی ہے وہ وادی کے اس پانی کی طرح ہے جس کا صاف اور اچھا حصہ تو پیا جا چکا ہے اور گدلا حصہ باقی رہ گیا ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2964 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2964
حدیث حاشیہ:
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓنے گول مول جواب دیا۔
ان کا مطلب یہی ہے کہ افسر کا حکم جب شریعت کے خلاف نہ ہو تو اس کی اطاعت لازم اور ضروری ہے۔
آپ نے قرآن کی آیت ﴿فَسْئَلُوْا اَھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ﴾ (النحل: 43)
کے موافق حکم دیا اور یہ تخصیص نہیں کہ فلاں عالم سے پوچھے۔
بلکہ عامی کا کام یہ ہے کہ جس کسی عالم کو دیندار اور پرہیزگار اور خدا ترس سمجھے اس سے دین کا مسئلہ پوچھ لے۔
اس سے تقلید شخصی کا بھی رد ہوا کہ یہ غلط ہے کہ عام آدمی ایک عالم ہی کے ساتھ چمٹ جائے۔
بلکہ جو بھی عالم اس کو اچھا نظر آئے اس سے مسئلہ پوچھ لے۔
یہ حکم بھی ان عالموں کے لیے ہے جو زندہ موجود ہوں۔
پھر جن کو دنیا سے گئے ہوئے صدیاں بیت چکی ہیں‘ ان ہی کی تقلید کئے جانا‘ بلکہ ان کے نام پر ایک مستقل شریعت گھڑ لینا یہ وہ مرض ہے جس میں عام مقلدین گرفتار ہیں۔
جنہوں نے دین حق کو چار ٹکڑوں میں تقسیم کرکے وحدت ملی کو پارہ پارہ کردیا ہے۔
صد افسوس! کہ امت میں پہلا مہلک فساد اسی تقلید شخصی سے شروع ہوا۔
دین حق را چار مذہب ساختند رخنہ در دین نبیؐ انداختند حدیث میں لفظ غبر سے مراد گدلا پانی لیں تو نتھرے پانی سے تشبیہ ہوگی اور جو باقی رہنے کے معنے لیں تو گندے سے تشبیہ ہوگی۔
مطلب یہ کہ اچھے لوگ چلے گئے اور برے رہ گئے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2964
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2964
حدیث حاشیہ:
مسئلہ یہ ہے کہ اگر امام کسی کو ایسی جگہ پر تعینات کرتا ہے جو انتہائی پریشان کن اور خطرناک ہے اور وہاں ڈیوٹی دینا اس کی طاقت سے باہر ہے تو کیا ایسے موقع پر حکم امام کی تعمیل ضروری ہے یا نہیں؟ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓنے اس سلسلے میں صاف جواب دینے میں توقف کیا کیونکہ اگر کہاجائے کہ ایسے حالات میں بھی امیر کی اطاعت فرض ہے تو یہ خلاف حق فتویٰ ہوگا اوراگر امیر کی نافرمانی اور حکم نہ ماننے کا فتویٰ دیا جائےتو ہرآدمی امیر کے حکم کی مخالفت پر جری ہوجائے گا۔
اس طرح فتنے میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہے، اس لیے ایسے معاملات میں توقف ہی بہتر ہے۔
لیکن عبداللہ بن مسعود ؓ نے توقف کے بعد اطاعت امیر کے وجوب کا فتویٰ دیا بشرط یہ کہ وہ حکم تقویٰ کے موافق ہو۔
حاصل کلام یہ ہے کہ جب کوئی مشکل امرآجائے تو وہاں توقف کرنا چاہیے تاکہ فساد برپا نہ ہو۔
واضح رہے کہ توقف ایسے امور میں ہوگا جوانتظامی معاملات سے متعلق ہوں لیکن شرعی معاملات میں تعمیل ضروری ہے۔
اما م کو بھی چاہیے کہ وہ وقت کی نزاکت اورزمینی حقائق کو سامنے رکھے، خواہ مخواہ کسی کو فتنے میں مبتلا نہ کرے، لوگوں کی طاقت اور ہمت کے مطابق ان سے کام لے۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2964